یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے

اس فانی دنیا میں کسی کو ہمیشہ نہیں رہنا ہے بلکہ اک نہ اک دن ہر کسی کو یہ دنیا چھوڑکر آخرت کا سفر طے کرنا ہے۔ مگر پھر بھی غافل لوگ اس فانی دنیا کی چند روزہ عیش وعشرت کی وجہ سے مسرور، موت کی سختیوں سے غافل اور دنیا کی لذتوں میں بد مست ہیں، اہل و عیال کی چند روزہ انسیت اور دوستوں کی وقتی محبت میں اندھیری قبر کی تنہائیوں کو بھولے بیٹھے ہیں۔ مگر اچانک موت کا فرشتہ آئے گا اور ان کی ساری امیدیں خاک میں مل کر رہ جائیں گی۔

کامیاب شخص وہی ہے جو موت سے پہلے خواب غفلت سے بیدار ہوجائے، گناہوں سے نفرت کرنے لگے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرکے اطاعت الٰہی میں مشغول ہو جائے۔ اﷲ تبا رک و تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین۔

دنیاکی زندگی کا دھوکا: افسوس ہے اس شخص پر جو چند روزہ دنیا کی زندگی کے دھوکے میں پڑکر موت کی سختیوں، قبر کی تاریکیوں، اور حساب و کتاب کو بھول جائے۔
اﷲ تبارک وتعالیٰ دنیا کے دھوکے سے بچنے کے لئے لوگوں کو تنبیہ فرماتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے:
یٰاَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّ وَعْدَاﷲِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمَ الْحَیوٰۃُالدُّنْیَاوَلَایَغُرَّنَّکُمْ باﷲِالْغَرُوْرُ۔
(پ ۲۲، سورۂ فاطر، اٰیت ۵)
ترجمہ: اے لوگو بے شک اﷲ کا وعدہ سچ ہے تو ہرگز تمہیں دھوکہ نہ دے دنیا کی زندگی اور ہرگز تمھیں اﷲ کے حکم پر فریب نہ دے وہ بڑا فریبی(یعنی شیطان)۔
اﷲعز وجل نے اس آیت میں بندوں کو تنبیہ فرمائی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچ ہے، مرنے کے بعد ضرور اٹھنا ہے اور ہر ایک کو اپنے اعمال کا حساب کتاب ا ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں دینا ہے تو ایسا نہ کرنا کہ دنیا کی لذتوں میں مشغول ہوکر آخرت کو بھول جاؤ۔

نقصان میں کون؟: اﷲ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلاَ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ. وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُلٰءِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ.
(پ ۲۸، سورۂ منافقون، آیت ۹)
ترجمہ: اے ایمان والو تمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چیز تمھیں اﷲ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ایسا کرے تو وہی لوگ نقصان میں ہیں۔
اس آیت کریمہ میں اﷲ تبا رک و تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت فرمائی کہ ایسا نہ ہو کہ تم دنیامیں مشغول ہوکردین کو فراموش کردو اور مال کی محبت میں اپنے حال (انجام) کی پرواہ نہ کرو اور اولاد کی خوشی کے لئے آخرت کی راحتوں سے غافل رہو۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ جو ایسا کرے یعنی اس فانی دنیا کے پیچھے آخرت کی باقی رہنے والی نعمتوں کی پرواہ نہ کرے وہی گھاٹے میں ہے۔
اور فرماتا ہے:
اِنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُم فِتْنَۃٌ. وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌ.
(پ ۲۸، سورۂ تغابن، اٰیت ۱۵)
ترجمہ: تمہارے مال اور تمہارے بچے جانچ ہی ہیں. اور اﷲ کے پاس بڑا ثواب ہے۔
محاسبۂ نفس: انسان کو چاہئے کہ ہر وقت اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نفس کے محاسبہ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے:
یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْااتَّقُوْااللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ. واتَّقُوْااللّٰہَ. اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ.
(پ ۲۸، سورۂ حشر، اٰیت ۱۸)
ترجمہ: اے ایمان والو اﷲ سے ڈرو، اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لئے کیا آگے بھیجا، اور اﷲ سے ڈرو، بے شک اﷲ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔
اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان اپنے گذشتہ اعمال کا محاسبہ کرے۔ اسی لئے حضرت امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ’’اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ ہو ، تم خود اپنا محاسبہ کر لواور اس سے پہلے کہ تمہارے اعمال تولے جائیں تم خود اپنے اعمال تول لو‘‘۔
محاسبۂ نفس اور امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ: جب رات ہوتی تو امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے قدموں پر چابک مارتے اور اپنے نفس سے کہتے تو نے آج کیا عمل کیا؟
ذرا غور کیجئے! امیر المونین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ جن کو حیات ہی میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دے دی تھی، وہ اپنے نفس کا کس طرح محاسبہ فرما رہے ہیں۔ اور ہم خطاکار سیہ کار انسانوں کا کیا حال ہے، رات و دن غفلت میں گذار رہے ہیں پھر بھی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے۔
اﷲ تعالیٰ کا خوف: سچا اور کامل مومن وہی ہے جو اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے مغفرت کی امید رکھے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے۔
ارشاد ربانی ہے:
فَلاَ تَخْشَوُاالنَّاسَ وَاخْشَوْنِ.
(پ۶، سورۂ مائدہ، اٰیت ۴۴)
ترجمہ: لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو۔
رسول اکرم نور مجسم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جب کوئی بندہ خوف الٰہی سے کانپتا ہے تو اس کے گناہ اس کے بدن سے ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کو ہلانے سے اس کے پتے جھڑ جاتے ہیں‘‘ ۔ (الترغیب والترہیب)
مخبر صادق صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سات آدمیوں کا ذکر فرما یاکہ جس دن کوئی سایہ نہ ہوگا تو اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے عرش کے سایہ میں جگہ دے گا، ان میں سے ایک وہ آدمی ہے جس نے تنہائی میں اﷲ تعالیٰ کے عذاب اور وعید کو یاد کیا اور اپنے قصور کو یاد کرکے خوف الٰہی سے اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اور خوف الٰہی کی وجہ سے وہ نافرمانی اور گناہوں سے کنارہ کش ہوگیا۔ (صحیح بخاری شریف)
حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ایک وہ آنکھ جو آدھی رات میں اﷲ تعالیٰ کے خوف سے روئی اور دوسری وہ آنکھ جس نے راہ خدا میں نگہبانی کرتے ہوئے رات گذاری‘‘۔ (سنن ترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن ہر آنکھ روئے گی مگر جو آنکھ اﷲ کی حرام کردہ چیزوں سے رک گئی، جو آنکھ راہ خدا میں بیدار ہوئی اور جس آنکھ سے خوف الٰہی کی وجہ سے مکھی کے سر کے برابر آنسو نکلا وہ رونے سے محفوظ رہے گی‘‘۔
(الترغیب و الترہیب)
جن بندوں کے اندرخشیت الٰہی ہے اﷲ تعالیٰ ان کو بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرما رہا ہے:
رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ . ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ۔
(پ:۳۰، سورۂ بینہ، اٰیت۸)
ترجمہ: اﷲ ان سے راضی اور وہ اس سے (اﷲ تعالیٰ سے) یہ اس کے لئے جو اپنے رب سے ڈرے۔
اور ارشاد فرماتا ہے:
سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشیٰ.
(پ:۳۰، سورۂ اعلیٰ، اٰیت۱۰)
ترجمہ: عنقریب نصیحت مانے گا (وہ) جو ڈرتا ہے۔
نفس کے ساتھ جہاد:نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے
افضل الجہاد جہاد النفس (بیھقی)
نفس کے ساتھ جہاد بہترین جہاد ہے۔
صحابۂ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیھم اجمعین جب جہاد سے واپس آتے تو کہتے ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ آئے ہیں۔
صحابۂ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے نفس، شیطان اور خواہشات سے جہاد کو کفار کے ساتھ جہاد کرنے سے چند وجہوں سے اکبر اور عظیم کہا۔ ایک تو یہ کہ نفس کے ساتھ جہاد ہمیشہ جاری رہتا ہے اور کفار کے ساتھ کبھی کبھی ہوتا ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ کفار کے ساتھ جہاد میں غازی اپنے دشمن کو سامنے دیکھتا رہتا ہے مگر شیطان نظر نہیں آتا ہے اور دکھائی دینے والے دشمن کے مقابلے چھپ کر وار کرنے والے دشمن سے لڑائی زیادہ سخت ہوتی ہے، تیسری وجہ یہ ہے کہ کافر کے ساتھ غازی کی ہمدردیاں بالکل نہیں ہوتیں اور شیطان کے ساتھ جہاد کرنے میں نفس ا ور خواہشات شیطان کی حامی قوتوں میں شمار ہوتے ہیں۔
مسلمانو! یہ دنیا چند روزہ ہے اس کی رنگینیوں میں مست ہوکر اپنی آخرت برباد مت کرو، ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو، اس کو نیکیوں پر ابھارتے رہو اور برائیوں سے اس کو روکتے رہو۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ خواہشات سے باز رہنے والوں کوجنت کی بشارت دیتے ہوئے ارشاد فرمارہا ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الھَویٰ فَاِنَّ الجَنَّۃَ ھِیَ الْماَویٰ.
(پ۳۰، سورۂ نازعات، اٰیت ۴۰ و۴۱)
ترجمہ: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی اس کا ٹھکانا ہے۔
اور فرما رہا ہے:
وَلِمَنْ خَافَ مَقاَمَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ. (پ۲۷، سورۂ رحمٰن، اٰیت ۴۶)
ترجمہ: اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔
موت: حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے
اکثرو من ذکر ھازم اللذات (سنن ترمذی)
لذتوں کو مٹانے والی (یعنی موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو۔
اس فرمان میں موت کا کثرت سے ذکر کرنے کو کہا گیا ہے تاکہ انسان موت کویاد کرکے دنیاکی فانی لذتوں سے کنارہ کش ہوجائے اور اﷲ تبارک و تعالیٰ کا مطیع وفرمانبردار دبندہ بن جائے۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم نور مجسم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’موت کو کثرت سے یاد کرو اس سے گناہ ختم ہو جاتے ہیں اور دنیا سے بے رغبتی بڑھتی ہے‘‘۔ (کنز العمال)
ہوشیار کون؟
حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ میں دسوان شخص تھا جو حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھا، ایک انصاری جوان نے پوچھا یارسول اﷲصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم! سب سے زیادہ باعزت اور ہوشیار کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو موت کو بہت یاد کرتا ہے اور اس کے لئے زبردست تیاری کرتا ہے وہ ہوشیار ہے اور ایسے ہی لوگ دنیا اور آخر ت میں باعزت ہوتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)
ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم مسجد کی طرف تشریف لے جارہے تھے کہ آپ نے ایسی جماعت کو دیکھا جو ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے، آپ نے فرمایا: موت کو یاد کرو، رب ذوالجلا ل کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جو میں جانتا ہوں اگر وہ تمھیں معلوم ہو جائے تو کم ہنسو اور زیادہ روؤ۔
(احیاء العلوم)
موت کی سختی:حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ کیا کرتے تھے بعض کافروں نے آپ سے کہا کہ آپ تو فوراً مرے ہوئے کو زندہ کر دیا کرتے ہیں کیا پتا وہ نہ بھی مراہو، کسی پہلے زمانے کے مردہ کو زندہ کر کے دکھاؤ۔ حضرت عیسیٰ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تم خود ہی بتاؤ کہ کس مردہ کو زندہ کروں، انہوں نے کہا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کو زندہ کرکے دکھاؤ۔ حضرت عیسیٰ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی قبر پر تشریف لائے آپ نے دو رکعت نماز پڑھی اور اﷲ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی، وہ خدا کے حکم سے زندہ ہوگئے۔ توحضرت عیسیٰ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیکھا کہ ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے۔ آپ نے فرمایا ! اے سام یہ سفیدی کیسی ہے یہ آپ کے زمانے میں تو نہیں تھی۔ انہوں نے کہا جب میں نے آپ کی آواز سنی تو میں سمجھا کہ شاید قیامت قائم ہوگئی، قیامت کے خوف سے میرے سر اور داڑھی کے بال سفید ہوگئے۔ حضرت عیسیٰ علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرما یا تمہیں انتقال کئے ہوئے کتنے برس ہو گئے؟ وہ بولے کہ پورے چار ہزار برس اور اب تک موت کی تلخی اور نزع کے وقت کی تکلیف اور بے چینی باقی ہے۔
(درۃ الواعظین)
ذرا غور کرو کہ نزع کے وقت انسان کو کتنی تکلیف ہوتی ہے کہ چار ہزارسال کا لمبا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی نزع کے وقت کی تکلیف اور بے چینی نہ گئی۔
فرمان نبوی ہے ’’اگر تمہاری طرح جانور موت کو جان لیتے تو ا ن میں کوئی موٹا جانور کھانے کونہ ملتا‘‘۔ (کنز العمال)
یعنی موت کا جتناعلم انسان کو ہے اگر اتنا علم جانوروں کو ہوتا تو وہ سب موت کے خوف سے سوکھ جاتے اور کوئی موٹا جانور کھانے کو نہ ملتا۔
قبر کے حالات:
اندھیرا گھر اکیلی جان دم گھٹتا دل اکتاتا
خدا کو یاد کر پیارے وہ ساعت آنے والی ہے
انسان کو اس دنیاسے رخصت ہونے کے بعد آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی جس منزل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ قبر ہے۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ کاا رشاد ہے:
اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُ حَتیّٰ زُرْتُمُ المَقَابِرَ۔
(پ:۳۰، سورۂ تکاثر،اٰیت ۱)
ترجمہ: تمہیں غافل رکھا مال کی زیادہ طلبی نے یہاں تک کہ تم نے قبروں کا منھ دیکھ لیا۔
فرمان نبوی ہے کہ جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو قبر کہتی ہے اے انسان! تجھ پر افسوس ہے، تجھے میرے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں ڈالا تھا؟ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میں آزمائشوں اور کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں، جب تو مجھ پر سے آگے پیچھے قدم رکھتا گذرا کرتا تھا تو تجھے کون سا غرور گھیرے ہوتا تھا؟ اگر میت نیک ہوتی ہے تو اس کی طرف سے کوئی جواب دینے والا قبر کو جواب دیتا ہے: کیا تجھے معلوم نہیں ہے یہ شخص نیکیوں کا حکم دیتا اور برائیوں سے روکا کرتا تھا۔ قبر کہتی ہے جب تو میں اس کے لئے سبزے میں تبدیل ہو جاؤنگی، اس کا جسم نورانی بن جائے گا اور اس کی روح اﷲ تعالیٰ کے قرب رحمت میں جائے گی۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
محمد بن صبیح رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب آدمی قبر میں رکھا جاتا ہے اور اسے عذاب دیا جاتا ہے تو اس کے قریبی مردے کہتے ہیں اے اپنے بھائیوں اور ہمسایوں کے بعد دنیا میں رہنے والے! کیا تو نے ہمارے جانے سے کوئی نصیحت حاصل نہ کی اور تیرے سامنے ہمارا مر کر قبروں میں دفن ہوجانا کوئی قابل غور بات نہ تھی؟ تو نے ہماری موت سے ہمارے اعمال ختم ہوتے دیکھے، لیکن تو زندہ رہا اور تجھے عمل کرنے کی مہلت دی گئی مگر تو نے اس مہلت کو غنیمت نہ جانا اور نیک اعما ل نہ کئے۔ اور اس سے زمین کا وہ ٹکڑا کہتا ہے اے ظاہری دنیا پر اترانے والے! تو نے اپنے ان رشتہ داروں سے عبرت کیوں نہ حاصل کی جو دنیاوی نعمتوں پر اترایا کرتے تھے مگر وہ تیرے سامنے میرے پیٹ میں گم ہو گئے۔ ان کی موت انھیں قبروں میں لے آئی اور تو نے انھیں کندھوں پر سوار ہو کراس منزل کی طرف آتے دیکھاکہ جس سے کوئی راہ فرار نہیں ہے۔ (مکاشفۃ القلوب)
مسلمانو! نہ معلوم کس وقت موت کا فرشتہ آجائے اور ہمیں اس فانی دنیا کو الوداع کہنا پڑے۔ ابھی جو مہلت ہے ا س مہلت کو غنیمت جانو ۔ نیک اعمال کرو اور برائیوں سے بچو اور بچاؤ۔
قبر اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ: امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے تھے کہ آنسؤوں سے ان کی داڑھی تر ہو جایا کرتی تھی۔ تو کسی نے کہا (اے امیر المونین) آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جنت و دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کے پاس کیوں روتے ہیں؟
تو آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یقین رکھو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے اگر اس سے نجات مل گئی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی اور اگر اس سے نجات نہ ملی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہو ں گی۔ اور رسول اﷲ صلی ا ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قبر سے بڑھ کر خوفناک منظر کبھی میں نے دیکھا ہی نہیں۔ (مشکوٰۃ)
ذرا سوچو! حضرت عثمان غنی رضی اﷲتعالیٰ عنہ وہ ہیں جن کا ہر لمحہ ذکر الٰہی میں گذرا کرتا تھا۔ اس کے با وجود بھی وہ عذاب قبر کے خوف سے اتنا روتے تھے کہ آنسؤوں سے داڑھی تر ہو جایا کرتی تھی۔ اور ایک ہم ہیں کہ نیکیاں تو درکنار برائیوں سے باز نہیں آتے۔ کاش کہ ہم غور کریں، غفلت کی نیند سے بیدار ہوں، برائیوں سے باز آئیں اور دوسروں کو باز رکھیں اور دنیا کی رنگینیوں کو چھوڑ کر آخرت کی تیاری کریں۔
جہنم: اﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِنَّ جَھَنَّمَ کاَنَتْ مِرْصَاداً. لّلطّٰغِیْنَ مَاٰباً.لّٰبِثِیْنَ فِیْھَا اَحْقَاباً.لَّا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْداً وَلاَ شَرَاباً.اِلاَّ حَمِیْماً وَّ غَسّاَقاً.جَزَاءً وِّفَاقاً.اِنَّھُمْ کَانُوْا لاَ یَرْجُوْنَ حِسَاباً۔
(پ۳۰، سورۂ نبا، اٰیت ۲۱تا۲۵)
ترجمہ: بے شک جہنم تاک میں ہے۔ سرکشوں کاٹھکانہ ۔ اس میں قرنوں رہیں گے۔ اس میں کسی طرح کی ٹھنڈک کا مزہ نہ پائیں گے اور نہ کچھ پینے کو مگر کھولتا پانی اور دوزخیوں کا جلتا پیپ۔ جیسے کو تیسا بدلہ۔ بے شک انہیں حساب کا خوف نہ تھا۔
جہنم ایک تاریک اور تکلیف دہ گھر ہے، جتنی بھی آفتیں، مصیبتیں اور تکلیفیں ہو سکتی ہیں وہ سب اس میں ہیں۔ انسان جس قدر بھی دوزخ کی آفتوں، مصیبتوں اور تکلیفوں کے بارے میں سوچ سکتا ہے وہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے عذاب کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوگا۔
قرآن کریم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے جہنم سے ڈرنے اور اس سے بچنے اور بچانے کا حکم دیا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
فَاتَّقُوْاالنّاَرَ الَّتِیْ وَقُوْدُھاَ النَّاسُ وَالْحِجاَرَۃُ اُعِدَّتْ لِلْکٰفِرِیْنَ۔
(پ ۱، سورۂ بقرۃ، اٰیت ۲۴)
اور فرماتا ہے:
یٰآیُّھاَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَاراً وَقُوْدُھاَ النّاسُ وَالْحِجاَرَۃُ عَلَیْھَا مَلٰءِکَۃٌغِلَاظٌ شِداَدٌ لاَّ یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ ماَ یُؤْمَرُوْنَ.
(پ۲۸، سورۂ تحریم، اٰیت ۶)
ترجمہ: اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں. اس پر سخت کرّے فرشتے مقرر ہیں جو اﷲ کا حکم نہیں ٹالتے اور جو انہیں حکم ہو وہی کرتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ جو بندہ جہنم سے پناہ مانگتا ہے۔ جہنم کہتا ہے اے رب ! یہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو اس کو پناہ دے۔
آتش جہنم کی ہولناکیاں: حضرت عمر ابن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایسے وقت میں تشریف لائے کہ اس وقت میں ا س سے قبل نہیں آتے تھے، حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا جبرئیل! کیا بات ہے؟ میں تم کو متغیر دیکھ رہا ہوں۔ جبرئیل نے عرض کی میں اس وقت آپ کے پاس آیا ہوں جب کہ اﷲ تعالیٰ نے جہنم کو دہکانے کا حکم دیا ہے۔ آپ نے فرمایا جبرئیل مجھے اس آگ یا جہنم کے بارے میں بتاؤ ۔ جبرئیل علیہ السلام نے عرض کی کہ اﷲ تعالیٰ نے جہنم کودہکانے کاحکم دیا اور اس میں ایک ہزار سال تک آگ دہکائی گئی یہاں تک کہ وہ سفید ہو گئی، پھر اسے ہزار سال تک مزید بھڑکانے کا حکم ملا یہاں تک کہ وہ سرخ ہو گئی، پھر اسے حکم خداوندی سے ہزار سال تک اور بھڑکایا گیا یہاں تک کہ وہ بالکل سیاہ ہو گئی۔ اب وہ سیاہ اور تاریک ہے،نہ اس میں چنگاری روشن ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا بھڑکنا ختم ہوتا ہے اور نہ اس کے شعلے بجھتے ہیں۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بناکر مبعوث فرمایا ہے، اگر سوئی کے ناکے کے برابر بھی جہنم کوکھول دیا جائے توتمام اہل زمین فنا ہوجائیں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ، اگر جہنم کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ دنیا والوں پر ظاہر ہوجائے تو زمین کی تمام مخلوق اس کی بد صورتی اور بدبو کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں۔ اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اگر جہنم کی زنجیروں کا ایک حلقہ جس کا اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کیا ہے، دنیا کے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے، تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں اور وہ حلقہ تحت الثریٰ میں جا ٹھرے۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا بس جبرئیل بس۔ اتنا تذکرہ ہی کافی ہے، میرے لئے یہ بات انتہائی پریشان کن ہے۔
راوی کہتے ہیں کہ تب حضور صلی ا ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے جبرئیل کودیکھا، وہ رو رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا جبرئیل! تم کیوں روتے ہو حالانکہ تمہاراتواﷲ تعالیٰ کے یہاں بہت بڑا مقام ہے۔ جبرئیل نے عرض کی میں کیوں نہ رؤوں؟ میں ہی رونے کا زیادہ حقدار ہوں، کیاخبر علم خدا میں میرا اس مقام کے علاوہ کوئی اور مقام ہو، کیا خبر مجھے کہیں ابلیس کی طرح نہ آزمایا جائے وہ بھی تو فرشتوں میں رہتا تھا اور کیا خبر مجھے ہاروت ماروت کی طرح آزمائش میں نہ ڈال دیا جائے۔ تب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور جبرئیل علیہ السلام دونوں اشک بار ہو گئے اور یہ اشک برابر جاری رہے یہاں تک کہ آواز آئی اے جبرئیل! اے محمد! اﷲ تعالیٰ نے تم دونو ں کو اپنی نافرمانی سے محفوظ کرلیا ہے۔ پس اس کے بعد جبرئیل علیہ السلام آسمانوں کی طرف پرواز کرگئے۔
(الترغیب والترہیب ج۴، واخرجہ الطبرانی فی الاوسط)
مسلمانو! جہنم کی ہولناکیوں پر غورکرو اور اس سے پناہ مانگو۔ اور بچو ان کاموں سے جن کا بدلہ جہنم ہے۔ اگر تمہیں آگ کے جلانے پر کوئی شک ہے تو ذرا اپنی انگلی اس دنیاوی آگ میں ڈال کر دیکھو تو تمہیں پتا چل جائے گا۔ جبکہ اس دنیا وی آگ کو جہنم کی آگ سے کوئی نسبت نہیں ، لیکن سوچو تو جب یہ دنیا کی آگ کا ایک کوئلہ اگر تمہارے جسم پر لگ جائے تو تم چیخنے چلانے لگو اور یہ آگ دنیا کے سخت ترین عذاب میں شمار کی جاتی ہے تو اس جہنم کی آگ کا کیا عالم ہوگا جس سے یہ دنیا کی آگ بھی پناہ مانگتی ہے۔ الامان و الحفیظ
جہنم کے عذاب: جہنمیوں کوجہنم میں طرح طرح کے عذابوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان عذابوں پر غور کرو اور عبرت حاصل کرو۔ اور بچو ان کاموں سے جن کاموں کی وجہ سے یہ عذاب دیا جائے گا۔
حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جہنم کو اکثر یاد کیا کرو کیوں کہ اس کی گرمی سخت ، اس کی گہرائی بے حد اور اس میں لوہے کے ہتھوڑے ہیں۔
( سنن ترمذی)
مروی ہے کہ اگر جہنم کا ہتھوڑا جو لوہے سے تیار کیا ہو ا ہے، زمین پر رکھ دیا جائے اور جن و انسان مل کر اسے اٹھا نا چاہیں تو اسے اٹھا نہیں سکیں گے۔
(المستدرک علی الصحیحین)
جہنم میں بہت بڑے بڑے سانپ اور بختی اونٹ کے برابر بچھو ہوں گے جو اگر ایک بار کاٹ لے تو ا س سے درد، جلن اور بے چینی ہزار سال تک رہے۔ جہنمیوں کو تلچھٹ کی طرح بہت کھولتا ہوا پانی پینے کو دیا جائے گا کہ جیسے ہی اس پانی کو منھ کے قریب لے جائیں گے اس کی گرمی اور تیزی سے چہرے کی کھال جل کر گر جائے گی۔ گرم پانی ان کے سروں پر ڈالاجائے گا اور جہنمیوں کے بدن سے نکلی ہوئی پیپ انہیں پلائی جائے گی۔ کانٹے دار تھوہڑ انہیں کھانے کو دیا جائے گا وہ ایسا ہوگا کہ اگر اس کی ایک بوند دنیا میں آجائے تو اس کی جلن اور بدبو سے ساری دنیا کا رہن سہن برباد ہو جائے۔ جہنمی جب تھوہڑ کو کھائیں گے تو ان کے گلے میں پھنس جائے گا۔ اسے اتارنے کے لئے جب وہ پانی مانگیں گے تو انہیں وہی تیل کی جلی ہوئی تلچھٹ کی طرح کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ وہ پانی پیٹ میں جاتے ہی آنتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور آنتیں شوربے کی طرح بہہ کر قدموں کی طرف نکلیں گی۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عذاب جہنم سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین۔
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاہے تماشا نہیں ہے
Tauheed Ahmad Khan
About the Author: Tauheed Ahmad Khan Read More Articles by Tauheed Ahmad Khan: 9 Articles with 9881 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.