اقوام متحدہ کے پرچم تلے پاکستان کی خدمات

24اکتوبر یواین ڈے پر خصوصی تحریر

اپنی پیشہ ورانہ اعلیٰ کارکردگی‘ معاملہ فہمی اور انسان دوستی کے حوالے سے مشہور افواج پاکستان کو آج یہ اعزاز حاصل ہے کہ موجودہ زمانے میں اقوام متحدہ کے زیر اثر جاری تمام امن مشنوں میں سب سے بڑا اور اہم حصہ افواج پاکستان ہی کا ہے ۔ اپنے قیام سے لے کر آج تک پاکستان اقوام متحدہ کے تحت 41 سے زائدمشنوں میں اپنی خدمات انجام دے چکا ہے۔ ان میں نیوگنی ‘ کمبوڈیا‘ صومالیہ ‘ مشرقی سلوینیا‘ نمیبیا ‘ کویت ‘ ویسٹرن صحارا‘ جارجیا ‘ روانڈا ‘ انگولا‘ ہیٹی‘ بوسنیا‘ مشرقی تیمور‘ سرا لیؤن ‘ لائبریااور جمہوریہ کانگو ، ایوری کوسٹ سمیت دیگر شامل ہیں۔افواج پاکستان نے ان علاقوں میں قیام امن کے لئے سخت ترین موسمی اور علاقائی حالات سے نبردآزما ہوتے ہوئے امن کی بحالی میں اہم کردار اد کیااور جس عمدگی سے آپریشن کئے‘ ایک زمانہ ان کا معترف ہے۔اپنے ان عالمی فرائض کے دوران افواج پاکستان کے متعدد افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کرکے سبز ہلالی پرچم کو پوری دنیا میں بلند کیا۔

پاکستان کے امن مشن کے سفر کا آغاز1960ء کانگو سے ہوا جہاں پاک فوج کے امن دستے نے اقوام متحدہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی۔1962ء میں انڈونیشیا اور ہالینڈ میں ایک معاہدہ کے تحت مغربی ایریان کے انتظامی امور عبوری طور پر اقوام متحدہ کے حوالے کئے گئے۔ پاک فوج کی ایک انفنٹری بٹالین کی موجودگی میں مشن کامیابی کے ساتھ تکمیل کو پہنچا۔1992ء میں ہونے والی خانہ جنگی کی وجہ سے صومالیہ ایک تباہ حال ملک بن گیا۔ حکومت کی عدم موجودگی کے باعث مسلح رہزن کھلے عام لوٹ مار‘ قتل و غارت اور دہشت گردی کررہے تھے۔ ملک بھر میں امن و امان کا وجود نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس صورتحال میں یہاں بین الاقوامی امداد کی اشد ضرورت تھی۔ اقوامِ متحدہ کی درخواست پر پانچ سو پاکستانی عسکریوں پر مشتمل دستہ موگا دیشو پہنچا۔ پاکستانی امن دستے کے ذمے بندر گاہوں اور ہوائی اڈوں کی حفاظت ،خوراک لے جانے والے قافلوں کی حفاظت، امدادی اشیاء کی مناسب طریقے سے تقسیم، غیرقانونی اسلحہ کی برآمدگی،طبی امداد کی فراہمی، آبادکاری اور جنگ سے تباہ شدہ علاقوں میں عمارتوں و سڑکوں کی تعمیر اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی شامل تھی۔ جسے پاک فوج نے بڑی خوبی سے نبھایا۔ 5جون 1993ء کوپاکستانی ٹروپس کو فرح عدید کے اسلحہ خانوں کی انسپکشن کی ہدایت ملی۔ اس موقع پر فرح عدید کے حامیوں نے پاکستانی انسپکٹروں پر اچانک حملہ کردیاجس میں 23پاکستانی فوجیوں نے جام شہادت نوش کیا ۔

کمبوڈیا میں میں پاک فوج نے خدمات انجام دیں۔ وہاں بھوک‘ تباہی اور جنگ کی صورتحال کو بیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا تھا۔ قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود ملک میں خوشحالی یا معمول کی زندگی کا نام تک نہ تھا۔ اکتوبر 1992ء میں ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد ایک جامع سیاسی سمجھوتہ طے پایا اس معاہدے کے تحت کمبوڈیا میں یونائیٹڈنیشنز ٹرانزیشنل اتھارٹی قائم کی گئی۔ اس کو فرض سونپا گیا کہ وہ وہاں امن کے قیام کا بندوبست کرے‘ تاکہ وہاں پر شفاف الیکشن کرائے جاسکیں۔ پاکستانی دستے کے فرائض میں غیر ملکیوں سے ہر قسم کے اسلحہ اور سازو سامان کی واپسی،جنگ بندی اور اس سے متعلقہ امور کی نگرانی،اسلحہ پر کنٹرول جس میں، بیرونی مداخلت کی نگرانی اور اس کا خاتمہ ،مسلح چھاپہ مار دستوں سے اسلحہ کی واپسی،اسلحہ اور سازوسامان کو اکٹھا کرنا اورملک میں فورسز کی حرکت کو روکنا،بارودی سرنگوں کی صفائی میں مدد فراہم کرنا اور مقامی افراد کو اس کام کی تربیت دینااور شفاف انتخابات کے لئے امن قائم کرناشامل تھا۔پاکستانی عسکریوں کو نہایت دشوار گزار اور درودراز علاقوں میں امن کے قیام کی ذمہ داری سونپی گئیں۔ پاکستانی بٹالین نے انتخابی عملے کے ساتھ مسلح فوجی روانہ کئے اور انتخابات کے پرامن انعقاد کے لئے سازگار فضا قائم کی اور انتخابی عمل میں کوئی خلل پیدا نہ ہونے دیا۔

کمبوڈیا اور صومالیہ میں امن کے قیام کے لئے پاک فوج کی عمدہ کارکردگی کا اعتراف کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ نے خاص طور پر بوسنیا ہرزیگووینا میں پاکستانی دستہ بھیجنے کی درخواست کی۔ مئی1994ء میں تین ہزار عسکریوں کا دستہ بوسنیا اور کروشیا کے لئے روانہ ہوا۔ انہیں فریضہ سونپا گیا کہ علاقے میں بگڑتی صورتحال کو مستحکم بنایا جائے‘ اقوامِ متحدہ کے اداروں اور این جی اوز کو امدادی سرگرمیوں میں تحفظ فراہم کیا جائے۔پاکستانی دستوں نے جنگ بندی کے معاہدوں پر پورا عملدرآمد کرایا جس سے متحارب گروپوں کی سرگرمیاں کم ہوگئیں۔ متحارب دھڑوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کرکے دونوں میں صلح کروائی اورلوگوں میں اعتماد کی فضا بحال کی۔

نومبر1995ء میں سربیا اورکروشیا کے نمائندوں کے درمیان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ طے پانے کے بعد اقوامِ متحدہ نے جنگ سے تباہ حال مشرقی سلوانیا میں معاہدے پر عمل درآمد کروانے کے لئے فوج تیار کی جس میں ایک ہزار پاکستانی فوجی بھی شامل تھے۔ پاکستان کوجو فرائض سونپے گئے۔ان میں جنگ سے متاثرہ علاقے میں گشت کرنا،فوجی نکتہ نگاہ سے اہم چوکیوں پر فوجیوں کی تعیناتی تاکہ متحارب فریق ایک دوسرے کے علاقے میں دخل اندازی نہ کرسکیں۔سرب فوج کو غیرمسلح کرنااورمہاجرین کی اپنے آبائی گھروں کو رضا کارانہ واپسی کی نگرانی کرناشامل تھا۔پاکستانی ٹروپس نے مقررہ وقت میں اپنے فرائض مکمل کردیئے۔ انہوں نے سربین ملیشیا کے ساتھ ایک طویل میٹنگ میں انہیں ترغیب دی کہ وہ اپنے فوجیوں کو غیرمسلح کردیں اورکروشیا میں مداخلت کے لئے بنائی گئی چوکیاں ختم کردیں۔ اس دوران پاکستانی فوجی چوکس بھی رہے تاکہ کسی بھی اچانک حملے کا مقابلہ کیا جاسکے۔مہاجرین کی گھروں میں محفوظ واپسی کے لئے تعینات اہل کاروں اوررجسٹریشن آفیسرز کے لئے پاک دستے نے حفاظتی انتظامات کئے۔

ہیٹی میں امن کی بحالی میں بھی پاک فوج کی خدمات :انتظامی اور معاشی نکتہ نگاہ سے ہیٹی کے حالات نہایت خراب تھے کیونکہ علاقے میں طویل عرصے سے جنگ کی سی کیفیت اور سیاسی افراتفری تھی۔ معیشت‘ مواصلات اور تمام سرکاری ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ امن و امان کی خراب صورت حال کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئیں کیونکہ پولیس اور فوج کا نام ونشان تک نہ تھا۔ ان حالات میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے ہیٹی میں بحالی امن فورس قائم کی گئی۔ اس کی ذمہ داری یہ تھی کہ جمہوریت کی بحالی‘ قومی مصالحت اور موثرپولیس فورس کی تشکیل کے لئے سازگار ماحول مہیا کرے۔اقوامِ متحدہ کی درخواست پرپاکستان نے ایک انفنٹری بٹالین بھیجی۔ جس نے ہیٹی کے شمالی علاقوں میں صاف شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے پاک فوج نے نہایت موثر کردار ادا کیا۔

مشرقی تیمور کے شورش زدہ علاقوں میں اقوام متحدہ کی عبوری انتظامیہ کے تحت تعینات پاک فوج کے دستے نے مختصر عرصے میں تعمیر نو کے بہت سے منصوبے مکمل کئے۔ پاک فوج کے انجینئرز نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بدولت تعمیر نو اور بحالی کے کاموں کی تکمیل کی جس سے مشرقی تیمور میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن پروہاں کے عوام کا اعتماد بھی بڑھا۔سرالیون میں بھی پاک فوج نے قیام امن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس علاقے میں تنازعہ کی ابتداء مارچ 1991ء میں ہوئی جب انقلابی متحدہ محاذکی فوجوں نے ملک کے مشرقی حصے میں لائبیریا کے قریب سے جنگ کا آغاز کیا۔ اقوامِ متحدہ کی مداخلت کے بعد1996ء میں انتخابات کرائے گئے مگر یہ انتظام کچھ زیادہ دیر نہ چل سکا۔ ینگما میں پاکستانی دستوں کی آمد کے ساتھ ہی سرالیون کے مقامی باشندے‘ جو باغی گروپوں کی دہشت گردی اور خوف کے باعث اپنے گھر بار چھوڑ کر دوسرے علاقوں میں پناہ لے چکے تھے‘ نے واپس آکر اپنے گھروں کوآباد کرنا شروع کردیا۔یواین پیس کیپنگ ہیڈکوارٹرز نے سرالیون میں یواین مشن کے لئے تعینات پاکستانی دستہ کو ’’تمام مشنز کے لئے رول ماڈل‘‘ قراردیا۔

عوامی جمہوریہ کانگو جسے ’’زائرے ‘‘کے نام سے جانا جاتاتھا۔ 55ملین کی آبادی پر مشتمل قدرتی حسن سے مالامال ملک ہے۔ اس نے 1960میں اس کے تسلط سے آزادی حاصل کی اور بدقسمتی سے اپنے آغاز ہی سے اندرونی خلفشار کا شکار ہوگیا۔اقوام متحدہ نے قیام امن کی خواہش کے پیشِ نظرمنوک( MONUC)کے نام سے 1998ء میں یہاں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ ’’ فتاکی‘‘ کے علاقے ’’کچالے ‘‘میں باغیوں نے 55افراد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جس کے بعد پاکستانی دستے کو اس علاقے میں امن کے قیام کی ذمہ داری سونپنے کا فیصلہ کیاگیا۔جس کی کوششوں سے کانگو میں زندگی کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔

لائبیریا‘ افریقہ کے مغربی ساحلی علاقے میں قائم ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی سرحدیں سرالیؤن اور ایوری کوسٹ سے ملتی ہیں۔ اقتصادی طور پر لائبیریا کا زیادہ تر انحصار معدنیات کے ذخائر پر ہے جن کی تقسیم ہی مقامی گروہوں میں تصادم اور سالہا سال کی خانہ جنگی کا باعث ہے۔ خانہ جنگی اور تباہی ہمسایہ ممالک پر بھی بُری طرح اثر انداز ہوئی جس کے پیشِ نظر اقوام متحدہ نے یہاں قیام امن کے لئے اپنے دستے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔باغیوں نے شورش کا آغازکرتے ہوئے پورے ملک میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کردی۔ اقوامِ متحدہ نے لائبیریا میں امن فوج کی تعیناتی کے لئے جن ممالک کا نام تجویز کیا ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پاکستانی دستے کا یہاں پہنچنے پر مقامی باشندوں اور LURD کی قیادت نے پرتپاک خیرمقدم کیا۔مختصر یہ کہ پاکستان کی مدد کے بغیر اقوام متحدہ کے امن مشنز شاید پایہ تکمیل تک نہ پہنچ پاتے ۔ اب تک پاکستان کے ایک لاکھ چوالیس ہزار سات سو گیارہ سولجرز41امن مشن کے تحت دنیا کے 23ممالک میں امن خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان کے دس ہزار کے قریب افسر اور جوان اقوام متحدہ کے مختلف امن مشنز میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔
Muhammad Amjad Ch
About the Author: Muhammad Amjad Ch Read More Articles by Muhammad Amjad Ch: 94 Articles with 63046 views Columnist/Journalist.. View More