بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حضرت آدم علیہ السلام جب زمین پر اتارے گئے توانہوں نے اﷲ تعالی سے پوچھا
کہ کدھر منہ کر کے تو عبادت کروں؟اﷲ تعالی نے فرمایا کہ ایک کمرہ
تعمیرکرلیں اور ادھرمنہ کر کے عبادت کے مناسک اداکرتے رہیں۔طوفان نوح علیہ
السلام میں وہ کمرہ زمیں بوس ہوگیا۔حضرت ابراہم علیہ السلام جو حضرت علیہ
السلام کی قریبی پشت سے تھے انہوں نے اپنے فرزندارجمند کے ساتھ اس کمرے کی
تاسیس نوکی۔اسکی تین دیواریں سیدھی اور ایک دیوار گول تھی۔پہلی بارحضرت
ابراہیم علیہ السلام نے اس کمرے کا طواف کیا اور اﷲ تعالی نے انہیں مناسک
حج سکھائے۔جب محسن انسانیت ﷺ کی عمر مبارک پنتیس برس کی تھی تو قریش نے اس
کمرے کونئی اور مضبوط دیواروں پراستوار کیا۔تعمیراتی سامان کی کمی کے باعث
چوتھی دیوار بھی سیدھی کر دی گئی البتہ دیوارکے سیدھا ہونے سے عمارت کاجو
حصہ باہر رہ گیا اسے حطیم قرار دے دیا۔اس کمرے،کعبۃ اﷲ کی زیارت کے لیے سفر
کرنا حج یا عمرہ کہلاتا ہے،تاہم مکمل حج یا عمرے میں کچھ دیگر مراسم عبودیت
بھی شامل ہیں۔
حج کی عبادات کم و بیش چارہزارسالوں سے جاری ہیں۔تواترکے ساتھ ادا ہونے
والی یہ دنیا کی قدیم ترین عبادت ہے۔ قریش مکہ نے ان عبادات ومناسک میں
بدعات اور شرک کی آمیزش بھی کر دی تھی لیکن خاتم النبیین ﷺ نے اسے ایک بار
پھر سنت ابراہیم علیہ السلام کے مطابق ترتیب دے کر ہر طرح کی آلائشوں سے
پاک صاف کر دیا۔اب عمربھر میں ایک بار اس شخص پر سفرحج فرض کردیاگیاہے جو
اسکی استطاعت رکھتاہو۔تب سے آج تک امت مسلمہ نے ایک حج بھی قضا نہیں
کیاحالانکہ ایک زمانے میں حج کرنا جان جوکھوں کاکام ہوتا تھا۔ادائیگی حج کے
اگرچہ بہت سے پہلو ہیں جن میں ایک سیاسی پہلو ہے کہ تمام مسلمانوں کا
نمائندہ اجتماع امت کی سیاسی قوت کا آئینہ دارہو،ایک معاشرتی پہلو ہے کہ
مشرق و مغرب کے مسلمان باہم معاشرتی اختلاط سے ایک اسلامی معاشرت کے امین
بنیں،ایک مذہبی پہلو ہے کہ لمبے سفر کے بعدقرب الہی کاوسیلہ زیادہ خلوص اور
محبت کے ساتھ میسر آئے،ایک سیاحتی پہلو ہے کہ قریہ قریہ شہر شہر سے گزرنے
کے باعث ایک حاجی اﷲ تعالی کی زمین اور انسانی تہذیب و ثقافت کا مشاہدہ
کرتا چلے،ایک دفاعی پہلو ہے امت کا اتنا بڑااجتماع اورمسلمانوں کے اتحادسے
دشمنوں پر دھاک بیٹھ جائے،ایک مساوات کا پہلو ہے کہ امیرغریب،عالم
جاہل،گورے کالے ،عربی عجمی اورشرقی غربی کل حجاج ایک ہی قسم کے کپڑوں میں
ایک ہی رخ میں ایک ہی کلمہ زبان سے نکالتے ہوئے چلے جا رہے ہیں اورایک بین
الاقوامی پہلوہے کہ ہرنسل،ہررنگ،ہرزبان اور ہر علاقے کی نمائندگی موجود ہے۔
ہم وقت کے اس دھارے سے گزر رہے ہیں کہ صدہائے افسوس کہ حج جیسی عظیم الشان
عبادت کے یہ تمام پہلومعطل ہیں اور امت اپنی تاریخ کے بہت ہی سیاہ دور سے
گزر رہی ہے۔ممکن ہے ماضی میں بھی کبھی ایسا ہوا ہویا شایدمسقبل میں بھی
ایسا پھر ہوجائے لیکن حج کامعاشی پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔جب تک حج کا
عمل جاری رہے گالاکھوں نہیں کروڑ ہالوگوں کا روزگاراس عبادت سے وابسطہ رہے
گا۔ان لوگوں میں امیروغریب تو ہونگے ہی لیکن کتنی حیرانی کی بات ہے کہ
انبیاء علیھم السلام کی جاری کی ہوئی اس عبادت کے معاشی پہلو میں غیرمسلم
بھی برابر کے بلکہ بعض اوقات مسلمانوں سے زیادہ کے شریک رہیں گے۔ایک حاجی
جب حج کا ارادہ کرلیتا ہے تو لوگ اسے مبارک باد دینے آتے ہیں ،ہر آنے والا
پھول ساتھ لاتا ہے اور اس طرح پھولوں والوں کا روزگار کھل جاتا ہے۔حج کی
پیشگی مبارگ دینے والی اکثریت مٹھائی یاکوئی تحفہ یا ہدیہ بھی ساتھ لاتی ہے
اس طرح ان لوگوں کا روزگار کھلتا ہے جہاں سے یہ مٹھائی یا تحفہ و ہدیہ
خریدا جاتاہے۔دیہاتوں میں بعض اوقات تین تین دن پہلے چوہدری صاحب کے ہاں
دیگیں پکنے لگتی ہیں کیونکہ وہ حج پر جا رہے ہوتے ہیں اس طرح دیگوں اور
راشن سے وابسطہ لوگوں کا روزگار کھل جاتا ہے اوربرادری اور غریب غربے تین
دنوں تک چوہدری صاحب کے ہاں سے اچھا کھانا بھی کھالیتے ہیں۔حج کے لیے حاجی
صاحب اکیلے نہیں جاتے بلکہ پوراگاؤں انہیں بسوں پر بٹھاکر شہر تک چھوڑ کر
آتا ہے اس دوران ڈھول والے،نعتیں پڑھنے والے ،بسوں کے ڈرائیوراور پٹاخے
بجانے والوں کی بھی چاندی ہوتی ہے قطع نظر اس بات کے کہ یہ امور جائز ہیں
کہ ناجائز۔
شہر پہنچ کریا پہلے سے ہی حاجی صاحب نے کسی ہوائی کمپنی کاٹکٹ
خریدناہے۔ہوائی کمپنیوں کی اکثریت غیر مسلموں کی ملکیت ہوتی ہے لیکن کتنی
حیرانی کی بات ہے کہ حج اور عمرے کا سیزن پوری دنیا کی ہوائی کمپنیوں کے
لیے خوب کمائی کا سیزن ہوتا ہے۔بعض ادارے تو صرف حج اور عمرے کا ہی کام
کرتے ہیں اور پھر بھی لوگوں کو ان سے شکایت رہتی ہے سیٹ نہیں مل سکی۔ان
ہوائی کمپنیوں سے بلامبالغہ کروڑہا لوگوں کی ہنڈیا وابسطہ ہوتی ہے اورانکے
کاروبار کا بہت بڑا اور بڑا واضع حصہ سفرسعادت سے ہی منسلک ہوتا ہے۔ان
ہوائی کمپنیوں کے ایجنٹ اور پھر انکے ثانوی ایجنٹ دوردرازکی بستیوں میں
اپنے دفاتر کھول کر بیٹھتے ہیں اور ایک حاجی جو اپنی رقم سے ٹکٹ خریدتا ہے
نہ معلوم اس ایک ٹکٹ کی رقم کتنی کتنی جگہوں پر تقسیم در تقسیم ہو
کرتوپہنچتی ہے اورلوگوں کے کاروبارکاباعث بنتی ہے۔حاجی اپنی منزل پر پہنچ
گیا۔حج و عمرے کے انتظامات پر کتنی رقم خرچ ہوتی ہے ؟اسکا اندازہ لگانا
ہمارے لیے ممکن نہیں لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ ساراسال ہزاروں نہیں
لاکھوں لوگوں کی ان گنت ٹیمیں حج و عمرے اور حرمین شریفین کے انتظامات میں
مصروف عمل رہتی ہیں ۔کم و بیش دنیا کے ہر خطے کا مسلمان ان مقامات پر کام
کرتا ہوا نظر آتا ہے۔حاجیوں کے لیے صفائی اور قیام و طعام کے انتظامات سے
لے کر حرمین شریفین کی توسیع تک بے شمار لوگوں کا روزگار وابسطہ
ہورہتاہے۔ساراساراسال اخباروں میں اشتہار چھپتے ہیں اور ساری دنیا سے ماہر
لیبراور خام لیبر ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں میں بھر بھرکر حجازمقدس لے
جائی جاتی ہے جہاں سے وہ اپنے ظرف کے مطابق سعادت اور اپنے فن کے مطابق
دنیا کما کر لاتے ہیں۔
خاص حج کے موقع پر بھیڑ،بکریوں اور اونٹوں کے ریوڑ کے ریوڑمنی کے مقام پر
لائے جاتے ہیں اور انہیں ذبح کیا جاتا ہے۔ان جانوروں کے گلے بان اپنے سال
بھرکی محنت کابہت معقول معاوضہ وصول لیتے ہیں اور اس طرح صحراکے باسی جہاں
مہینوں تک زمین کی مٹی بارش کی بوند کوترس جاتی ہے،حج کی عبادت انکی وسعت
رزق کاباعث بن جاتی ہے۔پھر جوجانور حکومتی انتظام کے تحت ذبح کیے جاتے ہیں
انکا گوشت دنیا کے مختلف علاقوں میں غرباء کو پہنچادیاجاتاہے اور یوں حج کی
عبادت لوگوں کاپیٹ بھرنے کاباعث بن جاتی ہے۔جاپان چین اور فرانس غیرمسلم
ممالک ہیں ،ان سمیت دنیاکے بیشتر سیکولرممالک سے بحری جہازبھربھرکے
حجازمقدس کی بندرگاہوں پر اترتے ہیں جن میں ٹوپیاں ،تسبیحیں،جائے
نمازیں،کھلونے،مشینری اورکپڑے سمیت نہ جانے قسم قسم کی مصنوعات لدی ہوتی
ہیں۔اﷲ تعالی نے ایک شاندار انتظام کے تحت دنیابھر کے لاکھوں امیر لوگوں کو
ایک جگہ جمع کردیاہے وہ دل کھول کر خریداری کرتے ہیں ،کوئی بھی حاجی خالی
ہاتھ واپس نہیں جاتاپس دنیا بھر کی بے شمار انڈسٹریزصرف حج کی بنیاد پر
قائم و دائم ہیں اور ان میں کام کرنے والوں اور انکی چیزیں خرید کر آگے
بیچنے والے اور ان سے خرید کر مزید آگے بیچنے والے اور پھر حاجیوں کے ہاتھ
فروخت کرنے والے سب کے سب کا معاشی مسئلہ اﷲ تعالی نے حج و عمرے کی عبادات
و مناسک سے جوڑ رکھاہے۔حاجی حج سے واپس آتا ہے تو ایک بار پھر لوگ بسیں بھر
بھر کے اسکے استقبال کے لیے ہوائی اڈوں یا ریلوے اسٹیشنوں پرپہنچتے ہیں،عام
دنوں میں جولوگ منتیں کرکر کے دس دس روپے کے پھولوں کے ہار فروخت کرتے ہیں
اب پچاس پچاس میں نخرے سے فروخت کرتے ہیں ،کارپاکنگ والوں کی دہاڑیاں دس دس
گنا بڑھ جاتی ہیں ،بسوں اور ویگنوں والے حاجی کی خیریت سے واپسی کی مٹھائی
بھی وصول کرتے ہیں ،گھر کے بچوں کے لیے کھلونے،خواتین کے لیے کپڑے اور
نوجوانوں کے لیے انکے مزاج کی اشیااور پوری برادری،پڑوسیوں اور گاؤں والوں
کے لیے تسبیح،ٹوپی،زم زم اور کھجور کے تحفے ارسال کیے جاتے ہیں۔
معاش انسان کی اولین ضرورت ہے وہ پیدا ہوتے ہی سب سے پہلے اپنی معاش کا
تقاضا کرتا ہے،اﷲ تعالی کتنابڑا رزاق ہے کہ اس نے اپنی نازل کی ہوئی شریعت
میں تمام کفاروں کو بھوکے کے پیٹ سے جوڑ دیاہے،روزہ توڑا ہے تو بھوکے کاپیٹ
بھرو،قسم توڑی ہے توبھوکے کاپیٹ بھرو،حج میں کوئی غلطی ہو گئی ہے تو بھوکے
کاپیٹ بھرو،پھرغمی اور خوشی کے مواقع کو بھی اﷲتعالی نے پیٹ سے جوڑ
دیاہے،عقیقہ ،ولیمہ یا کسی کی وفات پر کھانے کاانتظام اسی قبیل سے تعلق
رکھتے ہیں،آپﷺکی تمام تر پیشین گوئیاں بھی معاشی خوشحالی سے تعلق رکھتی ہیں
اور صدقات و زکوۃ اور عشر کا اتنا بڑا نظام تو معاشیات سے ہی مستعارہے۔اسی
طرح حج جیسی محض ایک عبادت سے اﷲتعالی پوری دنیا میں گردش دولت کا سلسلہ
شروع کردیتا ہے،تجوریوں سے زرنکل کر مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوابھوکے کے پیٹ
تک جاپہنچتاہے ،قطع نظر اس کے کہ وہ بھوکاامیرہے کہ غریب ہے،ان پڑھ ہے کہ
جاہل ہے اور حتی کہ مسلمان ہے کہ غیرمسلم۔اور پھر اس حج پر خرچ کی ہوئی رقم
حاجی کے اپنے رزق میں کتنی برکت کا باعث بنتی ہے؟دنیاکاکوئی پیمانہ اسکی
پیمائش کرنے سے قاصر ہے۔سچ ہے کہ اﷲ کی راہ میں خرچ کرنا ایساہے جیسے ’’ایک
دانہ بویاجائے جو سات بالیوں کی زراعت کا باعث ہو ہرہربالی میں سوسودانے
ہوں‘‘۔یہ تو دنیا کا حال ہے،آخرت میں اسکا کتنا اجر ملے گا؟اﷲ تعالی ہی
بہتر جانتاہے۔ |