نیاز کشمیری کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟

از ! جاوید خان

واصف علی واصف نے ایک جگہ لکھا تھا۔ــــــــپاکستانیت بھی طریقت کے ایک سلسلے کی طرح ہے۔واصف کی بات کوکہ اگر سچ اور حق مان لیا جاے تو پھر اس طرح کے بے شمار سلسلے وجود اور منظر عام پہ آتے جایئں گے۔مثلا فلسطینی ،چیچنی ،آیرلینڈی ،اور کشمیری ۔۔۔۔۔۔۔کشمیری بھی ایک نسبت ہے۔۔۔جو 84471 مربع میل کے اندر رہنے والے ہرکشمیری کو بلا رنگ،نسل،قوم،قبیلہ اس سلسلے سے جوڑتی ہے ۔۔۔۔اس حدود میں رہنے والے ایک دوسرے سے اس طرح بندھے ہیں ،جڑے ہیں جس طرح کسی طریقت کے سلسلے کے لوگ ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔اس سلسلے میں ایک چیز جو مشترک ہے وہ ہے،،وطن کی محبت،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں مراقبے ،ریاضتیں ،تسبح ،سب وطن کے لیے ہیں۔

نیازکشمیری بھی اسی سلسلے کا ممبر ہے ۔ وہ ،، نیاز کشمیری ،،۔۔۔جس کے لفظوں سے وطن کی مہک آتی ہے۔۔۔۔۔آذادی کے شرارے پھوٹتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔اس کے دل میں آذادی ہی کے خواب بستے ہیں۔ وہ لفظوں کی تجارت نہیں کرتا ،وہ سیدھا سادہ ،، کشمیری ،، ہے۔وہ لفظوں کی عمارت گری کے فن سے نا آشنا ہے۔ اس کے الفاظ بولتے ہیں۔ان میں زندگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امید ہے۔۔۔۔۔ جہدوجہد ہے۔۔۔۔غلامی کے خلاف نفرت ہے۔۔۔۔۔سچائی ہے۔۔۔۔کہ۔۔۔ اپنا دیس ، اپنی جنت ہے۔۔۔۔۔

نیاز کشمیری صحراوں کی خاک چھانتا ہے۔۔۔اپنے لہو کو پانی میں تبدیل کر کے صحرا کو گلزار کرنے والوں میں نیاز کشمیری بھی شامل ہے۔۔۔۔۔۔صحراوں و بیابانوں میں جگ،مگ کرتے شہر کھڑے کرنے والے کشمیریوں میں نیاز کشمیری بھی پیش، پیش ہے۔۔۔۔۔۔نیاز دن کو تپتے صحرا میں کام کرتا ہے ۔رات کو اپنی جنت کو اپنی آنکھوں میں بسا لیتا ہے۔عرب کے ریگزاروں میں خونی لکیر کے اس طرف کے کشمیری بھی شامل روز گار ہیں ۔

نیاز کشمیری کی کتاب ۔۔۔۔ اپنا دیس،،اپنی جنت ،،۔۔۔ حال ہی میں منظر عام پہ آئی ہے۔ادار’’ نکس ‘‘نے اسے میرپور آذادکشمیر سے شائع کیا ہے۔کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے ، جو نیاز کشمیری نے مختلف وقتوں میں لکھے ہیں۔۔۔۔۔کتاب میں جہاں پربتوں ، کہساروں ،کا ذکر ہے۔ ۔۔۔۔۔وہاں ان آذادی پسندوں ،، کا بھی ذکر ہے۔،جو کشمیر سے بہت دور اپنے وطن کی آذادی کیلے بر سر پیکار ہیں۔۔۔۔۔۔۔یوں ’’نیاز کشمیری‘‘ نے اس رشتے کی لاج رکھی ہے۔۔۔جو دنیا بھر کے آذادی پسندوں کے درمیان یکساں اور مشترک ہے۔۔۔ وہ ہے۔۔ آذادی پسندی،، جبر کے خلاف بر سر پیکار،،رہنا اور۔۔۔غلامی سے نفرت کی تبلیغ۔۔۔

میں نے آصف اشرف سے پوچھا یہ نیا ز کشمیری کون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟آ صف نے کہا ۔۔نیاز وادی پرل کے پہلو ’’کھڑک ‘‘ کا رہنے والا ہے۔۔۔۔اور’’ عرب امارات ‘‘میں جاب کرتا ہے۔۔۔مگر میں نے جب کتا ب دیکھی تو آصف صاحب کی اس بات کی نفی ہوئی ۔۔۔۔۔نیاز کشمیری ۔۔۔صرف پر ل کا نہیں ، وہ پورے کشمیرکا نمائندہ ہے۔۔۔وہ کشمیری ہے۔۔۔آذادی پسند ہے۔۔وہ اس سلسلے کا رکن ہے ۔۔۔جس کا نام ۔۔۔کشمیریت ہے۔۔۔۔کشمیریت اس کی جان بھی ہے۔اور پہچان بھی۔۔۔۔۔وہ اس کارواں کا مسافر ہے۔۔جس نے 1832 سے منزل کا تعین کیا اور 1947، ,،1984 ،1988 ، 2012 ۔ ۔۔۔۔2013۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زندہ کھالیں کھنچوانیں سے لے کر پھانسیوں تک بے شمار قربانیوں کے باوجود نہ تھکا ہے ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہ اپنی جگہ سے ہٹا ہے۔۔۔۔۔۔۔قربانیوں کی یہ لمبی چوڑی فہرست آذادی کی تتحریکوں میں ایک انفرادیت رکھتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اس لمبے سفر نے کشمیریوں کو تھکانے کے بجاے تازہ ولولہ عطا کیا ہے۔

۔ڈبلیو ایچ بیکر نے جس کشمیر’’ کو ویلی آف ڈیتھ ، ویلی آف پیراڈائز‘‘کہا ہے۔۔نیاز کشمیری بھی اسی ویلی سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔۔۔جہاں کی زمین جنت کا منظرپیش کرتی ہے۔۔۔۔مگر فضا ہر دم بارود کے ڈھیر پہ کھڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔کشمیر کی تحریک کا عروج ،پھر کچھ تنزلی ،فلسطین کے گوریلے ہوں ،یا کشمیر کے جاں باز ،نیاز صاحب کی کتاب اس سب کا احاطہ کرتی ہے۔۔۔۔ سردار کبیر صاحب کی کتا ب ۔۔،پہاڑ لوگ،،۔۔۔ کی تقریب میں ایک ساتھی نے کہا تھا ۔۔۔پونچھ کے لوگوں کو تلوار سے فرست ہی نہ ملی ،قلم اٹھانے کا بچاروں کو وقت نے موقع ؂ہی کہاں دیا۔۔۔۔۔ان کی بات کا اعتراف کرنے کے سوا چارہ نہیں ۔مگر اب یہ محاز بھی کمزور نہیں ۔۔کیوں کہ اس محاز کو پروفیسر ظفر حسین ظفر ،ارشاد محمود ،ڈاکٹر صغیر،اور نیاز کشمیری نے سنبھالا دیا ہے۔۔۔۔۔

نیاز کا وطن کشمیرتین ایٹمی طاقتوں کے گھیرے میں کھڑا ہے۔۔۔۔وساہل بے پناہ ، اور مساہل بھی بے پناہ ۔۔۔اپنی جنت سے دور ہر کشمیری اس کی دوری کو محسوس کرتا ہے۔۔۔۔اس کے سبز پوش پہاڑوں ،برفیلے کہساروں کے لیے، اس کے بیٹوں نے خون جگر دیا ہے۔۔۔۔مٹی کی محبت میں ٓشفتہ سر قرض چکا کر بھی یہاں نہ چکانے کے دعوے دار ہیں۔۔۔۔اس سے بڑی خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔۔۔۔اس میں شک نہیں نیاز نے قلم خوں میں ڈبو کے لکھنے کا حق ادا کرنے کی کو شش کی ہے۔۔۔جب کشمیر پہ دشمن تو دشمن ٹھہر ے، دوست بھی معذرت ٖخوانہ رویہ رکھے ہوے ہیں ۔۔اسیے موسم میں ،ایسی کاوش ابر کرم نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔کل جب شہدا کشمیر اپنے ٹپکتے لہو کے ساتھ ،اپنے رب کے حضور پیش ہو ں گے ۔۔۔اسی صف میں اگر کشمیر پہ قلم اٹھانے والے ہوے تو نیاز کشمیری بھی اپنے قلم و لفظوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔۔۔اور میری دھرتی گواہی دے گی ۔۔۔الہی یہ نیاز کشمیری ہے۔۔۔۔امید ہے۔۔۔جنت (کشمیر)کا یہ وارث ،اسی بدولت اس جنت کا بھی حق دار ہو۔۔۔نیاز کے تمام طریقت بھائی (کشمیری ) سلسلہ قلم جاری رکھنے کی استدعا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنا دیس ،اپنی جنت
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 82148 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.