(اقوام متحدہ کے عالمی دن28 اکتوبر کے موقع پر
خصوصی تحریر)
ارسطو کے بقول انسان ایک معاشرتی حیوان ہے اور انسان کو زندگی بسر کرنے
کیلئے دوسرے انسانوں سے تعلقات قائم کرنے پڑتے ہیں۔ یہ تعلقات اچھے اور برے
دونوں قسموں کے ہوسکتے ہیں۔ انسانوں کے آپسی تعلقات سے محلے قائم ہوئے
محلوں نے ملکر قصبے اور قصبوں کے اشتراک سے شہر اور شہروں سے ضلع قائم ہوئے
ضلعوں سے ڈویژن اور پھر صوبے اور ملک تشکیل پائے۔ ممالک براعظم اور
براعظموں کے اشتراک سے دنیا کے آپسی تعلقات کا قیام عمل میں آیا۔جس طرح
انسانوں کے درمیان امن اور دشمنی کے تعلقات قائم ہوتے ہیں اسی طرح ریاستوں
کے درمیان بھی بھائی چارے اور جنگ کاماحول ہوتا ہے۔
قارئین جس طرح ہم انسانوں نے اپنے محلے یا علاقہ کی تعمیر۔۔ترقی۔۔مسائل کے
حل کیلئے کمیٹی یا یونین تشکیل دیتے ہیں جو ہمارے مسائل کے حل کیلئے دن رات
کام کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی تباہی و بربادی
کودیکھتے ہوئے14 اگست1941 کو امریکہ صدرروز ویلٹ اور برطانیہ کے وزیراعظم
سرونسٹن چرچل کے مابین برطانیوی جنگی جہازپرنس آف ویلز اور امریکی جہاز
اگستاسیں(بلیوفاؤنڈلینڈ،کینڈا) میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں آٹھ نکات پر
اتفاق ہوا۔۔
اسی ملاقات کے نتیجہ میں یکم جنوری1942 کو26 ممالک نے مشترکہ طور پر
ایٹلانٹا منشور کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی منظوری دی۔ پھر 30
اکتوبر 1943 کوماسکو کانفرنس میں قیام امن کی خاطرایک عالمی ادارے کے قیام
پررضامندی کا اظہار کیا گیا۔پھر28نومبرتا یکم دسمبر1943 میں ایران کے
دارالحکومت تہران میں تہران کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس کانفرنس میں امریکہ
کے صدر روز ویلٹ، برطانیہ کے وزیراعظم سرونسٹن چرچل کے علاوہ سویت یونین کے
وزیراعظم مارشل سٹائن نے بھی شمولیت کی، اس کانفرنس میں تینوں سربراہوں نے
اتفاق کیا کہ ہماری اقوام جنگ وامن دونوں حالات میں باہم ملکر کام کریں
گی۔21 اگست1944 کو واشنگٹن ڈی۔سی میں ڈمبارٹن اوکس کانفرنس کا انعقاد
ہوا۔جس میں امریکہ، برطانیہ، چین اور سویت یونین کے سربراہوں نے ایک عالمی
ادارے کے قیام کیلئے ابتدائی تجاویزکا خاکہ پیش کیا۔4تا11 فروری 1945 میں
یالٹا کانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں امریکہ، برطانیہ اور سویت یونین کے
سربراہوں نے اتفاق کیا کہ دوسری عالمی جنگ عظیم کے خاتمہ کیلئے حکمت عملی
بنائی جائے اور جرمنی کو شکست دیکر اس کو تقسیم کردیا جائے۔
آخر کاراپریل1945 میں سان فرانسکوکانفرنس کا انعقاد ہوا، جس میں50 ریاستوں
نے شرکت کی اور اقوام متحدہ کے منشور کے مسودہ کو حتمی منظوری دی اور 26
جون 1945کو مسودہ پر دستخط کرکے منظور کرلیا گیا۔اور 24 اکتوبر 1945 کو
باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی داغ بیل ڈالی گی۔ اور 24 اکتوبر کو ہی ہرسال
یوم اقوام متحدہ منایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کوکاغذات کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں منتقل کرنے کیلئے 1952
میں نیویارک میں اس کا دفترمکمل کیا گیا، اور اکتوبر 1952 میں یہاں پہلا
جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔سیکرٹریٹ کی عمارت کیلئے 14 دسمبر1946
کوامریکہ کے ایک کروڑ پتی اور مشہورصنعتکارجان ڈی راک فیلرنے جزیرہ مین ہٹن
پر18 ایکڑاراضی بطورعطیہ خرید کردی، جس کی مالیت اس وقت35 لاکھ ڈالر تھی۔
وہاں 39منزلہ عمارت تعمیر ہوئی ، جس میں آٹھ ہزار افراد کام کرنے کی گنجائش
ہے۔ اسے دریا مشرق پر شیشے کے گھر کا نام بھی دیا جاتا ہے، جہاں پوری دنیا
کے عالمی معاملات چھن کر سامنے آجاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی سرکاری زبانوں میں عربی۔۔چینی۔۔انگریزی۔۔فرانسیسی، روسی اور
ہسپانوی شامل ہیں، اقوام متحدہ کے پرچم کا رنگ ہلکا نیلا ہے اس کے وسط میں
دو زیتونی شاخوں کے درمیان سفید رنگ میں دنیا کا نقشہ بنا ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے ابتدائی ممبران کی تعداد51 ہے جنہوں نے اس کے مسودہ کی
منظوری دی تھی، مگر اب دنیا کے تمام آزاد اور خود مختارممالک اقوام متحدہ
کے رکن ہے۔ اگر کوئی بھی نئی ریاست وجود میں آتی ہے تو وہ ممبر شیپ کیلئے
درخواست دیتی ہے اور جنرل اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کی منظوری سے رکنیت مل
جاتی ہے۔رکنیت ملنے کے بعد کوئی ممبر استعفیٰ نہیں دے سکتا۔ جبکہ آئین کی
خلاف ورزی پرجنرل اسمبلی عارضی طور پررکنیت معطل کرسکتی ہے، اور دوبارہ
بحال بھی کرسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے معاملات چلانے کیلئے پانچ ادارے ( جنرل اسمبلی،سیکیورٹی
کونسل، معاشی ومعاشرتی کونسل،تولیتی کونسل، عالمی عدالت انصاف اور
سیکرٹریٹ) بھی قائم کیے گے ہیں۔
1:جنرل اسمبلی:
اقوام متحدہ کی پارلیمنٹ کا درجہ جنرل اسمبلی کو حاصل ہے اور تما م رکن
ممالک اس کے ممبر ہوتے ہیں۔ تمام ممبر ممالک پانچ نمائندے جنرل اسمبلی میں
بھیج سکتے ہیں، جو اپنے ممالک کی حکومتوں کی پالیسی اور حکمت عملی کو مد
نظر رکھتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرتے ہیں۔مگر ہر ملک کا جنرل اسمبلی میں صرف
اور صرف ایک ووٹ کا حق حاصل ہوتا ہے۔جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس ستمبرکی
تیسری منگل سے شروع ہوکردسمبر کے وسط تک جاری رہتا ہے۔جنرل اسمبلی اپنا ایک
صدر اور21 نائب صدربھی منتخب کرتی ہے۔ جو معاملات کو چلانے میں مدد کرتے
ہیں، اکثر چھوٹے ممالک کو نمائندگی کا موقع دیا جاتا ہے۔جنرل اسمبلی ہی
اقوام متحد ہ کے اداروں کی رپورٹس وصول اور ان پر تبادلہ خیال بھی کرتی
ہے۔جنرل اسمبلی میں ہی اقوام متحدہ کا سالانہ بجٹ پیش اور منظور کیا جاتا
ہے۔نیز سلامتی کونسل کے غیر مستقل ممبر، اقتصادی کونسل اور تولیتی کونسل کے
ممبران کا انتخاب ،عالمی عدالت انصاف کے ججوں کے انتخاب میں سلامتی کونسل
کی مدد سے کیا جاتاہے۔
2:سلامتی کونسل
اقوام متحدہ کا دوسرا اہم ادارہ سلامتی کونسل ہے، اسے اقوام متحدہ کی عاملہ
بھی کہا جاسکتا ہے، آغاز میں اس کے ارکان کی تعداد 11تھی جن میں 5 مستقل
ممبران (چین ، امریکہ، برطانیہ،روس اور فرانس) اور6 غیر مستقل ممبران شامل
تھے مگر 1965 میں ایک ترمیم کے ذریعے غیر مستقل ممبران کی تعداد 10کردی گئی
، اس طرح ٹوٹل ممبران کی تعداد 15ہوگئی، غیر مستقل ارکان کا انتخاب 2 سال
کیلئے ہوتا ہے۔عام طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس 15 دنوں کے بعد ہوتا ہے،
اور کونسل ہر ماہ اپنانیا صدر منتخب کرتی ہے۔ ہر رکن کا ایک ووٹ کا حق حاصل
ہوتا ہے۔اور کسی بھی فیصلے کیلئے 09 ووٹ درکا ر ہوتے ہیں، جن میں مستقل
ارکان کے 5ووٹ لازمی شامل ہوتے ہیں۔سلامتی کونسل کا اصل مقصد عالمی امن کا
قیام ہوتا ہے، سلامتی کونسل ہی کسی نئی ریاست کی ممبر شیپ کیلئے سفارش
کرسکتی ہے۔
3:معاشی و معاشرتی کونسل
اقوام متحدہ اور اس کے ماتحت ایجنسیوں کے اقتصادی و سماجی تعلقات قائم کرنے
کیلئے معاشی و معاشرتی کونسل قائم کی گئی ہے۔چارٹر کی دفعہ55 کے مطابق اس
کونسل پر لازم ہے کہ ایسے حالات پیدا کرئے جن سے اجتماعی فلاح و بہبود اور
استحکام کو فروغ ملے۔ اقوام عالم کے مابین مساوات اور حق خودارادیت کے اصول
پر جذبہ یگانگت اور دوستانہ تعلقات قائم ہوں۔ اس کونسل کے 54 ارکان ہے، جن
میں سے 18 ارکان کاانتخاب جنرل اسمبلی ہر سال 3 سال کیلئے کرتی ہے۔عام طور
پر کونس کا اجلاس سال میں 3 دفعہ بلایا جاتا ہے۔ کونسل خود اپنے صدر کا
انتخاب کرتی ہے۔کونسل کا فرض ہے کہ وہ اقوام عالم کا معیار زندگی بلند کرنے
کیلئے اقداما ت کرئے۔ بے روزگاری کے انسداد کیلئے اقدامات کرئے۔اقوام عالم
کے مابین ثقافتی اور تعلیمی میدان اشتراک وتعاون پیدا کرئے۔
4:تولیتی کونسل
تولیتی کونسل دراصل انجمن اقوام کے انتدابی نظام کی جانشین ہے۔ یعنی کونسل
کا کام ان ممالک کا انتظام چلانا ہے جن کوابھی خود مختاری نہیں ملی۔
5:بین الاقوامی عدالت انصاف
عالمی عدالت انصاف اقوام متحدہ کا سب سے بڑا عدالتی ادارہ ہے، اس کا صدر
دفترہیگ (نیدرلینڈز) میں ہے۔عدالت کے ججوں کی تعداد 15 ہے۔جن کا انتخاب
جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل الگ الگ حثییت سے کرتی ہے۔ججوں کا انتخاب ان
کی قومیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ قابلیت اور استعدارکار کی بنا پر ہوتا
ہے۔لیکن کسی بھی ملک سے 2 یا اس سے زیادہ جج منتخب نہیں کیے جاتے۔جج کا
انتخاب 9 سال کیلئے ہوتا ہے اور ہر3 سال بعد ایک تہائی جج ریٹائر ہوجاتے
ہیں۔ |