لبیک، اﷲم لبیک، حاضر ہوں، اے اﷲ میں حاضر ہوں

دیار حرم کی طرف حج کا قافلہ رواں دواں ہے، آپ بھی سفر حج کے لئے رخت سفر باندھ چکے ہیں، اﷲ آپ کے حج کو شرف قبولیت سے نوازے، روانگی سے قبل ان باتوں پر غور کرلیں، کیا آپ اپنا حج کر رہے ہیں یا کسی دوسرے کی جانب سے حج بدل کرنے جارہے ہیں؟ اگر آپ اپنا حج کرنے جارہے ہیں تو کیا آپ حج افراد کرنا چاہتے ہیں، یا تمتع یا قران کرنا چاہتے ہیں؟ یہ سارے حج کے اقسام ہیں۔

حج کے اقسام:
حج افراد -حج قران -حج تمتع۔
(1)- حج افراد کا مطلب یہ ہے کہ میقات سے صرف حج کا احرام باندھا جائے، عمرہ کی نیت نہ ہو اور صرف حج کے اعمال مکمل کئے جائیں۔ اس حج کو حج افراد کہتے ہیں اور اس قسم کے حج کرنے والے کو مفرِد کہا جاتا ہے۔(2) دوسری قسم حج قرِان ہے، اس میں حج وعمرہ دونوں ادا کرنے کی نیت سے اکٹھے احرام باندھا جاتا ہے، حاجی مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ کرتا ہے، عمرہ سے فراغت کے بعد احرام نہیں کھولتا ہے ،بلکہ حالت احرام میں باقی رہتے ہوئے حج کے ایام آنے کے بعد حج کرتا ہے۔ اس قسم کے حج کرنے والے کو قارِن کہا جاتا ہے۔(3)تیسری قسم حج تمتع ہے ،اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ حج کے مہینوں میں میقات سے صرف عمرہ کا احرام باندھا جاتا ہے اور مکہ مکرمہ آکر عمرہ کا عمل مکمل کرکے احرام کھول لیا جاتا ہے، پھر بغیر احرام کے مکہ میں قیام رہتا ہے اور حج کے ایام شروع ہونے پر از سر نو حج کا احرام باندھ کر حج کے اعمال کئے جاتے ہیں۔ اس قسم کے حج کرنے والے کو متمتع کہا جاتا ہے۔حج کی یہ تینوں قسمیں جائز ودرست ہیں۔

اگر آپ حج بدل کرنے جارہے ہیں تو جن کی طرف سے حج کرنے جارہے ہیں، ان سے یا ان کے ورثاسے حج تمتع کرنے کی اجازت حاصل کرلیں۔

قابل لحاظ چند باتیں:
(1)حج کا ایک اہم عمل طواف ہے، طواف مسجد احرام کے اندر کیا جاتا ہے، اس لئے جن عورتوں کو حج کے ایام میں ماہواری شروع ہوجانے کا خوف ہو، ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ حیض روکنے والی دوائیاں استعمال کریں اور اگر حج کے دوران خون آنا شروع ہوجائے تو وہ حج کے تمام اعمال دیگر حاجیوں کی طرح کرتی رہیں ،صرف طواف نہ کریں اور جب طواف زیارت کا وقت آجائے اور خون بند نہ ہو تو سفر کی تاریخ آگے بڑھانے کی کوشش کریں اور اگر کوشش کے باوجود تاریخ نہ بڑھ سکے تو اسی حالت حیض میں طواف کرلیں ،اور ایک بڑے جانور کی قربانی بطوردم جنایت حدود حرم میں دیں،حج کا پروگرام معلوم ہو اور یہ بھی معلوم ہو کہ آٹھویں ذی الحجہ کو مکہ آئے ہوئے پندرہ دن ہوجائیں گے تو آپ اپنے گھر والوں کو تاکید کردیں کہ آپ کی طرف سے عید الاضحی کی قربانی پچھلے سالوں کی طرح امسال بھی کریں، کیونکہ آپ منی میں جو قربانی کریں گے وہ حج کی قربانی ہوگی اور چونکہ آپ منی میں مقیم ہوچکے ہوں گے ،اس لئے آپ کو دو قربانی کرنی ہوگی :ایک حج کی اور دوسری بقرعید کی، لہٰذا یا تو آپ دونوں قربانی منی ہی میں کریں، یا بقرعید کی قربانی گھر پر کروائیں اور حج کی قربانی منی میں کریں۔بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اب عرفات،منی اور مزدلفہ ، مکہ کے ہی حصے ہو چکے ہیں۔اسلئے اگر حج کے ایام پورے ہونے تک پندرہ دن ہوجا ئیں تو اپ مقیم ہوجائیں گے،جبکہ دیگر حضرات کی رائے یہ ہے کہ تینوں مستقل الگ الگ شہر ہیں،اسلئے اگر آٹھویں ذی الحجہ کو پندرہ دن پورے ہوجائیں تب آپ مقیم ہوں گے،اس لئے بہتر یہ ہے کہ بہر دو صورت قربانی کریں ایک حج کی او ر دوسری بقرعید کی۔مسجد حرام اور مسجد نبوی میں عورتیں بھی جماعت میں شریک ہوتی ہیں،اور آسا نی کی خاطر عورتیں اپنی صفوں میں جانے کے بجائے مردوں کے ساتھ ہی نماز پڑھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ حنفی مسلک کے مطابق مرد اور عورت کے ایک ساتھ نماز پڑھنے سے تین مردوں کی نماز فاسد ہو جاتی ہے،،عورت کے دونوں طرف کھڑے ہونیوالے مرد اور عورت کے پیچھے کھڑے ہونے والے مرد کی نماز نہیں ہوتی ہے، اس لئے مردوں کو چاہئے کہ عورتوں کو ان کے صفوں میں بھیجنے کی کوشش کریں۔ احرام کی حالت میں خیموں میں جاتے اور آتے ہوئے چہروں سے کپڑے لگ جاتے ہیں، بعض لوگ چہرہ پوچھتے ہیں یا کپڑا تر کرکے چہرہ پر پھیرتے ہیں ان تمام باتوں سے بچنا چاہئے، حالت احرام میں چہرہ اور سر سے کپڑا لگنا مکروہ ہے ،البتہ اس کی وجہ سے دم یا صدقہ واجب نہیں ہوگا ،۔اسی طرح احرام کی حالت میں جوں وغیرہ مارنے سے بچنا چاہئے، جوں کے سلسلہ میں اصول یہ ہے کہ تین سے کم ہوں تو کچھ صدقہ کردے، کوئی خاص مقدار متعین نہیں ہے اور تین یا اس سے زائد ہوں خواہ ان کی مقدار کتنی بھی ہو تو صدقہ فطر کے بقدر گیہوں یا اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے۔

احرام سے متعلق ضروری مسائل:
آپ اﷲ کے مقدس گھر کی طرف جارہے ہیں، اس لئے پہلے اپنے بدن کی صفائی کرلیں، پھر احرام کی نیت سے غسل کریں اگر غسل کرنا ممکن نہ ہو تو وضو کرلیں، یہ غسل بدن کو آلائش ومیل کچیل سے صاف وستھرا کرنے کے لئے ہے (اس لئے وہ عورتیں جو حائضہ ہیں یا جن کو بیماری کی وجہ سے خون آرہا ہو وہ بھی غسل کرکے اپنے بدن کو گندگی سے صاف کرلیں) اب صاف وشفاف ہوکر احرام کے کپڑے پہن لیں، اورخوشبو لگائیں۔ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے کپڑے اتارے اور احرام باندھنے کے لئے غسل فرمایا (جامع ترمذی) اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو احرام کے لئے احرام باندھنے سے پہلے خوشبو لگایا کرتی تھی (بخاری کتاب الحج حدیث: 9341)۔ دو رکعت نفل نماز احرام کی نیت سے پڑھیں، نماز سے فارغ ہوکر دل میں نیت کرنے کے ساتھ ساتھ زبان سے بھی کرلیں اور اﷲ سے مدد کے خواستگار ہوں اﷲ ارشاد فرماتا ہے: ’’صبر اور نماز کے ذریعہ اﷲ سے مدد طلب کرو۔اگر آپ نے صرف حج کا احرام باندھا ہے تو ان الفاظ میں نیت کریں: (اے اﷲ میں حج کی نیت کرتا ہوں/ کرتی ہوں اسے میرے لئے آسان کردیجئے اور اس حج کو قبولیت سے نواز دیجئے) اور اگر حج وعمرہ دونوں کے ارادے سے احرام باندھا ہوتو یہ پڑھیں: (اے اﷲ میں حج وعمرہ دونوں کرنا چاہتا ہوں/ چاہتی ہوں ان کو سہل فرمادیجئے اور قبول فرمالیجئے) اگر عربی الفاظ یاد نہ ہوں تو اردو ہی میں کہہ لیں۔ اگر دوسرے شخص کی طرف سے حج کر رہے ہوں تو جس کی طرف سے حج کر رہے ہیں ان کی طرف سے نیت کیجئے ،جو عورتیں حائضہ ہیں یا جن کو بیماری کی وجہ سے خون آرہا ہو وہ غسل یا وضو کرکے احرام باندھ لیں اور قبلہ رو ہو کر نیت کریں اور تلبیہ پڑہیں۔ پیارے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: حالت نفاس اور حیض والی عورت غسل کرے گی اور احرام باندھے گی اور حج کے تمام اعمال ادا کرے گی ،صرف بیت اﷲ کا طواف نہیں کرے گی جب تک کہ پاک نہ ہوجائے۔ اس کے بعد بلند آواز سے اور عورتیں آہستہ آواز سے تین مرتبہ تلبیہ پڑھیں: ’’لبیک، اﷲم لبیک،لبیک لاشریک لک لبیک، ان الحمد والنعم لک والملک لاشریک لک‘‘ (حاضر ہوں، اے اﷲ میں حاضر ہوں، آپ کا کوئی شریک نہیں ہے، میں حاضر ہوں اور سب نعمتیں آپ ہی کی عطا کی ہوئی ہیں اور ملک بھی آپ ہی کا ہے اس میں آپ کا کوئی شریک نہیں)، یاد رکھیں تلبیہ یا ان کی جگہ حمد وتعظیم کے دوسرے الفاظ کہنا ہر گز نہ بھولیں، کیونکہ ایک مرتبہ ان چیزوں میں سے کسی ایک چیز کا پڑھنا واجب ہے ،تلبیہ پڑھ لینے کے بعد آپ حالت احرام میں آگئے، حج کا تحریمہ آپ نے باندھ لیا، اب احتیاط سے رہیں جن چیزوں سے بچنا ضروری ہے ان سے بچیں اور جتنا زیادہ ہوسکے تلبیہ پڑھتے رہیں، البتہ طواف اور سعی کے درمیان دوسری دعائیں واذکار کریں۔
درج ذیل چیزوں سے بچیں: پورے بدن یا بدن کے کسی بھی حصہ کو ایسے کپڑے سے نہ چھپائیں جو سلا ہوا ہو یا سلنے کی ہیئت پر بنایا گیا ہو ،چنانچہ قمیص، کرتا، بنیان، عمامہ ،پاجامہ اوردستار جیسی چیزیں نہ پہنیں، سر اور چہرہ کھلا رکھیں، پاؤں میں ایسا جوتا یا چپل بھی نہ پہنیں جو پاؤں کے اوپر کی ہڈی کو چھپادے، حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: نہ قمیص پہنو، نہ عمامہ، نہ پائجامہ، نہ ٹوپی، نہ خف (موزہ) اگر کسی کو چپل نہ ملے تو موزے اس طرح پہن لے کہ اسے ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ دے اور ایساکپڑا نہ پہنو جس میں کچھ زعفران یا (خوشبو) ملی ہوئی ہواور عورتوں کا احرام یہ ہے کہ صرف اس کا چہرہ کھلا رہے ،بقیہ سارا جسم سر سمیت ڈھکا رہے گا۔ عورتیں سلے ہوئے کپڑے پہن سکتی ہیں، ہاں یہ یاد رہے کہ سر ڈھکنا وجوب ستر اور پردہ کے لئے ہے، احرام کے لئے نہیں ہے، اس لئے عورتیں بھی پردہ کی رعایت کرتے ہوئے وضو کے وقت سر کا مسح کریں گی، نیز عورتوں کو اجنبی مردوں کے سامنے چہرہ کھولنا منع ہے، اس لئے کوئی چیز پیشانی کے اوپر اس طرح لگالیں کہ کپڑا اس پر ڈال سکیں، کپڑا چہرہ کو نہ لگے۔ احرام باندھ لینے کے بعد اب ضروری ہے کہ جسم میں خوشبو نہ لگے، میل کچیل ختم نہ کی جائے اور حسن وزیبائش کا اظہار نہ ہو ،کیونکہ اب عاشقان خدا کو یہ ہوش نہ ہونا چاہئے کہ جسم کیسا ہے اور لباس کیسا ، بال وناخن کیسے ہیں؟ چنانچہ اب بدن کے کسی حصے سے بھی بال نہ کاٹیں، ناخن نہ تراشیں، تیل نہ لگائیں، صابن نہ لگائیں، خوشبو نہ سونگھیں، کیونکہ ایک شخص نے پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا حاجی کون ہے؟ آپ نے فرمایا: جس کے بال پراگندہ بکھرے ہوئے ہوں اور جسم سے خوشبو نہ آتی ہو۔البتہ ٹھنڈا یا گرم پانی سے غسل کرسکتے ہیں، لیکن میل وغیرہ دور نہ کریں، صابن وشیمپو نہ لگائیں، اسی طرح سر اور چہرہ کے علاوہ دیگر بدن پر چادر یا رومال وغیرہ ڈال سکتے ہیں- اورموذی جانوروں کو مار سکتے ہیں مثلاً سانپ، بچھو، چھپکلی، کھٹمل، مچھر اور مکھی وغیرہ (معلم الحجاج:211)۔

کفارہ:
اول: اگر آپ نے کسی عذر مثلاً بیماری یا کسی عمل کی تکلیف کی وجہ سے کوئی ایسا عمل کر لیا جن سے احرا م کی حالت میں بچنا ضروری تھا، مثلاً بال کٹانا منع ہے، لیکن سر میں جوئیں تکلیف دہ بن گئی ہیں اور اس تکلیف سے نجات پانے کے لئے بال کٹالیا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ آپ ان تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کے ذریعہ کفارہ دیں: یا تو ایک جانور کی قربانی حرم میں دیں ،یا چھ مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلائیں یا تین دن روزے رکھیں۔دوم: اور اگر آپ نے بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر یا بھول کر کسی ایسے عمل کا ارتکاب کرلیا ہے تو جس درجہ کا جرم ہوگا اس پر لازم ہونے والے کفارہ کی صورت بھی اسی کے مطابق ہوگی، مثلاً کسی ایسے کپڑے کو پہن لیا جن کا پہننا احرام کی حالت میں منع ہے، یا سر ڈھک لیا یا عورت نے اپنے چہرہ کو اس طرح ڈھک لیا کہ کپڑا اس کے چہرہ سے لگ گیا اورایسی حالت میں پورا دن یا پوری رات گزر جائے تو ایک جانور (بکرا) کی قربانی کرنی ہوگی، اگر پورے دن یا پوری رات سے کچھ کم یہ حالت رہے تو اس کا کفارہ نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو کا صدقہ ہے (نصف صاع ایک کلو پانچ سو نوے گرام کے برابر ہے) ، اس مقدار میں گیہوں یا اس کی قیمت کسی ایک فقیر کو دیدیں ، اگر کئی فقیروں کو دیدیا تو یہ فدیہ کی طرف سے کافی نہ ہوگا،اور اگر صرف تھوڑی دیر ایسی حالت رہی تو ایک مٹھی گیہوں کا صدقہ کفارہ کے طور پر دینا ہوگا ۔

خوشبو لگالینے کا کفارہ:
خوشبو اگر بدن کے کسی ایک مکمل عضو جیسے سر یا ہاتھ یا پنڈلی پر لگائی ہے تو ایک قربانی کرنی ہوگی، یا ایک نشست بیٹھک میں پورے بدن پر لگایا ہے تو بھی ایک ہی قربانی واجب ہوگی اور یہ بھی ضروری ہوگا کہ خوشبو فوراختم کردی جائے، اگر خوشبو باقی رہی تو پھر دوسری قربانی لازم ہوجائے گی، اگر ایک عضو سے کم میں خوشبو لگائی ہے تو جرم کم ہونے کی وجہ سے صرف صدقہ (نصف صاع گیہوں یا ایک صاع جو) لازم ہوگا اور اگر کپڑے میں تھوڑی سے خوشبو لگا لی تو ایک مٹھی گیہوں صدقہ کرنا واجب ہوگا، نیز یہ بھی ضروری ہوگا کہ کپڑے سے خوشبو کو اس طرح زائل کریں کہ ہاتھ میں خوشبو نہ لگ سکے ۔

بال وناخن کاٹنے کا کفارہ:
وضو کرنے یا بال وداڑھی کھجانے کے دوران خود سے تین بال گرجائیں تو ایک مٹھی گیہوں صدقہ کرنا ہوگا اور اگر خود اکھاڑے تو ہر بال کے بدلے ایک مٹھی اور تین بال سے زیادہ اکھاڑے تو نصف صاع صدقہ کرنا ہوگا(معلم الحجاج 293)۔ اور دونوں ہاتھوں کے ناخن یا دونوں پاؤں کے ناخن کاٹنے پر ایک جانور کی قربانی واجب ہوگی۔پانچ انگلیوں کے ناخن سے کم کاٹنے کی صورت میں نصف صاع صدقہ واجب ہوگا، البتہ ٹوٹے ہوئے ناخن کو توڑنے سے کچھ واجب نہ ہوگا (معلم الحجاج:204)۔

طواف قدوم:
اب اﷲ کے گھر پہنچ چکے ہیں، لہٰذا اگر صرف حج کرنے کا یا حج وعمرہ دونوں کرنے کا احرام باندھ رکھا ہے ، یعنی حج افراد یا حج قرِان کرنے کی نیت سے احرام باندھا ہے تو آپ کے لئے سنت ہے کہ اﷲ کے گھر جاکر فوراً آنے کی حاضری بجا لایئے اور طواف قدوم کیجئے،تمتع کرنے والوں کے لیئے یہ طواف سنت نہیں ہے، طواف کرتے وقت ان چیزں کا خیال رکھیں: طواف کے دوران آپ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، اور آپ نے ابھی چونکہ احرام باندھ رکھا ہے، اس لئے حجر اسود کو چومنے کی کوشش نہ کریں ،کیونکہ حجر اسود پر خوشبو لگا ہوتا ہے اور احرام کی حالت میں خوشبو چھونا حرام ہے، جب احرام کھول لیں اور طواف کریں تو بھی کسی کو دھکہ دیکر حجر اسود کو چومنے اور ہاتھ لگانے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ حجر اسود کو چومنا اور ہاتھ لگانا اس وقت مسنون ہے جب کسی کو آپ سے تکلیف نہ پہنچے اور سنت کی وجہ سے کسی مسلمان کو تکلیف دینا حرام ہے۔ حجر اسود اور بیت اﷲ کی چوکھٹ کے علاوہ کہیں اور بوسہ نہ دیں ،نیز احرام کی حالت میں کعبہ کے پردہ کے نیچے اس طرح کھڑے نہ ہوں کہ کعبہ کا پردہ سر کو یا چہرہ کو چھو جائے۔اورجب ایک طواف یعنی سات چکرمکمل کرلیں تو دوگانہ نماز ادا کریں اور یہ دھیان رکھیں کہ ہر طواف یعنی سات چکر کے بعد بغیر دو رکعت نماز پڑھے دوسرا طواف شروع نہ کریں، ایسا کرنا مکروہ ہے، الا یہ کہ آپ ایسے وقت میں طواف کر رہے ہوں کہ اس وقت نماز پڑھنا مکروہ ہے تو پھر دوسرا طواف کرسکتے ہیں، لیکن مکروہ وقت کے ختم ہوتے ہی جتنے طواف آپ نے کرلیے ہیں ہر طواف کے بدلے دودو رکعت نماز ادا کریں۔ ہر طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا واجب ہے۔ (معلم الحجاج 104)۔

سعی:
سعی کرنا واجب ہے، اورطواف کے بعد کرنا سنت ہے، چنانچہ بغیر عذر کے سعی کرنے میں تاخیر نہ کریں، طواف قدوم کے بعد اگر آپ نے سعی نہیں کی اور وقوف عرفہ کرلیا تو اب طواف زیارت کے بعد سعی کریں۔

یوم الترویہ (8ذی الحجہ):
آج ہی کے دن سے حج کے اعمال کا آغاز ہوتا ہے، آج سورج طلوع ہونے کے بعد مکہ سے منی کے لئے روانہ ہوں اور منی میں قیام کریں ، یہاں ظہر، عصر، مغرب، عشا اور نویں ذی الحجہ کی فجر کی نمازیں پڑہی جائیں گی، آج کوئی خاص عمل نہیں کیا جائے گا ،اس لئے تلبیہ وتسبیح وتہلیل ودعا میں مشغول رہیں۔

یوم عرفہ نویں ذی الحجہ:
حج کا سب سے اہم دن یہی ہے، عرفات ایک میدان کا نام ہے، اس میدان میں ٹھہرنا فرض ہے، خواہ تھوڑی ہی دیر کے لئے ہو، اگر یہ چھوٹ گیا تو حج فوت ہوگیا، نیز اس بات کا خیال رکھیں کہ عرفات میں ایک وادی ہے جس کا نام بطن عرنہ ہے ،یہ عرفات میں داخل نہیں ہے، اس لئے یہاں نہ ٹھہریں، یہاں ٹھہرنے سے وقوف عرفہ نہیں ہوگا

مزدلفہ میں آمد:
عرفہ میں جب سورج غروب ہوجائے تو مزدلفہ کی طرف نکل پڑیں، یہاں مغرب کی نماز نہ پڑھیں ،آج مغرب اور عشا کی نماز مزدلفہ میں ایک ساتھ پڑھی جائے گی کہ یہی مشیت خداوندی ہے، جب مزدلفہ پہنچ جائیں اور عشا کا وقت ہوجائے تو اذان کے بعد تکبیر کہیں اور مغرب کی نماز ادا کی نیت سے پڑھیں، مغرب کی فرض نماز سے فراغت کے فوراً بعد بغیر تکبیر کہے عشا کی نماز پڑھیں، عشا کی نماز سے فراغت کے بعد مغرب اور عشا کی سنتیں اور وتر پڑھیں،پھر ذکر ودعا میں مشغول ہوجائیں، فجر کی نماز آج یہیں مزدلفہ میں پڑھنی ہے، یہاں وقوف کا وقت صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ہے،اس لئے صبح صادق سے پہلے ہر گز نہ جائیں ،ورنہ دم واجب ہوگا،الا یہ کہ کوئی معذور ہو یا عورتیں ہوں تو صبح صادق سے پہلے یا صبح صادق کے بعد منی جانے کی گنجائش ہے،لیکن بہتر یہ ہے کہ صبح صادق کے بعد ہی منی کے لئے روانہ ہوں (معلم الحجاج ص: 61، مناسک ملا علی قاری 291)۔

یوم النحر :( دسویں ذی الحجہ)مزدلفہ سے فجر کی نماز پڑھ کر سورج نکلنے سے پہلے منی کے لئے روانہ ہوجائیں، منی پہنچ کر چار اعمال انجام دینے ہیں: جمرہ عقبہ کی رمی، پھر قربانی، پھر سر کے بال کٹوانا، پھر مکہ آکر طواف زیارت کرنا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ اعمال اسی ترتیب سے انجام دیئے تھے (ابو داؤد کتاب

المناسک)، اس لئے اسی ترتیب سے انجام دینا واجب ہے ،نیز خود سے رمی کرنا واجب ہے، اس لئے خود سے رمی کی کوشش کریں، اگر ازدحام کی وجہ سے رمی کرنے کی طاقت آپ میں نہیں ہے تو مسنون وقت کے بجائے وقت جواز یا وقت کراہت میں رمی کرلیں، عذر کیوجہ سے کراہت ختم ہوجائے گی ، ہاں جو حضرات جمرات تک چل کر جانے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں یا بہت کمزور یا مریض ہیں تو وہ کسی کو اپنا نائب بنادیں۔ آج یعنی دسویں تاریخ کو رمی کا مسنون وقت سورج نکلنے سے لیکر زوال تک ہے، زوال سے غروب تک وقت مباح ہے، غروب کے بعد سے لیکر پوری رات یعنی گیارہویں کے صبح صادق سے پہلے تک مکروہ وقت ہے(معلم الحجاج: 71) ،رمی کے بعد خود سے قربانی کرنے کی کوشش کریں یا کسی ایسے معتبر آدمی کے ذمہ یہ کام سپرد کریں جو آپ کی رمی کے بعد قربانی کرکے آپ کو مطلع کردے، تاکہ اس کے بعد آپ سر کے بال کٹواکر حلال ہوجائیں،بینک وغیرہ کے ذمہ کرنا بہتر نہیں ہے اور اگر اس احتیاط کے باوجود ان اعمال میں ترتیب قائم نہ رہ سکی تو دم وغیرہ واجب نہ ہوگا ۔قربانی کے بعد سر کے بال مونڈوالیں یا کتروالیں، چوتھائی سر کے بال منڈانا یا کٹانا واجب ہے، مستحب یہ ہے کہ سارے سرکے بال منڈوائیں۔ عورتیں چوتھائی سر کے بال ایک انگلی کے بقدر کٹوالیں ، ان کے لیے مستحب یہ ہے کہ سارے سر کے بالوں سے ایک انگل کے بقدر بال کتروائیں، سرکے بال آپ خود سے بھی کاٹ سکتے ہیں، دوسرے حاجی سے بھی کٹواسکتے ہیں، اسی طرح دوسرے حاجی کے سرکا بال آپ بھی کاٹ سکتے ہیں (معلم الحجاج: 174)۔طواف زیارت:رمی، ذبح اورسر کے بال کٹوانے کے بعد طواف زیارت کریں، یہ طواف فرض ہے، طواف زیارت کا وقت دسویں تاریخ کے صبح صادق سے شروع ہوجاتا ہے، البتہ سنت یہ ہے کہ دسویں تاریخ کو رمی، ذبح اور بال کٹوانے کے بعد طواف زیارت کریں ، طواف زیارت قربانی کے ایام ہی میں کرلینا واجب ہے (مناسک ملا علی قاری: 232)۔

طواف زیارت کے بعد منی واپس ہوجائیں، منی پہنچ کر گیارہویں اور بارہویں کو رمی کریں، گیارہ اور بارہ تاریخ کو تینوں جمرات کی رمی کی جائے گی ،رمی سے فارغ ہو نے کے بعد آپ چاہیں تو مکہ واپس آجائیں ، البتہ بہتر ہے کہ تیرہ ذی الحجہ کی رمی کرکے مکہ واپس آئیں۔ گیارہویں اوربارہویں تاریخ کو رمی کا مسنون کا وقت زوال سے غروب آفتاب تک ہے ، غروب آفتاب سے صبح صادق تک مکرو ہ وقت ہے، معذور شخص مکروہ وقت میں بھی رمی کرسکتا ہے، اس کے عذر کی وجہ سے یہ کراہت بھی ختم ہوجائے گی۔

طواف وداع رخصتی کا طواف:
اب آپ حج سے فارغ ہوگئے، وطن واپس جانے کی تیاری کر رہے ہیں ،تواب طواف وداع کریں، طواف سے فارغ ہوکر دوگانہ نمازپڑھ کر اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے دعائیں مانگیں۔
M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 154034 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More