گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک خبر نے
توجہ مبزول کروائی۔ جس کے مطابق حکومت سرحد نے مالاکنڈ، سوات سمیت تمام
علاقوں میں غیر مقامی امام مسجد کی تعیناتی غیر قانونی قرار دینے کے معاملے
پر کام شروع کر دیا ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے پرنٹ میڈیا اور انٹرنیٹ میں کچھ خبریں اور واقعات بڑے
تواتر سے شائع اور نشر ہوتی رہیں کہ دہشت گردوں پر حملوں اور بمباری کے بعد
ملنے والی لاشوں کی اسلامی طریقے سے تدفین سے قبل کو غسل دلانے کے دوران یہ
بات سامنے آئی کہ بہت سے دہشت گرد جن کا لباس اور حلیہ بظاہر مسلمانوں اور
خصوصاً پکے سچے مسلمانوں جیسا تھا (یعنی بظاہر شرعی حلیہ اور داڑھی رکھتے
ہوئے ) ان کی ختنہ یعنی عرف عام میں مسلمانی ہی نہیں ہوئی تھی۔
یعنی بظاہر مسلمانوں کا حلیہ اور شکل و صورت اختیار کرنے والے دراصل
مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر ہمارے عقیدے اور ایمان کو اپنے مذموم
مقاصد کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور پتہ نہیں کب سے یہ عمل جاری و ساری
تھا ہے اور نامعلوم مسلمانوں کی صفوں میں عام مسلمانوں سے زیادہ شرعی
مسلمان (بظاہر وضع قطع ، رہن سہن، چہرے مہرے، اوڑھنے پہناوں کے حساب سے)
ہونے کا دھوکہ دینے والے نامعلوم کس کس جگہ اور کس کس طرح سادہ لوح اور
لاعلم مسلمانوں کے ایمان اور ان کے عقیدے کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہونگے
اور پتہ نہیں کس کس جگہ کے شیخ صاحب، مولوی صاحب، پیر صاحب دراصل مسلمانوں
کا روپ دھارے ہندو، یہودی اور دوسرے بھروپیے ہونگے۔
اس طرح انشا اللہ امت مسلمہ جو ویسے ہی مسائل و مصائب کا شکار ہے اسلام کے
نام پر بہروپیوں سے تو محفوظ رہ سکے گی ۔ امر واقع یہی ہے کہ مقامی لوگوں
کی تعیناتی کو عوام میں بھی مقبولیت حاصل ہوتی ہے اور مقامی لوگ چونکہ ایک
دوسرے کو بچپن اور لڑکپن سے جانتے اور ایک دوسرے کے اعمال اور کردار سے
بخوبی آگاہ ہوتے ہیں اس طرح مقامی اچھے لوگ اچھے ہی تصور اور برے لوگ برے
ہی تصور کیے جائیں گے اور اچانک باہر سے کوئی اچھا کردار چڑھائے اور شرعی
وضع قطع کی آڑ میں مقامیوں کو دھوکہ دینے سے محروم ہی رہے گا۔
کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ مقامی آبادیوں میں غیر ملکی دہشت گردوں نے گھس
کر اور چھپ کر پاکستان کے مفادات کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے وہ کوئی بظاہر
حملہ کرنے والا دشمن نہیں کر سکتا۔ کیونکہ چھپ کر اور عام لوگوں میں گھل مل
جانے والے دشمن پر حملے کی صورت میں مقامی آبادی کے ہونے والے نقصانات میں
دہشت گرد اور غیر ملکی تو اتنے نہیں متاثر ہوتے جس قدر مقامی لوگ متاثر
ہوتے ہیں جنہیں عرف عام میں کولیٹرل ڈیمیجز کہا جاتا ہے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ سرحد کی حکومت کا ممکنہ قدم ایک قابل
تقلید عمل ہونا چاہیے اور اسی طرح مسلمانوں کے عقائد اور ان کے ایمان پر
ڈاکا ڈالنے کی سازش کو ختم کرتے ہوئے یہی عمل یعنی مقامی مساجد میں مقامی
افراد (علما اور نیک امام ) کی امامت کے منصب مقدسہ پر تعیناتی کو قانونی
شکل دینی چاہیے۔ جس سے مسلمانوں میں شامل ہونے والے لوگ آسانی کے ساتھ
مسلمانوں کو دھوکا دینے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ |