باسمہ تعالیٰ
زندگی کے بہترین دس ایام یعنی عشرۂ ذی الحجہ ہم سے رخصت ہواچاہتاہے،بس
چندلمحے باقی رہ گئے ہیں اوروہ بھی برف کی مانندپگھل کرہمارے ہاتھوں سے
پھسلتے جارہے ہیں،اب ہمارے لیے احتساب نفس کاوقت ہے کہ ہم اپنامحاسبہ کریں
کہ ہم نے اس عشرہ کوکس طرح گذارا؟کیاہم نے عشرۂ ذی الحجہ کے حقوق اداکیے
یانہیں؟یاہمیشہ کی طرح ہم اس باربھی عشرۂ ذی الحجہ کی برکتوں،رحمتوں سے
محروم رہ گئے؟عشرۂ ذی الحجہ سال کے وہ بہترین دس دن ہیں جس میں تمام امہات
العبادات جمع ہیں حافظ ابن حجرعسقلانیؒ نے فتح الباری میں عشرۂ ذی الحجہ کی
خصوصیات پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھاکہ دیگرایام سے اس کے ممتازہونے کی سب سے
بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں تمام امہات العبادات کااجتماع ہے جواسے سال کے
دیگرمہینوں اورایام سے ممتازمقام عطاکرتاہے۔نماز،روزہ،حج اورقربانی ،یہ سب
وہ اعمال ہیں جواسی عشرۂ ذی الحجہ میں اداکیے جاتے ہیں،نمازسال بھرکی عبادت
ہے،روزہ سال میں ایک مہینہ کے لیے خاص ہے،اورحج وقربانی عشرۂ ذی الحجہ کی
اہم عبادت ہے،اوران دس دنوں میں ان عبادات کوجمع کردیاگیاہے جس کی وجہ سے
ان ایام کی اہمیت وفضیلت سال کے دیگرایام کے مقابلہ کئی گنازیادہ ہوجاتی
ہے۔اوران تمام عبادات میں دسویں ذی الحجہ کواﷲ کی راہ میں قربانی کرنایہ
تمام اعمال سے افضل ہے جس کی فضیلت قرآن وحدیث میں واردہے۔
عشرۂ ذی الحجہ کی اہمیت وفضیلت کوبیان کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے
ارشادفرمایاکہ:والفجرولیال عشر،اورقسم ہے فجرکی اوردس راتوں کی؛مفسرین نے
بالاتفاق ان دس راتوں سے ذی الحجہ کے دس دن مرادلیے ہیں جیساکہ سیدالمفسرین
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہماکی روایت سے ثابت ہے کہ آیت مذکورمیں دس راتوں
سے مرادذی الحجہ کی ابتدائی راتیں ہیں،اوراسی طرح مسنداحمدکی ایک روایت سے
اس کی تائیدہوتی ہے جس میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے
ارشادفرمایاکہ:ان العشرعشرالاضحی:عشرسے مرادذی الحجہ کاعشرہ ہے۔اسی طرح
حدیث میں آتاہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:ان دس دنوں
سے زیادہ بہترکوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل اﷲ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ
ہو۔صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے دریافت فرمایا:یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم جہادفی سبیل اﷲ بھی نہیں؟آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:جہادفی
سبیل اﷲ بھی نہیں؟ہاں مگروہ شخص جواپنی جان اورمال کے ساتھ راہ جہادمیں
نکلے اورکچھ واپس لے کرنہ آئے (یعنی سب کچھ اسی راہ میں قربان کردے۔)
عشرۂ ذی الحجہ میں جہاں دیگرنیک اوراﷲ کے نزدیک پسندیدہ عمل کیاجاتاہے ان
ہی پسندیدہ اعمال میں ایک عمل ایسابھی ہے جواﷲ اوراس کے رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کوسب سے زیادہ پسندہے اوروہ ہے قربانی؛قربانی کے بارے میں آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایاکہ دس ذی الحجہ کو اﷲ کی بارگاہ میں عید قرباں کے دن سب
سے محبوب اور پسندیدہ کام خون ہی بہانا ہے ۔(مسلم ، ترمذی )اسی طرح ایسے
لوگوں کوجوکہ صاحب استطاعت ہونے کے باوجودبھی قربانی کاارادہ نہیں رکھتے
ہیں،خبردارکرتے ہوئے فرمایاکہ؛جوشخص استطاعت رکھنے کے باوجودقربانی نہ
کرے(یعنی قربانی کاارادہ نہ ہو)وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آوے،یعنی اگروہ
قربانی نہیں کررہا ہے توپھراسے عیدالاضحی کی نمازپڑھنے کی بھی کوئی ضرورت
نہیں ہے۔ملاحظہ ہوحدیث نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم:عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ ؓ اَنَّ
رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلِےْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ کَانَ لَہٗ
سَعْۃً وَلَمْ ےُضَحِّ فَلَاےَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا (ابن ماجہ حدیث نمبر
:۳۱۲۳)ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا : کہ جس شخص کو قربانی کرنے کی استطاعت اور سکت ہے اور پھر
اس نے قربانی نہیں کیا ، تو ہ شخص ہماری (مسلمانوں کی) عید گاہ کے قریب بھی
نہ آئے ۔
قربانی کیاہے؟کیاقربانی نام ہے صرف جانورکے خون بہادینے کا؟جب کہ اﷲ تبارک
وتعالیٰ کاارشادہے کہ نہ تواسے اس کاخون پہونچتاہے اورنہ ہی
گوشت،پھرجانورکوذبح کرنے کامطلب کیاہے؟اﷲ تعالیٰ نے اسی آیت میں آگے اس کی
وضاحت فرمادی ہے کہ سن لونہ توتمہارگوشت پہونچتاہے اورنہ خون،بلکہ
تمہاراتقویٰ اورتمہارے دلوں کی نیت پرتمہارے خون بہانے کاثواب دیاجاتاہے۔یہ
جتنانیک اورپسندیدہ عمل ہے اتناہی نازک بھی ہے،آپ لاکھ روپے کاجانورذبح
کردیں،لیکن اگرآپ کی نیت صاف نہیں ہے،دل میں رضائے الٰہی کی طلب کے بجائے
نام ونموداورشہرت کی طلب ہے توپھریہ پیسہ اورمحنت سب رائیگاں چلاجائے گا۔
قربانی کوئی نئی بات نہیں ہے،یہ کوئی ایساحکم نہیں ہے جوپہلی
باردیاگیاہواورلوگوں کے لیے اجنبیت کاباعث ہوبلکہ قربانی کی تاریخ اتنی ہی
قدیم ہے جتنی انسانیت کی تاریخ پرانی ہے ۔قرآن کریم نے تاریخ انسانیت کی سب
سے پہلی قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: کہ ذرا یاد کرو وہ گھڑی اور وقت
جب کہ حضرت آدمؑ کے دو بیٹوں نے اﷲ کے حضور قربانی پیش کی ، اور اﷲ نے ایک
کی قربانی کو شرف قبول بخشاجب کہ دوسرے کی قربانی کو اس کی بداعمالی اور
بدنیتی کی وجہ سے ٹھکرادیا ۔(المائدہ :۲۷)
یہ تاریخ عالم کی سب سے پہلی قربانی تھی ، قربانی دنیا کے تمام مذاہب میں
کسی نہ کسی شکل اور کسی نہ کسی نام سے موجود رہی ہے ، خواہ وہ آسمانی مذہب
عیسائیت یا یہودیت ہو، یا چند توہمات اور فرسودہ خیالات پر مبنی ہندومذہب
ہو ۔لیکن قربانی کی تاریخ کا سب سے دلچسپ مگر حیرت انگیز انوکھا پر دل
دہلادینے والا واقعہ تب پیش آیا ، جب آسمان دنیا نے یہ نظارا کیا ، اور
دنیا نے دیکھا کہ ایک باپ ( حضرت ابراہیم ؑ) نے اپنے بڑے ہی لائق وفائق
ہونیہار اور حسین وجمیل بیٹے کو اپنے محبوب کی رضا اور خوشنودی کی بھینٹ
چڑھادی، اور اپنی دوستی کی بقاکے لیے اپنے ہی جگر کے ٹکڑے کو اپنے ہاتھوں
سے قربان کردیا ۔ اور اپنے یارانا کے لیے اپنے بڑھاپے کے سہارے کی قربانی
دیدی ۔ سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے -
قربانی قرب سے ماخوذ ہے ، جس کے معنی ثواب اور قربت کے ہیں ، یعنی اﷲ کا
کوئی بندہ اگر عید قرباں کے دن اﷲ کے حکم کے مطابق جانوروں کی قربانی کرتا
ہے ، تو اﷲ کے قریب ہوجاتا ہے ، اور اﷲ بے پناہ ثواب دیتا ہے ، آخر اﷲ رب
العزت کیوں نہ ثواب دے ، اور کیوں نہ اپنے بندے کو اس کا حکم دیتا ، آخر تو
یہ اس کی دوستی کی سالگرہ اور اس کے محبوب اور دوست حضرت ابراہیم علیہ
السلام کی سنت اور یاد گار ہے ۔’’ھِیَ سُنَّہُ اَبِےْکُمْ
اِبْرَاھِےْمَ‘‘۔(مسلم کتاب الاضاحی)یہی وجہ ہے کہ اﷲ کی بارگاہ میں عید
قرباں کے دن سب سے محبوب اور پسندیدہ کام خون ہی بہانا ہے ۔(مسلم ، ترمذی
)اب بھلا کون ایسا بدبخت اور بدنصیب ہوگا ، جو روپیے پیسے رکھتے ہوئے بھی
عشق ومحبت کی داستان کا حصہ نہ بننا چاہتا ہو ، اور قربانی کرکے اﷲ سے اپنی
دوستی کی تجدید نہ کرنا چاہتا ہو ۔ اور اگر خدانخواستہ ایسا کوئی بدبخت
آدمی ہے تو یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے ۔ اور اس
آدمی کو مسلمانوں کی عید گاہ میں نہ آنے دیا جائے ۔ چنانچہ اﷲ کے حبیب نبی
اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
:کہ جو شخص روپے پیسے رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے
قریب بھی نہ آئے ۔ (ابن ماجہ )
الغرض!یادرکھیں!قربانی اﷲ اوراس کے محبوب صلی اﷲ علیہ کے نزدیک پسندیدہ
اورمحبوب عمل ہے،اس کے خلیل ابراہیم علیہ السلام کی سنت
اوریادگارہے،اوردسویں ذی الحجہ جوکہ عشرۂ ذی الحجہ کاآخری اوراہم دن ہے اس
دن کاسب سے محبوب عمل ہے،اس عمل کوخالص اﷲ کی رضاکے حصول کے لیے کریں،شہرت
اورنام ونمودکے لیے قربانی نہ کریں ورنہ آپ کاپیسہ توقربان ہوجائے گالیکن
آپ کانفس قربان نہ ہوسکے گاجوکہ اس محبوب عمل قربانی کے لیے اصل مطلوب
ہے۔قربانی کامطلب ہی ہے نفس کوقربان کردینانہ کہ جانورکو؛اورنفس کی قربانی
کامطلب یہی ہے کہ آپ اپنی نیت صاف اورخالص رکھیں،آپ قربانی کے لیے مہنگے سے
مہنگے جانورخریدیں،لیکن اپنی حیثیت کے مطابق،اوریہ قیمتی جانوراس لیے نہ
خریدیں کہ محلہ اورشہرمیں ہمارے جانورکاچرچاہوبلکہ اس لیے خریدیں کہ اﷲ کی
بارگاہ میں قیمتی اورمحبوب چیزکوپیش کرسکیں،جیساکہ اﷲ کاارشادہے کہ اپنی سب
سے محبوب چیزقربان کرو،نہ کہ دبلاپتلااورلاغروضعیف جانورجوکہ صحیح سے اپنے
پاؤں پہ کھڑابھی نہ ہوسکے۔آج کل مہنگاجانورفیشن ہوگیاہے اﷲ ہمیں اس لعنت سے
بچائے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لخت جگرکی قربانی پیش کرانے کامطلب یہی
تھاکہ انسان اﷲ کی بارگاہ میں اپنی سب سے محبوب چیزقربان کرے،یہی وجہ ہے کہ
کہاگیاہے قربانی کاجانوراتناپہلے خریدلے اوراس کی اس طرح پرورش کرے جیساکہ
وہ اپنی اولادکی پرورش کرتاہے کہ اس سے اس قدرلگاؤہوجائے کہ جب اسے قربان
گاہ میں لایاجائے تواس کی آنکھوں سے آنسونکل پڑے،اورپھراسے اپنے ہاتھوں سے
قربان کرے ،ایسی قربانی اﷲ کی بارگاہ میں زیادہ محبوب اورمقبول ہوتی ہے۔اسی
طرح قربانی کے گوشت کی تقسیم میں حق قرابت کے ساتھ غریب اوریتیموں
کاپوراخیال رکھیں،تاکہ انہیں بھی عیدالاضحی کی خوشیاں حاصل ہوسکیں،اورہماری
قربانی کامقصدبھی پوراہوسکے۔اب بھی وقت ہے اگرکسی صاحب استطاعت نے حیثیت
رہتے ہوئے اب تک قربانی کاارادہ نہیں کیاہے تواﷲ کے لیے اﷲ کے رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم کی وعیدسے بچنے کے لیے قربانی کانظم فرمالیں ورنہ آپ کوعیدالاضحی
کی نمازپڑھنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اﷲ ہماری قربانیوں کوقبول
فرمائے۔آمین٭٭٭ |