کاش میں بھی بکرا ہوتا

 تنگیِ حالات نے سوچنے پر مجبور کردیا کہ اس سال قربانی نہ کی جائے لیکن مولوی صاحب کے بیان نے قربانی ابراہیم علیہ سلام کی یاد تازہ کی تو دل سے آواز آئی کہ اگر ساراسال تیرے معاملات چل سکتے ہیں تو پھر سنت ابراہیمی کیوں پوری نہیں ہو سکتی ؟بچوں کی عیدی ، کپڑے جوتوں کا بجٹ لے کربکرا خریدنے بکرا منڈی پہنچے جہاں ہزاروں کی تعدادامیں بکروں کو دیکھ کر دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ سارے بکرے خرید کر اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردوں لیکن جیب نے فوری طور پر دل کی خواہش کو رد کرتے ہوئے صدا دی تیرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اس لئے صرف ایک بکرا خریدنے کی کوشش کرو سو ہم نے باقی تمام خواہش کے قبرستان میں ایک اور خواہش دفن کردی اور ایک بکرا خریدنے کی کوشش کرنے میں مصروف ہوگئے ۔مولوں صاحب نے فرمایا تھاکہ قربانی کیلئے صحت مند ،بے داغ اور سب سے خوبصورت جانور کا انتخاب کرنا چاہئے لیکن منڈی میں موجود بکروں میں سب سے زیادہ خوبصورت بکرے کی قیمت 3لاکھ سے اُوپرنکلی جبکہ اپنی جیب میں تو بامشکل 15ہزارتھے سو ہم نے سب سے زیادہ خوبصورت بکرا خریدنے کی تمنا بھی وہیں دفن کردی جہاں سارے بکرے خریدنے کی تھی اوراپنے بجٹ کے مطابق بکرا خریدنے کا ارادہ کرتے ہوئے تلاش شروع کردی ۔تقریبا ساری منڈی گھومنے کے بعد ایک ایسا بکرا ملا جو میرے بجٹ کے قریب تھا لیکن وہ بھی قریب تھا بجٹ میں نہ تھا ۔بکرے کے مالک کو منانے کی بہت کوشش کی وہ بکرا 15ہزار میں دے دے لیکن وہ اپنے بکرے کو 18ہزار سے کم فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوا میرے بہت اسراپر بولا بھائی آپ بکرے سے پوچھ لو اگر وہ 15ہزار میں قربان ہونے پر تیار ہے تو لے جاؤ ورنہ میں آپ کے ساتھ مزید بحث نہیں کرسکتا ۔میں نے بکرے والے سے سوال کیا جب آپ انسان ہوکر میری بات نہیں سمجھ سکتے تو بے چارہ بے زبان بکرا کہاں سے سمجھے گا؟وہ بولا بھائی قربان تو بکرے نے ہی ہونا ہے پھر بھی اُسے بولنے کا کوئی حق نہیں اتنی دیر بکرا یوں بولا جیسے مجھے مخاطب کرکے کہہ رہا ہو۔بکرابولا ابھی عید میں دو دن باقی ہیں اگر میں 15ہزار میں قربان ہونے کی حامی بھر بھی لو تب بھی تیرے لئے مشکل ہوجائے گی کیونکہ تیرے پاس صرف 15ہزار ہیں جومیرے مالک کودینے کے بعد تو کنگال ہوجائے گا جبکہ میرا ایک دن کا معمولی سا چارہ بھی آج کل تین سے چار سو روپے کا ملے گا۔اور تم اپنی حالت دیکھو،تمہیں دیکھ کرتو لگتا ہے کہ یہ 15ہزار بھی کسی سے مانگ کرلائے ہو۔بکرے کی بات سن کراپنی حالت پر غور کیاتو واقع ہی میری حالت بہت بُری ہوچکی تھی جانور منڈی میں دھکے کھاتے تین چار گھنٹے گزر چکے تھے ۔کپڑوں جوتوں پر بے حد گرد جم چکی تھی سر میں ہاتھ پھیرا تو بالوں میں سے گرد دھویں کی مانند اُڑنے لگی ۔میں نے بکرے سے التجاء کی اورکہا بکرا بھائی مجھے سنت ابراہیمی پر عمل کرنا ہے اور میرے پاس صرف 15ہزار ہیں ساری منڈی گھوم لی لیکن تیری قیمت سے کم قیمت والا کوئی بکرا نہیں ملااس لئے تیری بڑی بڑی مہربانی ہوگی اگر تو 15ہزار میں مان جائے،بکرا بولا پہلے تو میں تیرا بھائی نہیں ہوں اور اگر تو اپنے بھائی کی قربانی کرنے کی ہمت رکھتا ہے تو بکرا منڈی کیالینے آیا ہےَ؟جااپنے گھر عید پر اپنے بھائی کی قربانی کرکے سنت ابراہیمی پر عمل کر،میں منڈی میں سب سے کم قیمت بکرا ہوں اس لئے مجھے غریب سمجھ کر قربان کرنا چاہتے ہو؟جاؤ جاؤ اب تم چاہئے 18کی بجائے 20ہزار بھی دو تب بھی میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گا،جاکسی اور بکرے سے بات کر اور ہاں سن آئندہ کسی بکرے کو بھائی مت کہنا ورنہ سارے بکرے میری طرح شریف نہیں ہوتے ۔میں نے بکرے سے معذرت کرتے ہوئے کہا ٹھیک ہے اب بھائی نہیں کہوں گاتم مان جاؤ۔بکرا بولا معاف کیا لیکن تم ایک بار مجھے بھائی کہہ چکے ہو اس لئے میں تمارے ساتھ نہیں جاؤں گا ،تم انسان اپنے بھائیوں کے ساتھ بکروں سے بھی زیادہ بُرا سلوک کرتے ہو،انسانوں کی دنیا میں انسان کی کوئی قیمت نہیں لیکن میں بکرا ہوں اور میری ایک قیمت ہے ،دیکھواپنے آپ کو کیا تم نے کبھی اتنے اخلاق کے ساتھ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بات کی ہے جتنی میرے مالک اور میرے ساتھ کررہے ہو؟بکرے کی حقائق پر مبنی باتیں سن کر میرے اندر سکت نہ رہی کہ میں مزید بکرا تلاش کرتا سو چُپکے سے گھر چلا آیا اور گائے کی اجتمائی قربانی میں حصہ ڈال دیا ۔مولوی صاحب کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے سنت ابراہیمی تو ادا ہوجائے گی لیکن بکرے کی سچی باتیں سن کر پیدا ہونے والا احساس شرمندگی شاید کبھی ختم نہ ہوپائے کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم انسان ایک دوسرے کی قدر نہیں کرتے اور اپنے بھائیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں۔پہلے قربانی عید پر چاروں طرف جانوروں کاخون دیکھ کرہم خوش ہواکرتے تھے کہ مسلمانوں نے بڑی قربانیاں کی ہیں لیکن اب تو سارا سال ہی خون کی ندیاں بہتی رہتی ہیں وہ بھی انسانی خون کی۔ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ جس کیلئے اﷲ تعالیٰ نے کائنات میں بے شمار نعمتیں پیدا فرمائی جس کو ساری مخلوقات سے افضل بناکر دنیا میں بھیجا اور اشرالمخلوقات کا شرف بخشا وہ انسان اپنی اصلیت کو بھول کر جانوروں کی طرح زندگی بسر کررہا ہے یہاں تک کہ اب تو بکرے بھی انسان کو طعنہ دیتے ہیں کہ وہ بکرے ہیں انسان نہیں۔افضل ہونے کے باوجود انسان کی کوئی قدروقیمت نہیں اور بکروں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔بکروں کی قدر وقیمت دیکھ کر دل کرتا ہے کہ کاش میں بھی بکرا ہوتا تو میری بھی کوئی قیمت ہوتی ،قربانی عید پر مجھے بھی کوئی خریدنے آتا ۔انسان کا تو فروخت ہونا بھی ممکن نہیں ،عمرگزری گلے میں برائے فروخت کا کارڈ لٹکائے پھرتے ہیں لیکن بجائے قیمت ملنے کہ لوگ پوچھتے ہیں ،تمہیں خریدنے کا کیا فائدہ پہلے اپنی روٹی پوری نہیں ہورہی تو تمہیں کہاں سے کھلائیں گے؟اس دعا کے ساتھ کہ اﷲ تعالیٰ ہمیں قربانی عید کی خوشیاں حقیقی طور پر منانے کی توفیق و طاقت عطا فرماے ،اہل وطن کو راقم کی طرف سے دل کی گہرائیوں سے عید مبارک
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 565066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.