یہ بات ابھی تو عجیب سی لگتی ہے
کہ گزشتہ ہفتہ ایک اور امریکی اہلکار کو انتہائی اعلیٰ سول اعزاز سے نوازا
گیا (ہلال قائد اعظم) یہ غالباً تیسرا یا چوتھا واقعہ ہے جس میں کسی امریکی
کو اتنے اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا ہو اور وہ بھی ایک سال سے کم عرصے میں۔
اگر پاکستان ترکی کی جگہ ہوتا تو پاکستانی ملٹری کمانڈر اعلان عام کر کے
افغاانستان کے ان علاقوں میں فائٹر طیارے بھیج دیتا جن مقامات سے دہشت
گردوں کی سپلائی کے راستے گزرتے ہیں جن کے راستے دہشت گرد پاکستان مخالفت
اور پاکستان کی تقسیم کے منصوبے لے کر پاکستان میں داخل ہو کر پاکستان کے
علاقوں پر دہشت پھیلانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ افغانستان کی سپورٹ کی یہی اصل
وجہ معلوم ہوتی ہے جن کی وجہ سے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے علاقوں میں دہشت
گردی کی کاروائیاں ہوتی ہیں جن کے ثبوت پاکستان کی ایجنسیز کے پاس ہیں اور
جن کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد ایک جنگ شروع کرنا ہرگز
نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک ایسی طاقت استعمال میں لانی چاہیے کہ جس کے بعد
افغانستان اپنے دہشت گردوں کو پاکستان ایکسپورٹ کرنا بند کردے، خاص کر
اسرائیلی اور انڈین انٹیلیجنس کے اہلکار جو افغانستان میں محفوظ طریقے سےنا
صرف رہ رہے ہیں بلکہ پاکستان میں در اندازی کرکے باآسانی واپس افغانستان
پہنچ جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح کے واقعات کو ترکی نے حل کیا تھا جب شمالی
عراق دہشت گردوں کی ایک جنت نظیر بن گیا تھا ترکی مخالف گروہوں کی جس کو
یقینی طور پر امریکی ملٹری کی سپورٹ بھی حاصل تھی۔
اور پاکستان افغانستان سرحد پر کشیدگی اپنے عروج پر ہے بالکل اس وقت جب
پاکستانی افواج تیاری کر رہی تھیں بیت اللہ محسود کو قابو کرنے کی جنوبی
وزیراستان میں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں افواج پاکستان بیت
اللہ محسود کی گرفتاری کی کوششیں کر رہی تھیں اور عین اسی وقت امریکی
ایجنسی سی آئی اے نے حکم صادر فرمایا ایک اور ڈرون حملہ کا ! کہاں ؟ جنوبی
وزیرستان میں جہاں افواج پاکستان مصروف عمل تھیں ! نہیں بھیا بلکہ امریکی
ایجنسی کے ڈرون حملے کا ٹارگٹ تھا شمالی وزیرستان کہ جہاں پاکستانی حمایت
یافتہ اور طالبان مخالف ٹرائبل کمانڈر حافظ گل بہادر کا قبیلہ تھا ۔ حافظ
گل بہادر پاکستان افواج کے ساتھ گزشتہ ایک سال سے امن میں تھے ۔ اب اس حملے
کے بعد لامحالہ پاکستان کی حمایت پر کمر بستہ کمانڈر حافظ گل بہادر اور
اسکے قبیلے والے یہی سمجھیں گے کہ پاکستان نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ مل
کر یہ حملہ اس پر اور اسکے قبیلے پر کروایا ہے اور اس طرح امریکی ایجنسی کی
کاروائی کے بعد ایک طرف جنوبی وزیرستان میں بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن
کے ساتھ ساتھ پاکستانی افواج شمالی وزیرستان میں صلح صفائی پر مصروف ہوجائے
گی جس پر دو طرفہ محاز کھل جانے کے شک و شبہ سے افواج پاکستان کی یکسوئی
متاثر ہوگی جس کا براہ راست فائدہ بیت اللہ محسود اور پاکستان دشمن عناصر
کو پہنچے گا۔
اگر یہ واقعی جان بوجھ کر کروایا جا رہا ہے اور اگر امریکی غلطیاں یا سازش
اسی طرح جاری رہی تو پاکستان بری طرح پھنس کر رہ جائے گا ایک خوفناک سول
وار میں اپنے تمام شمال مغربی علاقوں میں۔ واشنگٹن پہلے افغانستان کے
معاملات کو پیچیدہ اور چیزیں خراب کر چکا ہے اپنے نئے نئے تجربوں کے صورت
میں اور گزشتہ کئی مہینوں سے پاکستان میں بھی شرارتوں میں مصروف ہے۔ ایک
بڑے پیمانے پر سول وار امریکی مفادات کو تقویت دے گی۔ کابل کے حکومتی حلقے
اپنے انڈین اور اسرائیلی حمایتیوں کے ساتھ اسی بات کے منتظر ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ ان عناصر کو ختم کردیں جو اپنے آپ کو پاکستانی طالبان
کہلواتے ہیں۔ مگر یہ کرنے کے لیے ہمیں اپنی توجہ افغانستان کی طرف مبذول
کرنی ہوگی۔ امریکی ڈپلومیٹ ولیم برنز بھی مجبوراً انٹرنیشنل کمیونٹی کی
تشویش کو مد نظر رکھتے ہوئے انڈین کو کہہ چکے ہیں کہ یا تو افغانستان میں
اپنے سفارت خانے مکمل بند کرو یا پھر ان کی تعداد کم کرو، کیونکہ وہاں سے
دہشت گردی کی پلاننگ اور ٹریننگ ہو رہی ہے۔ جس کے ثبوت انٹرنیشنل ایجنسیز
کے پاس اور پاکستانی امریکن ملٹری رابطوں کے پاس بھی موجود اور محفوظ ہیں
جن کی تردید کرنا ہندوستانی اور اسرائیلی ایجنسیز کے بس کی بات نہیں رہے ان
حالات اور حقائق کو انڈین اہلکار عوامی سطح پر زکر کرنے سے گریزاں نظر آتے
ہیں۔ ۔
پاکستان کو چاہیے کہ ان بنیادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نئی افغان پالیسی
مرتب کرے۔ پاکستان کے بہترین قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بھی دیکھا
جائے کہ اس معاملے میں امریکی خلوص کس درجے کا ہے۔
اور ہمیں یہ بات بین الاقومی برادری اور خاص کر اپنے امریکی دوستوں پر واضع
کر دینی چاہیے کہ افغانستان میں امریکی یا اتحادی فتح کی قیمت پر پاکستان
کے قومی مفاد اور پاکستان کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہیے اور
پاکستان کے فوجی یا غیر فوجی اہداف پر کوئی نظر کسی بھی صورت میں برداشت
نہیں کی جائے گی۔ اور اتحادیوں کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ
مشترکہ مفادات کو حاصل ضرور کیا جائے مگر ۔۔
یہ بات بھی صاف بتانا ضروری ہے کہ القاعدہ کے معاملے کو الگ تناظر میں
رکھتے ہوئے افغان طالبان یا افغانستان کے اندرونی گروہوں کو ختم یا تباہ
کرنا پاکستان کے سٹریجک اہداف نہیں ہیں۔ ہم افغانستان پر قبضہ نہیں چاہتے
(گرچہ امریکی چاہتے ہیں)۔ اور افغانستان کو اپنے معاملات طے کرنے کا مکمل
حق حاصل ہونا چاہیے۔ ملا عمر بھی پاکستان کی مدد کر سکتا ہے گر وہ پاکستان
میں موجود اپنے حمایتیوں کو پاکستان کے خلاف حملے کرنے سے روک سکے، کیونکہ
پاکستان کو ملا عمر سے کوئی جنگ نہیں لڑنی نا لڑی ہے، جو امریکی اور اتحادی
افواج کے مظالم کے بدلے پاکستان میں آکر پاکستانیوں کو قتل کر کے لے رہے
ہیں ان ہی پاکستانیوں کو جو انہیں امریکی اور اتحادی افواج کے حملوں کے
صورت میں افغانستان سے بھاگ نکلنے کے بعد اسلامی بھائی چارے کے نام پر اپنا
بھائی سمجھتے ہوئے پاکستانی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں
اور اس کا بدلہ وہ پاکستان ہی کو انتشار کا شکار بنا کر کرنے سے باز نہیں
رہ پا رہے۔
اس طرح ہمیں ان طالبان کا مکروہ چہرہ بھی نظر آجائے گا جو پاکستان کی
سلامتی پر حملے کر رہے ہیں اور جس کے لیے حربی وسائل اور مال ودولت انہیں
کن غیر ملکی طاقتوں سے حاصل ہو پاتا ہے جو وہ ایک ریگولر آرمی کا مقابلہ
کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ؟
پاکستان کو اس امریکی الزام کا بھی کڑے ہاتھوں مقابلہ کرنا چاہیے کہ اتحادی
افواج کو افغانستان میں جنگ کے دوران جو مزاحمت ہوتی ہے ان کے تانے بانے
پاکستان سے جڑتے ہیں۔ ایک تازہ امریکی تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق
افغانستان میں مزاحمت خود افغانستان کے جنوب سے جنم لیتی ہے۔ تو بھیا یہ
صرف پاکستان کی ٹرائبل پٹی ہی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ پختونوں اور ان کے
افغانستان میں موجود علاقوں کے ساتھ ہے۔ ان کو نمٹ لو تو مزاحمت ختم ہوجائے
گی۔ |