میاں صاحب کس کو بےوقوف بنا رہے ہیں؟

میاں نواز شریف کچھ عرصہ بیشتر تک پاکستان کے عوام کے سب سے مقبول لیڈر تھے جس کی وجہ ان کی پالیسیاں، اقدامات اور خصوصاً مارچ میں ہونے والے وکلاء کے کامیاب لانگ مارچ میں بھرپور شرکت تھی۔ لانگ مارچ کامیابی پر اختتام پذیر ہوا جس میں قوم نے محسوس کیا کہ بلاشبہ میاں صاحب نے اپنی جان کی بھی پرواہ کئے بغیر اس وقت قائدانہ کردار ادا کیا۔ حالانکہ میاں صاحب لانگ مارچ سے دو دن قبل تک گو مگو کا شکار رہے اور وکلاء قیادت کو ان سے (میاں صاحب سے) مشورہ نہ کرنے کے کوسنے دیتے رہے لیکن جب انہوں نے بالآخر لانگ مارچ میں شرکت کا فیصلہ کر لیا تو وکلاء اور عوام نے انہیں خوش آمدید کہا اور ان کی قیادت بھی قبول کی۔ کچھ لوگ اس وقت بھی میاں صاحب کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے تھے کہ وہ ”اوپر“ سے آنے والے احکامات کے تابع ہی لانگ مارچ میں شریک ہوئے ہیں، بہرحال وکلاءاور عوام کی اکثریت نے انہیں قائدانہ کردار ادا کرنے پر خراج تحسین بھی پیش کیا اور ان کی مقبولیت میں اضافہ بھی ہوا۔ عدلیہ بحالی تحریک کامیاب ہوئی تو پاکستان سے محبت کرنے والے لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب حالات یقیناً بہتری کی جانب گامزن ہوں گے اور میاں نواز شریف نے قوم کے ایک مدبر راہنما کا جو کردار نبھایا ہے اس میں مزید اضافہ ہوگا، لیکن لانگ مارچ کے بعد میاں نواز شریف نے جس طرح کا طرز عمل اختیار کیا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ ان کی مقبولیت اور ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ ان کی جماعت میں بھی اضطراب پایا جاتا ہے اور عوام بھی بڑے بے چین و بے قرار ہیں۔ ایک بات جو موجودہ حالات اور مستقبل میں سب سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈروں کو یاد رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اب عوام اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے ماضی میں ہوا کرتے تھے، وکلاء کی دو سال سے زائد عرصہ چلنے والی تحریک اور میڈیا نے انہیں باشعور بھی کردیا ہے اور ان کی آنکھیں بھی کھول دی ہیں، اب کوئی بھی خبر چند سیکنڈ میں ہر جگہ رسائی حاصل کر لیتی ہے اور عوام ہر لیڈر کی ہر بات پر ”نظر“ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔

میاں صاحب کی جماعت نے حکومت کا واضح حصہ نہ ہونے کے باوجود، زرداری اینڈ کمپنی کی جانب سے وعدے پورے نہ کرنے اور حکومت کے حالیہ اقدام جو عوام کے لئے خود کش دھماکوں سے بھی زیادہ مضر ہیں کہ باوجود حکومت کی اکثر مواقع پر حمایت کی جس کی تازہ ترین مثال موجودہ مالی سال کا بجٹ ہے۔ بجٹ میں کاربن ٹیکس کا نفاذ کرنے کی منظوری بالکل اسی طرح جلدی، افراتفری اور بغیر سیر حاصل بحث کے عمل میں لائی گئی جس طرح میاں صاحب کے دور میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے صدر کے اختیارات کم کئے گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت اپوزیشن کے کسی رکن کو توفیق نہ ہوئی کہ کاربن ٹیکس کے نفاذ کی مخالفت کرسکتا۔ بعض لوگ اور اخباری رپورٹس تو یہاں تک کہتی ہیں کہ حکومت نے مسلم لیگی قیادت کو ”اعتماد“میں لینے کے ساتھ ساتھ ارکان قومی اسمبلی کو فی کس 2 کروڑ روپے بھی ادا کئے ہیں تاکہ وہ بجٹ تجاویز کو من و عن منظور کرلیں اور کاربن ٹیکس کے نفاذ کے خلاف کسی قسم کی بیان بازی وغیرہ نہ کریں۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ تو اللہ کی ذات ہی بہتر جانتی ہے لیکن جو حقیقت سب کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود ”فرینڈلی “ اپوزیشن اور اندر کھاتے حکومت کے اتحادیوں نے کاربن ٹیکس کی اسمبلی کے اندر مخالفت نہیں کی تھی، لیکن وہی لوگ جو اسمبلی کے اندر ”بوجوہ“ چپ چاپ اور خاموش تماشائی ہوتے ہیں، عدالتوں کے کندھوں پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کو اقبال ظفر جھگڑا صاحب سے بھی سوال کرنا چاہئے تھا کہ اس وقت ان کی پارٹی کیوں سوئی ہوئی تھی جب قومی اسمبلی میں کاربن ٹیکس کے نفاذ کا بل پیش کیا گیا تھا، لیکن شائد سپریم کورٹ بھی جھگڑا صاحب سے بلا وجہ ”جھگڑا“ نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے اس نے صرف میرٹ پر حکم امتناعی جاری کردیا جس سے اگلے ہی روز حکومت نے سپریم کورٹ کے دلیرانہ اور عدل و انصاف پر مشتمل فیصلے کی نہ صرف دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں بلکہ عوام کو ذبح کرنے کے لئے چھریاں اور کلہاڑیاں تیز کر کے ان کی قربانی کا کام تیز تر کردیا۔ صدارتی آرڈیننس ایک بار پھر ”واہ آرڈیننس“ فیکٹری بن گیا جس سے غربت کی بجائے غریب ختم کرنے کی پالیسی کو مزید زور آور کردیا گیا ہے۔ پورے ملک میں جگہ جگہ احتجاج ہو رہا ہے لیکن میاں صاحب صرف اس بات پر اکتفا کرتے نظر آتے ہیں کہ ہفتے میں ایک یا دو بار حکومت کی مخالفت میں اور مشرف کو سزا دینے کا بیان داغ دیا۔ اب نہ تو این آر او کی بات کی جاتی ہے، نہ ڈاکٹر عبدالقدیر کی، نہ ڈاکٹر عافیہ کی، نہ ڈرون حملوں کی اور نہ ہی دن بدن بڑھتی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی خودکشیوں کی....! حکومت کی محبت میں نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب شہباز شریف بھی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کے خلاف عوامی احتجاج پر عوام کو احتجاج نہ کرنے کا ”حکم“ صادر فرماتے نظر آتے ہیں۔ وہی مسلم لیگ جس کے نڈر اور بہادر جاوید ہاشمی نے مشرفی آمریت میں ڈنکے کی چوٹ پر اس کی مخالفت کی اور میاں نواز شریف سے محبت کا دم بھرا، جس کو مشرف کی ”دہشت گردی“ یا ”نیب“ کا خوف دامن گیر نہ ہوا، اب وہی جاوید ہاشمی پنجاب کے بٹوارے اور نئے صوبے کی بات کرتا نظر آتا ہے۔ خلق خدا پوچھتی ہے کہ کیا سیاست صرف اپنے مفادات کی نگہبانی کا نام ہے؟ کیا ان بڑے سیاستدانوں کے پیٹ کبھی بھی نہیں بھریں گے جو نام تو عوام کا لیتے ہیں لیکن دراصل اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی حفاظت میں سرگرداں پھرتے ہیں، کیا پنجاب حکومت اور اپنے پروٹوکول کے عوض میاں صاحبان اور مسلم لیگ نے زرداری اینڈ کمپنی کو اس ملک کی قسمت سے کھیلنے کی کھلی اجازت دے دی ہے یا درون خانہ ”کوئی اور بات“ ہے، امریکہ بہادر میاں صاحب سے کیا چاہتا ہے، وہ کیا بات ہے جس کی پردہ داری ہے، یہ راز اب زیادہ دیر تک راز نہیں رہے گا، میاں صاحب سوچیں اس وقت ان کی مقبولیت کا گراف، جو دریں وقت درمیان میں اٹکا ہوا ہے، نیچے آتا ہوا کہاں جا کر رکے گا جب سب کچھ اس ملک کے بدقسمت عوام پر آشکار ہوجائے گا؟ میاں صاحب! ذرا غور کیجئے آپ کسے بےوقوف بنا رہے ہیں؟
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207355 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.