حضرت اسمعیل ؑحضرت ابراہیم ؑکے
بڑے صاحبزادے تھے۔ حضرت ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ بچے ہی تھے کہ حضرت
ابراہیم علیہ السلام ان کو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ کو بنجر اور ویران علاقے
میں چھوڑ آئے جو اب مکہ معظمہ کے نام سے مشہور ہے۔ ایک دن حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے خواب میں
دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ اب تم بتاو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت
اسماعیل نے فرمایا کہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے۔ جب حضرت ابراہیم نے حضرت
اسماعیل کو منہ کے بل ذبح کرنے لیے لٹایا تو خدا کی طرف سے آواز آئی۔ اے
ابراہیم ؑ!تو نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم احساس کرنے والوں کو اسی
طرح جزا دیتے ہیں اور ہم نے اس کے لیے ذبح عظیم کا فدیہ دیا۔ مفسرین
کاکہناہے کہ خدا کی طرف سے ایک مینڈھا آگیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام
نے ذبح کیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اسی قربانی کی یاد میں ہر سال
مسلمان عید الاضحی مناتے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جوان ہوئے تو حضرت
ابراہیم علیہ السلام نے ان کی مدد سے مکے میں خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اور
اس طرح دنیا میں اﷲ کا پہلا گھر تیار ہوا۔
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ رسول ؐ نے ارشاد فرمایا عید الاضحی کے دن فرزند
آدم کا کوئی عمل اﷲ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں اور قربانی کا
جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں ،بالوں اور کھروں کے ساتھ(زندہ ہوکر)آئے گا
اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اﷲ تعالی کی رضا کے مقام پر پہنچ
جاتا ہے پس اے خدا کے بندوں!دل کی پوری خوشی کے ساتھ قربانی کرو(ابن ماجہ )
عید الا ضحی کے مسنون و مستحب اعمال
عیدالضحی کے دن چند چیزیں مسنون و مستحب ہیں۔
جس پر قربانی واجب ہے اس کے لیے ذوالحج کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے
تک ناخن، سرے کے بال ، مونچھیں، بغل اور زیر ناف بال نہ کاٹنا مستحب ہے۔
(صحیح مسلم )
صبح سویرے اٹھنا‘ مسواک کرنا ‘ غسل کرنا‘ پاک صاف عمدہ کپڑے پہننا
‘ خوشبو لگانا‘ عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا‘ عید گاہ کی طرف جاتے
ہوئے تکبیرات بلند آواز سے کہنا
ایک راستے سے عیدگاہ آنا اور دوسرے راستے سے واپس جانا
عید گاہ پیدل جانا مستحب ہے تاہم عید گاہ دور ہوتو سواری پر جانے میں
مضائقہ نہیں البتہ واپسی پر پیدل آنا مستحب نہیں سوار ہونے کی بھی گنجائش
ہے
تکبیرات تشریق
اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا الہ الا اﷲ و اﷲ اکبر اﷲ اکبر وﷲ الحمد
9ذوالحج کی فجر سے 13ذوالحج کی عصر تک ہر فرض نما ز کے بعد متوسط بلند آواز
سے یہ تکبیر پڑھنا ضروری ہے ۔ فتوی اس بات پر ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے
والے اور اکیلے نماز پڑھنے والے ہر شخص پر یہ واجب ہے۔ نما ز پڑھنے والا
خواہ مرد ہو یا عورت البتہ عورت بلند آواز سے تکبیر نہ کہے بلکہ آہستہ کہے۔
قربانی کا حکم
سور الکوثر میں فصل لربک وانحر اپنے رب کے لیے نما زپڑھئے اور قربانی کیجئے
۔ یعنی جس طرح نما ز اﷲ کے سواکسی کی نہیں ہوسکتی قربانی بھی اسی کے نام کی
ہونی چاہیے کسی غیر کے نام کی نہیں ہوسکتی۔ قربانی مکہ معظمہ یا کسی خاص
جگہ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ قربانی کے وجوب کی شرائط پائے جانے کے بعد ہر
شخص پر ہر شہر میں واجب ہے کیونکہ رسول اﷲ ؐ ہجر ت کے بعد دس سال تک مسلسل
مدینہ طیبہ میں قربانی فرماتے رہے۔
قربانی کس پرواجب ہے
قربانی ہر اس مسلمان عاقل ، بالغ اور مقیم پر واجب ہے جس کی ملکیت میں
ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی ضرورت اصلیہ سے زائد
موجودہو۔ معلوم ہوا کہ کسی کافر ، پاگل ، نابالغ ، بچہ ، مسافر اور فقیر پر
قربانی واجب نہیں۔
قربانی کے ایام
قربانی کی عبادت میں صرف تین دن10,11,12ذوالحج کے ساتھ مخصوص ہے۔ ان
تاریخوں میں جب چاہیے قربانی کرسکتا ہے خواہ دن ہو یا رات البتہ دن کو
قربانی کرنا بہتر ہے۔ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے۔ بارہویں تاریخ کی مغرب
کے بعد قربانی کرنا جائز نہیں۔
قربانی کا طریقہ
اپنی قربانی خود اپنے ہاتھ سے کرنا افضل ہے اگر خود نہیں جانتا تو دوسرے سے
بھی کرواسکتا ہے۔ مگر ذبح کے وقت حاضر رہنا افضل ہے۔ قربانی کی نیت دل سے
کرنا کافی ہے زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے۔ دل کی نیت کے ساتھ زبان سے بھی
کہ لے تو ٹھیک ہے البتہ ذبح کے وقت بِسمِ اﷲِ اﷲ اکبر زبان سے کہنا ضروری
ہے۔
قربانی کے جانور اور ان کی شرائط
بکرا، دنبہ ، بھیڑایک ہی شخص کی طرف سے قربانی کیا جاسکتا ہے ۔ گائے ، بیل
، بھینس، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے۔ بشرطیکہ سب کی نیت ثواب
کی ہو ، مال حلال کا ہو ان میں سے کسی کی نیت گوشت کھانے کی نہ ہو۔
بکر ااور بکری کی عمر ایک سال ہونا ضروری ہے ۔ بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا موٹا
ہوکہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہوتا ہوتو بھی جائز ہے اگرچہ عمر میں سال
سے کم ہو ۔ گائے ، بیل ، بھینس کی عمر دوسال اور اونٹ کی عمر پانچ سال ہونا
ضروری ہے ۔ ان عمروں سے کم عمر کا جانور قربانی کے لیے ناکافی ہے ۔ اگر
جانور فروخت کرنے والا عمر پوری بتاتا ہے اور جانور کی ظاہری حالت اسکی بات
ٹھیک معلوم ہوتی ہے تو اس پر اعتماد کرنا جائز ہے ۔ خصی جانور کی قربانی
جائز بلکہ افضل ہے۔ جس جانور کی سینگ پیدائشی طور پر نہ ہو یاہو مگر درمیان
سے ٹوٹ گیا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ البتہ سینگ
جڑ سے اکھڑ گیا ہو جس کا اثر دماغ تک پہنچ گیا ہو اس کی قربانی جائز نہیں۔
جس جانوروں کی قربانی جائز نہیں
اندھا ، کانا، لنگڑااور ایسا بیمار اور کمزور جانور کو جو قربانی کی جگہ تک
اپنے پیروں پر چل کر نہ جاسکے اس کی قربانی جائز نہیں۔ جس جانور کا تہائی
سے زیادہ کان یا دم وغیرہ کٹی ہوئی ہو اسی طرح جس جانور کے دانت بالکل نہ
ہو یا اکثر نہ ہوں ان کی قربانی جائز نہیں۔ اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا
پھر اس میں کوئی ایسا عیب پیدا ہوگیا جس کی وجہ سے قربانی جائز نہیں تو اگر
خریدنے والا غنی صاحب ِ نصاب نہیں تو اس کے لیے اس عیب دار جانور کی قربانی
جائز ہے اور اگر غنی صاحبِ نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے
صحیح جانور کی قربانی کرے۔اﷲ تعالیٰ ہمارا حامی وناصر ہو۔آمین |