پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جمعہ کو کراچی
میں ایک تقریب کے دوران خوب گرجے ہیں، ان کے انگریزی منہ سے گلابی اردو نے
بڑا لطف دیا۔ پہلے کون سا کوئی ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتا ہے جو اب ان
کے خطاب سے مخالفین کے درودیوار ہل کر رہ جائیں گے، البتہ ننھے زرداری نے
عید کے موقع پر لوگوں کو اچھی تفریح دی، ان پر پوری قوم تہہ دل سے ان کی
شکرگزار ہے!ہوسکتا ہے بعض صاحبان مل کر اعلان کردیں کہ آیندہ سے انہیں سید
لکھا اور پڑھاجائے تو کیا آپ انہیں سیدزادے کہنے لگیں گے؟ ویسے دنیا میں سب
سے زیادہ سید پاکستان میں ”پائے“ جاتے ہیں، خاص طور پر ہمارے سندھ میں جو
اینٹ اٹھائیں، اس کے نیچے سے سید نکلے گا یا شاعر! زرداری ایک معزز بلوچ
قبیلہ ہے، بلاول کے والد اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لےے وہ صرف اور
صرف زرداری ہیں، باقی ان کی مرضی۔
بلاول نے اپنے خطاب میں تقریباً ساری ہی سیاسی جماعتوں کو لپیٹا ہے، ان کا
کہنا تھا 2018ءکے انتخابات میں آصف زرداری کمان ہوں گے اور میں ان کا تیر،
انسانوں کا خون پینے والے شیر کا شکار کریں گے، خیبرپختونخوا کے عوام کو
سونامی سے نجات دلائیں گے، لندن سے ٹیلی فون کے ذریعے اڑنے والی پتنگ کاٹ
دیںگے۔ ماشاءاللہ ننھے زرداری کے خیالات تو بڑے ”انقلابی“ ہیں۔ مگر ان سے
ایک غلطی ہوگئی ہے، کہتے ہیں سیاست میں درست وقت پر درست فیصلے کی بڑی
اہمیت ہوتی ہے، سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات زندگی اور موت کا مسئلہ ہوتا
ہے، انتخابات سے قبل اور انتخابی مہم کے دوران کےے گئے فیصلے کسی بھی جماعت
کے مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ بلاول آج مخالفین پر گنڈا سے چلارہے ہیں لیکن
جب تیر چلانے کا وقت تھا وہ لندن اور دبئی میں چھپے بیٹھے تھے۔ پچھلے دنوں
ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات ہوئے اس میں بھی یہ منّے میاں ظاہر
نہیں ہوئے۔ بے چارے پی پی کے امیدوار اس بیوہ کی مانند مہم چلا رہے تھے جس
کا تازہ تازہ شوہر مرا ہو۔ اس وقت ملک میں کہیں بھی انتخابی ماحول نہیں ہے،
پیپلزپارٹی کا کسی بھی حلقے میں شیر، سونامی اور پتنگ سے مقابلہ نہیں ہورہا
ہے، اب منّے میاں پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح بڑھکیں ماررہے ہیں۔ بچے! اگر
شیر کا شکار کرنا تھا، سونامی روکنا تھی اور پتنگ کاٹنا تھی، تو آپ کو اس
کام سے کس نے روکا تھا؟ شکار کرنا تو دور کی بات ہے بزدل شخص تو جنگل میں
بھی داخل نہیں ہوسکتا، جیسے آپ پارٹی اور امیدواروں کو چھوڑکر بھاگ نکلے
تھے، ایسے ہی بزدل شیر اور سونامی کو دیکھ کر دوڑ لگادیتا ہے۔
مزے کی بات دیکھیں، بلاول یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ ابھی قوم کو شیر اور
سونامی سے نجات دلائیں گے بلکہ اب بھی 2018ءکا وعدہ کیا جارہا ہے، ننھے
زرداری! جب آپ نے 5برس بعد ہی شیر کو مارنا ہے تو پھر ابھی سے ہمارے کان
کیوں کھارہے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو ملک وقوم سے کوئی غرض نہیں
ہے بلکہ پیٹ میں یہ مروڑ اقتدار سے محرومی کی وجہ سے پڑرہے ہیں۔ اگر آپ
سمجھتے ہیں کہ واقعتا شیر اور سونامی نے ملک کو برباد کردیا ہے تو پھر اپنے
عشرت کدوں کو چھوڑکر سڑکوں پر کیوں نہیں آتے؟ عوام کو مرنے کے لیے تنہا
چھوڑدیا گیا ہے، منے میاں کو فکر صرف اپنے موروثی اقتدار کی ہے۔ دراصل
پیپلزپارٹی کا خیال تھا، 2013ءکے انتخابات میں عمران خان پنجاب میں ن لیگ
کے ووٹ کاٹیں گے جس سے پی پی کو فائدہ ہوگا، سندھ ویسے بھی بھٹو کے ساتھ
ہے۔ خیبرپختونخوا میں بھی اس کے سابقہ اتحادی جیت جائیں گے، بلوچستان میں
جیتنے والے سرداروں کو ساتھ ملانا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، یوں ایک بار پھر
مرکز میں پی پی کی حکومت بن جائے گی، پہلے کسی اور شخص کو وزیراعظم چنا
جائے گا۔ چندہ ماہ بعد بلاول کو ضمنی انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ میں لاکر
وزارت عظمیٰ سونپ دی جائے گی، بعدازاں ابا حضور بھی دوبارہ صدر پاکستان
منتخب ہوجائیں گے۔ پی پی کے یہ سارے خواب بیچ چوراہے میں چکنا چور ہوگئے۔
زرداری پرانے گھاک ہیں اس لیے وہ تو کسی حد تک یہ صدمہ برداشت کرگئے مگر
لگتا ہے انتخابی نتائج نے بلاول کو نفسیاتی طور پر بہت متاثر کیاہے، اس لےے
وہ بغیرموقع عجیب عجیب باتیں کررہے ہیں۔ جس وقت بلاول مخالفین کو لتاڑ رہے
تھے، اسی روز نوڈیرو میں آصف زرداری نے کارکنان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
پیپلزپارٹی نوازشریف کے ساتھ ہے، حکومت کو کسی صورت نہیں گرنے دیں گے۔
زرداری کا یہ بیان پی پی کی اصل پالیسی ہے، بلاول کا مسئلہ محض اقتدار سے
محرومی ہے۔ اللہ خیر کرے! کہیں بچہ یہ صدمہ دل پر زیادہ نہ لے لے۔
میڈیا اور سیاسی مخالفین بلاول کی گھن گرج سے خاصے لطف اندوز ہوئے ہیں، ایک
نجی ٹی وی نے مزے لے لے کر بتایا ”بلاول کے انتخابی میچ ختم ہونے کے بعد
نیٹ میں چوکے اور چھکے۔ ن لیگ کے رہنما مشاہداللہ خان نے کہا بلاول تو
ویڈیو گیم بچہ ہے۔ ایم کیو ایم نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ”بلاول نے عام
انتخابات کے لیے لکھی تقریر پڑھی۔ تحریک انصاف نے بھی ننھے زرداری کو بچہ
کہہ کر بات ختم کردی۔ مگر صاحبو! ایک بات تو بتائیں! کیا اب ہم پر بلاول
جےسے بچے حکومت کریں گے؟ ملک وقوم کے فیصلے وہ منّا کرے گا، جو ہماری زبان
بول سکتا ہے اور نہ ہمارے ملک میں رہتا ہے۔ اسے تو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا
کہ ڈونگہ بونگہ پاکستان کے کس صوبے میں ہے؟ |