جہاں یہ بات پوری دنیا میں مانی
جاچکی ہے کہ سختی بچے کیلئے نقصان دہ ہوتی ہے وہاں ہم میں سے بہت کم لوگوں
کو اس بات کا ادراک ہے کہ بہت زیادہ نرمی بھی بچے کی شخصیت پر اتنے ہی منفی
اثرات ڈالتی ہے بچے کو ہر کام کرنے کی مکمل آزادی دینا بھی درست نہیں۔
والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کی رہنمائی کریں اور انہیں غیرضروری
سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکیں۔ بچے کو جسمانی سزا دینی چاہیے یا نہیں؟ یہ
سوال ہمیشہ اساتذہ اور والدین کے درمیان متنازعہ رہا ہے۔ اکثر والدین کے
خیال میں تھوڑی بہت سزا اس وقت ضروری ہوجاتی ہے جب حالات کنٹرول سے باہر
ہونے لگیں جبکہ دوسرے سزا کو بچے کو قابو کرنے کامتبادل نہیں سمجھتے۔
سزا دینے سے پہلے اساتذہ کو چند نکات ذہن نشین رکھنا ضروری ہیں: والدین اور
اساتذہ کو بچے کے سامنے ایک بہترین مثال بن کر رہنا چاہیے۔ بچے کو سزا دینے
سے پہلے اسے اپنی غلطی کو بیان کرنے کا مکمل موقع فراہم کرنا چاہیے۔ ایک
بچے کو بتانا چاہیے کہ اسے کس وجہ سے سزا دی گئی ہے۔ ان معیار میں مستقل
مزاجی ہونی چاہیے۔ یہ غلط ہے کہ کسی غلطی پر ایک دفعہ تو سخت سزا دیدی جائے
لیکن دوسری دوسری دفعہ چھوڑ دیا جائے بلکہ اس کی تعریف کردی جائے۔ (مثلاً
ایک بچہ کو اکثر جھوٹ بولنے پر مار) پڑتی ہے لیکن دروازے کے باہر آنے والے
شخص کو یہ کہنے پر تعریف کی جاتی ہے کہ ابو گھر پر نہیں ہیں۔
بچے کو بہت سختی سے نہیں مارنا چاہیے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنے والدین
یا اساتذہ سے باغی ہوسکتا ہے۔ کبھی بھی ڈنڈے بیلٹ یا جوتیوں وغیرہ کا
استعمال نہ کیا جائے۔ ایک یا دو تھپڑ کافی ہوتے ہیں۔ بچے کو اندھیرے کمرے
میں بھی بند نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بچے کی نفسیات پر نہایت خوفناک اثر ڈالتے
ہیں۔
بچوں کے نظم و ضبط کے حوالے سے ماں باپ کے درمیان ایک باہم سمجھوتہ ہونا
چاہیے۔ آپ کے جو بھی مسائل ہوں بچے کے سامنے آپ کوایک بن کر پیش ہونا
چاہئیں۔ بچے کی موجودگی میں بالکل لڑائی جھگڑا نہ کریں سب سے زیادہ مجرمانہ
ذہنیت کے بچے ایسے گھروں سے نکلتے ہیں جن کے والدین اکثر ایک دوسرے سے لڑتے
ہیں۔ بچے کو مارنے کے فوری بعد ہی گلے نہ لگالیں تھوڑی دیر کیلئے سزا کا
اثر باقی رہنے دیں۔
کبھی ایسی سزا دینے کا نہ کہیں جو آپ حقیقت میں نہیں دے سکتے۔ مثلاً کبھی
یہ نہ کہیں کہ ”میں تمہاری ٹانگیں توڑ دونگی،، کیونکہ کچھ عرصے بعد آپ کا
بچہ آپ کی دھمکیوں کی خوفناکیوں کا احساس کرنا ترک کردیتا ہے۔
اگر آپ اسے کسی چیز سے روکنے کیلئے کوئی سزا تجویز کریں (مثلاً جیب خرچ بند
کرنے کا کہیں) تو ایسے فعل کے ارتکاب کے بعد بچے کا جیب خرچ واقعتاً بند
کردیں۔
بچے کو کبھی ایسا تاثر نہ دیں کہ آپ صرف اپنی ذات کی تسکین کیلئے اسے سزا
دے رہے ہیں۔ کبھی یہ نہ کہیں کہ ” میں تمہاری وجہ سے لیٹ ہوگئی ہوں، یا یہ
کہ ”تمہاری وجہ سے میرا سر شرم سے جھک گیا ہے،،
معروف نفسیات دان کا خیال
میں نے ایک پرنسپل کے طور پر اپنے ٹیچرز کو مندرجہ ذیل سزائیں تجویز کی
ہیں:
٭ بچوں کی مسلسل جگہ تبدیل کرتے رہیں اور ان کے رویے کو بغور دیکھیں۔
٭ انہیں کلاس کے باہر کھڑا کریں لیکن ان کا منہ کلاس کی طرف ہو اور پڑھائی
جاری رکھی جائے۔
٭ بچوں کو کہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے کانوں کو پکڑے رکھیں اور کلاس کے باہر
کھڑا کیا جائے۔
٭ ہوم ورک نہ ہونے کی صورت میں ان کی سرزنش کی جائے اور انہیں بریک ٹائم یا
چھٹی کے وقت اپنا کام مکمل کرنے کا حکم دیا جائے۔
٭ ایسی سزائیں موقع محل دیکھ کر ماحول کی مناسبت سے تجویز کرنی چاہئیں تاکہ
جو بچہ کلاس سے دور بھاگنے کی کوشش کرتا ہے وہ بھی اپنی کلاس کے دوستوں
جیسا بن جائے اور ایک فرمانبردار اور ریگولر طالب علم بنے۔
میرے خیال میں بچوں کو سزا دینے کی بجائے انہیں نفسیاتی لحاظ سے دیکھنا اور
پرکھنا چاہیے۔ وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں اپنے سکول یا گھر کے اردگرد کے ماحول
سے سیکھتے ہیں۔ انہیں خود سے اس بات کا کوئی خیال نہیں ہوتاکہ کیا صحیح اور
کیا غلط۔
میرے سکول میں جو طالب علم لیٹ آتے ہیں، یونیفارم نہیں پہنتے یا اپنا ہوم
ورک نہیں کرتے ان کانام سکول کے نوٹس بورڈ پر نمایاں طور پر لکھا جاتا ہے
جس کی ہیڈنگ ہوتی ہے ”آج کے ہیروز،، اس لیے ہر بچے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ
نظم وضبط کا خیال رکھے تاکہ اس کا نام نوٹس بورڈ پر نہ آئے۔ اس طریقہ کار
نے جسمانی سزائوں کی نسبت کہیں بہتر نتائج دئیے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میرے دوست کی والدہ نے اسے سگریٹ پیتے ہوئے رنگے ہاتھوں
پکڑلیا۔ انہوں نے اسے مارنے کی بجائے کہا ”سنو! آج تم نے وہ کام کیا ہے جو
تمہیں کبھی نہیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ اس میں تمہارا اپنا فائدہ تھا لیکن
اس میں میں اپنے آپ کو قصور وار ٹھہراتی ہوں کہ شاید مجھ سے ہی تمہاری
تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے۔ بچے کی والدہ نے اس دن کھانا نہیں کھایا۔
لیکن اس کا بچے پر نہایت گہرا اثر پڑا اور پھر وہ اپنی ساری زندگی سگریٹ کے
قریب نہیں گیا۔
میرے خیال میں جسمانی سزا کسی حد تک ٹیچر اور والدین کی ناکامی کا ثبوت بھی
ہے کہ وہ بچے کو آسان زبان میں سوال جواب کرکے اپنی بات سمجھانے میں ناکام
رہے ہیں۔
بچوں کو مارنے کی بجائے صبروتحمل کے ساتھ سمجھایا جائے، مارنے سے انہیں یہ
تاثر ملتا ہے کہ جسمانی قوت زبان اور بات چیت کرنے سے زیادہ طاقتور ہے۔
بشکریہ عبقری میگزین |