پدر نالہ مال پل کی طرف سے عید مبارک

میں ضلع باغ کے پدر نالہ مل کا پل اب اپنے آخری مراحل میں ہوں میں چند ہفتوں میں آپ عوام کی خدمت کے قابل ہوجاوں گا ۔میں عرصہ8سال سے مسلسل تکمیل کی منازل طے کر رہا تھامیری بہت خواہش تھی کے میں جلد مکمل ہو کر اپنے لاکھوں لوگوں کی خدمت کرتا جو روزانہ میرے ذریعے سے شہر باغ سے ملتے ہیں مگر بد قسمتی سے میں انتظامیہ اور ٹھیکیدار کے درمیان کمیشن،رشوت اور ناقص مٹیریل جیسے سنگین الزامات کی زد میں رہا ،کبھی میری ٹانگ کو غیر معیاری قرار دیا جاتا تو کبھی میرے سر کو۔ کبھی میرے نام پر لاکھوں کی کرپشن کی جاتی اور کبھی اپنا حصہ مانگا جاتامگر میں بے بسی کی تصویر بنا اپنی عوام کی مشکلات دیکھتا رہا ۔کبھی کبھی عوام نے میری تکمیل کے لئے احتجاج بھی کیا اور میں اکثر اخبارات کی شہ سرخیوں میں بھی چھایا رہاتمام تر مسائل کے باوجود میں اپنی ہمت نہیں ہارامجھ پر دن رات کام کرنے والے مزدور بھی بہت سی پریشانیوں کی دلدل میں پھنسے رہے،کچھ نے تو میری خاطر اپنی جان کی بھی پروا نہیں کی اور جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔جب طوفانی بارش ہوتی میں اپنے سامنے بچوں،عورتوں،بورھوں،کو پیدل اس نالے کو پار کرتے ہوئے دیکھتاتو میں خون کے آنسوں روتا مگر میں کچھ کر نہیں سکتا تھا کیوں کے میری مثال بھی اپنی حکومت اور سیاست دانوں کی طرح تھی جو دیکھنے میں بڑے مضبوط ،بارعب اور با اختیار نظر آتے ہیں لیکن اندر سے وہ کھوکھلے،غلام سوچ کے مالک اور کسی اور سے ڈکٹیشن لینے والے ہوتے ہیں،جسطرح ہمارے حکمرانوں کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اسی طرح میری ڈور بھی کبھی انتطامیہ اور کبھی ٹھیکیدار کے کنٹرول میں ہوتی۔جس کی وجہ سے میں عوام کی مجبوریوں پر سوائے افسوس کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔مگر میں ان لوگوں کے احسان کو بھی کبھی فراموش نہیں کر سکتا جنہوں نے میری ضرورت کو عوام علاقہ کی ضرورت بنا کر مجھے ناگزیر کر دیا،جو دن رات میری خاطر انتظامیہ ٖسے لڑتے رہے ہمیشہ میری خبر لیتے رہے میرے حق میں صدا حق بلند کرنے کے لئے عوام علاقہ کو پکڑ پکڑ کر جمع کرتے رہے،عوام کی غیرت کو بیدار کرنے میں ہر ممکن جدوجہد کی۔میں مشکور ہوں چھتر کے سردار یوسف کا جو بڑھاپے میں ہونے کے باوجود دن رات میرے حق میں علم حق لئے کھڑے رہے،جنہوں نے گرمی سردی،ہر موسم میں میری خبر لی اور میری تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے عوام اور با اختیار لوگوں تک اواز پہنچائی ،سردار یوسف حقیقی معنوں میں میرے محسن ہیں جہاں میرا نام آئے گا وہاں ان کا نام بھی ضرور لیا جائے گاانہوں نے کوئی بھی موقع،کوئی کھلی کچہری نہیں چھوڑی جہاں میری بات نہ کی ہو۔میں شکریہ ادا کرتا ہوں راجہ توصیف احمد کا جو فزکس کے لکچرار ہیں جنہوں نے اپنے قیمتی وقت سے ہمیشہ میرے لئے وقت نکلا،جو نوجوانی کی عمر میں اپنے دل میں میرے لئے خیر کے جذبات رکھتے ہیں انہوں نے بھی ہر ممکن کوشش کی اور سردار یوسف کے شانہ باشانہ میرے لئے سرگرم عمل رہے،عوام کو میرے حق میں بولنے پر مجبور کرتے رہے آج اگر میں کسی قبل ہوا ہوں تو اس میں راجہ توصیف احمد کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔میں اقبال جنجوعہ کے اس کردار کو بھی ہمیشہ یاد رکھوں گا جو ہمیشہ مجھے دیکھ کر اندر ہی اندر جلتے کڑتے رہتے جنہوں نے بہت کم عرصے میں پے در پے کالم لکھ کر عوام کے شعور کو بیدار کیا اور میری اندر کی چھپی حقیقت کو سب کے سامنے بے نقاب کرنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی،مجھے یہ بھی یاد ہے جب اقبال جنجوعہ نے ڈی ،سی کے آفیس میں بیٹھ کر میری اہمیت بتائی اور مجھ پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد کہا جس کے بعد ایک بار پھر مجھ پر سے رکاوٹیں اٹھائی گئیں اور کام شروع کیا گیا۔میں آپ لوگوں کو کیا بتاوں مجھ پر کیا کیا گزری مجھے ناکام کرنے کے لئے کیسی کیسی سزا نہ دی گی مجھ پر ٹنوں کے حساب سے پتھر چڑھائے گئے تاکہ میں کمزور ہو جاوں اور عوام کو مذید کچھ عرصہ اور مشکلات میں دھکیل دوں مگر میں نے تمام تر سختیاں عوام کی خاطر برداشت کیں،مجھے ہر طرح سے ازمایا گیا آٹھ سال میں شہر آباد ہوجاتے ہیں مگر میں تھا کہ پایا تکمیل کو پہنچ نہیں پا رہا تھا،آپ لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق کسی نے زبان سے، کسی نے قلم سے ،کسی نے اپنے غصے سے میرے دکھ کو سرعام کیا ۔میں عوام علاقہ کا بھی احسان مند ہوں جو کسی نہ کسی حوالے سے میرے جمع ہوئے آج میں اس قابل ہوگیا ہوں کے آپ لوگوں کا دیرینہ خواب پورا کر سکوں اب میری زمہ داری میں یہ شامل ہے کہ میں سردی،گرمی،،آندھی،طوفان،تیز بارش برف بھاری ہر طرح کے حالات میں آپ کے لئے خود کو پیش پیش رکھوں اور آپ سب کو باغ شہر اور دوسرے اضلاح کے لوگوں سے ملوا سکوں کچھ دنوں بعد میرا افتتاح ہو گا جس میں تمام سیاسی،سماجی،رہنما جمع ہوں گئے اپنے اپنے نمبر بنانے کے لئے رسمی،اور روایتی رٹے رٹائے جملے بول کر کے ہمیں بہت خوشی ہوئی،یہ ہمارا فرض تھا،یہ عوام کا حق ہے،جو انہیں پہلے ملنا چاہئے تھا مگر سابقہ حکومت نے عوام کی پرواہ نہیں کی،آج ہم نے عوام کو اس کا حق دیا ہے، اپنی اپنی بولیوں میں آپ سب پر اپنا احسان چڑھائیں گئے۔مگر میں اعلیٰ ظریفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دن بھی لب کشائی نہیں کروں گالیکن میری خاموشی خود ایک سوال ہوگی کہ آج اپنی اپنی بولیاں بولنے والو،تمام کریڈیٹ اپنے حصے میں ڈالنے والو آٹھ سال تم کہاں تھے؟جب مجھ کو ناکام بنانے اور مجھے ناقص کہا جا رہا تھا اس وقت تماری ہمدردیاں کہاں تھیں جب میرے سامنے یہ خون خوار نالہ لوگوں کی جان لیتا تھا تب تم سب کہاں تھے،خیر بات سیاسی ہو گئی میں تو اپنی عوام سے مخاطب تھا چلے دیر آیا درست آیا،امید ہے جو مصیبتیں،مشکلات آپ نے جھلیں اس کے بعد میری قدر زیادہ ہو اور آپ میری حفاظت بھی کریں،جاتے جاتے ایک خوبصورت بات بتاتا چلوں کے دنیا بدترین ہوتی جائے گی برے لوگوں کی برائی کی وجہ سے نہیں ،اچھے لوگوں کی خاموشی کی وجہ سے۔میری یہ ایک بات یاد رکھو کہ یہاں پر کوئی سیاست دان آپ کا مخلص نہیں ان کی باتوں پر نہ جانا اپنے حق کو سمجھو اور اسے بلا تفریق لینے کی کوشش کرو،میں تمام عوام علاقہ کو اور تمام لوگوں کو جو مجھ سے مستفید ہوں گے عید کی مبارک کے ساتھ ساتھ اپنی تکمیل کی بھی مبارک دیتا ہوں۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 75062 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.