عید الاضحی قریب ہے اور صاحبِ
نصاب مسلمانوں پر قربانی واجب ہے۔ اور یہی سوچتے ہوئے مویشی منڈی کا رُخ
کرنے کا ارداہ کیا، گھر سے لے کر مویشی منڈی کے اندر تک پہنچنے میں کتنی
پریشانیاں، پیچیدگیاں، اور مراحل طے ہوتے ہیں اس کا اندازہ وہی افراد لگا
سکتے ہیں جو اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے مویشی منڈی جاتے ہیں۔ سفر کے
شروعات میں ہی ہمارے وردی پوش بھائیوں کہ جنکی ڈیوٹی اُن افراد کی حفاظت و
دیکھ بھال کے لئے لگائی جاتی ہے جو مویشی منڈی جاتے ہیں مگر میں یہ دیکھ کر
دنگ رہ گیا کہ ہر گاڑی، سوزوکی، شہزور ٹرک کو (چاہے وہ خالی جا رہا ہو یا
جانور سمیت ) روک کر اس سے رقم لی جا رہی ہے، ڈرائیور حضرات اتنے عادی ہو
گئے ہیں کہ وہ دس دس روپے کہ کئی نوٹ الگ الگ کرکے جیبوں میں رکھتے ہیں اور
ہمارے وردی پوش بھائیوں کا یہ عالم ہے کہ وہ دس دس روپئے بخوشی لے کر بغیر
تلاشی کے لوگوں کو جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ یہ عوام الناس کے ساتھ کتنا
بھیانک اور سنگین سلوک ہو رہا ہے کہ بجائے لوگوں کی تلاشی لینے کے
ڈرائیوروں سے پیسے لے کر جو لوگ بھی اُس پر سوار ہیں انہیں اندر جانے کی
کھلی چھوٹ دی جا رہی ہے۔ اور پورے راستے میں ایسے کئی مقامات آتے ہیں جہاں
پیسوں کی وصولی کی جاتی ہے۔ خدا خیر کرے اور ہمارے ایمان کو سلامت
رکھے۔کیونکہ جس ملک میں خود کُش حملے کا ہر وقت خطرہ موجود رہتا ہو وہاں پر
اتنی بڑی لاپرواہی کسی بھی طرح زیب نہیں دیتا۔ خیر خدا خدا کر کے منڈی کے
مرکزی دروازے پر پہنچے تو وہاں گھنٹوں گاڑیاں اژدہام کی صورت کھڑی رہیں جب
گیٹ سے گزر ہوا تو پتہ چلا کہ ایک ٹوکن سسٹم بنایا گیا ہے جسے ہر گاڑی کو
اندر جانے سے پہلے رقم کی ادائیگی کرکے ٹوکن لے کر جانا ہے۔ گاڑی مالکان
اور اُن کے ساتھ سفر کرنے والے خریدار کے لئے یہ بات کافی مضحکہ خیز تھی کہ
ٹوکن ہی لینا تھا تو اور جلدی جلدی اس پر عمل کیا جاتا نہ کہ گھنٹوں گاڑیوں
کا ہجوم لگا کر سب کر پریشان کرکے وہ ٹوکن دیا جا رہا ہے۔ یعنی کہ خریدار
منڈی پہنچنے سے پہلے ہی اپنی جان کا آدھا حصہ ہلکان کر دیتا ہے۔ وہاں
پہنچتے ہی پانی کی پیاس نے ستایا ، پانی تو مل گیا مگر جب پینے کے پانی کا
راز افشاں ہوا تو سب لوگ مشینی پانی (مِنرل واٹر) کی طرف راغب ہوئے کیونکہ
وہاں جگہ جگہ بڑے گڑھے بنا کراس میں پلاسٹک کی پیوند کاری کرکے ٹینکروں کے
ذریعے پانی کا ذخیرہ کر دیا گیا ہے مگر یہ کیا! وہی پانی جانوروں کو بھی
پلایا جا رہا ہے اور وہی پانی وہاں پر قائم ہوٹلوں میں خریداروں کو بھی
پلایا جا رہا ہے۔ اب ایسا پانی کون پینا پسند کرے گا کہ جسے دیکھ کر ہی قے
کی صورت بن جائے تو پینے کے بعد تو بندہ یقینا ہسپتال پہنچ سکتا ہے۔ یہ
ناقص انتظام کا سہرا صرف اور صرف وہاں کی مخصوص انتظامیہ کے سَر جاتا ہے۔
سب سے بڑی خرابی کا اندازہ تب ہواکہ خریدار منڈی تو پہنچ جاتا ہے مگر اس کی
واپسی کا سفر انتہائی تکلیف دہ ہے، اگر آپ نے جانور خرید لیا تب تو لازماً
آپ جانور کے لئے کرایے پر گاڑی حاصل کریں گے اور آپ بھی اُس جانور کے وسیلے
سے بآسانی اپنے گھر تک آ سکیں گے اور اگر آپ جانور کی خریداری کے سلسلے میں
ناکام ہوئے اور آپ نے واپسی کے سفر کا ارادہ کیا تو آپ پر آپ کی اپنی زندگی
ہی بھاری بھرکم ہو جائے گی کیونکہ واپسی کے لئے کوئی انتظام نہیں ہے۔ کئی
کلو میٹر دور پیدل چل کر جب آپ سڑک کنارے پہنچیں گے تو وہاں بھی آپ کو گھر
تک پہنچانے کے لئے سوائے رکشہ کے کوئی اور سواری دستیاب نہیں ہوتی۔ یہ کئی
کلو میٹر طویل راستہ طے کرتے کرتے آپ کی طبیعت غیر ہو جائے گی اور اگر خدا
نخواستہ اس سفر میں آپ کی طبیعت اچانک خراب ہو جائے تب بھی آپ کو ہسپتال
پہنچانے کے لئے کسی قسم کا کوئی انتظام دیکھنے میں نہیں آتا۔ ہر طرف نفسا
نفسی کا عالم نظر آتا ہے وہاں کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ بس اتنا
سمجھ لیں کہ آپ اور آپ کے ساتھ جانے والے تمام احباب آپ ہی کی ذمہ داریوں
میں ہونگے اور بس!
قربانی حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام
کی سنت ہے۔ آزمائشوں اور امتحانات سے لبریز اُسوۂ ابراہیمی میں قربانی سب
سے کڑی آزمائش ہے کہ راہِ خدا میں اپنے پیارے لختِ جگر کو قربان کر دیا
جائے۔ ابراہیم علیہ السلام نے دیکھے جانے والے خواب کو سچا کر دکھایا ،
اپنے لختِ جگر کو قربان کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام پر سب سے زیادہ سخت
اور غالباً آخری آزمائش تھی جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کوہِ استقلال
ثابت ہوئے اور عملی طور پر ثابت کر دکھا یا کہ میری موت و حیات اور زندگی
کا سارا سرمایہ صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے۔اس امتحان سے پہلے حضرت ابراہیم
علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ کی محبت میں گھر سے بے گھر، والدین کی جدائی، قوم
کی مخالفت، اور بالآخر آتشِ نمرود میں ڈالنا، بڑھاپے میں اولاد کی طلب،
حضڑت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کے بعد والدہ سمیت گھر سے بے گھر کرنا
اور دیگر پے در پے امتھانات سے گزرنا پڑا۔ خدائے بزرگ و برتر نے حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل کو اتنا پسند فرمایا کہ بعد کی ساری نسل
انسانیت کو اس عملِ خیر کی اتباع میں قربانی کرنے کا حکم فرمایا۔ رسولِ
کریم ﷺ سے صحابۂ کرام ؓ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اﷲ ﷺ ! قربانی کی اصل
حقیقت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تمہارے والد ابراہیم کی سُنت ہے۔
صحابہ کرام نے عرض کیا کہ پھر ہمارے لیئے اس میں اجر و ثواب ہے؟ ارشاد
فرمایا کہ جانور کے ہر بال کے عوض میں ایک نیکی نامۂ اعمال میں لکھی جائے
گی۔ آنحضرت ﷺ کا ہمیشہ سے قربانی کرنے کا معمول رہا ہے۔ آپ کا عمل تلامِ
اُمت کے لئے مشعلِ راہ ہے اور روشنی کا مینارہ بھی۔
لوگوں میں مہنگے جانور خرید کر لانے والے اور اپنے فربہ بکروں اور سانڈ
جیسے بیلوں کی گھر کے باہر کئی دنوں تک ہار پھول سے سجا کر جانور کی نمائش
کرنے والے حضرات کے پاس آپ کسی مصیبت زدہ اور دل، گردے، ٹی پی یا کینسر
جیسی مہلک بیماری میں مبتلاء غریب مسلمنا کو لیکر جائیں اور امدا د کی
درخواست کریں تو ان کی جیب سے پانچ سو روپئے سے زیادہ کی رقم نہیں نکل پائے
گی۔ حالانکہ وہ اپنی مالی استطاعت کے مطابق چاہیں تو وہ خود اس غریب کے
علاج و آپریشن کا پورا خرچ اٹھا سکتے ہیں لیکن امدا د کی خبر ان کے رشتہ
داروں، دوستوں اور حتیٰ کہ پڑوسیوں تک کو بھی نہ ہوگی۔ ناہی کوئی واہ واہ
ہوگی لہٰذا وہ کیوں ایسی امداد کرکے گھاٹے کا سودا کریں۔ جس میں روپئے بھی
خرچ ہوں اور شہرت بھی نہ ملے ۔
یاد رکھیئے! ایسا کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ آپ جتنا مہنگا جانور خرید کر
قربانی کریں گے اتنا ہی اﷲ کے یہاں قبول ہوگا بلکہ اگر اخلاصِ نیت نہیں ہے
تو ہرگز قربانی قبول نہیں ہوگی۔ کیونکہ ارشادِ خدا وندی ہے کہ : ’’ ہم تک
تمہاری قربانی کا خون اور گوشت نہیں پہنچتا بلکہ ہم تقویٰ دیکھتے
ہیں‘‘مہنگا جانور خرید کر اس کے گلے پر چھری پھرانا تو آسان ہے مگر اپنے
نفس، خواہشات ، انا اور تبکر کو قربان کرنا بے حد مشکل ہے، حالانکہ یہی اصل
تقویٰ ہے۔ لہٰذا قربانی کا جانور خریدنے سے پہلے اپنی نیت و اخلاص کو ضرور
اچھی طرح ٹوٹولیں ۔ قربانی سنتِ ابراہیمی ہے اس لئے ضروری ہے کہ وہی جذبۂ
ابراہیمی اور تڑپ بھی آپ میں موجود ہو۔ اﷲ نے اپنے خلیل کی یاد بھی قیامت
تک کے لئے اس لئے محفوظ کر دیا ہے کہ دنیا اس کی دوسری کوئی مثال پیش کرنے
سے قاصر ہے۔ |