پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور
سابق وزیر اعظم محترمہ بینظیربھٹو کئی سالہ خود ساختہ جلا وطنی کے بعد
اٹھارہ اکتوبر 2007 کو کراچی ائرپورٹ پہنچی تو عوام کی ایک بڑی تعداد نے
اُن کا استقبال کیا۔ پیپلز پارٹی کی خصوصی سکیورٹی ”جاں نثاران بھٹو“ کے
حصارمیں بینظیربھٹو کا استقبالی جلوس جب شارع فیصل پر کارساز کے مقام پر
پہنچا تو بینظیربھٹو کے ٹرک کے قریب دو بم دھماکے ہوئے۔ بینظیربھٹو اور
پیپلز پارٹی کی قیادت تو محفوظ رہی لیکن کارکنوں سمیت 177 افراد جاں بحق
جبکہ 600 سے زائد زخمی ہوگئے۔ چھ سال مکمل ہونے پر اس واقعے کی یاد تازہ
کرنے انکے صابزادئے بلاول نے سانحہ کارساز کے مقام پرجاکرسانحہ کارساز کے
شہداءکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے پھول چڑھائے اور ایک تقریر بھی کی۔ اپنی
تقریر میں اُنہوں نے خاص طور پر مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم
کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ شیر کا شکار کرینگے جو اپنا پیٹ
غریبوں کے خون سے بھرتا ہے،خیبر پختونخواہ کی عوام کو سونامی سے بچائیں گے۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان 1947 میں آزاد ہوا لیکن کراچی آج بھی لندن کی
کالونی ہے،ہم فون پر چلنے والی پتنگ کو کاٹ دیں گے۔ اپنی تقریر میں اُنہوں
نے یہ دعوع کیا کہ ہم نے سینہ تان کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا۔ ایک اور
اہم بات بلاول نے اپنی تقریر میں یہ کہی کہ اگلے الیکشن میں آصف زرداری
کمان ہوں گے اور میں تیربنوں گا۔
بلاول جن کی سیاسی پیدایش کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا بلکہ یوں کہہ لیں کہ
ابھی انکے سیاسی دودھ کے دانت بھی نہیں ٹوٹے ہیں، سیاست کی دنیا میں ابھی
بچے ہیں، انکے والد آصف زرداری کی کسی سے لکھائی ہوئی تقریر انہوں نے سانحہ
کارساز کے مقام پرجاکرپڑھ دی۔ آصف زرداری اپنے اس سپوت کوجو تاریخ اور
واقعات سے نابلد ہے لاکھ بھٹو کا نام دیں اور اسکو بلاول زرداری کی جگہ
بلاول بھٹو زرداری کہیں مگرپاکستان کے عوام انکو گیارہ مئی کو بتاچکے ہیں
کہ اب عوام نے بھٹو کو اپنے گھروں سے نکال کر بھٹوکو الوداع کہہ دیا
ہے۔پورئے پانچ سال عوام پیپلز پارٹی کی کمان اور تیر سے زخمی ہوتے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی کمان تو خود آصف زرداری تھے اور اُنکے تیریوسف رضا گیلانی،
راجہ پرویز اشرف اور رحمان ملک جیسے لوگ تھےجو پانچ سال تک اس ملک کو لوٹ
مار کرکے زخمی کرتے رہے۔فروری 2008کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے
بینظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سےمظلوم بنکر اور ایک بار پھر "روٹی، کپڑا اور
مکان" کا نعرہ لگاکر اقتدار حاصل کرلیا۔اگلے پانچ سال میں پاکستان پیپلز
پارٹی نے بری گورنس اورکرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ پانچ سال میں دہشت
گردی، ٹارگیٹ کلنگ، بدترین کرپشن، بری گورننس، طویل لوڈشیڈنگ، غربت کیساتھ
اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا۔ اس تمام عرصے میں ملک کے حالات
خراب ہوتے چلے گے۔ روٹی کپڑااور مکان کا نعرہ لگاکر چوتھی مرتبہ پیپلز
پارٹی نے پاکستان کو کسقدر پیچھے کردیا ہے یہ پورا پاکستان جانتا ہے۔
بلاول زرداری کی تقریر پر تینوں متاثرہ جماعتوں کا ردعمل بھی سامنے آگیا ہے،
مسلم لیگ ن نے تو صاف صاف ہری جھنڈی دیکھا دی کہ شیر نے جو کرنا تھا وہ
کرلیا، اب 2018 کا انتظار کرو، جبکہ ایم کیو ایم جو پانچ سال تک پیپلزپارٹی
کی اتحادی رہی ہے اسکا کہنا ہے کہ بلاول کا وہی حال ہے جو پاکستان ریلوئے
اور پی آئی ائے کا ہے جو ہمیشہ لیٹ ہوتے ہیں لہذا بلاول بھی لیٹ ہوگے اور
الیکشن کے موقعہ پر کی جانے والی تقریراب کی ہے، سونامی کی دعوےدارتحریک
انصاف نے بھی بلاول کو بچہ کہکر مخاطب کیا اور بتایا کہ سونامی تو آبھی
چکی۔سانحہ کارساز کے مقام پربلاول نے اپنی تقریر میں جس شیر کو مارنے کی
بات کی ہےاسکی حمایت میں ایک دن پہلے کا آصف زرداری کا بیان ہے جس میں
انہوں نے شیر کی آدم خوری پر اپنے بھرپور حمایت کا نوازشریف کو یقین دلایا
ہے۔ آصف زرداری اور نوازشریف باری باری کھیل رہے ہیں۔ آصف زرداری کی باری
پر نواز شریف بھی یہ ہی سب کچھ کرچکے ہیں جو اب نواز شریف کی باری پر آصف
زرداری کررہے ہیں۔ جہاں تک ایم کیوایم کی پتنگ کاٹنے کی بات ہے تو
ڈوراورمانجھا لیکر آصف زرداری خود نائن زیرو گے تھے اور آجتک فون کی ڈور سے
لندن رابطہ کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کے دورئے حکومت میں ایم کیوایم کی پتنگ
بہت اونچی اڑتی رہی ہےجسکا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی صوبہ سندھ کے گورنر کا
تعلق ایم کیوایم سے ہے، اب اس پتنگ کوکاٹنا پیپلزپارٹی کے بس میں نہیں۔
جہاں تک خیبر پختونخواہ کی عوام کو سونامی سے بچانے کی بات ہے تو
پیپلزپارٹی اور اسکی اتحادی ائے این پی کے پانچ سال کے دورے حکومت میں
لاتعداد بلکہ مسلسل خیبر پختونخواہ میں دہشتگرد موت کی سونامی لاتے رہے۔
تحریک انصاف کےدور میں بھی پورئے صوبے میں اور خاصکر پشاور میں کچھ دن قبل
موت کی سونامی آچکی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بینظیرایک بہادر خاتون تھیں اور دہشتگردی کا نشانہ بنیں مگر
بلاول کا اپنی تقریر میں یہ دعوع کہ ہم نے سینہ تان کر دہشت گردوں کا
مقابلہ کیا ہے، واقعی اس کا توہر وہ پاکستانی گواہ ہے جو اخبار پڑھتا اور
ٹی وی دیکھتا ہے کہ کس بہادری سے اشتہارات کےزریعے پیپلزپارٹی نے انتخابی
مہم چلائی، یہ حقیقت ہے کہ دہشتگردوں نے پیپلزپارٹی کو کھلی دھمکی دی ہوئی
تھی اوراُس پر حملے بھی ہوئے مگر یہ کہنا کہ ہم نے سینہ تان کر دہشت گردوں
کا مقابلہ کیا صرف لفاظی ہے ، کیونکہ اگر ایسا کیا ہوتا تو آج دہشتگرد نہ
ہوتے، ہاں یہ ضرور ہے کہ زرداری اور انکے ٹولے نے ایمانداری کا سینہ تان کر
مقابلہ کیا اورانکی حکومت کے دورمیں کرپشن کا بول بالا ہوا۔ بقول بلاول
اگلے الیکشن میں آصف زرداری کمان ہوں گے اور میں تیربنوں گا تو واقعی کہنا
پڑتا ہے کہ ابھی اس بچے کے پاس معلومات کی بے انتہا کمی ہے ، اُس کو یہ بات
معلوم ہونی چاہیے کہ جس کمان کا وہ تیر بننے کی بات کررہا ہے، وہ اپنی
کرپشن اور بیڈگورنس کی وجہ سے سڑگل چکا ہے۔ آصف زرداری جو کھیل اپنے بیٹے
کے زریعے کھیلنا چاہ رہے وہ لاکھ شاطر سہی مگر لوگ اب ان کو جان چکے ہیں۔
بلاول کا نام بلاول بھٹو زرداری رکھنے یا بلاول پیپلز پارٹی کی کمان کا نیا
تیر بن جائے پیپلز پارٹی کو کوئی فاہدہ نہیں کیونکہ جس طرح پیپلز پارٹی
اپنے اصل منشور کو پارٹی سے نکال چکی ہے اس طرح ہی پاکستانی عوام بھٹو کو
اپنے دماغوں اور گھروں سے نکال چکے ہیں۔ سانحہ کارساز کے مقام پر بم
دھماکوں میں مرنے والے 177 افراد میں سے دوسروں کے علاوہ اکثریت کا تعلق
لیاری کے غریب بلوچ کارکنوں کا تھا، دعا ہے کہ اللہ تعالی ان تمام مرنے
والوں کی ماغفرت کرئے۔ آمین |