حضرت مولانا محمدیوسف
کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں لکھتے ہیں کہ حضرت ابو نضرہ ؒ
کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ ؓ میں سے ایک آدمی جن کو ابوعبداﷲؓ
کہاجاتاتھا بیمار تھے ان کے ساتھی ان کی عیادت کرنے آئے تو دیکھا کہ وہ رو
رہے ہیں ساتھیوں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کیوں رو رہے ہیں کیا آپ سے نبی کریم
ﷺ نے یہ نہیں فرمایاتھا کہ اپنی مونچھوں کو کترواؤ اور پھر اسی پر جمے رہو
یہاں تک کہ تم مجھ سے (قیامت کے دن ) آملو ؟ اس میں آپ کے ایمان پر خاتمہ
کی اور قیامت کے دن حضور ﷺ سے ملاقات کی بشارت ہے انہوں نے کہا کہ ہاں حضور
ﷺ نے یہ فرمایاتھا لیکن میں نے حضور ﷺ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اﷲ
تعالیٰ نے ( انسانوں کی ) ایک مٹھی دائیں ہاتھ میں لی اور دوسری مٹھی دوسرے
ہاتھ میں لی اور فرمایا کہ اس (داہنی ) مٹھی والے اس (جنت ) کے لیے ہیں اور
اس (دوسری مٹھی ) والے اس (جہنم ) کے لیے ہیں اورمجھے کوئی پرواہ نہیں ( کہ
کون کس مٹھی میں ہے اور وہ کہاں جائے گا ) تو مجھے معلوم نہیں کہ میں کون
سی مٹھی میں ہوں ؟ ( اﷲ کی ذات تو بہت بے نیاز ہے اس پر کسی کازور نہیں
چلتا ۔
قارئین کیا کبھی ہم نے اس بات پر غور کیاہے کہ برطانیہ امریکہ یورپ سے لیکر
دنیا کے تمام ترقی یافتہ اور آسمانوں کو چھونے والے ممالک اور معاشرے ترقی
کی اس معراج پر کیوں ہیں ؟ کیا کبھی ہم نے آج تک دل کی آنکھیں کھول کر یہ
بات سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ باوجود اس کے کہ اﷲ تعالیٰ کاقرآن اور نبی
کریم ﷺ کا فرمان احادیث کی صورت میں پیغام انقلاب بن کر ہمارے پاس ہونے کے
باوجود ہم پوری دنیا میں ذلیل ورسوا کیوں ہورہے ہیں ؟کیاکبھی ہم نے یہ بات
جاننے کی کوشش کی ہے کہ ترقی یافتہ معاشروں اور 56سے زائد اوآئی سی پر
مشتمل اسلامی دنیا میں وہ کون سا فرق ہے کہ جس کی وجہ سے تمام انسانوں کا
رب دنیاوی نعمتوں اور برکتوں کے حساب سے ان پر تو فیاضی کے ساتھ مہربان ہے
اور ہم راندہ درگاہ بن کر دنیا کی ٹھوکروں کانشانہ بنے ہوئے ہیں یہاں ہمارے
بہت سے بھائی دیانت داری کے ساتھ اپنے خیال کے مطابق دین پر عمل نہ کرنے کو
ا س کی وجہ بتائیں گے ،کچھ دوست سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق
اور ترقی کے فقدان کو اس کی وجہ قرار دیں گے اور کچھ لوگ ’’ انصار نامہ ‘‘
کو ایک فاتر العقل لکھاری کی یاوہ گوئی سمجھ کر راقم کی شان میں مختلف
القابات عنایت کریں گے لیکن ان تمام باتوں سے بے غرض ہوکر ہم آج یہ سوچنے
کی جسارت کررہے ہیں کہ آخر کیوں بقول علامہ اقبال ؒ
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
قارئین امریکہ کو لاکھ گالیاں دے لیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکی عوام
اور انکل سام پوری دنیا میں سب سے زیادہ ڈونیشن دینے والے لوگ ہیں دنیا میں
بیماریوں کے خلاف ہونے والی ریسرچ سے لیکر قدرتی آفات زلزلوں سیلابوں اور
مختلف حادثات، مصائب او رمسائل میں گھرے انسانوں کی مدد کیلئے امریکی قوم
ہر سال اربوں ڈالرز کی امداد دیتی ہے معذور بچوں کیلئے کام کرنے والی
تنظیمیں ہوں ،کینسر ایڈز سے لیکر مختلف ہلاکت آفریں بیماریوں کے خلاف ریسرچ
کرنے والے ادارے ہوں یا جہالت کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگ ہوں امریکی قوم
ہر سال ان تمام محاذوں پر اربوں ڈالر ز کی امداد بھیجتی ہے اور اس دنیا میں
انکل سام اور امریکی قوم امداد کے حوالے سے گزشتہ کئی سالوں سے چمپئن ہیں
۔اسی طرح سکینڈے نیوین ممالک سے لیکر برطانیہ تک دنیا کے ٹاپ 20ممالک سے
لیکر کائنات کو تسخیر کرنے والے G-20ممالک تک تمام معاشرے فلاح وبہبود کے
کاموں میں بھی انہی پوزیشنز پر براجمان ہیں برطانیہ میں تو یہاں تک مشہور
ہے کہ اگر کسی گھر میں کسی بھی جسمانی معذوری کے ساتھ کوئی بچہ پیدا ہوجائے
تو برطانوی حکومت کے نمائندے فوراً اس گھر میں پہنچ جاتے ہیں اور برطانوی
عوام کے ادا کردہ انتہائی قیمتی ٹیکس سے اس معذور بچے کی کفالت کا بہترین
انتظام کردیاجاتاہے اس کے برعکس آپ 56سے زائد اسلامی ممالک کی حالت زار
دیکھ لیجئے سعودی عرب سے لیکر پاکستان تک اور نائجیریا سے لیکر افغانستان
تک ہماری داستان الم دکھائی دیتی ہے ہم مسلمان امداد دے رہے ہیں لیکن کبھی
ہم نے یہ سوچا ہے کہ جس ادارے یا فرد کو امداد دی جاتی ہے اس کی عزت نفس کو
کن کن طریقوں سے مجروح کیاجاتاہے پاکستان ان خوش قسمت ممالک میں شامل ہے
جہاں بہت بڑے پیمانے پر عوام ڈونیشن دیتے ہیں تازہ ترین تحقیق اور تجزیے کے
مطابق امریکہ کے بعد ذاتی سطح پر عطیات دینے میں پاکستان او رپاکستانیوں کا
دوسرا نمبر ہے پاکستان میں عبدالستار ایدھی کی ایمبولینس سروس دنیا کی سب
سے بڑی رفاعی ایمبولینس سروس تسلیم کی جاچکی ہے اور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ
کے مطابق اسے رجسٹرر بھی کیاجاچکا ہے ،پاکستان میں مدارس کا ایک ایسا نیٹ
ورک موجود ہے کہ جہاں ہزاروں مدرسوں میں پچاس لاکھ کے قریب نادار بچے مفت
تعلیم حاصل کرنے سے لیکر خوراک ،کپڑے اور دیگر ضروریات زندگی بھی مفت حاصل
کرتے ہیں اربوں روپے کی یہ ضروریات پاکستانی معاشرہ پوری کرتاہے اس کے
باوجود امریکہ اور پاکستان میں زمین اور آسمان کافرق موجود ہے آئیے اس کی
وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں ہمارے خیال میں اس کی بنیادی وجہ معذور بچوں کے
حوالے سے معاشرے اور مملکت کا ایک ایسا رویہ ہے کہ جس کے متعلق اگر یہ
کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ’’ ہمارا معاشرہ اندھوں ،گونگوں اور بہروں ‘‘
کا معاشرہ ہے خدانخواستہ کسی گھر میں اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے
طور پر کوئی معذور بچہ پیدا ہوجائے تو حکومتی سطح پر اس بچے اور خاندان کی
امداد کرنے کیلئے کسی بھی نوعیت کا کوئی سیٹ اپ موجود نہیں ہے اس وقت
پاکستان اورآزادکشمیر میں ان معذور بچوں کی امداد اپنی مدد آپ کے تحت چلنے
والے وہ ادارے کررہے ہیں جو کسی فرد یا کچھ لوگوں کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ
ہیں کیا ہماری پیدائش میں ہمارا کوئی کردار ہوتاہے کیا کسی کے گھر میں جنم
لینے والا معصوم معذور بچہ ہمارے گھر پیدا نہیں ہوسکتا تھا کیا ہم نے کبھی
یہ سوچا کہ ان معصوموں کی امداد کیلئے ہم سب نے اپنی اپنی سطح پر اور ہماری
پیاری حکومتوں نے اپنے اپنے لیول پر کوئی کام کیاہے ۔۔۔۔۔؟ اس ایک سوال کے
اندر آج کے اس کالم میں اُٹھائے جانے والے سوال کے تمام جوابات موجود ہیں
آج ہم آزادکشمیر میں معذور بچوں کی عملی امداد کرنے والے ایک ادارے کی قابل
تقلید کاوش آپ کے سامنے پیش کررہے ہیں ۔
کشمیر انسٹیٹیوٹ آف سپیشل ایجوکیشن(کائس) میرپور آزادکشمیرمیں انصاری
ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام یکم اکتوبر2001کو قائم کیا گیا۔جہاں سماعت و
گویائی سے محروم سپیشل بچوں کو مفت تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ اس ادارہ میں
طلباء و طالبات سے کسی قسم کی داخلہ فیس، ماہانہ فیس وغیرہ نہیں لی جاتی۔
مستحق طلباء و طالبات کو کتب ،سٹیشنری اور یونیفارم بھی ادارہ فراہم کرتا
ہے۔ اس کے علاوہ فری پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ دور
دراز کے طلباء کیلئے ہاسٹل کی سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ آلہ سماعت کی
مفت فراہمی، سپیچ تھراپی، سائن لینگویج، کمپیوٹر کی لازمی تعلیم، دینی
تعلیم، فری تفریحی دورہ جات، آڈیو ویڈیوز، ان ڈور، آؤٹ ڈور سپورٹس اور
ڈرامیٹک کلب وغیرہ کی سہولیات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ آزادکشمیر کی تاریخ
میں پہلی مرتبہ سماعت و گویائی سے محروم طلباو طالبات نے آزادجموں وکشمیر
تعلیمی بورڈ میرپور میں میٹرک کا امتحان نارمل طلباء و طالبات کے ساتھ دیکر
نئی تاریخ رقم کی اور100%ریزلٹ دکھایا۔ 2012ء کے سالانہ امتحانات میں
8طلباء و طالبات جبکہ سال 2013کے سالانہ امتحان میں میٹرک کے 10طلباء و
طالبات نے100%ریزلٹ دے کر یہ ثابت کر دیا کہ سماعت و گویائی سے محروم یہ
سپیشل بچے بھی کسی سے کم نہیں۔ اس کے علاوہ ادارہ کے سپیشل ایتھلیٹس سپیشل
اولمپکس پاکستان(SOP) کے زیراہتمام ہونیوالے انٹرسٹی گیمز، ریجنل گمیز اور
نیشنل گیمز میں حصہ لے کر کامیابیاں سمیٹ چکے ہیں۔7,6جولائی 2013کو فیڈرل
ریجنل سپیشل اولمپکس کا انعقاد کیا گیا ادارہ ہذا کے 8طلباء و طالبات نے
شرکت کی۔ اسداﷲ نے سائیکلنگ میں پہلی پوزیشن، افشاں نے100میٹر ریس میں
دوسری پوزیشن، غلام کبریا نے بیڈمنٹن میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ جبکہ
احتشام رشید نے سوئمنگ میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ اس سے پہلے ادارہ کی ایک
طالبہ مہوش افتخار نے جولائی2011میں یونان میں ہونیوالی ورلڈ سپیشل اولمپکس
میں حصہ لیا اور ٹیبل ٹینس کے سنگلز کے مقابلوں میں گولڈ میڈل جبکہ ڈبلزکے
مقابلوں میں سلور میڈل حاصل کر کے نہ صرف ادارہ بلکہ آزادکشمیر و پاکستان
کا نام پوری دنیا میں روشن کیا۔ تعلیمی سیشن2013-14کے لئے سپیشل طالبات
کیلئے کالج کلاسز کا آغاز کیا جا رہا ہے اور یہ بھی اس ادارے کا امتیاز ہے
کہ میٹرک کے بعد ان طالبات کی تعلیم کو جاری رکھنے کا انتظام کیاگیا ہے ۔
اس کے علاوہ طالبات کو سلائی کڑھائی اور ہینڈی کرافٹ کا کام بھی سکھایا
جاتا ہے تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر بھی سیکھ کر مفید شہری بن سکیں۔ ادارہ
ہذا کے ایک طالبعلم شہزاد ایوب نے تعلیمی بورڈ میرپور میں میٹرک کے
امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد فیڈرل بورڈ اسلام آباد کے زیراہتمام
انٹر میڈیٹ سال اول کے سالانہ امتحانات 2013میں حصہ لیا اور یہ آزادکشمیر
کا واحد طالبعلم ہے جو سماعت اور گویائی سے محروم ہونے کے باوجود فیڈرل
بورڈ سے انٹرمیڈیٹ پارٹIکا امتحان پاس کر نے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے۔
ادارہ ہذا میں اس وقت110سے زائد بچے زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں۔
اخراجات اوسطاً پانچ لا کھ سے ساڑھے 6لاکھ ماہانہ ہیں۔ جنہیں انصاری
ویلفیئر ٹرسٹ مخیر حضرات کے تعاون سے پورا کرتا ہے۔
قارئین یہاں پر ہم آپ کی خدمت میں ایک سچا واقعہ بھی پیش کرتے چلیں 26جون
2011ء میں آزادکشمیر میں انتخابات ہوئے او رانتخابات کے نتیجے میں پاکستان
پیپلزپارٹی کی حکومت بنی یہ حکومت جو لائی کے مہینے کے آخری دنوں میں تشکیل
پائی اس دوران ایتھنز یونان میں ہونے والے سپیشل اولمپک مقابلوں میں کائس
کی سپیشل طالبہ مہوش افتخار نے گولڈ میڈل حاصل کرکے پوری دنیا میں
آزادکشمیر کا پرچم بلند کردیا اور آزادکشمیر کا یہ پرچم پاکستانی پرچم کی
سربلندی کا بھی سبب بنا ہم نے ایف ایم 93میرپور ریڈیوآزادکشمیر میں سٹیشن
ڈائریکٹر چوہدری محمد شکیل کی خصوصی ہدایات کی روشنی میں کائس اور انصاری
ویلفیئر ٹرسٹ چلانے والے دوستوں محمد بشارت اور ڈاکٹر امجد انصاری کا ایک
خصوصی انٹرویو رکھا اس انٹرویو کے دوران آزادکشمیر کے موجودہ وزیر اعظم
چوہدری عبدالمجید نے اپنے پرسنل سیکرٹری عامر زیشان کے ہمراہ شرکت کی
وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے مہوش افتخار کی اس کامیابی کو پوری کشمیری
قوم کی کامیابی قرار دیا انٹرویو کے دوران توجہ دلانے پر چوہدری عبدالمجید
نے یہ وعدہ کیا کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ پہلی فرصت میں انصاری ویلفیئر
ٹرسٹ کے زیر انتظام چلنے والے سپیشل بچوں کے اس ادارے کو ریاست کی طرف سے
زمین فراہم کریں گے تاکہ یہ ادارہ اپنی اعلیٰ خدمات بہترین طریقے سے انجام
دے سکے وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے بشارت شاہین اور ڈاکٹر امجد انصاری
سمیت کائس کی تمام انتظامیہ کی خدمات کو لائق فخر قراردیا ۔
قارئین وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کی عوامی حکومت قائم ہوئے دوسال سے زائد
کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن انصاری ویلفیئر ٹرسٹ اور کائس ابھی تک وزیراعظم
چوہدری عبدالمجید کی طر ف سے اعلان کردہ امداد سے محروم ہیں یہ ادارہ اب
بھی اپنی مدد آپ کے تحت کام کررہاہے اور پرعزم ہے کہ آئندہ بھی اپنا کام
جاری رکھے گا لیکن اس ہلکی سی جھلکی سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ آزادکشمیر
اور پاکستان ان برکتوں سے کیوں محروم ہیں کہ جن برکتوں سے امریکہ اور دیگر
ترقی وتہذیب یافتہ معاشرے مستفید ہورہے ہیں
قارئین انصاری ویلفیئر ٹرسٹ برطانیہ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد یاسین ،ڈائریکٹر
فنانس بشارت شاہین ،کوآرڈینٹر ارشد محمود انصاری ،ٹرسٹی اور سیکرٹری محمد
امین سے لیکر تمام انتظامیہ اور کائس کا عملہ اس معاشرے کی زندہ اور روشن
مثالیں ہیں معاشرے کا یہ فرض بنتاہے کہ ان لوگوں کی عملی امداد کیلئے سامنے
آئے اور ایک بہتر انداز میں کسی بھی بچے کی عزت نفس مجروح کیے بغیر اس
ادارے کی مدد کی جائے رہی بات عوامی حکومت اور وزیراعظم چوہدری عبدالمجید
کی تو چاہے دیر سے ہی سہی ہمیں امید ہے کہ آج کی انصاف کی زنجیر ہلانے کی
جسارت کے نتیجے میں بجنے والی گھنٹی کی آواز چوہدری عبدالمجید تک ضرور
پہنچے گی اور اپنی قائد بینظیر بھٹو شہید کے وعدے پورے کرنے کے دعوے کرنے
والے سیاسی راہنما اپنے وعدے کی لاج بھی ضرور رکھیں گے اور کائس کے معذور
بچوں کو فرش اور چھت مہیا کرنے کیلئے اعلان کردہ زمین ضرور فراہم کریں گے
یہ ان کا اس ادارے یا ان معذور بچوں پر کوئی احسان نہیں ہوگا بلکہ اس بات
کا اعلان ہوگا کہ آزادکشمیر کی حکومت اور یہاں کے وزیراعظم درددل نام کی
کوئی چیز رکھتے ہیں ۔
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
ایک بار ملا نصیر الدین کا گدھا مر گیا اس پر گاؤں کے شرارتی بچوں نے مذاق
مذاق میں رونا شروع کردیا گاؤں کے چودھری نے شرارتی بچوں کو منع کیا تو
ملانصیر الدین کہنے لگے
’’ انہیں رونے دیجیئے ،مرحوم ان کابھائی تھا ‘‘
قارئین ہمارے آج کے اس کالم اور کائس کے بچوں کی سچی داستان کو یہ سمجھ کر
پڑھیے گا کہ آزمائش کے شکار یہ بچے میرے اورآپ کے بچے ہیں اور امتحان میں
گھرا ہرفرد میرا اور آپ کابھائی ہے ۔۔۔رہے نام اﷲ کا۔۔۔۔
Sاندھا ،گونگا ،بہرہ معاشرہ اور کائس ۔۔۔!!!
|