حضرت عثمان ذوالنو رین رضی اﷲ عنہ کو صحابہ کرام رضی اﷲ
عنہ میں جو فضیلت حاصل ہے وہ اظہر من الشمس ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ
عنہ ،حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت زید بن حا رثہ رضی اﷲ عنہ کے بعد وہ
صحابی تھے جنہو ں نے اسلا م قبو ل کیا،آپ رضی اﷲ عنہ ذوالنورین تھے اس بات
سے آپکی فضیلت و مرتنے کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ ؓ کو آپ ﷺ کی بارگاہ
میں کس قدر اعلیٰ مقام حاصل تھاکہ آپ صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم نے یکے بعد
دیگرے اپنی دو بیٹیوں کو آپکے نکاح میں دیا اور فر مایا:اگر میری چا لیس
بیٹیاں بھی ہو تیں تو انہیں یکے بعد عثمان ؓ کے نکا ح میں دے دیتا ،آپ ؓ کی
خلا فت کے وقت باغی انتہا ئی سر گرم تھے جن کا مقابلہ آ پ ؓ نے مر دانگی سے
کیااور ظلم کے خلاف جہاد کرتے ہو ئے جام شہا دت نو ش کر کے شہد مظلوم قرار
پا ئے ۔یو م ِ حضرت عثمان بن عفا ن پر آپ ؓ کی سیرت و کردار اور مختصر
حالات ِ زندگی پیش خدمت ہیں۔
حضرت عثمان ؓ ہجرت نبوی کے سنتالیس سال قبل پیدا ہو ئے ذریعہ معا ش تجارت
تھااس میں اپنی امانت و دیانت اور راست بازی سے اتنی ترقی حاصل کرلی کہ
قریش کے دولت مند ترین لو گوں میں آ پ ؓ کا شما ر ہو تا تھادو لت و ثروت کی
بدولت ''غنی ''کے لقب سے پکا رے جاتے تھے آپ ؓ فطرتاَ بڑے پاک باز،دیانت
دار اور نیک دل تھے اپنی فیاضی و سخاوت کے باعث ہر دلعزیزتھے قرآن کریم کی
حفاظت کے سلسلہ میں جو خدمات آپ ؓ نے سر انجام دیں وہ تاریخ اسلام کا زریں
باب ہے قرآن کریم کے لئے اس قدر خدمات کی بدولت ہی آپ ؓ جامع ِ قرآن قرار
پا ئے ۔
نام نسب:آپ ؓ کا اسم مبارک عثمان ؓ ،کنیت ابو عبیدہ اور لقب ذوالنو رین تھا
والد کا نام عفا ن اور والدہ کا نام اردیٰ تھا۔آپ ؓ قریش کے مشہو ر قبیلے
بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے پانچویں پشت پر آ پؓ کانسب رسو لﷺ سے جا ملتا
ہے بنو امیہ کا خاندان زمانہ جاہلیت سے ہی نہا یت معزز چلا آ تا ہے آ پ ؓ
کے والد دورِ جا ہلیت میں ہی وفا ت پا چکے تھے جبکہ آ پ ؓ کی والدہ مشرف بہ
اسلا م ہو چکی تھیں اور آ پؓ کی خلافت میں وفات پائی ۔
کنیت و لقب:دورِ جاہلیت میں آپؓ کی کنیت ابو عمرو تھی لیکن جب آ پ کی زو
جیت میں رقیہ بنت ِ رسول اﷲ آ ئیں اور ان کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوا جس
کا نام عبداﷲ رکھا گیااسی وقت آ پؓ نے ابو عبد اﷲ کی کنیت اختیار کی۔آ پؓ
کو ذوالنو رین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے چو نکہ آپ ؓ کی زو جیت میں آ پ ﷺ
کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آ ئیں۔ ۔۔
دورِ جا ہلیت میں آ پ ؓ کا شما ر اپنی قو م کے عزت داراور معتبر لو گوں میں
ہو تا تھاآ پؓ جا ہ و حشمت کے مالک شیریں کلام اور شرم حیا کے پیکر تھے آ پ
ؓ نے اسلام سے قبل کبھی شراب پی نہ ہی اسلام کے بعد ۔جب آ پؓ دین حق کے
حلقہ بگو ش ہو ئے ان دنوں آ پؓ کا خاندان اسلام کے سخت مخالفت کر رہا تھاآ
پ ؓ کو کڑی سزا ئیں دی گئیں مگر آ پؓ دین حق پر ڈٹے رہے ،کچھ عرصہ تک آ پ ؓ
بنو امیہ کے مظالم بر داشت کرتے رہے جب ہجرت کی اجازت ملی تو اپنی اہلیہ
حضرت رقیہ ؓ کو لے کر حبشہ چلے گئے،کچھ دنوں بعد یہ افواہ پھیلی کہ آ نحضرت
ﷺنے مشرکین کے ساتھ صلح کر لی ہے ،حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ اور دیگر مہا جرین
لو ٹ آ ئے وہاں پہنچ کر معلو م ہوا کہ یہ خبر غلط تھی ،بہت سے مسلمان واپس
حبشہ چلے گئے لیکن آ پ ؓ مکہ ہی میں مقیم رہے اور پھر چند دنوں بعد مدینہ
ہجرت فر ما گئے ۔حضرت عثمان ذوالنو رین ؓ سخاوت میں بڑے کشادہ دل اور فیاض
تھے مالی جہاد میں ہمیشہ پیش پیش رہے آ پ ؓ کی دولت سے مسلمانو ں کو بڑا فا
ئدہ پہنچا ،مدینہ شریف میں یٹھے پانی کا ایک ہی کنواں تھا جو بئر رومہ کہلا
تا تھایہ کنواں ایک یہود ی کی ملکیت تھاحضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے مسلمانوں
کی تکلیف دیکھی تو یہ شیریں کنواں 20ہزارد رہم میں خرید کر مسلمانوں کے لئے
وقف کر دیا،جنگ تبو ک میں دس ہزار دینار نقد کے علا وہ ایک ہزار اونٹ اور
ستر گھو ڑے سازوسامان سمیت دئیے تھے مسجد نبو ی میں تو سیع کی ضرورت محسوس
ہو ئی تو آ پؓ نے ۲۵ ہزار درہم کے لگ بھگ رقم سے جگہ خریدی صرف یہی نہیں
خانہ کعبہ کی تو سیع کے لئے جگہ خریدی ۔غرضیکہ آ پ نے اپنی سخاوت کے عوض
دنیا میں ہی جنت کرید لی تھی آ پؓ عشرہ مبشرہ میں شمار ہو تے ہیں عشرہ
مبشرہ وہ دس صحابی ِ رسول ﷺ ہیں جن کو آ پ ﷺ نے دنیا میں ہی جنت کی بشا رت
دے دی تھی ۔۔۔۱
آ پؓ کی عمر مبار ک اس وقت ستر برس تھی جب آ پؓ جب بیعت عام کے بعد یکم
محرم ۲۴ھ میں مسند خلافت پر فا ئز ہو ئے ،مسند خلافت پر فائز ہو نے کے بعد
سابق خلیفہ حضرت عمر ِ فا روق رضی اﷲ عنہ کی وصیت کے مطا بق حضرت سعد بن
ابی وقاص کو مغیرہ بن شعبہ کی جگہ کو فہ کا والی بناکر بھیجایہ پہلی تقرری
تھی جو حضرت عثمان ؓ کے ہا تھوں عمل میں آ ئی ۔خلافت عثمانی کے ابتدائی چند
سالوں میں مملکت اسلامیہ میں امن قائم رہا ملک کا نظام نہا یت خو ش اسلو بی
سے چلتا رہافتو حات کا سلسلہ جا ری رہا اور اسلامی سلطنت کی حدیں مشرق اور
مغرب دونوں طرف سے وسیع ہو تی چلی گئیں ایران کی فتح آ پ ؓ کے دور خلافت
میں مکمل ہو ئی ،آ پ ؓ کے دورِ خلافت میں مسلمان اسی جرات و جلاوت ،ایمان و
ایقان ،اخلاص و وفا ،شوق ِ شہادت اور ان اوصاف و اخلاق کے حامل رہے جن سے
فاروقی خلافت میں متصف تھے جو آ غاز اسلام سے ان کا طرہ امتیاز ہے اگرچہ
خلافت عثمانی کے اواخر میں امت مسلمہ اندرونی انتشار و خلفشا ر کی شکا ر ہو
گئی تھی مگر فاروقی عہد خلافت کی طرح ملکوں پر فتح حاصل کرتے گئے۔۔۔
عثمانی خلاقت کے ابتدائی دوسال انتہائی پر امن اور سکون سے گزرے جس میں فتو
حات کا سلسلہ بھی عہد ِ فاروقی کی طرح جاری و ساری رہا خراج آ مدنی بھی
بڑھی،مال غنیمت بھی ہا تھ آ یا،ملکی تجارت کو فروغ ملا۔لیکن اس کے بعد کے
سالوں میں وہ فتنے کھڑے ہو ئے جن کے باعث حضرت عثمان ؓ کو جام ِ شہادت نو ش
کرنا پڑا ۔خاندانی اور قبا ئلی رقابتیں اور خو د غرضیاں نمودار ہو نا شروع
ہو گئیں ملک میں ایسی جماعتیں پیدا ہو گئیں جو خلیفہ کے کاموں پر بھی معترض
ہو نے لگیں اس زمانے میں عبداﷲ بن سبا جیسے منا فق لو گ مو جود تھے جنہوں
نے محض اسلام میں انتشار پھیلا نے کے لئے اسلام قبول کیااند ر سے وہ اسلا م
اور خلافت عثمانی کے خلاف سازشیں کرتے رہے ۔حضرت عثمان ؓ کے مظالم کے جھو
ٹے قصے بنا کر رعا یا کو سناکر بغاوت پر آ مادہ کرنے کے لئے تک دو کرنے لگے
با غیوں کی جانب سے آ پ ؓ کے خلاف ایسا پروپیگنڈا کیا گیا جو قیاس میں نہیں
آ سکتا تھااس سے بہت سے نیک نیک لو گ متاثر ہو ئے ۔۔۔!
ذو الحجہ کا مہینہ تھا اور جمعہ کا روز تھا آ پ ؓ روزہ سے تھے آ پ ؓ نے
خواب دیکھا کہ رسو ل مقبو ل ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کہہ رہے ہیں کہ صبر
کیجئے آ ج روز ہ ہمارے پاس افطار کریں گے آخر باغی آ پ ؓ کے گھر کے محاصرہ
کے بعد آ پ گھر کے اندر داخل ہو ئے ایک ملعون کنایہ بن بشیر نے آپ ؓ کی
پیشانی مبارک پر لو ہے کی سلاخ اس زور سے ماری کہ آ پؓ پہلو کے بل گر پڑے
جس سے خو ن کا فوارہ جاری ہو گیااور کسی بد بخت نے تلوار کا وار کیاجس سے
ذو النورین ؓ کی شمع حیا ت بجھ گئی ،اس بے کسی کی موت پر سب دنیا نے ماتم
کیا،شہادت کے وقت آ پؓ قرآن مجید کی تلاوت فر ما رہے تھے جمعہ کے دن عصر کے
وقت شہادت کا واقعہ پیش آ یاقیامت کے آ پ ؓ کی شہادت کی گواہی اﷲ کا قرآ ن
پیش کرے گا، آہ ! باغیوں کی ہلڑ بازی کی بدولت دو دن تک آپکی لا ش بے گورو
کفن پڑی رہی پھر کچھ جانثاروں نے ہمت کرکے آپ ؓ کو رات کے اندھیرے میں شہد
مظلوم ؓکا جنازہ اٹھایا اور جنت البقیع کے آخری حصے میں دفن کیا۔آپ ؓ کی
شہادت تاریخ اسلام کا بہت بڑا المیہ تھا جس نے وحدت ملی کو پارہ پارہ کر
دیا،اتحاد و شیرازہ بندی کا خاتمہ ہو گیا،شہادت سے دو دن قبل آ پ ؓ نے
باغیوں سے کہا تھا کہ ''یاد رکھو! بخدا اگر تم نے مجھے قتل کر دیاتو قیامت
تک ایک ساتھ نماز نہ پڑھ سکو گے ''اور آپ ؓ کا یہ فرما ن حرف بہ حرف درست
ثابت ہوا۔ |