ساحر لدھیانوی۔ایک سرکش سے محبت کی تمنا

ساحر لدھیانوی محبت کے آدمی تھے۔ سرحد کے اِدھر بھی اور سرحد کے اُدھربھی․․․․․․․ جو دیکھتا تھا، ساحر کے سحر میں مبتلا ہوجاتا تھا ۔شخصیت کا سحر تھا، سرکشی کا یا شاعری کا، خدا جانے لیکن تھا جان لیوا․․․․لیکن ساحر کے لیے نہیں، بلکہ ان کے جادو سے گھائل ہوجانے والوں کے لیے ۔ذرا نام بھی تو دیکھیے کہ کیسے کیسے قد آور لوگوں کے آتے ہیں۔ ہاجرہ مسرور(م: ۱۵ ستمبر ۲۰۱۲) بھی خود کو نہ روک پائی تھیں۔ ۱۹۴۶ ء کے اواخر میں بمبئی کے اخبارات میں ان کی ہاجرہ مسرور سے منگنی کی خبر کی اشاعت کا تذکرہ حمید اختر(م: ۱۷ اکتوبر ۲۰۱۱) نے اپنے خاکے ’بنے بھائی ‘میں کیا ہے۔ لیکن ساحر ہی تھے جو بھاگ نکلے تھے۔ بنے بھائی کہ بقول حمید اخترسراپا جمال ہی جمال ،انکسار ہی انکسار ، لکھنؤ کی تہذیب کا نمونہ ،ساحر کو ہاجرہ مسرور سے شادی پر آمادہ کرنے میں ایسے الجھے کہ خود کو الجھا بیٹھے اور ان کی پریشانی اس وقت دو چند ہوئی جب ہاجرہ مسرور کی بہنیں عائشہ جمال اور خدیجہ مستور ان سے ساحر کی شکایت کرنے آ دھمکیں۔ ساحر کے اس رویے کی وجہ سے بنے بھائی کو ترقی پسند تحریک کو نقصان پہنچنے کا خدشہ کھائے جاتا تھا ۔مگر یہ کو ئی پہلا موقع تو تھا نہیں۔ حمید اختر کے مطابق اس سے قبل امرتا پریتم، لتا منگیشکر اور سدھا ملہوترہ ․․․․․․․․․ سب ساحر کی ساحری کے اسیر رہ چکے تھے۔ ۔۔ خالصہ اسکول لدھیانہ کی ایشر کور تو ماضی کا قصہ بن چکی تھی․․․․․․․ساحر کی پہلی محبت ۔ ۔۔۔ سدھا ملہوترہ سے معاملہ ختم ہوا تو ایک فلمی اخبار نے تبصرہ کیا تھا کہ ساحر کو اپنے نام کے ساتھ اسکینڈل بنانے کا شوق ہے ۔وہ محبت کا کھیل کھیلتے ہیں اور جب تعلقات کامیابی کی منزل تک پہنچ جاتے ہیں تو خود ہی پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

ایک برس ہوا جب لاہور کے ماہنامہ الحمراء میں کراچی سے تعلق رکھنے والے ادیب و مترجم قاضی اختر جونا گڑھی کا ایک مضمون شائع ہوا۔ قاضی صاحب لاہور گئے تھے اور حمید اختر سے ساحر لدھیانوی اور ہاجرہ مسرور کی منگنی ختم ہونے کا سبب کھوج لائے تھے․․․․․․ لکھتے ہیں:
’’ اردو زبان کی ایک معروف افسانہ نگار کی جو ان دنوں ممبئی ہی میں مقیم تھیں، منگنی ساحر لدھیانوی کے ساتھ ہوچکی تھی۔ ساحر کو ایک ایسے مشاعرے میں شریک ہو کر اپنی شہرہ آفاق نظم تاج محل سنانا تھی جس میں جوش ملیح آبادی بھی شرکت کرنے والے تھے جو الفاظ کے غلط تلفظ کو کبھی برداشت نہیں کرتے تھے۔چونکہ ساحر لدھیانوی اہل زبان نہیں تھے لہذا انہوں نے اپنی نظم تاج محل میں استعمال کیے گئے لفظ ’’مقابر‘‘کے صحیح اور درست تلفظ کے بارے میں ان خاتون سے رائے طلب کی۔ انہوں نے بتایا کہ صحیح تلفظ ’’مقاِبر‘‘ یعنی ’’ب‘‘ کے نیچے زیر آئے گا۔گویا یہ مصرعہ یوں ہوجائے گا: مردہ شاہوں کے مقابر سے بہلنے والی․․․․․․جوش صاحب نے ساحر کو جو ملاحیاں سنائی ہوں گی، ان کا اندازہ آپ اسے واقعے سے لگا سکتے ہیں کہ اس نے فی الفور ان خاتون سے اپنی منگنی کے خاتمے کا اعلان کردیا۔‘‘

خیر ہاجرہ مسرور کا یہ معاملہ تو ساحر لدھیانوی کی افتاد طبع کے باعث ختم ہوا لیکن پھر امرتا پریم کو کیا کہیے کہ شادی تو امروز سے کی اور وہی امروز ،سلیم پاشا کو ایک ملاقات میں بتاتے ہیں کہ ’’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ امرتا ساحر سے پیار کرتی ہے، میں امرتا سے پیار کرتا ہوں۔میں اسے اسکوٹر پر بٹھا کر اسٹوڈیو لے جاتا تو وہ میرے پیچھے بیٹھی میری کمر پر ساحر ساحر لکھتی رہتی۔ ‘‘ ․․․․امرتا نے ’’یادوں کے لمس ‘‘ میں اپنے محبوب کو کچھ ان الفاظ میں یاد کیا تھا:
’’ یہی وہ چہرہ تھا جس نے میرے اندر انسانیت کی وہ جوت جگائی کہ ملک کی تقسیم کے وقت، تقسیم کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہو کر بھی جب میں اس حادثے کے بارے میں قلم اٹھایا تو دونوں گروہوں کی زیادتیاں بغیر کسی رعایت یا ریزر ویشین کے قلمبند کر سکی۔‘‘

اسی امرتا پریتم نے ساحر کی موت کی خبر سن کر قلم اٹھایا اور اسے یوں خراج تحسین پیش کیا تھا:
یار بدنیت یا
تم نے تو یار ہمارے ساتھ بدنیتی کردی
ہم نے تو تیرے نام پر دنیا کے لاکھوں الزام لیے
اور آج تم ہی دغا کررہے ہو
یار بدنیت یا
چلو جہاں چلو گے ہم ساتھ چلیں گے
اگر موت کے ریگستان سے بھی گزرنا ہوگا تو گزریں گے
٭
نریش کمار شاد(م: ۱۹۶۹) کو دیے ایک انٹرویو میں ساحر نے ایک قہقہے کے ساتھ شادی نہ کرنے کے سوال کے جواب میں کہا تھا ’’ کچھ لڑکیاں مجھ تک دیر میں پہنچیں اور کچھ لڑکیوں تک میں دیر میں پہنچا‘‘۔بقول کیفی اعظمی ’’ شادیاں ان پر منڈلائیں، منڈلاتی رہیں اور منڈلا کے رہ گئیں مگر ساحر ہر مرتبہ بچ نکلے‘‘۔

لدھیانہ کے ایک زمیندار گھرانے میں عبد الحئی کے نام سے پیدا ہونے والا ساحر لدھیانوی ، نجی زندگی میں نہایت شرمیلا اور بزدل انسان تھا ، اتنا کم ہمت کہ اس میں لاہور کے ناشر چودھری نذیر سے اپنی کتاب ’تلخیاں‘ کی بقایا رقم مانگنے کا حوصلہ بھی نہ تھا۔ یہ کام بھی اس کے عزیز دوست اے حمید (م: ۲۹ اپریل ۲۰۱۱)ہی کو کرنا پڑا تھا۔ غرض پوری ہوئی تو دوستوں کا یہ ٹولہ انار کلی میں واقع ممتاز ہوٹل میں چائے اور پیسٹری کھانے جا پہنچا جو ان دنوں ایک عیاشی تصور کی جاتی تھی۔ وہ زمانہ بھی خوب تھا، ممبئی کی زبان میں کہیے تو سب دوست کڑکے ہوتے تھے۔ان سبھوں کی ایک رات ایسے ہی کٹی تھی․․․، مانگے کے سگرٹوں پر گزرا کرتے۔ مفلسی نے سبھوں کو دبوچا ہوا تھا لیکن حوصلے جوان تھے۔ رات کے آخر ہوتے ہوتے سب خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ پو پھٹے ، ساحر نے اے حمید کے سامنے یہ ’حسین‘ راز عیاں کیا کہ اس کے پاس دو روپے ہیں۔ سالم دو روپے۔ دونوں دوستوں نے ریلوے اسٹیشن کا رخ کیا جہاں چائے اور سگرٹ، دونوں ہی کا بندوبست تھا۔ اے حمید لاہور کے ان یادگار دنوں کا کیا خوب نقشہ بیان کرتے ہیں ’ ’ساحر لدھیانوی کو نشاط سینما کے سامنے والا بھوت گھر الاٹ ہوگیا تھا۔اس کا کمرہ نچلی منزل پر تھا۔بلڈنگ خستہ حال تھی۔دیواروں کا چونا گر رہا تھا۔ اونچی چھت میں جالے لٹکے تھے۔ غسل خانے کی کھڑکی بند نہ ہوتی تھی۔ نلکے کی ٹوٹی سے ہر وقت پانی گرتا رہتا تھا۔ اس جگہ کھڑکی میں ٹوٹا ہوا شیشہ رکھ کر ساحر لدھیانوی شیو بنایا کرتا تھا۔ روشن دان میں چڑیوں نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔ اس عمارت کے آگے ایک لان تھا جس میں جھاڑ جھنکار اگا ہوا تھا۔ ‘‘․․․․․․․․․․․․․․․․․․

کیسے خوش نما دن تھے وہ․․․․جیبیں خالی لیکن حوصلے جواں۔ اور جب ساحر لدھیانوی کو فلمی دنیا سے وابستگی کے بعد سب کچھ مل گیا تب کیا اس بے چین روح کو قرار آیا تھا ؟ حمید اختر اپنے ہمدم دیرینہ ساحر لدھیانوی سے اس کے عروج کے دنوں میں ملنے گئے تھے گرچہ کئی لوگوں نے انہیں وہاں جانے سے منع کیا تھا، کہا تھا کہ ساحر لدھیانوی بدل گیا ہے۔ان میں علی سردار جعفری بھی تھے جنہوں نے حمید اختر سے کہا تھا کہ ’’ساحر کے یہاں ٹھہر و گے تو تکلیف میں رہو گے کیونکہ ساحر وہ نہیں رہا جو ۱۹۴۸ء میں تم لوگوں کو چھوڑ کر گیا تھا‘‘۔لیکن حمید اختر کے دل کو قرار کیسے آتا۔ یہ ۱۳ دسمبر ۱۹۷۸ کی صبح تھی جب حمید اختر ساحر کے گھر پہنچے تھے۔ وہ غیر شادی شدہ زندگی بسر کررہا تھا․․․․․ دولت میں کھیل رہا تھا․․․․․․․․ برملا کہتا تھا کہ ’’ جارج برناڈشا کو تو ایک لفظ کا صرف ایک پاؤٔنڈہی ملتا تھا ، میں نے تو ایک ایک گیت کے پانچ ہزار سے دس ہزار لیے ہیں۔‘‘

ساحر لدھیانوی کو دیکھ کر حمید اختر کو خوشی نہیں ہوئی۔وہ انہیں بدلا ہوا نہیں لگا بلکہ ٹوٹا ہوا دکھائی دیا۔حمید اختر بیان کرتے ہیں ’’ بیماری نے اس کے خوف میں اور بھی اضافہ کردیا تھا ۔ اس کا بیڈ روم دور ایک کونے میں تھا۔وہ سونے کے لیے جاتا تو اسے یہ خیال پریشان کرتا کہ رات کو دل کا دورہ پڑا تو یہاں سے کسی تک اس کی آواز نہیں پہنچے گی۔ اسے سفر کرنا پڑتا تو ئی دو گاڑیوں میں ہوتا۔ اسے ہفتوں کہیں نہیں جانا ہوتا تھا مگر ڈرائیور کو حکم تھا کہ وردی پہن کر صبح آٹھ بجے ڈیوٹی پر آجائے۔ شاید ڈاکٹر کو بلانے کی ضرورت پڑ جائے۔دن بھر وہ اپنی موٹی موٹی آنکھیں کھول کر خلا میں تکتا رہتا جیسے اسے گمشدہ کڑی کی تلاش ہو۔‘‘ (بنجارہ۔حمید اختر)

ساحر بمبئی میں کئی منزلہ عمارت کا مالک تھا۔ پرچھائیاں․․․․․․جو اسی کے ایک مجموعے کا عنوان تھا ۔اسی عنوان پر عمارت کا نام رکھا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات خود اس کے اس بیان کے برخلاف تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ:
اب نہ ان اونچے مکانوں میں قدم رکھوں گا
میں نے اک بات یہ پہلے بھی قسم کھائی تھی

ساحر کی غیر یقینی طبعیت و مزاج کے بارے میں ندا فاضلی بھی ’حتمی‘ بیان دے چکے تھے: ’’ ماضی کی تلخ یادوں نے انہیں کسی حد تک sadist بنا دیا ہے۔ دوسروں کے منہ پر برا بھلا کہہ کر اور ضرورت مندوں کو بار بار اپنے گھر کے بے مقصد چکر کٹوا کر انہیں اب سکون بھی ملتا ہے۔ ساحر کے پاس جو بھی کسی کام کے لیے جاتا ہے، کبھی مایوس نہیں لوٹتا مگر جھوٹے وعدے کرنا اور مہینوں دوسروں کو ان میں الجھائے رکھنا ان کی مخصوص ہابی بھی ہے۔ ان بے مقصد چکر کاٹنے والوں کی مجبوریوں سے وہ نئے نئے لطیفے تراش کر اپنی شام کی محفلوں کو بھی رنگین بناتے ہیں۔ ساحر کو اپنے ہاتھ سے پیسہ دینے میں مزہ آتا ہے لیکن اگر کہیں کسی کا روزگار لگ رہا ہو تو اس میں رکاوٹیں پید اکرنے کے لطف کو وہ کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔‘‘

ایک طرف یہ رویہ بیان کیا گیا ہے لیکن دوسری جانب اس کے عہد شباب کے دوست ابراہیم جلیس کا بیان بھی مدنظر رہنا چاہیے ۔ جلیس اگست ۱۹۶۰ء میں ساحر سے ملنے بمبئی گئے۔ بیان کرتے ہیں:
’’ وہ ساحر لدھیانوی جو بمبئی کے فیشن ایبل علاقے وارڈن روڈ کے تفریحی ساحل پر بیچ کنیڈی اسکینڈل پوائنٹ کے سامنے پارسیوں کی ایک پرانی وضع کی کوٹھی کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا اور لال پارک میں بس ا سٹاپ پر بس کا انتظار کرتا تھا اب وہی ساحر لدھیانوی اندھیری کے ایک شاندار بنگلے میں رہتا ہے۔ وہ اب ہندوستان کا امیر ترین شاعر ہے لیکن اس کے باوجود اس نے غریب عوام سے اپنے اٹوٹ رشتے کو فراموش نہیں کیا ہے اور اب بھی اس کی آمدنی کا بیشتر حصہ علمی، ادبی اور عوامی اداروں کے لیے وقف ہے۔‘‘ (عبدالحئی سے․․․․)

لیکن کیا یہ کیفیت اس دنیا میں بسنے والے انسان کے لیے کوئی نئی بات ہے ؟ بچپن کی نفسیاتی الجھنوں کا اثر زندگی میں آگے چل کر بعض اوقات شخصیت پر عجب خوفناک طریقے سے ا ثر انداز ہوتا ہے۔ ۔۔انسان جو بیک وقت تضادات کا مجموعہ ہے۔۔۔اپنے اندر تنہائی کا بوجھ اٹھائے ․․․․روز جیتا ہوا روز مرتا ہوا․․․․․شہرت ، دولت، عزت ․․․․یہ تمام چیزیں تو پائدار نہیں ہیں لیکن ساحر لدھیانوی کے یار عزیز حمید اختر اس بات پر مطمعئن تھے کہ ان کے دوست سے زندگی کے نشیب و فرا ز میں ایک چیز کوئی نہ چھین سکا․․․اپنے فن سے اس کا خلوص ۔

’’ اس نے صاف سیدھی زبان میں ملک کے کروڑوں عوام سے جو مکالمہ اٹھارہ برس کی عمر میں شروع کیا تھا، وہ ساٹھ برس کی عمر تک اسی شد و مد سے جاری رہا۔ وہ لکھتا رہا لوگوں کے لیے، بہتر مستقبل کے لیے، امن اور خوشحالی کے لیے۔اس نے فلمی شاعری کو ایک نیا حسن اور نئی جہت دی مگر وہ اپنے اصل کام، تخلیق کے عمل کونہیں بھولا اور اس نے محبت ، مسرت اور امن کے گیت گانے بند نہیں کیے۔ ‘‘ (حمید اختر)

حمید اختر ساحر کے وہ دوست تھے جن کی ہم نشینی میں لدھیانہ میں ساحر نے یادگار دن گزارے تھے۔ ۱۹۴۸ء میں دونوں کی آخری ملاقات ہوئی تھی، اس کے بہت برسوں بعد دسمبر ۱۹۷۸ میں حمید اختر بمبئی اپنے دوست سے ملنے گئے اور پھر اپنی وفات تک ساحر کو موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں لکھے گئے اپنے کالمز میں تواتر کے ساتھ یاد کرتے رہے۔ حمید اختر پاکستان میں ساحر پر اتھارٹی مانے جاتے تھے۔ ۱۹۴۶ میں دونوں لدھیانہ سے اکھٹے بمبئی اپنی قسمت آزمانے گئے تھے۔ ساحر کی پہلی فلم ’آزادی کی راہ پر‘ تھی جس کے گانے اس نے لکھے جبکہ مکالمے لکھنے والوں میں ہاجرہ مسرور، حمید اختر اور ابراہیم جلیس شامل تھے۔ حمید اختر اپنے کالم میں لکھتے ہیں ’’ وہ بہت دبلا پتلا بلکہ کمزور قسم کا نوجوان تھا۔البتہ اس کا قد تقریبا چھ فٹ تھا۔ سفید پتلون قمیض اس کا پسندیدہ لباس تھا۔ پاؤں میں وہ انگوٹھے والی چپل پہننے کو ترجیح دیتا تھا۔ ابتدائی زمانے میں اسے اپنے بدشکل ہونے کا بہت احساس رہتا تھا۔ حالانکہ وہ اگر خوبصورت نہیں تھا تو بدصورت بھی ہرگز نہیں تھا۔ چہرے پر چیچک کے بہت ہلکے سے داغ تھے جو بہت غور سے اور قریب سے دیکھنے پر ہی نظر آتے۔ ناک خاصی لمبی تھی مگر اس کی شکل و صورت کا مجموعی تاثر خاصا خوشگوار تھا۔ اگر کوئی کمی تھی تو وہ اسے خوش لباسی اور بذلہ سنجی سے پورا کرلیتا تھا۔ وہ معاشقے سے زیادہ اس کا ڈھنڈورا پیٹنے میں دلچسپی لیتا تھا اور بالعموم اس کے نتیجے میں ایک آدھ نظم لکھنے کے بعد وہ فرار کی راہیں ڈھونڈنے لگتا تھا۔ ساحر کی رہائش گاہ ’پرچھائیاں‘ ان دنوں خالی پڑی ہے۔ میں نے ۱۹۷۹ میں اس کے پاس قیام کے دوران اس کی گرتی ہوئی صحت کے پیش نظر اس سے پوچھا تھا کہ اس نے اس جائداد کا کیا سوچا ہے ؟ اس نے کہا کہ وہ اس بارے میں وصیت لکھ چکا ہے اور اس کا زیادہ حصہ فلاحی اداروں کو ملے گا مگر اس کی وفات کے بعد اس کی کوئی وصیت دستیاب نہیں ہوئی۔ کچھ عرصے اس کی ماموں زاد بہنیں انور،سرور وہاں رہیں پھر یہ دونوں بھی اﷲ کو پیاری ہوگئیں اور اس وسیع عمارت پر کئی برس صابر’ دست‘(حمید اختر نے یہی لکھا ہے) کا قبضہ رہا جہاں اس نے ساحر پبلشنگ ہاؤس قائم کررکھا تھا ۔اب وہ بھی نہیں رہا۔ الہ آباد میں اس کے دو ماموں رہتے تھے ، ان کی اولادیں بھی زندہ نہیں ہیں اور ایک طرح سے اس کی کروڑوں کی جائداد لاوارث پڑی ہے اور اپنے مالک ، اس بڑے شاعر کی یاد میں سرنگوں ہے۔‘‘ (ساحر کی یاد میں)

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ساحر کے سینے میں ایک ایسا دل دھڑکتا تھا جو دوسروں کی پریشانی دیکھ کر تڑپ اٹھتا تھا۔ فلمی دنیا کے خوفناک او ربے رحم نشیب و فراز کے کتنے ہی ان گنت قصے سننے میں آئے ہیں اور ہمیشہ آتے رہیں گے۔ آغا جانی کاشمیری کی خودنوشت ’’سحر ہونے تک‘‘پڑھیں یا آغا اشرف کی ’’ایک دل ہزار داستان‘‘ ․․․․یہ قصے ہمیں اس ناپائدار زندگی کا اصلی اور تلخ چہرہ دکھاتے ہیں جس کی چکا چوند روشنیوں کے پیچھے اندھیرے بھی چھپے ہوئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب امرتسر سے تعلق رکھنے والے ماسٹر نثار کا ہندوستانی فلمی صنعت میں طوطی بولتا تھا۔مس کجن کے ساتھ جس کی جیسی جوڑی تھی، ویسی آج تک کوئی نہ بنا سکا۔ پروانے قطار اندر قطار اس کی ایک جھلک کے متمنی ہوا کرتے تھے۔ اسی ماسٹر نثار کو ساحر نے ایک موقع پر کاردار اسٹوڈیو میں اس حال میں دیکھا کہ اس کا کلیجہ خون ہوگیا۔ کرشن ادیب(م:۷ جولائی ۱۹۹۹) اس واقعے کے چشم دید گواہ تھے۔انہوں نے ماسٹر نثار کو بی آر چوپڑہ کے ائیر کنڈیشنڈ دفتر کے باہر چپراسیوں کی وضع قطع میں سخت گرمی میں بیٹھے دیکھا جو ہر آنے جانے والے کو بلاضرورت سلام کررہا تھا۔ ساحر ،کرشن ادیب کے ساتھ ہی وہاں آیا تھا۔چوپڑہ کے دفتر میں بیٹھے بیٹھے ساحر نے ماسٹر کو اگلے روز ملاقات کے لیے بلانے کا سندیسہ بھیجا، وہ ماسٹر کو کچھ کام دینا چاہتا تھا۔ دو گھنٹے گزار کر جب یہ لوگ باہر نکلے تو ماسٹر نثار نے جھک کر ساحر کے پاؤں پکڑ لیے۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ساحر نے اسے سینے سے لگایا اور پھر بغل میں ہاتھ دے کر اپنی گاڑی تک لے گیا اور کہا ’’چلیے! جہاں آپ کو جانا ہے، میں چھوڑے دیتا ہوں۔‘‘․․․․․․․․․ ماسٹر نثار ان دنوں ایک کھولی میں رہا کرتا تھا۔۔۔۔بعد میں کرشن ادیب کو ساحر نے بتایا کہ اس شخص کے پاس دنیا کی مہنگی ترین گاڑی رولز رائس ہوا کرتی تھی۔

کرشن ادیب نے اپنے مضمون ’’ ساحر یادوں کے آئینے میں‘‘ میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ وادی چنبل کے ڈاکوؤں کی کہانی پر مبنی فلم ’’مجھے جینے دو‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی اور چنبل کے ڈاکوؤں نے بھی اسے دیکھا۔اس فلم کا نغمہ نگار ساحر تھا۔ ساحر انہی دنوں ایک مرتبہ کرشن چندر اور اپنی والدہ اور بہن انور کے ہمرہ لدھیانہ جارہا تھا کہ رستے میں گوالیار شو پوری کے مقام پر ڈاکوؤں کے سردار نے اس کی کار کو روک لیا۔ اسے خبر تھی کہ ساحر لدھیانوی اس رستے پر سفر کررہا ہے۔سردار نے ساحر سے استفسار کیا کہ کیا آپ وہی ساحر لدھیانوی ہیں جس نے ’’مجھے جینے دو ‘‘ کے گانے لکھے ہیں ؟ ساحر سمیت سبھوں کے اوسان خطا ہوگئے۔ ڈرتے ڈرتے حامی بھری اور ادھر سردار کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ ان سب کو اپنے اڈے پر لے گیا، رات وہیں بسر ہوئی ، ساحر اپنا کلام سناتا رہا اور تڑکے ڈاکوؤں نے انہیں عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا۔

معروف و بیباک افسانہ نگار واجدہ تبسم (م: ۷ دسمبر ۲۰۱۰)کو ساحر سے ایک تعلق خاطر تھا۔ ساحر ان کی ناز برداریاں کیا کرتے تھے، شفقت کیا کرتے تھے۔ واجدہ، ساحر کی غیر متوازن شخصیت پر اعتراض کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا کرتی تھیں، ملاحظہ ہو: ’’ ایک شخص جس نے شادی نہ کی، نہ بیوی کی قربت میسر آئی، نہ ازدواجی زندگی کا سکھ دیکھا، نہ بچوں کی جنت کے مزے لوٹے، اس کی محرومیوں کے بارے میں بھی تو سوچو۔ اگر یہ شخص اپنی ہی تقدیر لکھنے پر قادر ہوتا ، اپنا کاتب تقدیر آپ ہوتا تو ہر مرد ، ہر عورت، ہر انسان اپنے آپ کو بیحد خوبصورت بناتا، بیحد تعلیم یافتہ بناتا، بیحد امیر بناتا۔اچھا جیون ساتھی جنتا، خوب اولاد، خاص طور سے بیٹے اپنے لیے چنتا۔لیکن ہم سب کسی اور کے قلم کا لکھا پورا کررہے ہیں۔ اچھے سے کررہے ہیں یا برے سے کررہے ہیں بہرحال زندگی کو گزار رہے ہیں۔تو کتنے عظیم ہیں وہ لوگ جو اپنی محرومیوں کے باوجود دوسروں کے لیے جئیں۔‘‘
٭
یادش بخیر، ہمارے یہاں ایک ہوتے تھے سعید رضا سعید۔ آج ان کو یاد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ نامور صحافی، ادیب ، شاعر و ادیب تھے۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے وابستہ رہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سعید رضا سعید، معروف شاعرہ منور سلطانہ کے خاوند تھے تو شاید بات بنے گی۔۔۔۔ سعید رضا، جولائی ۱۹۲۹ میں اجمیر میں پیدا ہوئے اور ۲۱ جولائی ۱۹۹۵ میں لاس ا ینجلس میں انتقال کیا۔سعید رضا ہمیں غیر منقسم ہندوستان اور ساحر لدھیانوی کی ایک جھلک یوں دکھاتے ہیں:
’’ جگر صاحب جب بھی کسی آل انڈیا مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی آتے تھے ، اپنے کسی ہونہار شاگرد کو ساتھ لاتے اور فلم انڈسٹری میں متعارف کراکے چلے جایا کرتے تھے۔ شکیل اور مجروح کو بھی جگر صاحب نے دریافت کیا تھا اور انہو ں نے پرانے جمے ہوئے شاعروں مدھوک ، قمر جلال آبادی وغیرہ کی فصیلوں میں رخنے ڈالنے شروع کردیے تھے۔ ساحر بمبئی آئے تو انہیں جگر صاحب جیسی کسی بیساکھی کا سہارا نصیب نہیں تھا۔ وہ اپنی پتلی پتلی ٹانگوں پر چلتے ہوئے داخل ہوئے۔ مجروح ہوشیار آدمی تھے۔ باغبان اور صیاد دونوں کو خوش رکھنے کا فن جانتے تھے۔ ہم لوگوں کے ساتھ سیاسی مشاعروں میں آتے تو یہ پڑھ کر داد سمیٹے:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے تھے کارواں بنتا گیا
اور فلموں میں اس قسم کے گیت لکھ کر پیسے سمیٹتے:
ع نجر لاگی راجہ تورے بنگلے پر

لیکن اس قسم کی سمجھوتے بازی ساحر کی فطرت کے خلاف تھی۔ کمیونسٹ ہونے کا لیبل ان پر بھی لگ چکا تھا اس لیے کہ انہوں نے کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔اردو، مارواڑی اور گجراتی پروڈیوسر اس لفظ سے ایسے بدکتے تھے جیسے لال کپڑے سے بیل۔ شروع شروع میں ناکامیاں ہوئیں۔ ایک آدھ چانس مل جاتا تو پیسے نہیں ملتے۔ ساحر نے بہت سخت دن گزارے۔ لیکن حالات کی سختیاں اس دبلے پتلے نوجوان کو توڑ نہیں سکیں۔ اور پھر برف ٹوٹی۔ساحر کے گیت ہندوستان کے چوٹی کے گلوکاروں کی آواز میں گونجنے لگے۔ ‘‘ (ساحر چلا گیا۔سحر باقی ہے)

شہرت آئی تو اپنے جلو میں ساحر کے لیے بہت کچھ لے کر آئی۔ ایوارڈ زکی لائن لگ گئی۔اہل لدھیانہ کیوں پیچھے رہتے، وہ تو اس کی جنم بھومی کے باسی تھے۔ ۱۹۷۵ میں سول لائن لدھیانہ میں ایک سڑک کا نام ساحر روڈ رکھا گیا۔ اس کی تقریب میں موجود تھے کشمیری لال ذاکر۔ان کو یاد رہا کہ اسٹیج پر موجود سردار سیوا سنگھ نے سڑکے کے بارے میں اعلان کیا تھا اور ساحر کو چند کلمات کی ادائیگی کی دعو ت دی تھی۔ ساحر اپنے گلے میں پھولوں کا ہار پہنے آیا اور کہنے لگا ’’ میں آپ سب کاشکریہ ادا کرتا ہو ں کہ آپ نے مجھے وہ اعزاز بخشا ہے جس کا میں ’مستحق ‘تھا‘‘پھر وہ تالیوں کی گونج میں ایک توقف کے بعد بولا تھا ’’ میں اس اعزاز کا اس لیے حق دار ہوں کہ میری تمام عمر سڑکوں پر گزری ہے‘‘۔
اس مرتبہ تمام ہال تالیوں کے ساتھ ساتھ قہقہوں سے بھی گونج اٹھا تھا۔
٭
۲۵ اکتوبر ۲۰۱۳ کو ساحر لدھیانوی کواس دنیا سے رخصت ہوئے ۳۳ برس ہوجائیں گے، ۱۹۸۰ میں اسی مہینے، اسی تاریخ کو ’’ یخ بستہ اداسی کے شاعر‘‘ نے ۵۹ برس کی عمر میں اپنے دوست ڈاکٹر آر ۔پی۔ کپور کے بازؤں میں دم توڑا تھا۔
مجھ سے اب میری محبت کے فسانے نہ کہو
-×-
حوالاجات:
۔۔۔۔ آشنائیاں کیا کیا۔حمید اختر۔۱۹۸۷۔جنگ پبلیکیشنز،لاہور
۔۔۔گلستان ادب کی سنہری یادیں۔اے حمید۔مکتبہ القریش، لاہور۔۲۰۰۷
۔۔۔ لاہور کے نوادرات۔قاضی اختر جونا گڑھی۔ماہنامہ الحمراء۔فروری ۲۰۱۲
۔۔۔ میں تینوں فیر ملاں گی۔سلیم پاشا۔سنبل، راولپنڈی۔۲۰۰۹
۔۔۔ احوال واقعی۔حمید اختر۔بک ہوم، لاہور۔۲۰۰۵
۔۔۔ساحر کا فن اور شخصیت۔سلطانہ مہر۔ادارہ تحریر، گلشن اقبال،کراچی۔۱۹۸۹
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 277575 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.