مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کا خاندان

جب برصغیر پاک و ہند میں صلیبی انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں داخل ہو کر ایک سازش کے ذریعے مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کو ختم کرکے ناجائز طور پر قبضہ کر لیا تو اس قبضہ کے خلاف سلفی العقیدہ وہابیوں نے انگریزوں کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر دیا ۔ ایسی صورت حال میں مسلمانوں میں سے جہادی جذبے کو ختم کرنے کے لیے صلیبیوں کو ایک ایسے ایجنٹ کی ضرورت تھی جو صلیبیوں کی حمایت اور مسلمانوں کے عقائد میں بگاڑ پید ا کرکے حکومت برطانیہ کے خلاف کی جانے والی جہادی تگ و تازکو روکنے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ اس مقصد کے لیے صلیبی انگریزوں کی نظر کرم ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں مقیم ایک شاطر اور مخبوط الحواس شخص مرزا غلام احمد قادیانی پر ٹھہری۔ جس کا تذکرہ کرتے ہوئے معروف ادیب اور خطیب آغا شورش کاشمیری اپنی کتاب ’’تحریک ختم نبوت‘‘ میں رقم طراز ہیں کہ
’’انگلستان کی حکومت نے ہندوستان میں برطانوی عمال کی ان یادداشتوں کا جائزہ لینے اور صورتحال کا بلاواسطہ مطالعہ کرنے کے لیے 1869ء کے شروع میں برٹش پارلیمنٹ کے ممبروں، بعض انگلستانی اخبارات کے ایڈیٹروں اور چرچ آف انگلینڈ کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہندوستان بھیجا۔ وفد کا مقصد یہ تھا کہ وہ پتا چلائے کہ ہندوستانی عوام میں وفاداری کیونکر پیدا کی جا سکتی ہے اور مسلمانوں کے جذبہ جہاد کو سلب کرکے انھیں کس طرح رام کیا جا سکتا ہے۔ اس وفد نے واپس جا کر دو رپورٹیں مرتب کیں جن ارکان نے The Arrival of British Empire in India (ہندوستان میں انگریزوں کی آمد ) کے عنوان سے رپورٹ لکھی انھوں نے لکھا:
’’ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت اپنے روحانی رہنماؤں کی اندھا دھند پیروکار ہے۔ اگر اس وقت ہمیں کوئی ایسا آدمی مل جائے جو اپاسٹالک پرافٹApostolic Prophet(حواری نبی) ہونے کا دعویٰ کرے تو اس شخص کی نبوت کو حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھا کر برطانوی مفادات کے لیے مفید کام لیا جا سکتا ہے۔‘‘(تلخیصات)

مرزا غلام احمد ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ (پنجاب) کی کچہری میں ایک معمولی تنخواہ پر (1864ء تا1868ء ) ملازم تھا۔ آپ نے ملازمت کے دوران سیالکوٹ کے پادری مسٹر بٹلر ایم اے سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ آپ کے پاس عموماًآتا اور دونوں اندرون خانہ بات چیت کرتے ۔ بٹلر نے وطن جانے سے پہلے آپ سے تخلیہ میں کئی ایک طویل ملاقاتیں کیں ۔ پھر اپنے ہم وطن ڈپٹی کمشنر کے ہاں گیا ۔ اس سے کچھ کہا اور انگلستان چلا گیا۔ ادھر مرزا صاحب استعفیٰ دے کر قادیان آ گئے۔ اس کے تھوڑا عرصہ بعد مذکورہ وفد ہندوستان پہنچا اور لوٹ کر محولہ رپورٹیں مرتب کیں۔ ان رپورٹوں کے فوراً بعد ہی مرزا صاحب نے اپنا سلسلہ شروع کر دیا۔ برطانوی ہند کے سنٹرل انٹیلی جنس کی روایت کے مطابق ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ نے چار اشخاص کو انٹرویو کے لیے طلب کیا ، ان میں سے مرزا صاحب نبوت کے لیے نامزد کیے گئے۔‘‘
(تحریک ختم نبوت ص 23,22 مؤلفہ آغاشورش کاشمیری)

آئیے اب آپ کو مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کے خاندان کے بارے میں مرزا صاحب کی زبانی آگاہ کرتا چلوں کہ مرزاکون تھا ؟وراس نے کس طرح اسلامی عقائد میں بگاڑ پیدا کرنے اور امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کی؟۔

بقول مرزا غلام احمد قادیانی وہ 1839ء یا1840ء میں مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر میں چراغ بی بی کے بطن سے پیدا ہوا۔
(بحوالہ کتاب البریہ ص 159، مندرجہ روحانی خزائن جلد 13ص 177)
’’مرزاغلام مرتضیٰ کے پانچ بچے تھے۔ سب سے بڑی بیٹی مراد بی بی اس سے چھوٹا غلام قادر ، اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا جو جلد فوت ہو گیا۔ اس سے چھوٹی ایک لڑکی جو مرزا کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی‘‘
(بحوالہ حیات طیبہ از شیخ عبدالقادر قادیانی ص 9)
مرزا اپنی ابتدائی تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’بچپن کے زمانہ میں میری تعلیم اس طرح پر ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا توا یک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا جنھوں نے قرآن شریف اور چند فارسی کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الٰہی تھا۔ اور جب میری عمر تقریباً دس برس کی ہوئی تو ایک عربی خواں معلم میری تربیت کے واسطے مقرر کیے گئے جن کا نام فضل احمد تھا۔۔۔۔۔میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے اوربعداس کے جب میں سترہ یااٹھارہ سال کا ہواتوایک اورمولوی صاحب سے چندسال پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کا نام گلی علی شاہ تھا اور ان کو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر قادیان میں پڑھانے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور ان میں آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا تعالیٰ نے چاہا حاصل کیا۔‘‘
(کتاب البریہ ، حاشیہ ص 163 مندرجہ روحانی خزائن ج 13ص 179تا181)

محترم قارئین ! مرزا قادیانی نے ابتداء میں آریاؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظرے اور مباحثے کرنے شروع کیے جن کے نتیجے میں مرزا کو عام مسلمانوں میں شہرت ملنا شروع ہوئی۔ ان مناظروں اور مباحثوں کا مقصد اسلام کی حقانیت کو واضح کرنا نہیں تھا بلکہ اس کے برعکس مرزا غلام احمد قادیانی خود رقم طراز ہے کہ
’’ میں اس بات کا اقراری ہوں کہ جب کہ بعض پادریوں اور عیسائی مشنریوں کی تحریر نہایت سخت ہو گئی اور حد اعتدال سے بڑھ گئی اور بالخصوص پرچہ نور افشاں میں جو ایک عیسائی اخبار لدھیانہ سے نکلتا ہے نہایت گندی تحریر یں شائع ہوئیں اور ان مؤلفین نے ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باﷲ ایسے الفاظ استعمال کیے کہ یہ شخص ڈاکو تھا، چور تھا، زناکار تھا اور صدہا پرچوں میں شائع کیا کہ یہ شخص اپنی لڑکی پر بد نیتی سے عاشق تھا اور باایں ہمہ جھوٹا تھا اورلوٹ مار اور خون کرنا اس کاکام تھا۔ تو مجھے ایسی کتابوں اور اخباروں کے پڑھنے سے یہ اندیشہ دل میں پیدا ہوا کہ مبادا مسلمانوں کے دلوں پر جو ایک جوش رکھنے والی قوم ہے ، ان کلمات کا کوئی سخت اشتعال دینے والا اثر پیدا ہو تب میں نے ان کے جوشوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنی صحیح اور پاک نیت سے یہی مناسب سمجھا کہ اس عام جوش کے دبانے کے لیے حکمت عملی یہی ہے کہ ان تحریرات کا کسی قدر سختی سے جواب دیا جائے تاسریع الغضب انسانوں کے جوش فرو ہو جائیں اور ملک میں کوئی بے امنی پیدا نہ ہو۔ تب میں نے بمقابل ایسی کتابوں کے جن میں کمال سختی سے بدزبانی کی گئی تھی چند ایسی کتابیں لکھیں جن میں کسی قدر بالمقابل سختی تھی۔ کیونکہ میرے کانشنش نے قطعی طور پر مجھے فتویٰ دیا کہ اسلام میں جو بہت سے وحشیانہ جوش والے آدمی موجود ہیں ان کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے کے لیے یہ طریق کافی ہوگا۔ کیونکہ عوض معاوضہ کے بعد کوئی گلہ باقی نہیں رہتا۔ سو یہ میری پیش بینی کی تدبیر صحیح نکلی ور ان کتابوں کا یہ اثر ہوا کہ ہزارہا مسلمان جو پادری عماد الدین وغیرہ لوگوں کی تیز اور گندی تحریروں سے اشتعال میں آ چکے تھے یکد فعہ ان کے اشتعال فرو ہو گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو مجھ سے پادریوں کے مقابل پر جو کچھ وقوع میں آیا یہی ہے کہ حکمت عملی سے بعض وحشی مسلمانوں کو خوش کیا گیا اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ میں تمام مسلمانوں سے اول درجہ کا خیر خواہ گورنمنٹ انگریزی کا ہوں کیونکہ مجھے تین باتوں نے خیر خواہی میں اول درجہ کا بنا دیا ہے۔ (1)والد مرحوم کے اثر نے(2) اس گورنمنٹ عالیہ کے احسانوں نے (3) خدا تعالیٰ کے الہام نے۔اب میں اس گورنمنٹ کے زیر سایہ ہرطرح خوش ہوں۔‘‘
(تریاق القلوب ص : ب، ج مندرجہ روحانی خزائن ج 15ص 491,490)

محترم قارئین ! یہ تو تھا مرزا قادیانی کے مناظروں اور عیسائیوں کے خلاف کتابیں لکھنے کا مقصد۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو جب ان مناظروں اور مباحثوں کی وجہ سے شہرت ملی تو مرزا غلام احمد قادیانی نے پچاس جلدوں پر مبنی ایک کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے شائع کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اسمیں اسلام کی حقانیت کے لیے تین سو دلائل پیش کیے جائیں گے اوراسی سلسلہ میں لوگوں سے چندے کی اپیل کی ۔ لوگوں نے بھرپور چندہ دیا۔ چنانچہ مرزا نے 1880ء میں براہین احمدیہ کا پہلا اور دوسرا حصہ 1883 میں تیسرا اور 1884ء میں چوتھا حصہ شائع کیا ۔
(بحوالہ روحانی خزائن ج 1ص 1)

ان کتابوں میں مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو ایک مجدد کے طور پر پیش کیا۔ پھر طویل عرصہ تک لوگوں کے اصرار کے باوجود ’’براہین احمدیہ‘‘ کا کوئی حصہ شائع نہ کیا اور آخرکار1905ء میں براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ شائع کیا جس کے دیباچہ میں مرزا قادیانی نے اپنی دھوکے باز فطرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:
’’ پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا مگر پچاس سے پانچ پر اکتفاء کیاگیا اور چونکہ پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لیے پانچ حصوں سے وہ وعدہ پورا ہو گیا۔‘‘
(براہین احمدیہ، ج 5 ص 7مندرجہ روحانی خزائن ج21 ص 9)

محترم قارئین !مرزا قادیانی نے جس کتاب میں تین سو دلائل اسلام کی حقانیت کے لیے پیش کرنے کا اعلان کیا تھا اس نے ان تین سودلائل میں سے ایک دلیل بھی پیش نہیں کی۔مرزا قادیانی کا بیٹا مرزا بشیراحمد جسے قادیانی حضرات قمر الانبیاء کے لقب سے جانتے ہیں اپنی کتاب ’’سیرۃ المہدی‘‘ میں رقم طراز ہے کہ
’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب مسیح موعود علیہ السلام نے 1879ء میں براہین کے متعلق اعلان شائع فرمایا تواس وقت آپ ’’براہین احمدیہ ‘‘ تصنیف فرما چکے تھے اور کتاب کا حجم قریباً دو اڑھائی ہزار صفحات تک پہنچ گیا تھا اور اسمیں آپ نے اسلام کی صداقت میں تین سو ایسے زبردست دلائل تحریر کیے تھے کہ جن کے متعلق آپ کا دعویٰ تھا کہ ان سے صداقت اسلام آفتاب کی طرح ظاہر ہو جائے گی اور آپ کاارادہ تھا کہ جب اس کے شائع ہونے کاانتظام ہو تو کتاب کو ساتھ ساتھ اور زیادہ مکمل فرماتے جاویں اوراس کے شروع میں ایک مقدمہ لگائیں اور بعض اور تمہیدی باتیں لکھیں اور ساتھ ساتھ ضروری حواشی زائد کرتے جاویں۔ چنانچہ اب جو براہین احمدیہ کی چار جلدیں شائع شدہ موجود ہیں ان کا مقدمہ اور حواشی وغیرہ سب دوران اشاعت کے زمانہ کے ہیں اوراس میں اصل ابتدائی تصنیفی حصہ بہت ہی تھوڑا آیا ہے۔ یعنی صرف چند صفحات سے زیادہ نہیں۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ تین سو دلائل جو آپ نے لکھے تھے ان میں سے مطبوعہ براہین احمدیہ میں صرف ایک ہی دلیل بیان ہوئی ہے اور وہ بھی نامکمل۔ان چار حصوں کے طبع ہونے کے بعد اگلے حصص کی اشاعت خدائی تصرف کے ماتحت رک گئی اور سنا جاتا ہے کہ بعد میں ابتدائی تصنیف کے مسودے بھی کسی وجہ سے جل کر تلف ہو گئے تھے۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج 1 ص 100-99 ، روایت نمبر123 طبع چہارم)

محترم قارئین! مرزا غلام احمد قادیانی کی پہلی شادی 1852ء یا1853ء میں ہوئی۔پہلی بیوی سے مرزا کے دو بیٹے تھے۔ مرزاقادیانی کابیٹامرزا بشیر احمد اپنی کتاب سیرۃ المہدی میں رقم طراز ہے کہ ’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ بڑی بیوی سے حضرت مسیح موعود کے دو لڑکے پیدا ہوئے ۔ اعنی مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد ، حضرت صاحب ابھی بچہ ہی تھے کہ مرزا سلطان احمد پیدا ہو گئے۔اور ہماری والدہ صاحبہ سے حضرت مسیح موعود کی مندرجہ ذیل اولاد ہوئی: عصمت جو 1886ء میں پیدا ہوئی اور 1891ء میں فوت ہو گئی۔ بشیر احمد اول جو 1887ء میں پیدا ہوا اور 1888ء میں فوت ہو گیا۔حضرت خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد جو 1889ء میں پیدا ہوئے۔ شوکت جو 1891ء میں پیدا ہوئی اور 1892ء میں فوت ہوئی۔ خاکسار مرزا بشیراحمد جو 1893میں پیدا ہوا ۔مرزا شریف احمد جو 1895ء میں پیدا ہوئے ۔ مبارک بیگم جو 1897ء میں پیدا ہوئیں ۔ مبارک احمد جو 1899ء میں پیدا ہوا اور 1907ء میں فوت ہو گیا۔امۃ النصیر جو 1903میں پیدا ہوئی اور 1903ء میں ہی فوت ہو گئی۔ امۃ الحفیظ بیگم جو 1904ء میں پیدا ہوئیں۔ سوائے امۃ الحفیظ بیگم کے جو حضرت صاحب کی وفات کے وقت صرف تین سال کی تھیں باقی سب بچوں کی حضرت صاحب نے اپنی زندگی میں شادی کر دی تھی۔‘‘
(سیرۃ المہدی ج اول ص 47 طبع چہارم روایت نمبر59)

مرزا غلام احمد قادیانی کی دوسری شادی نصرت بیگم کے ساتھ 1884ء میں ہوئی ۔مرزا قادیانی کی دوسری شادی پر تبصرہ کرتے ہوئے مرزا بشیراحمد سیرۃ المہدی میں رقم طراز ہے کہ’’خاکسار کی نانی اماں نے مجھ سے بیان کیا کہ جب تمھارے نانا جان کی اس نہر کے بنوانے پر ڈیوٹی لگی جو قادیاں سے غرب کی طرف دو ڈھائی میل کے فاصلے پر سے گزرتی ہے تواس وقت تمھارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ ان کا کچھ تعارف ہو گیا اور اتفاق سے میں ان دنوں کچھ بیمار ہوئی تو تمھارے تایا نے میرصاحب سے کہا کہ میرے والدصاحب بہت ماہر طبیب ہیں آپ ان سے علاج کروائیں۔چنانچہ تمھارے نانا مجھے ڈولے میں بٹھا کر قادیان لائے۔ جب میں یہاں آئی تو نیچے کی منزل میں تمھارے تایا مجلس لگائے ہوئے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ ان کے آس پاس بیٹھے تھے۔ اور ایک نیچے کوٹھڑی میں تمھارے ابا (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ایک کھڑکی کے پاس بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے اور اوپر کی منزل میں تمھارے دادا صاحب تھے۔ تمھارے دادا نے میری نبض دیکھی اور ایک نسخہ لکھ دیا اور پھر میر صاحب کے ساتھ اپنے دہلی جانے اور وہاں حکیم محمد شریف سے علم طب سیکھنے کا ذکر کرتے رہے۔ اس کے بعد میں جب دوسری دفعہ قادیان آئی تو تمھارے دادا فوت ہو چکے تھے اور ان کی برسی کا دن تھا جو قدیم رسوم کے مطابق منائی جا رہی تھی۔ چنانچہ ہمارے گھر بھی بہت سا کھانا وغیرہ آیا تھا۔ اس دفعہ تمھارے تایا نے میر صاحب سے کہا کہ آپ تتلہ (قادیان کے قریب ایک گاؤں ہے) میں رہتے ہیں جہاں آپ کو تکلیف ہوتی ہو گی ۔ اور وہ گاؤں بھی بدمعاش لوگوں کا گاؤں ہے۔ بہتر ہے کہ آپ یہاں ہمارے مکان میں آجائیں ۔ میں گورداسپور رہتا ہوں اور غلام احمد(یعنی مسیح موعود علیہ السلام) بھی گھر میں بہت کم آتا ہے۔ اس لیے آپ کو پردہ وغیرہ کی تکلیف نہیں ہوگی۔ چنانچہ میر صاحب نے مان لیا اور ہم یہاں آ کر رہنے لگے۔ ان دنوں میں جب بھی تمھارے تایا گورداسپور سے قادیان آتے تھے تو ہمارے لیے پان لایا کرتے تھے اور میں ان کے واسطے کوئی اچھا سا کھانا وغیرہ تیار کر کے بھیجا کرتی تھی۔ ایک دفعہ جو میں نے شامی کباب ان کے لیے تیار کیے اور بھیجنے لگی تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ گورداسپور واپس چلے گئے ہیں ۔ جس پر مجھے خیال آیا کہ کباب تو تیار ہی ہیں ، میں ان کے چھوٹے بھائی کو بجھوا دیتی ہوں۔ چنانچہ میں نے نائن کے ہاتھ تمھارے ابا کو کباب بھجوا دیے اور نائن نے مجھے آ کر کہا کہ وہ بڑے شکرگزار ہوئے تھے اور انھوں نے بڑی خوشی سے کباب کھائے اوراس دن انھوں نے اپنے گھر سے آیا ہوا کھانا نہیں کھایا۔ اس کے بعد میں ہر دوسرے تیسرے دن ان کو کچھ کھانا بنا کر بھیج دیا کرتی تھی اور وہ بڑی خوشی سے کھاتے تھے۔ لیکن جب اس بات کی اطلاع تمھاری تائی کو ہوئی تو انھوں نے بہت برا منایا کہ میں ان کوکیوں کھانا بھیجتی ہوں۔ کیونکہ وہ اس زمانے میں تمھارے ابا کے سخت مخالف تھیں اور چونکہ گھر کا سارا انتظام ان کے ہاتھ میں تھا ۔ ہر بات میں انھیں تکلیف پہنچاتی تھیں۔ مگر تمھارے ابا صبر کے ساتھ ہر بات کو برداشت کرتے تھے۔ ان دنوں میں گو میر صاحب کا زیادہ تعلق تمھارے تایا سے تھا مگر وہ کبھی کبھی گھر میں آ کر کہتے تھے کہ مرزا غلام قادر کا چھوٹا بھائی بہت نیک اور متقی آدمی ہے۔ اس کے بعد ہم رخصت پر دہلی گئے اور چونکہ تمھاری اماں اس وقت جوان ہو چکی تھیں ۔ ہمیں ان کی شادی کا فکر پیدا ہوا اور میرصاحب نے ایک خط تمھارے ابا کے نام لکھا کہ مجھے اپنی لڑکی کے واسطے بہت فکر ہے ، دعا کریں خدا کسی نیک آدمی کے ساتھ تعلق کی صورت پیدا کر دے ۔ تمھارے ابانے جواب میں لکھا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں خود شادی کرنا چاہتاہوں اور آپ کو معلوم ہے کہ گومیری پہلی بیوی موجود ہے اوربچے بھی ہیں مگرآج کل میں عملاً مجرد ہی ہوں وغیرہ ذلک۔ میر صاحب نے اس ڈر کی وجہ سے کہ میں اسے برا مانوں گی مجھ سے اس خط کا ذکر نہیں کیااور اس عرصہ میں اور بھی کئی جگہ سے تمھاری اماں کے لیے پیغام آئے لیکن میری کسی جگہ تسلی نہ ہوئی۔ حالانکہ پیغام دینے والوں میں سے بعض اچھے اچھے متمول آدمی بھی تھے۔ اور بہت اصرا ر کے ساتھ درخواست کرتے تھے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ تمھارے نانا کے بہت تعلقات تھے۔ انھوں نے کئی دفعہ تمھارے ابا کے لیے سفارشی خط لکھے اور بہت زور دیا کہ مرزا صاحب بڑے نیک ، شریف اورخاندانی آدمی ہیں مگر میری یہاں بھی تسلی نہ ہوئی کیونکہ ایک تو عمر کا بہت فرق دوسرے ان دنوں دہلی والوں میں پنجابیوں کے خلاف بہت تعصب ہوتاتھا۔ بالآخر ایک دن میر صاحب نے ایک لدھیانہ کے باشندہ کے متعلق کہا کہ اس کی طرف سے بہت اصرار کی درخواست ہے اور ہے بھی وہ اچھا آدمی۔ اسے رشتہ دے دو۔ میں نے اس کی ذات وغیرہ دریافت کی تو مجھے شرح صدر نہ ہوا اور میں نے انکار کیا۔ جس پر میر صاحب نے کچھ ناراض ہو کر کہا کہ لڑکی اٹھارہ سال کی ہو گئی ہے کیاتم ساری عمر اسے یونہی بٹھا چھوڑو گی۔ میں نے جواب دیا کہ ان لوگوں سے تو پھر غلام احمد ہی ہزار درجے اچھا ہے۔میرصاحب نے جھٹ ایک خط نکال کر میرے سامنے رکھ دیا کہ لو پھر مرزا غلام احمد کا بھی خط آیا ہوا ہے۔ جو کچھ ہو ہمیں اب جلد فیصلہ کرنا چاہیے۔ میں نے کہا: اچھا پھر غلام احمد کو لکھ دو۔ چنانچہ تمھارے نانا جان نے اسی وقت قلم دوات لے کر خط لکھ دیا اوراس کے آٹھ دن بعد تمھارے ابا دہلی پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ ایک دو نوکر تھے اور بعض ہندو اور مسلمان ساتھی تھے۔جب ہماری برادری کے لوگوں کو معلوم ہوا تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ ایک بوڑھے شخص کو اور پھر پنجابی کو رشتہ دے دیا ہے۔ اور کئی لوگ ان میں سے اسی ناراضگی میں نکاح میں شامل بھی نہیں ہوئے۔ مگر ہم نے فیصلہ کر لیا ہوا تھا نکاح پڑھا کر رخصتانہ کر دیا ۔ تمھارے ابا اپنے ساتھ کوئی زیور یا کپڑا وغیرہ نہیں لے گئے تھے، بلکہ صرف ڈھائی سو روپیہ نقد لے گئے تھے۔ اس پر بھی برادری والوں نے بہت طعن دیے کہ اچھا نکاح ہوا ہے کہ کوئی زیور ، کپڑا ساتھ نہیں آیا۔ جس کا جواب ہماری طرف سے یہ دیا گیا کہ مرزا صاحب کے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ تعلقات نہیں ہیں اور گھر کی عورتیں ان کے مخالف ہیں اور پھر وہ جلدی میں آئے ہیں۔ اس حالت میں وہ زیور کپڑے کہاں سے بنوا لاتے۔ الغرض برادری کی طرف سے اس قسم کے طعن تشنیع بہت ہوئے اور مزید برآں یہ اتفاق ہوا کہ جب تمھاری اماں قادیان آئیں تو یہاں سے ان کے خط گئے کہ میں سخت گھبرائی ہوئی ہوں اورشاید اس غم اور گھبراہٹ سے مرجاؤں گی۔ چنانچہ ان خطوں کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لوگوں کو اور بھی اعتراض کا موقع مل گیا۔ اور بعض نے کہا کہ اگر آدمی نیک تھا تواس کی نیکی کی وجہ سے لڑکی کی عمر کیوں خراب کی۔ اس پر ہم لوگ بھی کچھ گھبرائے اور رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد میر صاحب قادیان آ کر تمھاری اماں کو لے گئے۔ اور جب وہ دہلی پہنچے تو میں نے اس عورت سے پوچھا جس کو میں نے دلی سے ساتھ بھیجا تھا کہ لڑکی کیسی رہی ؟ اس عورت نے تمھارے ابا کی بہت تعریف کی اور کہا کہ لڑکی یونہی شروع شروع میں اجنبیت کی وجہ سے گھبرا گئی ہوگی ورنہ مرزا صاحب نے تواس کو بہت ہی اچھی طرح سے رکھا ہے اور وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ اور تمہاری اماں نے بھی کہا کہ مجھے انھوں نے بڑے آرام کے ساتھ رکھا، مگر میں یونہی گھبرا گئی تھی۔ اس کے تھوڑے عرصے کے بعد تمہاری اماں پھر قادیان آ گئیں اور پھربہت عرصہ کے بعد واپس ہمارے پاس گئیں‘‘۔
(بحوالہ سیرۃ المہدی ج اول طبع چہارم ص 401-398 روایت نمبر441)

محترم قارئین ! یہ عبارت کسی تبصرہ کی محتاج نہیں کیونکہ ہر باشعور شخص بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مرزا کے گھر والوں کی مخالفت کے باوجود اسے کھانا پہنچانا ، میر صاحب کے دعا کا کہنے کے جواب میں مرزا قادیانی کا خود کو رشتہ کے لیے پیش کرنا اور معقول رشتوں کو ٹھکرا کر ایک بوڑھے شخص (مرزا قادیانی) کو ترجیح دینا کیا معنی رکھتا ہے؟

مرزا قادیانی نے اپنا اور اپنے خاندان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ
’’میں ایسے خاندان سے ہوں جو اس گورنمنٹ کا پکا خیر خواہ ہے۔ میرا والد مرزا غلام مرتضیٰ گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیرخواہ آدمی تھاجن کو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا ذکر مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انھوں نے اپنی طاقت سے بڑھ کر سرکار انگریزی کو مدد دی تھی۔ یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر (جنگ آزادی) کے وقت سرکارانگریزی کی امداد (مسلمانوں کی مخالفت) میں دیئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکاری میں مصروف رہا۔ اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا۔ پھر میں اپنے والد اور بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا۔ تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی کی امداد اور تائید میں اپنی قلم سے کام لیتا ہوں۔ اس سترہ برس کی مدت میں جس قدر میں نے کتابیں تالیف کی ہیں ان سب میں سرکار انگریزی کی اطاعت اور ہمدردی کے لیے لوگوں کو ترغیب دی اور جہاد کی مخالفت کے بارے میں نہایت مؤثر تقریریں لکھیں اور پھرمیں نے قرین مصلحت سمجھ کر اسی امر مخالفت جہاد کو عام ملکوں میں پھیلانے کے لیے عربی اور فارسی میں کتابیں تالیف کیں جن کی چھپوائی اور اشاعت پر ہزار ہا روپیہ خرچ ہوئے۔۔۔۔ جو کچھ میں نے سرکار انگریزی کی امداد اور حفظ امن اور جہادی خیالات کو روکنے کے لیے برابر سترہ برس تک پورے جوش سے پوری استقامت سے کام لیا۔ کیا اس کام کی اور اس خدمت نمایاں کی اور اس مدت دراز کی دوسرے مسلمانوں میں جو میرے مخالف ہیں کوئی نظیر ہے‘‘۔
(کتاب البریہ ص 4 تا8 مندرجہ روحانی خزائن ج 13 ص 4تا8)

مذید ایک اور مقام پرمرزاقادیانی اپنے خاندان کا یوں تذکرہ کرتاہے کہ
’’میراخاندان ایک خاندان ریاست ہے۔اورمیرے بزرگ والیان ملک اورخودمختارامیرتھے جوسکھوں کے وقت میں یکدفعہ تباہ ہوئے اورسرکارانگریزی کااگرچہ سب پراحسان ہے مگرمیرے بزرگوں پرسب سے ذیادہ احسان ہے کہ انہوں نے اس گورنمنٹ کے سایہ دولت میں آکرایک آتشی تنورسے خلاصی پائی اورخطرناک زندگی سے امن میں آگئے۔میراباپ مرزاغلام مرتضیٰ اس نواح میں ایک نیک نام رئیس تھا۔۔۔۔۔۔۔حکام ضلع اورقسمت کبھی کبھی ان کے مکان پر ملاقات کے لیے بھی آتے تھے کیونکہ انگریزی افسروں کی نظرمیں وہ ایک وفاداررئیس تھے۔اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ گورنمنٹ ان کی اس خدمت کو کنھی نہیں بھولے گی کہ انہوں نےؒ57ء ؁ (جنگ آزادی)کے ایک نازک وقت میں اپنی حیثیت سے بڑھ کرپچاس گھوڑے اپنی گرہ سے خرید کراورپچاس سواراپنے عزیزوں اوردوستوں میں سے مہیاکرکے گورنمنٹ کی امداد کے لیے دئیے تھے ۔چنانچہ ان سواروں میں سے کئی عزیزوں نے مردانہ وارلڑائی مفسدوں(مجاہدین اسلام)سے کرکے اپنی جانیں دیں۔اورمیرابھائی مرزاغلام قادرمرحوم تموں کے پتن کی لڑائی میں شریک تھااوربڑی جانفشانی سے مدددی۔غرض اسی طرح میرے ان بزرگوں نے اپنے خون سے اپنے مال سے اپنی جان سے اپنی متواترخدمتوں سے اپنی وفاداری کو گورنمنٹ کی نظرمیں ثابت کیا۔‘‘
(کشف الغظاء صفحہ 4,3مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ180,179)

مرزاقادیانی مذیدرقمطراز ہے کہ
’’یہ تومیرے باپ اورمیرے بھائی کاحال ہے ۔اورچونکہ میری زندگی فقیرانہ اوردرویشانہ طورپرہے اس لیے میں ایسے درویشانہ طرزسے گورنمنٹ انگریزی کی خیرخواہی اورامداد میں مشغول رہاہوں۔قریبََاانیس برس سے ایسی کتابوں کے شائع کرنے میں میں نے اپنا وقت بسرکیاہے جن میں یہ ذکرہے کہ مسلمانوں کوسچے دل سے اس گورنمنٹ کی خدمت کرنی چاہئے۔اوراپنی فرمانبرداری اوروفاداری کودوسری قوموں سے بڑھ کردکھلاناچاہئے اورمیں نے اسی غرض سے بعض کتابیں عربی زبان میں لکھیں اوربعض فارسی زبان میں اوران کودوردورملکوں تک شائع کیا۔اوران سب میں مسلمانوں کو باربارتاکیدکی اورمعقول وجوہ سے ان کواس طرف جھکایاکہ وہ گورنمنٹ کی اطاعت بدل وجان اختیارکریں۔اوریہ کتابیں عرب اوربلادشام اورکابل اوربخارامیں پہنچائی گئیں۔اگرچہ میں سنتاہوں کہ بعض نادان مولویوں نے ان کے دیکھنے سے مجھے کافرقراردیاہے اورمیری تحریروں کواس بات کاایک نتیجہ ٹھہرایاہے کہ گویامجھے سلطنت انگریزی سے ایک اندرونی اورخفیہ تعلق ہے اورگویامیں ان تحریروں کے عوض میں گورنمنٹ سے کوئی انعام پاتا ہوں لیکن مجھے یقینََامعلوم ہواہے کہ بعض دانشمندوں کے دلوں پران تحریروں کانہایت نیک اثرہواہے اورانہوں نے ان وحشیانہ عقائدسے توبہ کی ہے جن میں وہ برخلاف اغراض اس گورنمنٹ کے مبتلاتھے۔‘‘
(کشف الغطاء صفحہ 9مندرجہ روحانی خزائن جلد14صفحہ185)

محترم قارئین!یہ تھا ننگ ناموس وملت آنجہانی مرزاقادیانی اوراس کا خاندان جس نے اسلام اورامت مسلمہ کی جڑوں کوکھوکھلاکرنے میں اہم کردار اداکیا۔
 
عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif
About the Author: عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif Read More Articles by عبیداللہ لطیف Ubaidullah Latif: 111 Articles with 215329 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.