انتہا پسند قوتیں اگرکسی کے
اشاروں پر ہیں، تب بھی خطرہ ہیں ،اگر ان کی جغرافیائی ، فکری یا انتظامی
محرومیاں ہیں،تب بھی ،اگروہ ناسمجھ ہیں ،تب بھی ، مذکرات کے عمل کو پہلے
سوات میں جعلی ویڈیو سے متأثر کیاگیاتھا، حالانکہ امن معاہدہ ہوچکاتھا، لال
مسجد والوں نے ہتھیار پھینکنے کا اعلان کردیاتھا ،مگر پرویز مشرف کی رعونت
آڑے آئی ، اکبر خان بگٹی اصحابِ کہف کے مانند ایک غار میں چھپے تھے ،لیکن
اسے قتل کرکے بلوچوں کوحال اور مستقبل میں ملک کے خلاف بر آنگیختہ کرنے کا
ایک ’’عذرِ بارِد‘‘مہیا کیاگیا،یا بہانہ تراشاگیا، کراچی کے مہاجروں کو کسی
زمانے میں پیپلز پارٹی کے خلاف اور سند ھودیش کے نعرے کو پسپاکرنے کے لئے
لسانی بنیادوں پر منظم کیا گیا،جس سے بے شمار ہلاکتیں تو ایک طرف ،پوراملک
خطرے میں پڑگیا، پھر چین کے ساتھ گوادر معاہدہ ،ایران سے گیس پائپ لائن اور
افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد،بعدمیں افغان طالبان کے خلاف فرنٹ
لائن کا کردار ،یہ سب ہمارے مسائل ہیں ، ان مسائل کو ٹھنڈے دل کے ساتھ
سلجھانے کی ضرورت ہے ،ماضی کو بھلاکر مستقبل کی فکر اور منصوبہ بندی کرنے
کی حاجت ہے ،پرسوں بروز جمعرات ملک کے چاروں صوبوں کے مراکزِ حکومت میں بم
دھماکے کسی طاقت ور دشمن کی چال ہے ، ہمارے مذکورہ مسائل کی وجہ سے دشمنوں
کو میدان میں کام کرنے کے لئے نیز مہنگائی او رغربت کی وجہ سے ہمارے ہی
لوگوں کا اغیار کو میسر آنا کوئی مستبعد بات نہیں ہے، بیٹے کو جب ’’عاق‘‘
قرار دیاجائے ،یا باپ مارے اور چچا گھر سے نکال دے ، تو مدمخالف کی صفوں
میں اس کا چلا جانا ایک فطری عمل ہوتاہے ، ہم دن رات اپنے اڑوس پڑوس اور
اپنے معاشرے میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ،۔ابھی حال ہی میں مصری فوج نے
’’رابعہ عدویہ‘‘ کے میدان میں جس طرح اخوانیوں کابے تحاشا خون بہایا ،اس کے
مضر اثرات مصر پر دیر تک پڑتے رہینگے ،کسی کے ساتھ جبروزیادتی سے قبل سو
بار سو چنا چاہیئے،کہ آج اگر کوئی طاقت ور ہے تو کل کمزور کے ہاتھ میں کہیں
سے بھی طاقت آسکتی ہے ،جس کا خمیازہ نسلوں کو برداشت کرنا پڑتاہے ۔بنگلہ
دیش میں ہمیں گرم کے بجائے نرم پہلو اختیار کرنا چاہیئے تھا ، لیکن اس وقت
کے دانشوروں (جن میں اکثر بکے ہوئے ہوتے ہیں ) نے ایسا نہیں ہونے دیا او
رایک بازو نہیں، آدھا جسم الگ ہوا۔
موجودہ عالمی صورت حال پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتاہے ،کہ’’ شر‘‘کی قوتیں
ہمیشہ سے اسلام ،مسلمانوں اور منبع اسلام یعنی عالم عربی کے خلاف انتھک
کوششیں کرتے آئے ہیں ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بدولت وہ اسلام اپنی حقانیت
،دلیل ،او رمنطق سے اب ان کے گھروں او رسوسائٹیز میں داخل ہوچکاہے ،جس سے
یہ شیطانی قوتیں خائف ہیں ،اس لئے یہ لوگ مسلم ممالک کے خلاف چالیں چلاتے
ہیں ۔ اس وقت دنیا کے قانونی نقشے پر ان چیرہ دستوں کی وجہ سے ’’عالم عربی
‘‘ مفقودہے ، اس کی جگہ ’’شرق اوسط ‘‘ نے لی ہے ،’’گریٹر شرق اوسط ‘‘کے جو
نقشے سامنے آئے ہیں ،ان میں ’’عالم اسلام ‘‘ مفقود ہے ، ان نقشوں میں ایک
اسلامی اقلیم ’’شام ‘‘ بھی مفقودہے ،وہاں اب پانچ ملک سوریا ، لبنان ،اردن
، اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کی اصطلاحات بطور الگ الگ شناخت سامنے آئی
ہیں، gcc (گلف کو آپریشن کونسل )نے جب مجلس التعاون للخلیج العربی نام رکھا
،ایران کی طرف سے اقوام متحدہ میں ان پر اعتراض کرایا گیا ،کہ یہ خلیج عرب
ہے ، یا خلیج فارس؟ نتیجے میں خلیجی ریاستوں کو صرف ’’خلیج ‘‘ تعاون کونسل
نام رکھنا پڑا ۔ سرآغاخان مرحوم کے اصرار کے باوجود پاکستان میں مسلم رابطے
کی زبان’’عربی‘‘ کے بجائے اردو کو قومی زبان بنایاگیا ،ترکی میں بھی یہی ہو
ا ،سینٹرل ایشیا ،جہاں سے تفسیر وحدیث کے ائمہ اٹھے ،روسی زبان واصطلاحات
پر مجبور ہوئے ،۔فرقہ واریت ،لسانیت اور علاقائیت ہمارے اپنے مسائل نہیں
ہیں ،بلکہ یہ طویل ’’سازشی دخیل‘‘ مسائل ہیں ۔ہر حوالے سے حزم واحتیاط کی
ضرورت ہے ، اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان کے خلاف خطرناک اور تباہ کن
تانے بانے بُنے جارہے ہیں ،ایٹمی ہتھیاروں کے بین الاقوامی چوھدری ہمارے
پاس عزت وتفاخر کا یہ زیور دیکھنا نہیں چاہتے ، مصرنے کوشش کی تھی ، تباہی
کا سامناکرنا پڑا ، لیبیانے بدستِ خود حوالے کئے ، عراق کواس کے لئے تہس
نہس کیاگیا، شام میں خوں ریز اور مہیب جنگ کرواکر ان سے کیمیائی ہتھیار
چھین لئے گئے ، ایران کے سینے پر اقتصادی بائیکاٹ کا اتنا بڑا پہاڑ
رکھاگیاہے ،کہ ’’نہ جائے ماندن ،نہ پائے رفتن ‘‘کی کیفیت ہے ،اب وہ بھی
سوریا کی طرح ایٹم بم سے دست بردار ہونے کا اعلان کرچکاہے ،حزب اﷲ کو فرقہ
واریت کا ایسا طوق پہنا یاگیا کہ وہ عالم اسلام میں ’’ہیرو ‘‘ سے زیرو پر
آگئے ۔
یہاں ہمارے ملک عزیز وخداداد اور ایک عطیہ الہی کے خلاف یہی سازش ہورہی
ہے2014 میں جب امریکن فورسز افغانستان سے چلی جائیں گی تو طالبان
ِافغانستان مستحکم ہوں گے ، ان کے استحکام او رپڑوس سے ہمارے یہاں کے اس
گروہ کا مستحکم ہونا ایک منطقی امرہے ، ایسے میں اگر جلدی سے ان کے ساتھ
مذکرات نہ کئے گئے ، تو سوریاکا’’ سیناریو‘‘اور منظر سامنے آنے کا خدشہ قوی
ترہے ، ایسے میں خانہ جنگی کی صورت برپاکرکے ،خون خرابہ کرکے، اداروں کو
غیر مستحکم بناکر، اقتصاد کو تباہی کے دہانے پر لے جاکر، بجلی ،گیس اور
پیٹرول مہنگا کرکے ،انارکی پھیلاکر حکمرانوں سے کہاجائے گا کہ اسلام کو تم
نہیں سمجھے، یہ امن وسلامتی کا مذہب ہے ،اس کا مہلک ہتھیاروں سے کیا تعلق
ہے ، خمینی صاحب نے بھی تو اسے حرام قرار دیاتھا، اسی لئے تو ایران اور شام
نے ہاتھ کھڑے کئے ،بنابریں آپ بھی ہاتھ اٹھاکر تسلیم ہوجائیں ، ہم آپ کی
حفاظت کے لئے موجود ہیں ،میڈیا او رخودساختہ دانشوروں کے شکار عوام وخواص
ان کی ہاں میں ہاں نہیں ،شاہ سے زیاد ہ شاہ کے وفادار بن جائینگے ،یوں آ پ
کے منھ سے دانت نکال کر پھینکنے کا عمل تمام ہوجائے گا۔
آج کے ان لمحات کی خطائیں صدیوں تک ہمیں سزائیں دیتی رہینگی ، ہماری نسلیں
ہم پر نفریں کریں گی ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان بزبانِ حال نہ کہ بزبانِ قال
اپنے فرزندوں کو پکار رہاہے :نسلی ، فرقہ وارنہ ،خونی ، صوبائی اور جماعتی
تعصبات کے خولوں سے باہر آکر مجھے بچالو، میں تمھارا مادر وطن ہوں، میری
آغوش میں تم سب کو امان ، سلامتی ،خوشحالی اور پیار ہے، مجھے
بچاااااوووؤ۔۔۔بچااااااووووووؤ ۔۔۔بچاااااااوووووووووووؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|