کسی بھی ملک کے باشندوں کا اپنی سرزمین سے محبت کرنا ایک
فطری امر ہے چاہے وہ اس سے کتنا ہی دور بھی کیوں نہ ہولیکن محبت کا تقاضا
ایک طرف لالچ،ہوس انسان کو نہ صرف اپنے ملک سے بلکہ اُنہیں اقدارسے بھی دور
تر دور کررہا ہے ۔آدمی آدم سے منسوب ہے جب نسب نے دانے کا لالچ کیا تو
منسوب کیونکر اس سے بچ سکے ۔میں اپنی قلم کا رخ ان احباب کی طرف کرنا چاہوں
گا جو محض تسکین دولت عیش و عشرت کی زندگی کے حصول کیلئے یورپ میں قیام
پزیرہونے کے خواہاں ہیں ۔یاد رہے کسی بھی قوم کا حُسن اس وقت مانند پڑ جاتا
ہے جب اس قوم کی نوجوان نسل اپنی اقدارثقافت ‘مذہب سے دوری اختیار کرکے
دوسری اقدار کی پیروکار بن جائے اوراس بات کی تاریخ گواہ ہے اور شاید یہی
وجہ ہے کہ آج کا مسلمان مذہب سے دوری کے باعث بادشاہت کے تخت سے دن بدن
نیچے آتا دکھائی دے رہا ہے۔
ہمارے ملک خصوصاًخطہ کشمیر کے بیشتر احباب حصول رزق کے لیے یورپ میں مقیم
ہیں اور اپنی کے اقرباداپنے پیاروں کی کمائی دولت پر اپنا اولین حق سمجھتا
کر ساری زندگی بغیر اپنے جسم کو مشقت دیے گزار دیتے ہیں اور شکر گزار ہیں
ان برطانوی پاؤنڈ اور امریکن ڈالر کے جو علم و ہنر نہ ہونے کے باوجودان کے
عیوب کو چھپائے ہوئے ہیں ۔دو سری طرف وہ لوگ جن کے اقرباء نے حصول دولت
کیلئے یورپ میں سکونت اختیار نہیں کی ۔ماسوائے چند طبقوں کے ساری زندگی دو
وقت کی روٹی کو پورا کرتے کرتے اس دنیا فانی سے اپنا حساب چکتا کرلیتے ہیں
۔حصول رزق حلال عین عبادت ہے لیکن اس کے لیے شرعی تقاضوں کو کچل دینا درست
نہیں ۔موضوع بحث طلب کہ ایک طرف تو انسان اپنے لالچ کو پروان چڑھاتے ہوئے
ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی غرض میں ملک سے دور گوشہ یورپ میں حصول دولت کے
لیے دن رات مشغول ہے تو دوسری طرف شاید وہ اپنے آپ کو اپنے اصل سے دور تک
کرتا جارہا ہے ۔بظاہر چند ہی ایسی فیملیز آپ کو نظرآئیں گیں جو یورپ میں
مقیم ہیں اور ان کے بچے اپنی اصل اور اخلاقیات سے آگاہ ہوں جبکہ باقی
فرنگیو ں کے کلچر کو ہی اپنے اصل کا حق سمجھتے ہیں
ان بچوں کو ہٹلر کا تو پتہ ہو لیکن شاید اپنی نسبت کا کچھ پتہ نہیں یہا ں
یہ بات واضح رہے کہ میں یورپ جانے کی ضد میں ہرگز نہیں بلکہ وہاں ایک عام
آدمی کے جانے بعدرونما ہونے والے اثرات سے خوفزدہ ہوں قائد اعظم محمد علی
جناح نے یورپ کا سفر کیا تو مقصد ہارنے کے بعد وطن کا رخ کیا اور اپنی
اہلیت کی بنا پر ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے اس وقت تقریباًپانچ لاکھ سے
زائد طلباء یورپ میں مقیم ہیں اور اپنے مقصد کیلئے رواں ہیں ۔مقصد اگر خالص
ہو اور ارادے مضبوط ہوں تو وہ انسان کو آسمان کی بلندیوں تک لے جاتا ہے
لیکن اگر مقصد ہی خالص نہ ہو تو اس کا نتیجہ ضرور سامنے آتا ہے چاہیے وہ
مستقبل قریب میں ہو یا دور۔کچھ عرصہ پہلے مجھے یورپ کی ایک رنگین سرزمین پر
جانے کا اتفاق ہوا تو اصل حقیت سے آشنائی ہوئی ۔ہمارے بہت سارے دوست احباب
جو یورپ کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں ۔کچھ دنوں کے لیے جب وطن عزیز کا رخ
کرنے میں تو اپنے آپ کو ایسا مصروف اعلیٰ ظرف ظاہر کریں گے کہ جیسے وہاں کا
وزیر اعظم ان کے ماتحت ہو لیکن حقیقت اپنی جگہ وہ بجا ہیں ۔ان کی مصروفیت
کا یہ عالم ہے کہ میرے اوور سیز پاکستانی بھائیوں کو اپنے ہی گھر میں اپنی
اولادکو دیکھے کئی کئی ہفتے گزر جاتے ہیں کیو نکہ یہ صبح صادق سے پہلے دولت
کے پیچھے نکلتے ہیں تو آدھی رات گئے اپنے گھروں کارخ کرتے ہیں ۔جب لوگ اپنی
نیند کا آخری حصہ کررہے ہوتے ہیں ۔اکثریت ان میں سے ہوٹلوں ‘فیکٹریوں‘ٹیک
وے اور ٹیکسیوں کی زینت بنتے رہتے ہیں لیکن اور کوئی راستہ بھی تو نہیں یہ
بچارے تو اپنا نام تک لکھنے سے معزور ہیں تو کوئی کیونکرانہیں گریٹ برٹن کے
تحت شاہی پر بھٹائے ۔
یہاں میں اپنے مشاہدے میں آنے والی کچھ ایسی فیملیز کا ذکر کرتا چلوں جو
اپنے باپ ، دادا سے یورپ میں مقیم ہیں اور اپنی دولت کی آگ بچاتے بچاتے
اپنے ہی گھر کو آگ لگا بیٹھے ہیں ۔یعنی ان کی اولاد اسلامی روایات کو چھوڑ
کر مغربی روایات پر چل نکلی ہے اور والدین چپ ساندھے انہیں کچھ کہنے سے
معزور ہیں اور اگر ہمت کرکے کچھ کہہ بھی دیں تو وہ انہی کیلئے وبال جان بن
جاتا ہے اور اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں جیل جانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ انہی
خطرات کے پیش نظر اب اکثر فیملز نے اولاد کے ہمراہ وطن عزیز کا رخ کرنا شرو
ع کردیا ہے تاکہ ان کی شادی مشرقی نسل سے کی جائے ۔ اس مقصد کیلئے وطن عزیز
کا ہر دوسرا لڑکا ، لڑکی چاہے پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ یورپ جانے کی غرض سے
اس عظیم مشن کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں ۔ اب شادی تو ہوجاتی ہے اور
والدین کی اصرار پر میاں بیوی کی آپس میں بن نہیں پاتی اور دوسال کے مشکل
اور طویل عرصہ کے بعد مغربی دولہا ، دلہن اپنے مشرقی دولہا ، دلہن کو سرخ
یا گرین پاسپورٹ کے عوض خیر باد کہہ کر پھر سے مغربی اقدار میں گھل مل جاتے
ہیں تو کچھ عرصہ بعد انہیں اپنی اولاد کی طرف سے اپنی پریشانیوں کا سامنا
کرنا پڑتا ہے جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اور یوں یہ سرکل چلتا رہتا ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ہم محض چند رویوں کی خاطر اپنی نئی نسل کو دین،
مذہب اور اقدار و روایات سے دور کرتے جارہے ہیں ۔ ہزاروں قربانیوں کے عوض
ہم اپنے علیحدہ وطن کے حصول میں کامیاب ہوئے تاکہ ایک علیحدہ ریاست میں
نظام محدی کے تحت خدا اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل پیرا ہوکر
زندگی بسر کرسکیں اگر ہم نے پھر سے فرنگیوں کا پیرو کار ہی بننا تھا تو
انہیں پھر برصغیر میں ہی رہنے دیتے ۔ فرنگیوں نے 100سال تک ہم پھر حکومت کی
لاتعداد قربانیوں کے بعد انہیں یہاں سے جانے پر مجبور کیا لیکن درحقیقت وہ
ابھی تک ہم پر قابض ہیں ۔ ہمارا کھانا پینا ، اوڑھنا بچھونا ، رہن سہن ،
رسم و رواج سب انہیں کی مانند ہے ۔ خدا راہ اپنے آپ کو سمجھیں اور اپنے اصل
کو پہچانیں اور اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھ کر خود بھی اس پر عمل پیرا
ہوں اور اپنے بچوں کو بھی زندگی کے اصل مقصد سے آشنا کرائیں تاکہ یہ بچے
ہمیں فرنگیوں کی روحانی غلامی سے آزاد کراسکیں ۔
عمر بھر میں یونہی غلطی کرتا رہا غالب
دھول چہرے پر تھی اور میں آئینہ صاف کرتا رہا |