حضرت خواجہ غریب نوازؒ

اس مادر گیتی پر کئی مذاہب نے جنم لیااور دنیا کو اپنی تہذیبوں سے روشناس کرایا۔مگر اسلام نے کائنات کو ایک ایسی ہمہ گیر و جامع تہذیب کا درس دیا جس کی مثال آج تک دنیا پیش نہ کر سکی۔یہی وجہ ہے کہ غیر اقوام نے بھی اسلام کی خوبیوں کے آگے سر خم کیا۔ اسلامی تہذیب نے حیاتِ انسانی کی خارجی اور باطنی پہلوؤں کو بہت حد تک اُجاگر کیا۔خارجی زندگی سے مراد دنیوی زندگی ہے اور باطنی یعنی آخرت کی زندگی۔

تصّوف باطنی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے۔تصّوف منسوب ہے صوفی سے۔

بقول حضرت جنید بغدادیؒ : صوفی وہ شخص ہے جس کے چہرے پر حیا ہو،جسکی آنکھیں پُرنم ہو،اس کے قلب میں صفائی ہو،اس کی زبان پر حمدوثناء ہو،اس کے ہاتھوں میں جودوعطا ہو،اسکے وعدے میں وفا ہو اور اس کے کلام میں شِفاء ہو۔

تصّوف کی بنیاد اخلاق پر رکھی گئی ہے اور صوفی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ خدا کی صفات کا مظہر ہو کر مخلوق کے سامنے آئے۔یہی وجہ ہے کہ اولیاء اکرام اپنے بلند اخلاق و اعلیٰ کردار سے بہت جلد اپنوں اور غیروں میں مقبول ہوگئے۔

انہیں اولیاء اکرام میں سے حضرت خواجہ غریب نوازؒ ایک ہیں۔آپکی ولادتِ با سعادت ۱۴ رجب المرجب ۵۳۷ ہجری بروز شنبہ بوقت صبح صادق مقام سنجر میں ہوئی۔ آپکا اسم گرامی معین الدین حسنؒ تھا۔والد حضرت خواجہ غیاث الدین ؒ اور والدہ ماجدہ بی بی ماہ نورؒ تھیں۔آپکا سلسلۂ پدری ۱۳ واسطوں سے اور سلسلۂ مادری ۱۲ واسطوں سے مولائے کائنات حضرت علی ؓ تک پہنچتا ہے۔بہ اعتبار نسب آپ نجیب الطرفین سیّد ہیں۔

ابتدائی تعلیم اپنے والدِماجد سے حاصل کی۔آگے حضرت حسام الدینؒ کے حلقہء درس میں داخل ہوئے،یہاں تقریباََ سات آٹھ سال تک مختلف علماء سے تحصیلِ علم کرتے رہے۔جب آپکی عمر ۱۶ سال تھی تو آپکے والدِ بزرگوار کا انتقال ہوا۔حضرت خواجہ غریب نواز ؒ مع اپنی والدہ اور دو بھائیوں کے عراق سے واپس خراسان آئے۔کچھ دنوں بعد ترکہء پدری تقسیم کرلیا۔ آپ کے حصّہ میں ایک باغ آیا جسکی دیکھ بھال خود حضرت خواجہ غریب نوازؒ فرماتے تھے۔ ایک دن حضرت ابراہیم قندوزیؒ حضرت خواجہؒ کے باغ میں آئے۔حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے آپکی خاطر خواہی کی۔جس سے خوش ہو کر حضرت ابراہیم قندوزیؒ نے اپنی جھولی میں سے کَھلی کا ایک ٹکڑا نکالا اپنے دانتوں سے چبایا اور اسکا کچھ حصّہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کو کھلایا۔کَھلی کھاتے ہی حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی دنیا بدل گئی۔آپ نے اپنا باغ اور دوسرے سارے املاک فروخت کردئے اور جو سرمایہ ہاتھ آیا اُسے خدا کی راہ میں خیرات کر دیا۔اس کے بعد آپ اپنی والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر مطلوب حقیقی کی تلاش میں گھر سے نکل پڑے۔ سب سے پہلے آپ خراسان آئے وہاں سے سمر قند و بخارا تشریف لے گئے اور با لآخر قصبہ ہارون پہنچے۔ یہاں آپ حضرت خواجہ عثمان ہارونی ؒ کی خدمت میں آگئے اور مرشدِ کامِل نے آپ سے سلوک کی تمام منزلیں طئے کرائیں۔

حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے پاس جو اخلاق کی جو قدریں تھیں وہ اخلاقِ نبوی ﷺ کا آئینہ تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے حلقہء ارادت میں جو بھی آیا وہ ان کی محبت وعقیدت کی زنجیروں میں قید ہو کر رہ گیا۔ جب حضرت خواجہ غریب نوازؒ اجمیر شریف پہنچے تو یہاں آدمی آدمی کے درمیان نسل و رنگ اور ذات پات کی نہ جانے کتنی دیواریں کھڑی تھیں جتنی بھی حد بندیاں لوہے کے حلقے کی طرح مضبوط تھیں اُنہیں صرف وہ چاک کر سکتا تھا جسے دستِ اخلاق بطور ورثہ میسر آئی تھیں جو لوہے کے بابِ خیبر کا سینہ چاک کر سکتی تھیں۔ چنانچہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے جب غیر مسلم عوام الناس نے فیض اُٹھانا شروع کیا تو رنگ و نسل ،ذات پات کی فولادی زنجیریں از خود ٹوٹنے لگیں۔جب لوگ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے قریب آئے تو ان کے دلوں میں یہ احسا س پیدا ہوا کہ وہ خدا کے بندے ہیں۔ انکی زبان پر اﷲ کی حمدوثناء ہے خداکی بنائی ہوئی زمین پر سب کو برابر کی عزّت حاصل ہے ہم سبھی آدم ؑ کی اولاد ہیں۔یہ سن کر لوگوں کے دلوں میں نیا سورج طلوع ہوا تو سماج میں پھیلے ہوئے توہم پرستی کے اندھیرے از خود چُھٹنے لگے۔تو اسکا قدرتی ردِّ عمل یہ تھا کہ وہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے بتائے دین کو قبول کرلیں۔ اِسی دین سے انہیں مساوات کا سبق ملا تھا اور حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے کلام میں وہ شفاء تھی کہ یہاں کے لوگوں نے اسلام کو قبول کرلیا۔

اس زمانے میں پرتھوی راج حکمران تھا اسکی ماں علمِ نجوم کے ذریعے اپنے بیٹے کو آگاہ کر چُکی تھی کے ایک درویش آئے گا اور اسکے ہاتھوں تیری سلطنت کا خاتمہ ہوگا۔ابتداء ہی سے حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی ذات بابرکات سے ایسی کرامتیں ظاہر ہونے لگی تھیں جو عوام الناس کو آپکا گرویدہ بنا رہی تھیں۔پرتھوی راج کو برداشت نہ ہوا اس نے جئے پال جادوگر کو انکے خلاف لگا دیا۔ جئے پال بھی بڑا ضدی تھا اپنے ساتھ دیڑھ ہزار جادوگروں کی بھیڑ لے کر حضرت خواجہ غریب نوازؒ کا مقابلہ کرنے آیا۔اور جب اس کے جادو کا ہر وار نا کام ہو گیا تو اس نے اپنی شکست مان لی۔ جئے پال جوگی کی شکست نے پرتھوی راج کا دل توڑ دیا لیکن پھر بھی اس نے حضرت خواجہ غریب نوازؒ سے بلاوجہ بیر ڈالا اور نتیجہ یہ ہوا کے شہاب الدین غوری کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اسکی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا جیسا کے اسکی ماں نے پیشن گوئی کی تھی۔

یہ اﷲ والے ہوتے ہی ایسے ہیں جیسا میں نے پہلے کہا ہے کہ یہ خدا کی صفات کا مظہر ہو کر مخلوق کے سامنے آتے ہیں۔انکی زبان سے جو کلمات نکلتے ہیں وہ بلا تا خیر ہوجاتے ہیں۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ نے اپنے وسائل سے جس اسلام کی تبلیغ کی وہ یہی ہے کہ اﷲ ایک ہے محمد ﷺ اﷲ کے آخری نبی ہیں اور جزا و سزا کا دن مقرر ہے جسے اﷲ کی مشیت سے آنا ہی ہے، خدا کی مخلوق پر شفقت کرنا اور خدا کے احکام کی اطاعت کرنا ہی اس کے بندوں کا فریضہ ہے۔ اسی تبلیغ نے اسلام کو پھیلایا۔ بے شک اسلام مسلمان بادشاہوں کے ذریعے نہیں بلکہ اولیاء اور صوفیاء اکرام کے ذریعے پھیلا ہے۔ انہیں اولیاء اکرام میں سے حضرت خواجہ غریب نوازؒ ایک ہیں۔

IMRAN YADGERI
About the Author: IMRAN YADGERI Read More Articles by IMRAN YADGERI: 26 Articles with 31057 views My Life Motto " Simple Living High Thinking ".. View More