’’پقراط صاحب‘‘

سقراط کا نام تو سنا ہوگا، یونان کے بڑے فلسفی اور دانا انسان تھے، بقراط کو بھی آپ جانتے ہوں گے، یہ بھی علم ودانش کا ایک معروف نام ہے۔ افلاطون کو کون نہیں جانتا، علمی حلقوں اور اقتدار کے ایوانوں میں ان کا چرچا ہے، البتہ آپ یقینا پقراط صاحب سے واقف نہیں ہوں گے، یہ صاحب خود کو ان تینوں کا ’’اباجان‘‘ سمجھتے ہیں۔ سقراط اور افلاطون کو تو اﷲ کو پیارے ہوئے صدیاں بیت گئیں مگر پقراط میاں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ ہر طرف گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ شاید اشاروں سے کام نہیں چلے گا، آئیے! آپ کی ان سے ملاقات کرائے دیتا ہوں۔

مجھ سے ملیے، میں ہوں پقراط، ہاں! میں ایک صحافی اور کالم نگار ہوں، اس لیے سمجھتا ہوں کہ سارا علم اور حکمت ودانش مندی مجھ پر ختم ہے۔ میرا لکھا ہوا ایک ایک لفظ سند کی حیثیت رکھتا ہے۔ درست وہ ہے جسے میں درست کہوں اور جسے میں غلط کہہ دوں کوئی اسے درست ثابت نہیں کرسکتا،۔اگر کوئی ایسی کوشش کرے تو میرا قلم اناڑی قصائی کی کند چھری کی طرح اس کی کھال ادھیڑ دے گا۔ کسی کو کیا مجال جو میرے برابر فہم وفراست رکھنے کا دعویٰ کرے۔ عالمی اور ملکی معاملات کا جیسا مجھے ادراک ہے، اس کا کوئی دوسرا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مجھ سے اپنا گھر سنبھالا نہیں جاتا تو کیا ہوا، میں ملک چلانے کے لیے ایسے ایسے نسخے تجویز کرتا ہوں، جہاں تک کسی اور کے ذہن کی رسائی ممکن نہیں۔ میں ایک اینکر ہوں، بغیر پڑھے اور سوچے گھنٹوں بول سکتا ہوں، لوگ مجھے گزبھر لمبی زبان کا طعنہ دیتے ہیں مگر دوسروں کے قلم کے بھاؤ لگتے ہیں اور میرے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ بکتا ہے۔ میں سب سے مہنگا ’’صحافی‘‘ ہوں، اس لیے وڈاتے اصلی صحافی ہوں، عوام کو صرف میری ہی بات پر کان دھرنے چاہئیں۔ جو میں بولوں، بس اس کو سچ سمجھنا آپ پر فرض ہے۔

میں ایک تاجر ہوں، مجھ سے زیادہ عقل مند کوئی نہیں ہوسکتا، ایک اور ایک گیارہ کیسے ہوتے ہیں یہ مجھ سے سیکھا جائے۔ گوکہ پچھلے کئی برسوں سے میری پرچون کی دکان ذرا مندی چل رہی ہے مگر ایک ہزار ایک طریقے بتاسکتا ہوں جس سے آپ چند ماہ میں اپنے کاروبار کو آسمان تک لے جاسکتے ہیں۔ مجھے نوجوانوں کو بے روزگار دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے، کوئی ایسا نوجوان کبھی ٹکرا جاتا ہے تو اسے چند ہزار روپے سے کاروبار شروع کرنے کے گر بتاتا ہوں، یہ الگ بات ہے کہ خود میرے تین بیٹے ایک عرصے سے بے روزگار گھوم رہے ہیں، یہ حکمران تو بالکل پاگل ہیں، انہوں نے تو ملکی معیشت کا بیڑا ہی غرق کردیا، اگر مجھے اسٹیٹ بینک کا سربراہ یا وزیرخزانہ بنادیا جائے تو واﷲ ملک کو پیروں پر کھڑا کردوں گا۔

آپ مجھے بڑی اچھی طرح سے جانتے ہیں، کہنے کو تو میں ایک روایتی سیاست دان ہوں لیکن اصل میں تمہارا آقا ہوں، میرے باپ، دادا تمہارے آباؤاجداد پر حکومت کرتے تھے اور میری آنے والی نسل تمہاری نسلوں پر حکمرانی کرے گی۔ پتا ہے ایسا کیوں ہوتاہے؟ اس لیے کہ ہم افضل ہیں، ہم حاکم لوگ ہیں، باقی کمی کمین ہیں۔ ہم انسان ہیں، باقی سب گھاس پھوس کھاتے ہیں، تمہارے پاس اصلی ڈگریاں ہیں پھر بھی تم ’’جاہل‘‘ ہو اور ہم جعلی ڈگریوں کے باوجود ’’تعلیم یافتہ‘‘ ہیں۔ ملک کیسے چلتا ہے؟ تم جیسے دو کوڑیوں کے لوگوں کو اس کا کیا علم، یہ راز صرف ہمیں معلوم ہے۔ ہماری ذہانت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ ہم چند سو لوگ ہیں مگر 18کروڑ لوگوں کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں، سو، اے عام لوگو! اے زمین کے کیڑو! تم ہمارے برابر نہیں ہو، تمہاری گردنیں ہمارے سامنے جھکی رہنی چاہئیں۔

میں ایک پروفیشنل ہوں، میری ڈاکٹری کی دکان ہے، ہم تو اسے ہسپتال کہتے ہیں لیکن پتا نہیں کیوں لوگوں نے اب ہسپتالوں کو بھی حجام کی دکان کی طرح ڈاکٹری کی دکان کہنا شروع کردیا ہے۔ چلیے کوئی بات نہیں، لوگ تو ہر عظیم انسان کے لیے اوٹ پٹانگ الفاظ استعمال کرتے ہی رہے ہیں۔ ڈاکٹری میں تو میری مہارت کی دنیا گواہ ہے مگر میرا کمال دیکھیے میرے پاس جس شعبے سے تعلق رکھنے والا مریض آتا ہے، میں اس کے پیشے کے حوالے سے اتنی زبردست گفتگو کرتا ہوں کہ لوگ مجھے ہر فن مولا کہنے لگے ہیں۔ سیاست، معیشت، مذہب غرض ہر طرح کے معاملات پر مجھے مکمل عبور حاصل ہے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جس کا ڈاکٹر کے پاس حل نہ ہو۔

میں انجینئرہوں، کام تو میرا مشینوں سے الجھنا ہے لیکن دنیا کے ہر معاملے میں ’’قیمتی‘‘ رائے دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں، اسی لیے دفتر اور کارخانے میں مشینوں کے بارے میں کم اور عوامی معاملات پر زیادہ توجہ دیتا ہوں، ویسے ہم جیسے ہنرمند لوگ دنیا کے ہر مسئلے میں ٹانگ نہ اڑایں تو پتا نہیں دنیا کا کیا حشر ہو۔ میں ایک ٹیچر ہوں، میں نے تھرڈ ڈویژن میں میٹرک کی تھی، شکر ہے محلے کے ایک اسکول میں 15سو روپے ماہانہ پر نوکری مل گئی، اب میں بچوں کو زیورتعلیم سے آراستہ کررہا ہوں۔ ملک میں تعلیم کی جو صورت حال ہے، اس پر بڑا صدمہ ہوتا ہے، میرے ساتھی اساتذہ بھی اس حوالے سے خاصے دکھی ہیں، ہم کامن روم میں اکثر اس موضوع پر بات کرتے رہتے ہیں، یقین جانیے اگر محکمہ تعلیم کی باگ ڈور ہم جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو سونپ دی جائے تو سب کو جلیبی کی طرح سیدھا کردیں۔

میری بھی سنیے، میں ایک عام شخص ہوں، ویسے تو میں رکشا چلاتا ہوں مگر مجھے سواریوں سے ملکی حالات پر بات کرنے میں بڑا مزا آتا ہے۔ یقین جانو! اگر سارے وزیروں، شزیروں کو کنویں میں پھینک کر سارا کام میرے اکیلے کے حوالے کردو تو ان سے اچھا ملک چلاسکتا ہوں، جو شخص 20سال سے رکشا چلا سکتا ہے تو کیا وہ ملک نہیں چلاسکتا؟ میرا ہوٹل ہے، دن بھر طرح طرح کے لوگ آتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ سیاست پر گپ شپ لگاتے ہیں، میرے سامنے ٹی وی بھی لگا ہوا ہے، سارا دن خبریں دیکھتا رہتا ہوں، سچی بات بتاؤں! مجھے تو یہ سارے لوگ بے وقوف لگتے ہیں، ان پر بڑی ہنسی آتی ہے، ان بے چاروں کو تو پتا ہی کچھ نہیں، ارے بھائی! ہم سے پوچھو، ایک ایک مسئلے کا حل بتادوں گا، یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں۔

قارئین محترم آپ نے دیکھا، ہم میں سے ہر شخص پقراط ہے۔ ہر کوئی اپنے آپ کو عقل کل اور دوسرے کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ کالم میں صرف چند مثالیں دی گئی ہیں وگر نہ کوئی ایسا طبقہ نہیں جس میں پقراط نہ ہوں۔ کسی ایشو کے حوالے سے معلومات رکھنا اور اس پر رائے قائم کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن اپنی رائے کو ہی حتمی سمجھ کر اس پر اڑ جانا بڑا مسئلہ ہے۔ کسی شخص میں ’’پقراطیت‘‘ کا حد سے بڑھ جانا بہت سنگین معاملہ ہے، ایسا شخص بہت سے ذہنی، نفسیاتی اور اخلاقی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے، یہ امراض اس کی شخصیت کو تباہ کرڈالتے ہیں۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 102613 views i am a working journalist ,.. View More