غلام علی خان چین : رستہ دکھانے والا ستارہ نہیں رہا

 غلام شبیر
جھنگ کے ممتاز ماہر تعلیم ، ادیب ،دانش ور ،حریت فکر کے مجاہد ،توحید و رسالت کے سچے عاشق اور نامور سماجی کارکن غلام علی خان چین 1996میں دائمی مفارقت دے گئے ۔مسلسل شکست دل کے باعث معاشرتی زندگی پر بے حسی کا عفریت منڈلا رہاہے ۔اب تو یہ حال ہے کہ راہ رفتگاں کو دیکھنے والوں کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں اور کوئی بچھڑ کے چلا جائے کسی کو اس کی پروا نہیں ۔جب کارواں کے دل سے احساس زیاں عنقا ہوجائے تو ایسی ہی انہونی سامنے آتی ہے جو کسی مہذب قوم کے لیے بہت برا شگون ہے ۔اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا اور اپنے دلوں کوان کی دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھناسعادت مند اولاد ،عقیدت مند لواحقین اور فکری اعتبار سے ثروت مند قوم کا امتیازی وصف ہوتا ہے ۔جو عظیم لوگ راہ جہاں سے گزر جاتے ہیں ان کے کارہائے نمایا ں سے نئی نسل کو ٓگاہ کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔

غلام علی خان چین کے والد میاں برخوردار خان جھنگ شہر کے تاریخ علاقے ممنا گیٹ کے مکین تھے ۔رانا عزیز احمد خان ان کے کوچے کو کوچہء چہل امیراں کا نام دیتے تھے ۔ایک اور مورخ شیخ محمد اسلم اس علاقے کو جھنگ کا چلیسی کہا کرتے تھے ۔یہی وہ مردم خیز خطہ ہے جہاں سے ایسی نابغہء روزگار ہستیاں اٹھیں جنھوں نے اپنی کامرانیوں کی ساری دنیا میں دھاک بٹھا دی ۔ دنیا کی تیرگیء مسلسل میں جن کا وجود ایک مینارہء نور ثابت ہوا ۔نظام دہر کو تیورا کر دیکھنے والوں پر ان لوگوں نے واضح کر دیا کہ رنگ ،خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام تر استعارے سعیء پیہم کے مرہون منت ہیں ۔نظام کائنات کو ایک بے ربط سی زنجیر والے سمجھنے قنوطیت کے مارے اور یبوست زدہ لوگوں کی ژولیدہ خیالی کو مسترد کرتے ہوئے انھوں نے عوام کو حوصلے اور ہمت کا پیغام دیا اور دلوں کو ایک ولولہء تازہ تازہ سے متمتع کیا۔ ان دانش وروں نے نظام کہنہ کے سائے میں عافیت سے بیٹھنے والوں پر واضح کر دیا کہ یہ سب کچھ توایک گرتی ہوئی عمارت کے ما نند ہے نظام کہنہ جو کہ خود ہی غرقاب ہو رہاہو اسے ڈبونے کی سعی ء رائیگاں کرنا وقت اور محنت کے ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس علاقے سے جو آفتاب و ماہتاب طلوع ہوئے ان کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکنا ف عالم کا گوشہ گوشہ منور ہوگیا۔ پاکستان میں کون ہے جو ڈاکٹر عبدا لسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان)،سید جعفر طاہر ، ڈاکٹر محمد کبیر خان ،ڈاکٹر محمد عمر ،حاجی محمد یوسف ،ملک محمد عمر حیات ،اﷲ دتہ سٹینو ، محمد بخش آڑھتی ،محمد شیر افضل جعفری ، عبداﷲ خان ،امیر اختر بھٹی،حکیم محمد اسماعیل ،عبدالحلیم انصاری ،بختاور خان، حکیم محمد صدیق ،رانا سلطان محمود ، میاں احمد بخش ،محمود بخش بھٹی ،رام ریاض ،فضل الہیٰ خان ،حکیم احمد بخش،اﷲ داد اور میاں برخوردار کے نام سے واقف نہیں۔دور زماں کی ہر کروٹ ان ہستیوں کے عظیم نام اور فقید المثال کام کا اثبات کرے گی اور تاریخ ان کے مقام کی تعظیم کرے گی ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب کہ لہو کی لہر ،اشک رواں کی نہر ، اور دل و جاں سے اٹھنے والے دھوئیں نے تمام منظر نامہ ہی دھندلا دیا ہے اور رتیں بے ثمر ہو چکی ہیں حساس انسان سوز دروں سے کام لیتے ہوئے اس عہد کو یاد کرتے ہیں جب اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی نے دلوں کو مرکز مہر ووفا کر دیاتھا۔ اخوت کی جہانگیری اور محبت کی فراوانی کے معجز نما اثر سے حریم کبریا سے آ شنا کرنے والے انسانیت کے ان بے لوث خادموں کے کار ہائے نمایا ں ہماری قومی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں ۔

میاں برخوردارخان کے نور نظر غلام علی خان نے 1917میں جنم لیا۔غلام علی خان چین کی جنم بھومی ممنا گیٹ ہی ہے اور جھنگ شہر کے اس قدیم تاریخی علاقے میں اس عظیم انسان کی آنول نال گڑی ہے ۔میاں برخوردار خان کا آبائی پیشہ زراعت اور تجارت تھا۔انھوں نے مقامی مدرسے سے قرآن حکیم اورحدیث و فقہ کی دینی تعلیم حاصل کیاور لکھنے پڑھنے کی استعدا د بھی حاصل کر لی ۔ان کا شمار اپنے عہد کے محترم،قناعت پسند ،خدا ترس ،فیاض ،سخی ، عابد ،زاہد اور متقی لوگوں میں ہوتا تھا۔مثل مشہور ہے کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات اسی طرح غلام علی خان چین نے بھی بچپن ہی سے اپنی خدا داد ذہانت سے اپنے اساتذہ اور ہم جماعت طالب علموں کو بہت متاثر کیا۔ہر جماعت کے امتحان میں پہلی پوزیشن غلام علی خان چین ہی کی آتی ۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں وہ رانا عبدالحمید خان کے شاگر د تھے ۔اس زمانے میں گورنمنٹ کالج جھنگ میں میٹرک کی کلاسز بھی ہوتی تھیں۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں اپنے زمانہ طالب علمی کی یادوں کو غلام علی خان چین اپنی زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ قراردیتے تھے ۔یہ وہ زمانہ تھا جب پورے بر صغیر کو برطا نوی فوجوں نے اپنے بوٹوں تلے ر وندڈالا تھا ۔ہر چوک کو مظلوم اور نہتے حریت پسندوں کا مقتل بنا دیا گیا اور بے بس عوام اپنے گھروں میں اس طرح محبوس تھے جیسے زنداں میں بے گناہ قیدی پا بہ جولاں ہوتے ہیں۔گھر سے بازار کو نکلتے ہوئے بے بس و لاچار نہتے عوام کا زہرہ آب ہوتا تھا۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے طالب علم وطن عزیز سے برطانوی افواج کے انخلا اور وطن کی آزادی کے حق میں مسلسل پر امن جلوس نکال رہے تھے ۔اسی نوعیت کے ایک جلوس پر انگریز ایس ۔پی کے حکم سے پولیس نے گولی چلا دی ۔جس کے نتیجے میں سیکڑوں نہتے طالب علم زخمی ہو گئے اور گورنمنٹ کالج جھنگ کا ایک طالب علم قاضی محمد شریف شہید ہو گیا۔ان لرزہ خیز ،اعصاب شکن حالات میں شہر وفا کے سہمے ہوئے بند دریچے ،آنکھیں میچے اپنے مکینوں کی مظلومیت ،عذاب در بدری،حبس دوام اور دائمی مفارقت پر نوحہ کنا ں تھے۔وہ سب کے سب موہوم قافلہ ہائے خندہء گل جن کی تمنا میں نوے سال بیت چلے تھے فسون تمنا کی صورت اختیار کر گئے ۔حقائق خیال و خواب بن گئے اور منزل کی جانب جانے والے راستے سراب بن گئے ۔نوجوان یہ سوال کرتے تھے کہ مستقبل کے خوابوں کے بھنور میں ڈگمگاتی ہوئی کشتیء جاں خدا جانے کب ساحل عافیت پر پہنچے گی ۔ وہ صبح بہاراں کب طلوع ہو گی جب نوے سال سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی بے بس قوم کا سیل زماں کے گرداب میں ہچکولے کھاتا ہوا سفینہ آزادی کے گھاٹ اترے گا ۔

غلام علی خان چین نے زمانہ طالب علمی میں آزادی کی جدو جہد میں بھرپور حصہ لیا ۔حریت ضمیر سے جینے کے لیے انھوں نے ہمیشہ اسوہء شبیر ؓ کو پیش نظر رکھا۔ان کی یادوں کے دئیے دل کے طاق میں ہر سو فروزاں ہیں ۔انھوں نے اپنے عہد جوانی میں وطن کی آزادی کے لیے جو جد و جہد کی اس پر انھیں فخر تھا ۔آج جب ہم ایام گزشتہ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ان کے افکار کی ضیا پاشیاں ہمارے لیے نشان راہ ثابت ہوتی ہیں۔حریت فکر کے ایسے مجاہد کے بارے میں فکر پرور اور خیال انگیز یادوں کا در اسم اعظم پڑھ کر کھولنا اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے ۔اگر ہم نئے زمانے اور نئی صبح و شام پیدا کرنے کے صدق دل سے آرزو مند ہیں تو ہمیں غلام علی خان چین جیسے آزادی کے متوالوں کے عظیم الشان کردار کو لائق تقلید بنانا ہو گا جو زہر ہلا ہل کو کبھی قند نہ کہہ سکے اور ہمیشہ وہی بات کی جسے وہ سچ سمجھتے تھے ۔جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے سفاک ظلمتوں میں حوصلے اور امید کے ستاروں کی فصل کاشت کی تا کہ ایک دن آزادی کا گل خورشید یہیں سے نمو یاب ہو ۔آزادی کے ان متوالوں نے دنیا کے جنجالوں کی کبھی پروا نہ کی اور تہی داماں محاذ زیست سے سرخرو ہو کر خود کو پوری قوم کی نظروں میں معزز و مفتخر کر دیا ۔

ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد غلام علی خان چین نے تربیت اساتذہ کے ایک مشہور ادارے میں داخلہ لے لیااور وہاں سے جے۔وی کا امتحان امتیازی حیثیت میں پاس کیا۔جے ۔وی کرنے کے بعد وہ حکومت کے محکمہ تعلیم میں تدریسی خدمات پر مامور ہو گئے ۔ان کا تقر ر جھنگ کے دور دراز علاقے میں واقع ایک دیہی پرائمری مدرسے میں ہوا ۔ان کی موثر تدریس کے اعجاز سے اس علاقے میں تعلیمی انقلاب آ گیا ۔ہر طرف تعلیم و ترقی کے چرچے ہونے لگے ۔عوام میں آزادی کے بارے میں مثبت شعورو آ گہی پیدا کرنے میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔وہ کہا کرتے تھے کہ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پورے کا پورا گاؤں بے بس و لاچار ،مظلوم اور بے نوا سائلوں پر مشتمل تھا جو اپنی محرومیوں اور الم نصیبی کا سبب معلوم کرنا چاہتے تھے۔ غلام علی خان چین نے ان سادہ لوح دیہاتیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی سعی کی اور ان کو اس حقیقت کے احساس و ادراک کی راہ سجھائی کہ برطانوی استعمار نے یہاں کے باشندوں پر عرصہ ء حیات تنگ کر رکھا ہے ۔جبر کی اس فضا میں کلیاں شرر ،آبادیاں پر خطر ،آہیں بے اثر اورزندگیاں مختصر کر دی گئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی مظلوم اقوام کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ جس طرح سر شام ایک پسینے میں شرابور محنت کش کو اس کی مزدوری تھما دی جاتی ہے، بالکل اسی طرح ظالم و سفاک ،موذی و مکار استعماری قوتیں محکوم اور مظلوم عوام کی فلاح کے داعی بن کر ان کے کشکول میں کچھ رقم ڈال کر ان کی آنکھوں میں دھول جھو نکتی ہیں۔انھیں اس بات کا قلق تھا کہ دنیا کی غریب اقوام اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے سلسلے میں اس انہماک کا مظاہرہ نہیں کر رہیں جو حالات کا تقاضا ہے ۔غریب اقوام کی مثال ان بد قسمت طیور کی ہے جو گلزار ہست و بود کے اشجارکی ان شاخوں پر اپنے آ شیاں بناتے ہیں جو موسم گل میں بھی برگ و بار اور گل و ثمر سے محروم رہتی ہیں۔غلام علی خان چین کہا کرتے تھے کہ غریب ملکوں کی آزادی کو عالمی طاقتوں نے اپنے مکر کی چالوں سے بے وقار بنا دیا ہے ۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ غریب اقوام کے سر پر تو آزادی کا تاج سجا ہوا ہے مگر ان کے پاؤں میں معاشی پا بندیوں کی بیڑ یاں ڈال دی گئی ہیں۔ان ممالک کے عوام کو اب طلوع صبح بہاراں کا کوئی اعتبار نہیں یہاں اجالا داغ داغ اور سحر شب گزیدہ ہو چکی ہے ۔گجر بجنے سے دھوکا کھانے والی اقوام پھر بھیانک تیرگی میں پھنس گئی ہیں۔تیسری دنیاکے غریب ،پس ماندہ اور مفلس و قلاش لوگوں کی شکل و صورت اور معیار زندگی کے کھنڈر کی تعمیر نواور تزئین وآرائش کے سبز باغ دکھانے والی جابر قوتیں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان ممالک میں موجود قسمت سے محروم سسکتی انسانیت کے دل صد چاک کو کہاں سجائیں گے جو کب کا کرچیوں میں بٹ چکا ہے۔ان مجبوروں کی نا آسودہ خواہشات ، دل کے مقتل میں خوں ہونے والی حسرتیں، آرزؤں کے بکھرے سلسلے اور ریزہ ریزہ خواب کس طاق میں رکھے جائیں گے ؟ ۔ہمارے معاشرے کا روح فرسا المیہ یہ ہے کہ بلند و بالا عمارتوں اور قصر و ایوان پر مشتمل جنگل بڑھ رہے ہیں۔ان جنگلوں میں مقیم درندے اپنی پوری قوت اور شقاوت آمیز نا انصافیوں سے جنگل کا قانون نافذ کر چکے ہیں۔ یہاں درندے مردوں کے ساتھ شرط باندھ کر سو رہے ہیں مگر ان کی بے حسی ،سفاکی اور دہشت نے ان بے بس انسانوں پر جو اپنی قبر نما جھونپڑیوں محبوس سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہیں اس قدرہیبت طاری کردی ہے کہ ان کی نیندیں اڑ چکی ہیں اور وہ زندگی سے بیزارہیں۔روم جل رہا ہے اور وقت کا نیرو چین کی با نسری بجانے میں مصروف ہے ۔

غلام علی خان چین نے شہر کے انتشار سے باہر ایک چھوٹے سے گاؤں میں تدریسی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا ۔اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا وقت کھیتی باڑی میں صرف کرتے ۔یہاں سے وہ اپنے بچوں کے لیے خالص دودھ ،تازہ سبزیاں اور اجناس خوردنی لاتے ۔انھیں اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ ہمارے معاشرے کی پستی کا بڑا سبب جہالت ہی ہے ۔ معاشرے میں پائی جانے والی مختلف قسم کی عصبیت ،جہالت،مقدمہ بازی ،منشیات اور فرسودہ رسوم و رواج کے مسموم اثرات نے کئی گھر بے چراغ کر دئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ دیار چشم و لب میں دل کی ویرانی اور جاں کی تنہائی کا بڑا سبب جہلا کی بے بصری ،کور مغزی اور ذہنی افلاس ہے ۔وہ اکثر اس بات پر کرب کا اظہار کرتے کہ استحصالی معاشرے میں حساس اور تعلیم یافتہ انسان خود کو جزیرہء جہلا میں گھرا ہو ا محسوس کرتا ہے جس کے بچ نکلنے کی راہیں مسدود ہو چکی ہیں کیونکہ اس جزیرہء جہلاکی چاروں جانب ٹھاٹیں مارتا ہو ا سمندر ہے جس کی ہر موج میں حلقہء صد کام نہنگ کو دیکھ کر ا س کا پتا پانی ہو جاتاہے۔ان کی گفتگو میں فکری اور شعوری روح پوری تاب و تواں کے ساتھ اپنے جلوے دکھاتی ۔وہ بولتے تو باتوں سے پھول جھڑتے وہ سب کے لیے اچھی رائے رکھتے تھے ۔کسی کی عیب جوئی یا غیبت سے ان کا کوئی واسطہ نہ تھا ۔ان کی سوچ ہمیشہ تعمیری رہی کسی کی تخریب سے انھیں کو ئی غرض نہ تھی ۔

ا پنی عملی زندگی میں غلام علی چین نے سادگی اور وضع داری کو اپنا شعار بنایا۔انھوں نے گھر میں بھینس پال رکھی تھی اس کو چارہ ڈالنے اور دیکھ بھال کی ذمہ داری انھوں نے خو د سنبھال رکھی تھی ۔اس طرح انھیں خالص دودھ ،مکھن اور گھی میسر آ جاتا ۔ ۔مقامی طور پر تیار کیا ہوا کھدر ا ن کا پسندیدہ لباس تھا ۔سر پر سفید رنگ کی طرہ دار پگڑی با ندھتے ۔اس پگڑی پر کلف لگانا وہ ضروری سمجھتے تھے ۔ اپنے گھر میں تہمد یا لنگی با ندھتے تا ہم شلوار قمیض بھی ان کا پسندیدہ لباس تھا۔شلوار اور قمیص وہ اپنے فرائض منصبی ادا کرتے وقت پہنتے تھے ۔لباس کے لیے ان کا انتخاب صرف اور صرف سفید رنگ تھا۔ اپنا لباس وہ اپنے دیرینہ ساتھی سرور ٹیلر سے سلواتے۔سرور ٹیلر کی یہ ادا انھیں بہت پسند تھی کی وہ لباس کے تیار ہو جانے کے بعد بچ جانے والا کپڑاخواہ ایک انچ بھی ہوتا گاہک کو واپس کر دیتا۔دیانت داری کا یہ معیار اب نا پید ہے ۔انھوں نے ڈاڑھی نہیں رکھی البتہ مونچھیں بڑھا رکھی تھیں ۔وہ دراز قدتھے اور ان کا جسم بھرا ہوا تھا ،کشادہ پیشانی اور چوڑا چکلا سینہ ان کی مردانگی اور دلیری کی علامت تھی ۔سر کے بال گھنے تھے لیکن ضعیفی میں کچھ بال جھڑ گئے تھے ۔اپنے سفید بالوں پر بھیرے کی مہندی لگا کر انھیں سرخ کر لیتے تھے ۔بڑھاپے میں وہ ضعف بصارت کے باعث نظر کی عینک لگاتے تھے ۔اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ بڑھاپے میں سفید بالوں کو کالا کرنا خود فریبی کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔نا معلوم لوگ کیوں سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہونے کی نا کام کوشش کرتے ہیں۔ پاؤں میں جوتا فیکٹری کا بنا ہو ا بھی پہن لیتے تا ہم اپنی پسند کے مطابق کھسہ وہ گاؤں کے موچی سے سلواتے اور اس پر تلہ (سنہری اور روپہلی دھاگے کی تاریں ) ضرور لگواتے ۔ان کا لباس اگرچہ سادہ ہوتا تھا لیکن صفائی اور سلیقے کی بدولت یہ سادہ لباس پہننے سے ان کی شخصیت کو چار چاند لگ جاتے ۔ ان کے لباس میں سلوٹ کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔جب چلتے تو ایک شان کے ساتھ قدم بڑ ھاتے ۔گھر میں سونے کے لیے مونج کے بان سے بنی ہوئی چار پائی انھیں پسند تھی ۔ان کی اولاد نے جب فوم کے گدے آرام کے لیے خریدے تو انھوں نے کوئی اعتراض نہ کیا اور کہا وہ جہاں رہیں خوش رہیں۔اسی طرح جب ان کے بچوں نے مصنوعی ریشے کے لباس پہننا پسند کیا تو انھوں نے کہا اب جلدی امراض کے لیے بھی تیار رہیں ۔ممناگیٹ میں بیٹھی دائی کے تنور کی ر وٹی انھیں پسند تھی اور ساگ ان کی پسندیدہ سبزی تھی ۔وہ جس مدرسے میں تدریسی خدمات پر مامور تھے وہ دریائے چناب کے نزدیک تھا۔مقامی ماہی گیر اکثر کنڈیاں لگا کر دریا سے مچھلیاں پکڑتے تھے ۔غلام علی خان چین کو مچھلی بہت پسند تھی وہ ان ماہی گیروں سے مچھلی خریدتے اور گھر میں دیسی گھی میں پکوا کر کھاتے تھے ۔اب تو حالات یکسر بدل چکے ہیں ان کے پوتے دیسی گھی سے قطعی نا واقف ہیں ۔اب ان کے گھر میں صرف بناسپتی گھی استعمال ہوتا ہے ۔ غلام علی خان چین کے بعد پالتو جانوروں کو گھر سے بے دخل کر دیا گیا ہے ۔ جس کمرے بھینس باندھی جاتی تھی اب وہاں مہمان خانہ بن چکاہے۔اور اب ان کا پوتا یہاں آنے والی بھینسوں کے آگے بین بجانے کا شغل جاری رکھے ہوئے ہے ۔

غلام علی خان چین نے گھر میں کئی پالتو جانور پال رکھے تھے ۔گائے ،بکری ،مرغیاں اور بھینس ان کے محبوب جانور تھے ۔ان پالتو جانوروں کی خدمت کے کاموں میں ان کا بیٹا غلام قاسم خان بھی ان کا ہاتھ بٹاتا تھا۔ایک مرتبہ وہ نواحی گاؤں پاتوآنہ سے ایک اعلا نسل کی بھینس خرید لائے ۔یہ بھینس ایک وقت میں دس کلو دودھ دیتی تھی ۔نئی بھینس کیا آئی متعدد مسائل بھی ساتھ لائی ۔ریوڑ کے ساتھ مل کر چراگاہ میں آزادانہ گھوم پھر کر چرنے والی اس بھینس کو چاردیواری میں محبوس ہو کر اور ہمہ وقت کھونٹے سے بندھ کر کھڑے رہنا ایک اذیت اور عقوبت لگتی تھی ۔بھینس اس جانگسل تنہائی کے باعث ڈپریشن کا شکار ہو گئی اور ہر شخص کو سینگ مارنے کے لیے آگے بڑھتی ۔سردیوں کی ایک شام تھی غلام علی خان چین کے بیٹے نے بھینس کو صحن سے کھول کر کمرے میں باندھنے کی کوشش کی۔بھینس نے اپنی عقابی نگاہوں سے یہ تاڑ لیا تھا کہ لڑکا کم زور ہے چنانچہ وہ رسی چھڑا کر حویلی کے دروازے سے باہر نکلی اور دوڑتی ہوئی سیدھی سبزی منڈی کی طرف نکل گئی ۔سب لوگ اس مرکھنی بھینس کے خوف سے چھپ گئے ۔غلام علی خان چین کا بیٹا ننگے پاؤں بھاگا مگر بھینس اس کے قابو میں نہ آئی اور سینگ لہراتی اور پھنکارتی ہوئی بھینس کے سامنے وہ بے بسی کی تصویر بنا کھڑا تھا ۔غلام علی خان چین کو معلوم ہوا تو وہ ایک مضبوط لاٹھی لے کر وہاں پہنچے ۔بھینس نے جوں ہی غلام علی خان چین کی آنکھوں میں شعلے اور ہاتھ میں پانچ فٹ کی مضبو ط موٹی سی لاٹھی دیکھی اس نے سر جھکا لیا اور ان کے پیچھے پیچھے گھر روانہ ہو گئی ۔ بھینس کی اس فوری اطاعت کو دیکھ کر سب لوگ دم بہ خود رہ گئے ۔غلام علی خان چین نے کہا کہ اب تو تمھیں معلوم ہو گیا ہو گا کہ جس کی لاٹھی ہوتی ہے اسی کی بھینس ہوتی ہے۔

خلوص، دردمندی ،انسانی ہمدردی ،ایثار اور انسانیت کے ساتھ بے لوث ،محبت غلام علی خان چین کا اہم وصف تھا۔وہ ایک صحت مند شخصیت کے مالک تھے اس لیے انھوں نے آزمائش کی ہر گھڑی میں موقع اور محل کی مناسبت سے موزوں کردار ادا کیا۔جھنگ میں دریائے چناب کے سیلابوں نے 1950اور 1973نے جو تباہی مچائی اس کے اثرات اب تک محسوس کیے جاتے ہیں ۔دریا کی طوفانی موجوں کا آٹھ فٹ اونچا ریلا حفاظتی پشتے توڑتا ہوا شہر میں داخل ہو گیا اور نشیبی علاقے میں رہنے والے لوگوں کا سار سامان بہا لے گیا ۔ سیلاب زدگان نے بڑی مشکل سے جان بچائی اور پناہ گزین کیمپوں میں پنا ہ لی۔ جھنگ شہر کا ممناگیٹ بلند ترین مقام پر واقع ہے اس لیے دریا کی طغیانی سے محفوظ رہا ۔ غلام علی خان چین نے مصیبت کی اس گھڑی میں سیلاب زدگان کی غذائی ،رہائشی اور طبی ضروریات کی تکمیل کے لیے انتھک کام کیا ۔اپنے مکان کے ایک حصے میں ایک سو کے قریب پردہ دار خواتین اور ان کے کم سن بچوں کو ٹھہرنے کی جگہ دی ۔گھر سے کھانا پکوا کر ان تک پہنچایااور حکیم احمد بخش اور ڈاکٹر محمد کبیر خان کے ساتھ مل کر سیلاب سے پھیلنے والی وبائی امراض کی روک تھام پر توجہ مرکوز کر دی ۔جھنگ کے حفاظتی بند کی دوسری طرف جو دریا ئے چناب کے قریب تھی وہاں کوئی امدادی ٹیم فوری طور پر نہ پہنچ سکی۔مصیبت زدہ لوگ درختوں پر بیٹھے کسی لطیفہء غیبی کے منتظر تھے ۔چنڈ بھروانہ سے جھنگ تک آٹھ کلو میٹر کا علاقہ دریائے چناب کی آٹھ فٹ بلند اور تیز لہروں میں ڈوبا سمندر کا منظر پیش کر رہا تھا ۔ان انتہائی تکلیف دہ حالات میں غلام علی خان چین نے اپنی مدد آپ کے تحت پلاؤ ،دال،سبزی ،گوشت اور حلیم کی دس دیگیں پکوائیں دو ہزار کے قریب نان پکوائے اور محکمہ سول ڈیفنس کی کشتی میں یہ سامان رکھا ۔اس کے بعد وضو کیا تسبیح ہاتھ میں لی اور درود پاک کا ورد کرتے ہوئے کشتی میں بیٹھ گیااور ملاح کو چپو لگانے کا حکم دیاوہ جان پر کھیل کر زندگی اور موت کے اس کھیل میں کود پڑے۔ لوگوں نے اشک بار آنکھوں سے عزم و ہمت کے ان عظیم کو ہساروں کو رخصت کیااور ان کی بہ خیرت واپسی کی دعا کی ۔ملاح نے ترنگ میں آکر یہ تان اڑائی :
بیڑی دتی ٹھیل اوئے مقدراں دے کھیل اوئے
رب چا کریسیں ساڈا پتنا ں تے میل اوئے
ترجمہ:کشتی کو ڈالا بیچ منجدھار مقدر سے یہ لگے گی پار
مجبوروں سے جا کے ملیں گے ،رب ہی کرے گا بیڑا پار

غلام علی خان چین کی یہ سر فروشی بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئی ۔ان کے بعد بہت سے دلاور اور ہمت کے محیط کے شناور ان کی تقلید پر کمر بستہ ہو گئے چھ گھنٹے کے بعد جب غلام علی خان چین سیلاب کے پانی میں گھرے تین دیہاتوں کے مجبور عوام کو غذائی اشیا پہنچا کر بہ خیریت واپس پہنچے تو چار اور کشتیاں خوراک اور ادویات لیے تیار کھڑی تھیں ۔علاقہ مجسٹریٹ نے غلام علی خان چین کے اس جذبے کی تعریف کی تو اس مر د حق پرست نے بر ملا جواب دیا کہ اس نے جو کچھ کیا اور اس کے بعد بھی جو خدمت انجام دے گا وہ صر ف اور صرف اﷲ کی رضا کی خاطر ہے ۔ انھوں نے اس موقع پر سب حاضرین کو پر نم آنکھوں سے دیکھااور جب شہر یار کا یہ شعر گلوگیر لہجے میں پڑھا تو سننے والوں پر رقت طاری ہو گئی :
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے

پورا علاقہ دس دن قیامت خیز سیلاب کے پانی میں گھر ا رہا ۔ جھنگ کی ضلعی انٹظامیہ او ر مقامی لوگوں کے علاوہ لاہور ،فیصل آباد ،ٹوبہ ٹیک سنگھ ،گوجرہ ،کمالیہ ،پیر محل اور سمندری سے امدادی ٹیمیں مسلسل سیلاب زدہ علاقوں میں پہنچ رہی تھیں لیکن اس کار خیر کی ابتدا کرنے والوں میں غلام علی خان چین،حاجی محمد یوسف ،حکیم احمد بخش ،ڈاکٹر محمد کبیر خان اور اﷲ دتہ سٹینو شامل تھے ۔آج بھی دریا ئے چناب کے کنارے آبا د بزرگ لوگ اپنے بچوں کو غلام علی چین کی سر فروشی کی داستانیں سناتے ہیں کہ کس طر ح اس شخص نے اپنی جان پر کھیل کر بھوک اور پیاس سے بلکتے بچوں اور خواتین کے لیے سب سے پہلے اس وقت غذائی اشیا فراہم کیں جب اس طرف کا رخ کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ دس دن کے بعد جب سیلاب کا پانی اترا اور سیلاب زدگان اپنے شکستہ کھنڈرات میں پہنچے تو ان کی بحالی کا کام حکومتی سطح پر شروع ہو گیا۔غلام علی خان چین نے اس عمل پر بھی کڑی نظر رکھی اور متعلقہ اداروں کو ضروری مشورے دیتے رہے ۔

اردو ،پنجابی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں کے دب سے غلام علی خان چین کو گہری دلچسپی تھی۔حضرت سلطان باہو کے کئی ابیات انھیں زبانی یاد تھے ۔میاں محمد بخش کے کلام کو وہ افادیت سے لبریز اور اصلاحی شاعری قرار دیتے تھے ۔پنجابی کی لوک داستانوں کا انھوں نے بہ نظر غائر مطالعہ کیا تھا۔اردو کے کلاسیکی ادب کا بھی انھوں نے مطالعہ کر رکھا تھا۔عالمی کلاسیک کے تراجم سے انھیں ان کے بیٹے اور نامور ماہرتعلیم پروفیسر غلام قاسم خان نے روشناس کیا۔علی گڑھ تحریک نے بر عظیم کے مسلمانوں میں بیداری کی جو لہر دوڑا دی اس کی وہ قدر کرتے تھے ۔گرچہ وہ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔تفسیر ،حدیث ،فقہ ،تاریخ ،فلسفہ، عالمی ادبیات ،لسانیات اور مذاہب عالم کے موضوعات پر ان کے خیالات کی تونگری دیکھ کر رشک آتا تھا۔

غلام علی خان چین کے ساتھ میرا عقیدت کا تعلق اس وقت استوار ہوا جب میں جماعت نہم کا طالب علم تھا ۔ان کا بیٹا غلام قاسم خان میرا ہم جماعت ہے۔میں شہر کے اہم تعلیمی ادارے گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ کے دار الاقامہ میں ٹھہر ہوا تھا ۔میرا آبائی گاؤں شہر سے پچاس کلو میٹر دور ہے اس زمانے میں ذرائع آمد و رفت کی حالت بہت خراب تھی ۔گاؤں سے آنے والی اکلوتی کھٹارہ بس یہ سفر پانچ گھنٹے میں طے کرتی تھی ۔اس خرابے کو خراب انجن بہت کم چلاتا تھا بالعموم مسافروں کے دست و بازو کے بھروسے پر بس کچی سڑک پر کچھوے کی رفتار سے رینگتی تھی ۔غلام علی خان چین ہر ہفتے میری خیریت دریافت کرنے سکول آتے ،رئیس مدرسہ مہر محمد امیر خان ڈب سے ان کے قریبی تعلقات تھے ،انھیں میرے بارے میں تا کید کرتے کہ اس طالب علم کی تعلیمی ترقی اور سکون قلب پر توجہ دی جائے ۔دار الاقامہ کے مہتمم عبدالحلیم انصاری سے بھی ملتے اورمیری رہائش اور طعام کے معیار کے مسائل کا خود جائزہ لیتے تھے۔ان کے گھر میں جب بھی کوئی خاص کھانا تیار ہوتا میرے لیے ٹفن بھر کر ضرور بھجوایا جاتا ۔ہم سب دوست جن میں رانا عزیز احمد ، ظفر اﷲ ملک ،رانا ارشد علی ،نور محمد سوز،پرویز اقبال اور غلام احمد شامل تھے جب مل کر یہ مزے دار کھانے کھاتے تو ان کی مہمان نوازی کے قائل ہو جاتے ۔رانا ارشد علی اسے من و سلویٰ کا نام دیتے اور شدت سے اس کے منتظر رہتے ۔ہفتے میں دو بار یہ ٹفن ہم تک ضرور پہنچتا ۔سچ تو یہ ہے کہ غلام علی خان چین ان تمام طالب علموں کو جو کہ ان کے بیٹے غلام قاسم خان کے ہم جماعت تھے ،اپنے بیٹے کی طرح عزیز رکھتے تھے۔انسان دوستی اور انسانیت نوازی کا اس قدر بلند معیار کوئی بھی پیش نہیں کر سکتا ۔میرے ساتھ یہ معتبر ربط انھوں نے زندگی بھر بر قرار رکھاجو ان کی عظمت کی دلیل ہے ۔ تعلیم و تدریس کے جدید ترین اسالیب پر غلام علی خان چین کو کامل دسترس حاصل تھی ۔اصول تعلیم ،تعلیمی نفسیات ،نصاب سازی اور نظم و نسق مدرسہ کے تمام مسائل پر انھیں عبور حاصل تھا۔ان کی موثر تدریس کے اعجاز سے ان کے شاگرد جماعت پنجم کے امتحان میں ضلع بھر پہلی تین پوزیشنیں کہیں باہر نہ جانے دیتے ۔کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ان کی جماعت کے اگر دس طالب علم ہوتے تو پہلی دس پوزیشنیں ان کے شاگر د لے جاتے ۔یہ ان کا اتنا بڑا اعزاز و امتیاز ہے جس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں۔

تعلقات قائم کرنے میں غلام علی خان ایک وضع احتیاط کے قائل تھے لیکن جب کسی سے خلوص کا رشتہ استوار کر لیتے تو اس کو ہر صورت میں نبھاتے ۔ان کی دوستیاں لا محدود تھیں لیکن کسی سے کوئی مخاصمت ہر گز نہ تھی ۔انھوں نے ہر قسم کے امتیازات سے بالا تر رہتے ہوئے سب کی خدمت کو اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔غریب طالب علموں کے تعلیمی اخراجات خود برداشت کرتے ۔حاجی محمد یوسف کی کتابوں کی دکان سے سٹیشنری خریدتے اور سکول کے مستحق طالب علموں میں بلا قیمت تقسیم کر دیتے ۔اپنی تدریس کو موثر بنانے کے لیے وہ تدریس کے دوران سمعی بصری معاونات کے بر محل استعمال سے اپنی تدریس کو مزید مو ثر بنا دیتے ۔ تربیت اساتذہ کے مختلف کورسز کے دوران نو آموز اساتذہ کو تدریسی اسالیب سے آ شنا کرنے کی غرض سے غلام علی خان چین کو بہ طور ماہر دعوت دی جاتی اور ان سے نمونے کے اسباق پڑھانے کی استدعا کی جاتی ۔وہ جب چاک تھام کر تختہ ء تحریر پر لکھتے تو ید بیضا کا معجزہ دکھاتے ۔ ان کی خوش نویسی ،گل افشانی ء گفتار اور مسحور کن طریقہ تدریس کو دیکھ کر نو آموز اساتذہ حیرت زدہ رہ جاتے ۔غلام علی خان چین بلا شبہ استاد الاساتذہ تھے ۔آج ایسا استا دکہاں سے لائیں جسے ان جیسے اسلوب کا حامل کہا جا سکتا ہو؟ان کے تدریسی اسباق کی باز گشت آج بھی تربیت اساتذہ کے اداروں کمالیہ ،گکھڑ ،چنیوٹ اور پنڈورا (راول پنڈی )میں سنائی دیتی ہے ۔
تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا

تخلیق ادب سے غلام علی خان چین کو گہری دلچسپی تھی ۔اردو اور پنجابی زبان میں وہ شاعری کرتے تھے ۔ان کی شاعری کی بیاض میری نظر سے گزری ہے ۔ان کی شاعری قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے ۔اپنی خود نوشت سوانح عمری ’’ میری زندگی کا سفر ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے تحریر کی ۔ اپنی اس خود نوشت میں انھوں نامور شخصیہات سے اپنی ملاقات کا احوال نہایت دل نشیں انداز میں بیان کیا ہے ۔وہ جن ممتاز شخصیات سے ملے ان میں قدر ت اﷲ شہاب ،محمد حسین آزاد ،مولانا ظفر علی خان ،تقی الدین انجم (علیگ )،سید عبدالباقی (عثمانیہ)،حکیم آفتاب احمد قرشی ،محسن بھوپالی ،ملک فیروز خان نون ،فیض لدھیانوی اور حفیظ جالندھری کے نام قابل ذکر ہیں۔اس خود نوشت کا پیش لفظ اﷲ دتہ سٹینو نے تحریر کیا اور حاجی محمد یوسف کی رائے بھی اس میں شامل تھی ۔اردو املا کے مسائل پر بھی انھوں نے ایک کتابچہ لکھا جس کا مسودہ ان کے کاغذات میں موجود ہے ۔مجھے یقین ہے کہ ان کے زیرک ،عبادت گزار اور فطین فرزند پروفیسر غلام قاسم خان ان مخطوطوں کی اشاعت پر توجہ دیں گے۔اس طرح روشنی کا وہ سفر جاری رہ سکے گا جس کا آغاز غلام علی خان چین نے کیا تھا۔بہ قول محسن بھوپالی :
ہم اندھیروں کی دسترس سے دور روشنی کی طرح سفر میں ہیں

غلام علی خان چین ایک راسخ العقیدہ سنی مسلمان تھے ۔فرقہ وارانہ تعصب کے وہ سخت خلاف تھے ۔رنگ ،نسل اور ذات پات کے امتیازات کو وہ لائق اعتنا نہیں سمجھتے تھے ۔توحید اوررسالت کو وہ ہر مسلمان کے لیے زاد راہ قرار دیتے تھے ۔وہ ایک عالم با عمل تھے ،نماز با جماعت پڑھتے اور تہجد کی نماز بھی ادا کرتے تھے ۔وہ ایک مقرب بارگاہ ہستی تھے ۔ان کی دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کرتی تھیں۔معرفت الٰہی کے جس ارفع مقام پر وہ فائز تھے اسے دیکھتے ہوئے رانا عزیز احمد (مرحوم)کہا کرتے تھے کہ غلام علی خان چین ایک صاحب باطن ولی ہیں اور ان کے بعد اس منصب پر ان کا عبادت گزار اور نیک فرزند پروفیسر غلام قاسم خان فائز ہے ۔ پروفیسر رانا ارشد علی خان(مرحوم) جوپروفیسر غلام قاسم خان کے قریبی ساتھی تھے وہ اس بات کی تصدیق کیا کرتے تھے کہ عشق رسول ﷺ اور معرفت الٰہی کے اعجاز سے پروفیسر غلام قاسم خان اپنے عظیم والد غلام علی خان چین کے ما نند اپنے عہد کے ابدال ہیں۔پروفیسر دیوان الیاس نصیب (مرحوم )بھی اس خاندان کے کشف و کرامات سے واقف تھے ۔اس لیے وہ کہا کرتے تھے کہ پروفیسر غلام قاسم خان جوایک ولیء کامل ہیں اگر ریٹائر منٹ کے بعد بے لوث انداز میں دم درود اور تعویذ دھاگہ دینے کا سلسلہ شروع کر دیں تو یہ دکھی انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہو گی ۔مسئلہ یہ ہے کہ مستقبل کے واقعات زندگی کے ارتعاشات ،تقدیر اور ایام کے نشیب و فراز سے مکمل طور پر آشنا یہ مرد فقیر اپنی حقیقت کا بھید کسی کو نہیں بتاتا ۔
محرم بھی ہے ایسا ہی جیسا کہ ہے نا محرم کچھ کہہ نہ سکا جس پر یاں بھید کھلا تیرا

فلاحی اور رفاہی کاموں میں غلام علی خان چین نے بے دریغ رقم خرچ کی۔ اپنے گھر کے عین سامنے موجود تیرہ سو سال قدیم تاریخی مسجد شلیانی کی تعمیر نو کے سلسلے میں ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ انھوں نے خود گار ا اٹھایا اور تعمیری کام میں مزدور کی حیثیت سے کام کرکے محنت کی عظمت کے انمٹ نقوش دیکھنے والوں کی لوح دل پر ثبت کر دئیے ۔اپنی زندگی میں مسجد کے جملہ اخرجات کے سلسلے میں وہ کسی کے دست نگر نہ رہے ۔وہ اور ان کے مخلص دوست باہمی تعاون سے س نیک کام کو پایہ ء تکمیل تک پہنچانے میں مصروف رہے ۔شہر میں موجود دردمندوں اور ضعیفوں کی داد رسی کے لیے وہ اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ۔حکیم احمد بخش (چار آنے والے حکیم )کے مطب کے لیے درکار جڑی بوٹیا ں اور عرقیات کی کشید کے لیے ایندھن کی فراہمی کی ذمہ داری انھوں نے رضاکارانہ طور پر لے رکھی تھی ۔اس طرح صدقہء جاریہ کے متعدد کاموں میں حصہ لے کر اور فیض کے اسباب بناکر انھوں نے ایک ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک ان کانام زندہ رکھے گی ۔ایسے لوگ یادگار زمانہ ہوتے ہیں جن کا وجود اﷲ کریم کی بہت بڑی نعمت ہوتاہے ۔ان کی نیکیاں ،عبادات ،فلاحی کام اور خدمت خلق ہمیں آلام روزگار کی تمازت سے محفوظ رکھتی ہے ۔ہم صدائے جرس کی جستجو میں دیوانہ وار بھٹکتے پھرتے ہیں لیکن اپنے رفتگاں کے غم سے نڈھال ہو کر سکوت کے صحرا کے سرابوں میں پھنس جاتے ہیں۔آج جب میں پیچھے مڑ کر بیتے لمحو ں کی چاپ پر دھیان دیتا ہوں تو اپنے ان شفیق بزرگوں کی دائمی مفارقت خون کے آنسو رلاتی ہے اور پوری زندگی دکھ اور کرب کے سانچے میں ڈھلی معلوم ہوتی ہے ۔ کیا زندگی میں ان جیسا کوئی محسن اور مل سکے گا اس کا جواب حددرجہ غیر امید افزا ہے بہ قول شہر یار :
زندگی جیسی توقع تھی نہیں کچھ کم ہے ہر گھڑی ہوتا ہے احساس کہیں کچھ کم ہے
بچھڑے لوگوں سے ملاقات کبھی پھر ہو گی دل میں امید تو کافی ہے یقیں کچھ کم ہے

غلام علی خان چین آج ہمارے درمیان موجو دنہیں ۔تقدیر کے چاک کو سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں کیا جا سکتا ۔ہم پر لازم ہے کہ اس درویش منش ،فرشتہ سیرت مرد قلندر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بے لوث محبت ،دکھی انسانیت کی خدمت اور علم کی روشنی کو پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں انھیں خراج تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے حصے کی شمع فروزاں کریں تا کہ سفاک ظلمتوں کو کافور کیا جا سکے۔اﷲ کریم انھیں جوار رحمت میں جگہ دے ان کی زندگی روشنی کا ایسا سر بہ فلک مینار ہے جسے دیکھ کر ہر دور کے رہروان منزل اپنے رستوں کا تعین کریں گے ۔میری دعا ہے کہ اﷲ کریم غلام علی خان چین کی قبر کو جنت کے باغ میں بدل دے اور ان کی روح جنت میں سکون سے رہے ۔
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزہء نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Ghulam Ibnesultan
About the Author: Ghulam Ibnesultan Read More Articles by Ghulam Ibnesultan: 277 Articles with 613458 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.