وی ایچ پی کی سنکلپ سبھا کے بعد فرقہ پرستی کی پھر ایک
نئی لہرکی شروعات
ایودھیا میں گزشتہ18اکتوبر کوہونے والی وی ایچ پی کے سنکلپ سبھا وریلی پر
پابندی کے باوجود سنگھ پریوار کی بیشتر تنظیموں نے اس میں حصہ لینے کی کوشش
کی تھی ۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اس مجوزہ سنکلپ سبھا کو روکنے کے لئے گو
کہ ایودھیا کو فوجی چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا تھا، اس کے باوجود بھی بہت
سے سنگھی ایودھیا کے کارسیوک پورم پہونچے اور سنکلپ سبھا کرنے میں کامیاب
رہے۔ اس سنکلپ سبھا کو روکنے کے لئے ریاستی حکومت کی کوششوں کا اندازہ اس
بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتظامیہ کی جانب سے جہاں میڈیا کے نمائندوں تک
کا داخلہ ممنوع تھا وہاں وی ایچ پی کے کارکنان نہ صرف پہونچے بلکہ انہوں نے
رام مندر کی تعمیر کا سنکلپ (عہد) بھی لیا۔ اس سے اگر وی ایچ پی کی دیدہ
دلیری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے تو ہیں ریاستی حکومت کی بے بسی بھی مترشح
ہوتی ہے۔ لیکن یہاں سوال حکومت کی پابندی کے باوجود سنکلپ سبھا کا انعقاد
کرنے یا نہ کرنے کا نہیں ہے ، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس سنکلپ سبھا کی
بظاہر ناکامی کے حوالے سے مغربی یوپی کی طرح اس بار مشرقی یوپی میں فرقہ
پرستی کی لہر پیدا کرکے آئندہ کچھ دنوں میں مشرقی اترپردیش میں کوئی اور
مظفر نگر دہرایا جائے گا؟
یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ 25؍اگست2013کو اسی وی ایچ پی ودیگر سنگھی
تنظیموں نے ایودھیا میں 84کوسی پریکرما کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس پر
بھی حکومت نے اسی طرح پابندی عائدکردی تھی جس طرح اِس سنکلپ سبھا پر عائد
کی تھی۔ اس وقت وی ایچ پی کے پروین توگاڑیا کے سمیت کئی بڑے سنگھی لیڈران
کو گرفتار بھی کیا تھا۔ اس 84کوسی پریکرما مہم کے دوران وی ایچ پی کے
سربراہان نے وزیراعلی اترپردیش سے ملاقات کرکے سماج وادی سے ایودھیامیں رام
مندر کی تعمیر میں مدد کرنے کی گزارش کی تھی ۔ اس کے بعد حکومت کی جانب سے
پریکرما پر عائد پابندی کا سہارا لے کر وی ایچ پی نے پوری ریاست میں فرقہ
وارانہ کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے کے طور پر مظفر نگر،
شاملی ، باغپت ودیگر اضلاع میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات تھے۔ اس وقت وی ایچ
پی کے جن لیڈران کو گرفتار کیا گیا تھا انہوں نے پریکرماکی ناکامی کا
ٹھیکرا حکومت کے سر پھوڑتے ہوئے اسے ہندو مخالف قرار دیا تھااور اسی وقت سے
وہ فرقہ پرستی پھیلانے میں مصروف ہوگئے تھے۔وی ایچ پی کے سربراہ اشوک سنگھل
نے 25اگست 2013کو ہی اعلان کردیا تھا کہ ہم سماج وادی حکومت کے خلاف سڑکوں
پر اتریں گے ۔ اپنے بیان کے مطابق یہ لوگ سڑکوں پر اترے بھی ، حکومت کو
چیلنج بھی کیا اورمظفر نگر واطراف کے اضلاع میں 48سے 50بے قصور مسلمانوں کی
جانیں لے لیں۔
اس بار کے سنکلپ یاترا یا سبھا کے انعقاد کے پیچھے کے مقصاصد بھی اسی
84کوسی پریکرما جیسے ہی ہیں جس کا مقصد ہندو ووٹ بینک کو بی جے پی کے حق
میں ہموار کرنا تھا ۔ہم یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ ہندو ووٹ بینک کو
اپنے حق میں ہمورا کرنے کے لئے فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات بی جے پی کا
آزمودہ طریقۂ کار ہے ۔ گجرات میں مودی کی سرکاری دہشت گردی سے منافع کشید
کرنے کے بعد سنگھ و بی جے پی کے حوصلے بڑھے ہوئے ہیں اوریہ وہی یہی طریقۂ
کار پورے ملک میں دہرانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ مغربی اترپردیش میں اسی
طریقۂ کار کی بناء پر سنگھی اپنے آپ کو فاتح تصور کرتے ہیں جہاں کا سیاسی
رجحان یہ بتاتا ہے کہ بی جے پی پہلے کی بہ نسبت زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ یعنی
کہ فسادات کے رتھ پر سوار ہوکر بی جے پی دہلی پہونچنا چاہتی ہے اور اب اس
رتھ کے مشرقی اترپردیش سے گزرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ بات اس لئے بھی
کہی جاسکتی ہے کہ وی ایچ پی و بی جے پی کی سنکلپ سبھا پر پابندی کے دوران
گورکھپور سے بی جے پی کا ممبر آف پارلیمنٹ یوگی ادتیہ ناتھ کواس کے
دیگر21ساتھیوں کے ساتھ گونڈہ سے گرفتار کیا گیا تھا،جس نے حکومت کو انجام
بھگتنے کی دھمکی دی ہے۔
مظفر نگر ودیگر اضلاع میں جس طرح ستمبر2013میں جاٹ برادری کے لوگوں نے بی
جے پی لیڈران کی قیادت میں جس طرح کی مہاپنچایت کی تھی ، اسی طرح کی
مہاپنچایت گورکھپور کے اس ناہنجار ایم پی نے بھی کرنے کااعلان کیا تھا ،
مگر حکومت کی بروقت پابندی سے یہ مہاپنچایت نہیں ہوسکی تھی۔ گورکھپور
وارانسی ہائی وے کے قریب نوسڑھی میں ہونے والی اس مہاپنچایت میں کئی گاؤں
کے عوامی نمائندوں کو شریک ہونے کے لئے دعوت دی گئی تھی ، مگر حکومت کی
جانب سے لاء اینڈ آرڈر کے پیشِ نظر اس پر روک لگادی گئی تھی ۔(دیکھئے :آئی
بی این خبر، IANS,Sep. 24, 2013)واضح رہے کہ اسی آدتیہ ناتھ نے گزشتہ سال
اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بی جے پی جب تک رام مندر کے معاملے پرخم
ٹھونک کر میدان میں نہیں اترے گی ،یوپیمیں اقتدار میں آنا مشکل ہے۔نیزیہ کہ
یوپی کا معاشرہ ذات میں بٹا ہوا ہے اور رام مندر کے معاملے نے تمام ذاتوں
کو متحد کردیا ہے (دیکھئے: خبر این ڈی ٹی وی ڈاٹ کام،6فروری 2012)
گورکھپور سمیت مشرقی اترپردیش کے دیگر اضلاع مثلاً مہاراج گنج، دیوریا،
کوشی نگر، بلیا، سدھارتھ نگر، بستی ،گونڈہ،امبیڈکر نگر اور فیض آبادغیرہ کے
اضلاع میں آدتیہ ناتھ کی پکڑ مضبوط بتائی جاتی ہے۔ ان اضلاع کے بیشتر شہروں
ودیہاتوں میں آدتیہ ناتھ کی ’ہندو یوا واہنی‘ نامی تنظیم کی شاخیں قائم ہیں
اور اس تنظیم کے ممبران کی حیثیت آدتیہ ناتھ کے ہراول دستے کی ہے ، جو اپنے
سپہ سالار کے ایک اشارے پر سب کچھ کر گزرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ کوشی نگر
ضلع کے غریب مسلمانوں کے ساتھ ہندو یوا واہنی کے ممبران کے سلوک سے وہاں کی
انتظامیہ بھی پریشان ہے ، جنہوں نے حالیہ دنوں میں کچھ گاؤں کے مسلمانوں کو
اس قدر ہراساں کیا کہ وہ گاؤں سے یا تو ہجرت کرنے پر مجبور ہورہے ہیں یا
پھر انہیں ہندودھرم اپنانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ امبیڈکر نگر ضلع کے
ٹانڈہ شہر کے ہندویوا واہنی کے مقامی لیڈر رام بابو گپتا کے قتل کے بعد
ہندویواواہنی کے کارکنوں نے3مارچ2013کو نصف شب میں مسلمانوں کے کئی مکانوں
میں آگ لگادی تھی ،جس میں کئی افراد بری طرح سے جل گئے تھے۔اس کے علاوہ
آدتیہ ناتھ کے ہندو یوا واہنی کے کارندوں کا پورے مشرقی اترپردیش میں فرقہ
وارانہ فسادات برپا کرنے کی ایک گھناؤنی تاریخ ہے۔اس پسِ منظر میں یہ بات
بہ آسانی سمجھی جاسکتی ہے کہ جس سنکلپ سبھا یا ریلی کی قیادت آدتیہ ناتھ
کررہا تھا ، اور جسے اس کے دیگر21ساتھیوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا تھا، اس
کا ردِ عمل کیا ہوگا۔اگر حکومت کی جانب سے اس پر بروقت شکنجہ نہ کسا گیا تو
بعید نہیں کہ مشرقی اترپردیش کے مذکورہ اضلاع میں وہ اپنی طاقت کا مظاہر ہ
کرے اور طاقت کایہ مظاہرہ کسی دوسرے مظفر نگر کی صورت میں ظاہر ہو۔
وی ایچ پی و بی جے پی کی ایودھیا میں سنکلپ ریلی پرپابندی لگاکر گوکہ
ریاستی حکومت نے فرقہ پرستی کو روکنے کی کوشش کی ہے، مگر اس کا کیا جائے کہ
اس طرح کی کوششوں کے ردعمل کے طور پر فرقہ پرست طاقتیں جس گھناؤنے کھیل کی
منصوبہ سازی کرتی ہیں حکومت اس سے پار پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوجاتی
ہے۔مظفر نگر فسادات کی دھول ابھی بیٹھی بھی نہیں ہے کہ سنکلپ ریلی کی
ناکامی نے فرقہ پرست طاقتوں کو فرقہ پرستی کی آگ لگانے کا ایک اورموقع
دیدیا ہے۔ پندرہ سو افراد کی گرفتاری کی ہزیمت اٹھانا وی ایچ پی وبی جے پی
کے لئے مشکل ہے۔ بی جے پی کے اترپردیش کے الیکشن انچارج امیت شاہ کی للکار
اور یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت اب مشرقی اترپردیش میں آگ اور خون کی ہولی
کھیلنے کا اشارہ کردیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ریاستی حکومت مشرقی
اترپردیش سے اٹھنے والے اس زعفرانی طوفان کو روک پانے میں کامیاب ہوگی ؟
آدتیہ ناتھ کی گرفتاری کے خلاف ہندو یوا واہنی نے مشرقی اترپردیش میں حکومت
کے خلاف احتجاج کی دھمکی دی ہے ۔ کیا یہ دھمکی اسی طرح کی نہیں ہے جس طرح
84کوسی پریکرما کے بعددی گئی تھی ؟ اس لحاظ سے یہ بات بڑی ہی ذمہ داری کے
ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی دہلی تک پہونچنے کے لئے اترپردیش کو گجرات
بنارہی ہے ، اور اس میں کہیں نہ کہیں سماج وادی کی خاموش رضامندی شامل ہے
جو بہت ممکن ہے کہ آئندہ بی جے پی وسماج وادی کے اتحاد کی شکل میں ظاہر
ہوجائے۔ دہلی تک پہونچنے کے لئے جس طرح یہ بات مسلم ہے کہ اترپردیش کو
جیتنا ضروری ہے ، اسی طرح یہ بات بھی اب مسلم مانی جانی چاہئے کہ بی جے پی
، وی ایچ پی ودیگر سنگھی تنظیمیں ایک بار پھر فسادات کی منصوبہ سازی کررہی
ہیں اور یہ منصوبہ سازی مظفر نگر ،شاملی وباغپت کے فسادات کے کہیں زیادہ
بھیانک صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے اور اس بار ان کا ہدف مشرقی اترپردیش ہے ،
جہاں 1999سے فرقہ پرستی کی آگ سلگ رہی ہے۔ گورکھناتھ مندر کے پچاری مہنت
اویدھ ناتھ کے زمانے سے جاری فرقہ پرستی کی یہ لہر آدتیہ ناتھ کے دور میں
بہت مضبوط ہوچکی ہے ۔ وہ گورکھناتھ مندر جہاں سے کبھی دھرم وسنسکرتی سرچشمے
پھوٹتے تھے ، اب وہاں سے فرقہ پرستی کا لاوا ابل رہا ہے ۔ یہ لاوا 2014کے
آتے آتے کس قدر شدید ہوگا؟ اس کا اندازہ موجودہ حالات کے تناظر میں لگانا
مشکل نہیں ہے۔ |