جنوری1992ء میں لکھنؤ، بھارت سے ایک کتاب بعنوان ’’واقعۂ
کربلا اور اس کا پس منظر‘‘ شائع ہوئی جس کے مصنف مولانا محمد منظور نعمانی
ؒ کے صاحب زادے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ہیں۔ اور مذکورہ کتاب مولانا
نعمانی ؒہی کے ارشاد کی تعمیل میں تصنیف کی گئی۔ اس کتاب کا انتساب بھی
مولانا منظور احمد نعمانی ؒکے نام کیا گیا اور اس پر افتتاحیہ بھی مولانا
نعمانی ؒکا ہی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد ’’ندوۃالعلماء ، لکھنؤ‘‘ کے اس
وقت کے ’معتمدتعلیم‘ عبداﷲ عباس ندوی نے، ندوے کے ترجمان رسالہ ’’تعمیر
حیات‘‘ کے 10مارچ1992ء کے شمارہ میں کتاب ہٰذا پر ایک تبصرہ لکھا جس میں
سسر نبوت سیدنا ابوسفیان رضی اﷲ عنہ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ساس
محترمہ سیدہ ہند رضی اﷲ عنہا سمیت فتح مکہ کے بعد مشرف بہ اسلام ہونے والے
بنو امیہ کے صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے متعلق اپنے خیالات فاسدہ
اور نظریات غیر معتبرہ کا تحریراً اظہار کیا۔ جب اس بدبودار اور بھر پور از
کثافت تبصرہ پر علماء کرام کی طرف سے سرزنش اور دارو گیر کی گئی تو مبصر نے
بادل نخواستہ دبے الفاظ اور ڈھکے چھپے انداز میں بظاہر اپنے ان گندے خیالات
سے رجوع اور معذرت کا اظہار کیا۔ ’’ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے اداریہ
میں مولانا حبیب الرحمن قاسمی نے بھی بنو امیہ کے صحابہؓ کی توہین سے
بھرپور اس تبصرہ کی مذمت و تردید علمی و تحقیقی انداز اور محبت صحابہؓ کے
سمندر میں ڈوب کر کی تھی۔
’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے ترجمان رسالہ ’’ماہ نامہ لولاک‘‘ کے
اکتوبر2013ء کے شمارہ کے صفحہ 19تا 25پر ساڑھے21سال بعد ’’واقعۂ کربلا اور
اس کا پس منظر۔۔۔کا تجزیہ‘‘ کے عنوان سے عبداﷲ عباس ندوی کا یہی تبصرہ شائع
کر دیاگیا ہے۔ خیال رہے کہ عبداﷲ عباس ندوی کے اس تبصرہ میں بیان کیے گئے
اپنے خیالات فاسدہ سے رجوع و معذرت کے باوجودیہ زہریلا تبصرہ بغیر کسی
حاشیہ اور مندرجات تبصرہ پر کسی قسم کے نقد کے بغیرہی چھاپ دیا گیا ہے۔ یہ
بھی ذہن میں رہے کہ اس متعفن تبصرہ میں اتنا تک تحریر ہے کہ ’’ غزوہ بدر
میں مسلمان فوج کی کامرانی نے جس طبقہ کو سب سے زیادہ برافروختہ کیا۔ اس کے
سربراہ ابوسفیا ن تھے۔ اسی طرح غزوہ احد میں ان کا اور ان کی اہلیہ جگر
خوار حمزہؓ ہندہ کا کردار یہ سب وہ باتیں ہیں جن میں مؤرخین کا کوئی اختلاف
نہیں ہے۔ صحاح کی مستند روایات سے ثابت ہے کہ ہندہ نے بیعت کے الفاظ دہراتے
ہوئے بھی اپنے اندرونی کرب و غم اور غیظ و غضب کا اظہار کیا تھا۔ حضرت
ابوسفیانؓ نے احتجاج کیا تھا کہ اب وہ دن آگیا ہے کہ یہ پسماندہ ہم اشراف
پر فوقیت دئیے جاتے ہیں۔ رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کے
خلاف حضرت علیؓ کو اکسانے کی کوشش بھی ان سے ثابت ہے۔ اسلام کے پورے طور پر
فاتح ہو جانے کے بعد جب مقاومت کی تمام راہیں مسدود ہوگئی تھیں۔ اس عرصہ
مختصر میں اس گروہ کی طر ف سے کسی واضح دشمنی کا ثبوت تاریخ میں نہیں ملتا۔
مگر جس طرح صلیبیوں کے دل میں صلیبی جنگوں میں شکست کا غم و غصہ آج تک
موجود ہے۔ اسی طرح اس گروہ میں بدر کے انتقام کا جذبہ سینہ کے اندر بھڑکتی
ہوئی آگ کی طر ح جوش مارتا رہا۔ حضرت عثمان غنیؓ کی خلافت نے البتہ اسلام
کی طرف سے ان کے عناد کو ختم کیا۔ مگر رسول اﷲﷺ کی ذات سے ان کا دل صاف
نہیں ہوا۔‘‘
ہماری اس تحریر کا مقصد اس زہرآلود تبصرہ پر تبصرہ کرنا نہیں اور نہ ہی ہم
یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس تبصرہ کو قطع و برید اور تحریف کے بعد
’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے ترجمان رسالہ ’’لولاک‘‘ میں کن ’’خاص
مقاصد اور دور رس نتائج کے حصول‘‘ کے لیے چھاپا گیا ہے؟مندرجہ بالا اقتباس
کی آخری سطروں سے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ’بعد از وفات رسول ارتداد
صحابہ‘ کے سبائی عقیدہ کو ملمع کاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ
کی ذات سے ان کا دل صاف نہیں ہوا تھا۔ سبائیت کی بکھیری ہوئی سیاہ و تاریک
روایات سے لی گئی اندھیری و اندھی بکواسات و کفریات کی بناء پر قائم کیے
گئے جو نکات و نظریات اس تبصرہ میں بیان کیے گئے ہیں ہم ان پر فی الحال بحث
نہیں کر رہے کیوں کہ الحمدﷲ وقتاً فوقتاً اور ضرورتاً ہمارے قلم حقیقت رقم
سے تمام صحابہ کرامؓ کا عموماً اور صحابہؓ بنی امیہ کا خصوصاً دفاع ہوتا
رہتا ہے۔ ذالک فضل اﷲ یؤتیہ من یشاء مگر پھر بھی عرض ہے کہ بنی امیہ (زاداﷲ
شرفہ) کے وہ صحابہؓ جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے بشمول سیدنا
ابوسفیانؓ اور سیدہ ہندؓ، وہ تمام کلام ربانی آیت قرآنی و کلا و عداﷲ
الحسنیٰ کی وجہ سے جنتی اور رضی اﷲ عنہم کے قرآنی الفاظ کی رو سے اﷲ رب
العزت کی رضا کے حامل ہیں۔ ان کے ایمان و ایقان پر شک و شبہ کرنا سبائیت
اور کفر ہے کیوں کہ قرآن واضح طور پر ان کے ایمان اور جنتی ہونے کی گواہی
پر دالّ ہے۔ مزید یہ کہ صحیح بخاری، باب قتل حمز ۃ بن عبدالمطلب کے مطابق
حضرت سیدنا وحشیؓ، سیدنا جبیر بن مطعمؓ کے غلام تھے جنہیں آزاد کرنے کے لیے
سیدنا جبیرؓ نے سیدنا حمزہ ؓ کے قتل کی شرط رکھی تھی۔ اسی شرط آزادی کو
پورا کرتے ہوئے سیدنا وحشی ؓ نے احد میں سیدنا حمزہ ؓ کو شہید کیا۔ بعد
ازاں سیدنا وحشیؓ و سیدنا جبیرؓ دونوں مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے
کہ بمطابق چند روایات قبول اسلام کے وقت نبی علیہ السلام سیدنا وحشیؓ سے
شہادت حمزہ کے متعلق گفتگو فرماتے ہیں مگر سیدہ ہندؓ کے قبول اسلام کے وقت
اس پر کوئی کلام نہیں فرماتے۔ شہادت حمزہ میں سیدہ ہندؓ کا کوئی عمل دخل
اور رضاو کردار نہ تھا اور نہ ہی آں موصوفہؓ کے ایماء پر ایسا ہوا۔ اسی لیے
سیدہ ہندؓ کو ’’جگر خوار حمزہ‘‘ جیسے غلیظ اور سبائیت زدہ الفاظ سے یاد
کرنا عداوت و ضلالت اور جہالت و ذلالت پر مبنی ہے۔ فاضل مبصر کی علمیت کا
اندازہ اسی سے کرلیا جائے کہ وہ سیدہ ہندؓ کا نام بھی غلط (ہندہ)لکھتے ہیں۔
اس وقت ملک پاکستان میں عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ اور مرزائیت/قادیانیت کی
بیخ کنی کے لیے خصوصی طور پر جو جماعتیں مصروف عمل و برسر پیکار ہیں ان میں
سے ایک ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ بھی ہے۔ ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘
کا ترجمان رسالہ ’’ماہ نامہ لولاک‘‘، ملتان سے شائع ہوتا ہے۔ ’’لولاک‘‘ کے
مطابق جن حضرات علماء کرامؒ کی یاد میں یہ رسالہ شائع ہوتا ہے ان میں امیر
شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، مولانا خواجہ
خان محمدؒ، مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، مولانا مفتی احمد الرحمنؒ، مولانا
سعید احمد جلالپوریؒ وغیرہ شامل ہیں۔ اس وقت ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘
کے امیر مرکزیہ شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید لدھیانوی ہیں۔ جو اس وقت اسی
منصب پر رونق افروز ہیں جس پر، کبھی یہ تمام حضرات جن کے نام لیے گئے، فائز
تھے۔ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ سے لے کر
خواجہ خان محمدؒ تک یہ طرز عمل اور انداز کس کا تھا جو کہ آج کل’’لولاک‘‘
میں اختیارکیا جا رہا ہے؟ سید عطا ء اﷲ شاہ بخاریؒ سے مولانا خواجہ خان
محمدؒ تک کس نے حکم دیا کہ مرزائیت/قادیانیت کی مذمت و تردید اور بیخ کنی
کا فریضہ پس پشت ڈال کر صحابہ کرامؓ کے ایمان و کردار پر رکیک حملے کیے
جائیں؟ ختم نبوت کی تحریک کے کس قائد و رہبر اور سرخیل کی یہ تعلیم ہے کہ
عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ چھوڑ کر ناموس صحابہؓ پر ہاتھ ڈالا جائے؟یہ کون
سازشی عنا صر ہیں جو کہ ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے پلیٹ فارم سے
تردید مرزائیت/قادیانیت کی آڑ لے کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا
تحفظ کرنے کی بجائے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے محترم سسر و صحابی سیدنا ابو
سفیانؓ اور آپﷺ کی مؤقرہ و معززہ ساس و صحابیہ سیدہ ہندؓ کے ایمان پر معترض
ہو رہے ہیں؟ کون ہیں یہ سبائی آلہ کار جو ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کو
اپنے نصب العین سے غیرمحسوس انداز میں ہٹا نے کی مذموم جسارت کر رہے ہیں؟
کون ہیں وہ مرزائیت/قادیانیت کے بہی خواہ جو کذاب مرزا غلام احمد قادیانی و
ہمنواؤں کی تردید و مذمت چھوڑ کر خاتم النبیین حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم
کی ختم نبوت کے عینی گواہوں کی شخصیت و کردار کو مجروح کر کے نبی علیہ
السلام کی ختم نبوت کی گواہی کو سبوتاژ کرنا چاہ رہے ہیں؟ (ایک روایت کے
مطابق) مسیلمہ کذاب کو واصل جہنم کرنے والے امیرالمؤمنین سیدنا معاویہؓ کے
والدین شریفینؓ کے ایمان و اسلام پر شکوک و شبہات پیداکرنے والے کیسے ختم
نبوت کے داعی و پہرے دار ہو سکتے ہیں؟
’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے سنجیدہ راہ نماؤں خصوصاً شیخ الحدیث
مولانا عبدالمجید لدھیانوی اور مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر سے دست بستہ
گزارش ہے کہ خدا را! عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور تردید مرزائیت/قادیانیت کی
آڑ لے کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ختم نبوت سمیت پوری حیات مبارکہ کے اولین
گواہوں اور قرآن کے اولین مخاطبین کو ہدف تنقید اور طعن تشنیع کانشانہ
بنانے والے سازشیوں اور مرزائی ایجنٹوں کو فی الفور ’’عالمی مجلس تحفظ ختم
نبوت‘‘ سے الگ کیا جائے۔ کیا ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ جن اغراض و
مقاصد کے لیے قائم کی گئی کیا ان میں کوئی شق توہین صحابہؓ کی اشاعت کے
بارے میں بھی ہے؟کیا ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ نبی علیہ السلام کی ختم
نبوت کے عینی گواہوں یعنی صحابہ کرامؓ کے ایمان پر اعتراض کرنے کے لیے چندے
وصول کرتی ہے؟ کیا ’’ماہ نامہ لولاک‘‘ جن حضرات کے زیر سرپرستی شائع ہوتا
ہے وہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ سے منحرف ہو گئے ہیں کہ اب وہ صحابہ کرامؓ پر
انگلیاں اٹھانے کی ناپاک کوشش میں ’’لولاک‘‘ کو ذریعہ بنا رہے ہیں؟ کیا
’’ماہ نامہ لولاک‘‘ کے نگران حضرات کی آنکھوں پر سبائیت کے تاریک پردے آچکے
ہیں کہ ان کو صحابہؓ کے ایمان پر کیے گئے غلیظ تبصروں کی اشاعت کرنے میں
عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ نظر آتا ہے؟ کیا ’’ماہ نامہ لولاک‘‘ کی مجلس منتظمہ
مذکورہ رسالہ میں محض اپنا نام لکھوا کر بری الذمہ ہو چکی ہے کہ رسالہ میں
صحابہ کرامؓ کے ناموس کے منافی جو بھی شائع ہوتا رہے انہیں کوئی پرواہ
نہیں؟ کیا ’’ماہ نامہ لولاک‘‘ کے سرپرست، نگران اور منتظمہ صحابہ کرامؓ کی
شان میں گستاخیوں اور توہین آمیز مضامین و تبصروں کی اشاعت کی سرپرستی،
نگرانی اور انتظام کرتے ہیں؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ رسالہ ہٰذا میں ایک خلاف
اسلام مضمون شائع ہو اور اس کا علم ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے کسی
راہ نما کو نہ ہو؟ یہاں یہ بھی عرض کیے دیتے ہیں کہ آج کل ایک ریت بن گئی
ہے کہ اگر کسی مسجد، مدرسہ، ادارہ، اخبار یا رسالہ وغیرہ کے توسط سے
اگرکوئی شخص کسی قسم کی نا مناسب /خلاف شرع یا خلاف معمول بات کر دے تو اس
ادارہ یا رسالہ وغیرہ کے منتظم /ذمہ دار کا یہ بیان سامنے آتا ہے کہ ’’بھئی
یہ ان کی ذاتی رائے ہے، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ‘‘ یہ طریقہ کار
انتہائی خطرناک اور اسلامی عقائد و نظریات کے لیے زہر قاتل ہے۔ جبکہ کئی
ویب سائٹس اور رسالوں وغیرہ میں بطور نوٹ تحریر ہوتا ہے کہ اس سائٹ یا
رسالہ وغیرہ پر کسی کی جو تحریر یا مواد شائع ہوتا ہے اس میں ذکر کیے گئے
امور یا نکات سے سائٹ یا رسالہ وغیرہ کی انتظامیہ /ادارہ کا متفق ہونا
ضروری نہیں۔ جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کسی رسالہ وغیرہ کے قارئین اس نوٹ پر
توجہ نہیں دیتے بلکہ وہ سائٹ یا رسالہ وغیرہ کے منتظم یا منتظمہ پر اعتماد
کرتے ہوئے سائٹ یا رسالہ وغیرہ کے مواد کو منتظم/منتظمہ کا ہی نظریہ و خیال
سمجھتے ہیں۔ اور اسی سے ان کے عقائد و نظریات میں فساد کا داخلہ شروع ہو
جاتا ہے۔اگر اس طرح کے نوٹ دے کر عہدہ برآ ہوا جا سکتا ہے تو پھر گمراہ
طبقوں یا افراد کو ’’تقریری احادیث‘‘کا رد کرنے کا موقع ہم خود فراہم کر
رہے ہیں۔ پھر تو یہ بات بھی کی جا سکتی ہے کہ اگر کسی صحابیؓ نے نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے کوئی فعل یا کلام کیا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم
کا سکوت اختیار کرنا اس فعل یا کلام کی تائید نہیں بلکہ یہ ان صحابی ؓ کی
’’ذاتی رائے‘‘ ہے۔ﷲ اپنے اس طرز عمل پر تمام حضرات غور فرمائیں اور
انگریزوں سے مستعار لی ہوئی اس روش کو بدلیں۔ بعینہٖ یہی انداز اور روش
’’’’ماہ نامہ لولاک‘‘‘‘ نے بھی اپنائی ہے اور اس تبصرۂ غلیظہ کے ساتھ یہ
نوٹ بھی دیا گیا ہے کہ اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے ساتھ ساتھ ہمارا تمام دینی جماعتوں (بلا
تخصیص بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث)اور ان کے قائدین و عہدے داران اور
کارکنان و بہی خواہوں سے عرض ہے کہ جب بھی ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی
طرف سے آپ کو کسی پروگرام، میٹنگ، جلسہ، جلوس، سیمینار وغیرہ میں دعوت دی
جاتی ہے تو آپ بلا تأمل اس دعوت کو قبول کر لیتے ہیں، کیا بنی امیہ کے
صحابہ کرامؓ خصوصاً سیدنا ابو سفیان، سیدہ ہند رضی اﷲ عنہما کے ایمان کے
متعلق آپ حضرات کا نظریہ و عقیدہ بھی وہی ہے جو کہ ’’ماہ نامہ لولاک‘‘ میں
شائع ہوا ہے؟ کیا آپ تمام لوگ اس مقصد کے لیے ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘
کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی تقویت کا باعث بنتے ہیں کہ وہ آپ کا کندھا
استعمال کرتے ہوئے قوت حاصل کرکے مرزائیت/قادیانیت کی بیخ کنی کے لیے اہل
اسلام سے حاصل کیے گئے فنڈز اور چندوں کو اسلام کے اصل و اصول اور ختم نبوت
کے چشم دید گواہوں کے ایمان پر معترض ہو کر عوام کے قلوب و اذہان میں ایمان
صحابہ کے بارے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سعی لا حاصل کریں؟
یہ سطور محض اس لیے قلم بند کی گئی ہیں کہ ’’ماہ نامہ لولاک‘‘ میں عظمت
صحابہؓ کے منافی 21سال پرانا تبصرہ شائع کرکے عوام کے دلوں میں بنو امیہ کے
صحابہؓ کے ایمان کو مشکوک بنانے کی جو گندی کوشش کی گئی ہے اس کا اثر زائل
ہو سکے۔ اس کے ساتھ ہی ان سطور کا مقصد یہ بھی ہے کہ ’’ماہ نامہ لولاک‘‘ کے
سر پرستوں، نگرانوں اور منتظموں کی یہ گوہر افشانیاں اگر ’’عالمی مجلس تحفظ
ختم نبوت‘‘ کے مرکزی راہ نماؤں کے علم میں نہیں ہیں تو سطور ہٰذا کے ذریعہ
ان تک یہ بات پہنچا دی جائے کہ آپ کا نام اور تحفظ ختم نبوت کا پلیٹ فارم
استعمال کرتے اور تردید مرزائیت/قادیانیت کی آڑ لیتے ہوئے مسلمانوں کے اپنے
خون پسینے کی حلال کمائی میں سے دیے ہوئے چندوں کی آمدن کو صحابہ کرامؓ کے
ایمانوں پر کیے گئے غلیظ تبصروں کی اشاعت پر صرف کیا جا رہا ہے، ﷲ اس قبیح
و غلیظسازش کے سامنے سد سکندری بنتے ہوئے سازشی عناصر کو اپنی صفوں سے نکال
باہر کریں۔ امید واثق ہے کہ ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘ ‘ کے ذمہ داران
خصوصاً شیخ الحدیث مولانا عبدالمجید لدھیانوی اور مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق
سکندر اور عموماً ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کی دعوتوں پر لبیک کہنے
والی تمام دینی جماعتوں کے ذمہ داران بھی اس زہریلے تبصرہ میں صحابۂ بنی
امیہؓ کے ایمان و کردار پر کیے گئے رکیک حملوں کے متعلق اپنا عقیدہ و نظریہ
واضح کریں گے اور ساتھ ہی ان دینی جماعتوں کے ذمہ داروں سے یہ توقع بھی ہے
کہ وہ ’’عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘ کے ترجمان رسالہ ’’ماہ نامہ لولاک‘‘
میں شائع ہونے والے اس معذور و مرجوع تبصرہ پر اپنا مناسب احتجاج شیخ
الحدیث مولانا عبدالمجید لدھیانوی، ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر اور ’’ماہ نامہ
لولاک‘‘ کے سرپرستوں، نگرانوں اور منتظمین تک پہنچائیں گے۔ |