زندگی میں تجارت اور معیشت کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ
ہے،اچھی ومنافع بخش تجارت مضبوط اور مستحکم معیشت کو جنم دے کر ملک و قوم
کی ترقی کا باعث بنتی ہے،اسلام دین ِ کامل ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں
رہبری ورہنمائی کیلئے جامع اصول وقواعد فراہم کرتا ہے،تجارت ومعیشت پر شارح
اسلام صلی اﷲ علیہ وسلم نے بڑی شرح وبسیط کے ساتھ روشنی ڈالی،تاکہ اِس شعبے
کوجھوٹ،دھوکہ دہی،ملاوٹ،جھوٹی قسمیں کھانے اور ذخیرہ اندوزی و منافع خوری
جیسی تجارتی خرابیوں سے دور کیا جاسکے، پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم
فرماتے ہیں’’جو شخص (تاجر)خرید تا اور بیچتا ہے اْسے پانچ خصلتوں
یعنی’’سوداورقسم کھانا، مال کاعیب چھپانا، بیچتے وقت تعریف کرنااورخریدتے
وقت عیب نکالنے‘‘ سے دور ی اختیار کرنا چاہئے،ورنہ نہ وہ ہر گز خریدے اور
نہ بیچے۔‘‘اسلامی تعلیمات کی رْو سے جو شخص مسلمانوں کے بازار میں تجارتی
کارو بار کرتا ہے اْس میں کچھ مشخص صفات و خصوصیات کا ہونا بہت ضروری
ہے،یعنی اْس میں خرید و فروخت کی عقل موجود ہو اور وہ( صاحب ِتفقہ)خرید و
فروخت کے احکام کا علم رکھتا ہو۔اسلام معیشت کے بارے میں یہ بنیادی تصورات
فراہم کرتاہے کہ کسب و صَرف یعنی مال کا حاصل کرنا اور اْس کا خرچ کرنا اِس
طورپر ہوکہ وہ افراد اور سماج کیلئے نفع بخش ہو،نقصان دہ نہ ہو، اسلام نے
ایسی چیزوں کی تجارت سے منع کیا جو لوگوں کیلئے نقصان دہ ہو،جیسے نشہ آور
منشیات وغیرہ۔اسلام تجارت میں احتکار سے منع کرتا ہے،اسی طرح خرچ کرنے میں
بھی فرد اور سماج کے نفع و نقصان کو ملحوظ رکھا گیا ہے،فضول خرچی کی ممانعت
اِس لیے کی گئی کہ اِس سے قومیں معاشی پسماندگی میں مبتلا ہوتی ہیں اور
تعلیم و صحت اور دیگر معاشرتی مفید کاموں میں خرچ نہیں کرپاتی،جبکہ اسلام
نے اِس بات کو بڑی اہمیت د ی کہ دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے
، بلکہ وہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو کرگردش میں رہے۔
دین اسلام میں نفع کا بھی ایک جائز فطری تصور موجود ہے اور نفع خوری کی مد
میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہ ایک غیر فطری چیز ہے،خود پیسوں
سے پیسے پیدا نہیں ہوسکتے،جبکہ سود خور یہ فرض کرکے نفع یعنی سود وصول کرتا
ہے کہ اْس کے پیسوں سے لامحالہ پیسوں میں اضافہ ہوگا،اسی طرح اسلام میں
انسانی محنت کو بڑی اہمیت دی گئی ہے،فطری اصول یہ ہے کہ جب تک مال کے ساتھ
انسانی محنت کی شمولیت نہ ہو،وہ منافع بخش نہیں ہوتا،اسی اصول پر اسلام میں
استثمار کے طریقوں میں مضاربت اور مزارعت شامل ہے،مضاربت میں ایک شخص کا
سرمایہ ہوتا ہے اور دوسرے کی محنت اورمزارعت میں ایک شخص کی زمین ہوتی ہے
اور دوسرے کی محنت،دونوں صورتوں میں یہ ضروری ہے کہ فریقین کی رضامندی ہو
اور کہ محنت کار کے نفع کا تناسب زیادہ رکھا جائے۔ اسلام کے پورے نظام حیات
میں اِس بات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ کوئی ایسا عمل نہیں ہونا چاہئے،جو
فطرت سے بغاوت پر مبنی ہو،اِسی لیے تلقی جلب،بیع حاضر للبادی،تناجش اور
احتکار وغیرہ کو منع کیا گیا، کیوں کہ اِن تمام صورتوں میں قیمتوں میں غیر
فطری اتار چڑھاؤ پیدا کیا جاتا ہے، آج کل تشہیری وسائل اور ترغیبی اشتہارات
کے ذریعہ مصنوعی طورپر چیزوں کی طلب بڑھائی جاتی ہے،یہ بھی اسلام کی نظر
میں پسندیدہ عمل نہیں ہے،چنانچہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے تجارت میں جھوٹ
بولنے اور دھوکہ دینے سے منع فرمایا ہے اور کسی چیز کے فائدہ کو مبالغہ کے
ساتھ بیان کرنا اور اْس کے نقصانات کے پہلو پر پردہ ڈالنا بھی جھوٹ میں
داخل ہے،جس کا زبردست مظاہرہ موجودہ دور کے اشتہارات میں ہمیں نظر آتا ہے۔
دنیا میں اسلام کے نظام معیشت کے مقابلے میں دو بڑے معاشی نظام وجود میں
آئے،ایک اشترکیت دوسرا سرمایہ دارآنہ نظام۔اشتراکیت نے ستر سالہ تجربہ کے
بعد اپنی ہی جائے پیدائش میں دم توڑدیا اور اگر آج کہیں باقی بھی ہے تو
وہاں اْس نے اپنے بعض بنیادی تصورات سے ہی سبکدوشی قبول کرلی ہے،اشتراکیت
کے مقابلے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ بنیادی ضرورتیں سب کو مہیا ہوں، لیکن
یہ ضروری نہیں کہ معاشی معیار بھی سب کا ایک جیسا ہی ہو،اسی طرح اسلام
انفرادی ملکیت کا قائل ہے،لیکن افراد پر اِس بات کو واجب قرار دیتا ہے کہ
وہ اپنے مال میں سماج کا حق محسوس کریں اور مفلس و نادار طبقے کی
مددکریں،زکوٰۃ اور صدقات و خیرات اسی کی مختلف اشکال ہیں،ساتھ ہی شریعت
اسلامی میں زیادہ تر قدرتی وسائل کو حکومت کی ملکیت قرار دیا گیا ہے،تاکہ
اْس کا نفع زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام
بھی اِس وقت موت و زیست کی کیفیت میں مبتلا ہے،اِس نظام نے افراد کو ایسا
بے لگام بنادیا کہ اْن کیلئے کوئی اخلاقی سرحد نہیں رہی،سرمایہ دارانہ نظام
کی سب سے بڑی خرابی سود اور قمار کی اجازت ہے، جو نفع حاصل کرنے کے غیر
فطری طریقے ہیں،اِس میں مال کو مبالغہ آمیز اہمیت دی جاتی ہے اور مزدوروں
کی محنت کو کوئی خاص درجہ مقرر نہیں،یہ نظام ذخیرہ اندوزی کی اجازت دیتا
ہے،جو معاشرے کے غریب لوگوں کے ساتھ ظلم ہے ، اِس میں مصنوعی طورپر صارفیت
کو بڑھایا جاتا ہے اوراشتہارات اور بے جا ترغیبات کے ذریعہ معاشرے کا مزاج
بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ضروریات پر قانع نہ رکھے، بلکہ خواہشات کا
غلام بن جائے اور اپنی صلاحیت سے زیادہ خرچ کرے، تاکہ سرمایہ داروں کو
زیادہ سے زیادہ نفع پہنچے،اب چاہے غریب و نادار طبقے کے لوگ قرض اور فضول
خرچی کے بوجھ کے نیچے دب کر ہی کیوں نہ مر جائیں۔
جبکہ اسلام کے معاشی نظام انسانیت کی حقیقی فلاح و بہبود اور معاشی اعتبار
سے عدل کے قیام کا مظہر ہے،اسلام نے مثبت طور پر رزق کی جد وجہد کی ترغیب
دی اور اسے ہرمسلمان پر فرض کیا، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’جب
تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنی روزی کی تلاش سے غافل ہوکر سوتے نہ رہو‘‘آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص دنیا کو جائز طریقے سے حاصل کرتا ہے
کہ سوال سے بچے اور اہل وعیال کی کفالت کرے اور ہمسایہ کی مدد کرے تو قیامت
کے دن جب وہ اْٹھے گا تو اْس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح روشن
ہوگا۔‘‘اسلامی معاشیات کا ایک اساسی اصول یہ ہے کہ تمام انسانوں کیلئے
معاشی سہولتیں فراہم کی جائیں،قدرت کے ودیعت کردہ وسائل کو ترقی دی
جائے،رزق کے مخزنوں کو چند ہاتھوں میں اِس طرح مرکوز نہ ہونے دیا جائے کہ
دوسروں پر اْس کے دروازے بند ہوجائیں،اسلام کے معاشی نظام کے مثبت معاشی
مقاصد میں غربت کا انسداد اور تمام انسانوں کو معاشی جد وجہد کے مساوی
مواقع فراہم کرنا بڑی اہمیت کا حامل ہے،اسلام سب کو حصول رزق کے مواقع عطا
کرنے اور مثبت طور پر ایسی حکمت عملیاں بنانے کی تاکید کرتا ہے،جس سے غربت
وافلاس ختم ہو اور انسانوں کو اْن کی بنیادی ضروریات لازماً حاصل ہوں اور
اْن تمام ذرائع کو ممنوع قرار دیا ہے جو ظلم وزیادتی اور دوسروں کی حق تلفی
پر مبنی ہوں، اسلام محض افلاس، غربت، معیار زندگی کے گرنے کے خطرات اور قلت
وسائل کے غوغا ء سے انسان کشی اور نسل کشی کی پالیسی کی اجازت نہیں
دیتا،قرآن واضح تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ’’ تم اپنی اولاد کو افلاس کے
ڈر سے قتل نہ کرو، ہم ہی اْن کو رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی،اْن کا مارنا
بڑی خطا ہے۔‘‘درحقیقت اسلام کا مزاج مغرب کی تمام معاشی تحریکات سے منفرد
اور جداگانہ ہے،وہ ہر فرد اور پوری اْمت کی توجہ کو معاشی وسائل کی ترقی
اور پیداواری امکانات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے میں مرکوز کرتا ہے،معاشرت
میں انصاف اور آزادی کے قیام کے ساتھ ساتھ غربت وافلاس کا انسداد کرکے بہتر
معاشی زندگی کا قیام ممکن بناتاہے، قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں رزق
حلال کی جتنی اہمیت بیان کی گئی ہے،وہ اِس اَمر پر دلالت کرتی ہے کہ اسلام
کے معاشی نظام میں صرف جائز اور حلال رزق کے فروغ کے مساعی ہوں گی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’کسی نے بھی اپنے ہاتھ کے کمائے
ہوئے عمل سے زیادہ بہتر طعام نہیں کھایا،اﷲ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام
اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے۔‘‘ اسلام نے معاشی جد وجہد کو حلال وحرام کا
پابند کیا ہے،یہ ایک ایسا اصول ہے جس سے دور جدید کی معاشیات قطعاً نا آشنا
ہے،اسلامی معیشت میں صرف کی تکثیر کی جگہ اس کے انسب سطح کا حصول پیش نظر
رہتا ہے اور ایک حقیقی فلاحی معیشت ظہور میں آتی ہے،اسلام کے بنیادی اصولوں
میں سے ایک حرمت ربوا ہے جو معاشی ظلم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے،اسلام میں سود
کو اس کی ہر شکل میں حرام قرار دیا ہے اور اس کے لینے والے کو اﷲ اور اس کے
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا ہے،درحقیقت اسلام نے
تجارتی اخلاقیات کا ایک ضابطہ پیش کیا ہے،اسلام تجارتی لین دین میں دیانت
داری اور خدا ترسی کے جذبات کو فروغ دیتا ہے اوراْن تمام ذرائع کو ممنوع
قرار دیا ہے جو ظلم وزیادتی اور دوسروں کی حق تلفی پر مبنی ہوں،اسلام تجارت
کے سلسلے میں باہمی آزاد رضامندی کی تلقین کرتا ہے،تجارت کی بنیاد تعاون
باہمی پرہے،اس کے ساتھ ساتھ دیانت، جائز اور مباح کی تجارت،ذخیرہ اندوزی کی
ممانعت،اسراف کی بندش بھی عائد کرتے ہوئے کہتا ہے،’’کلوا واشربوا
ولاتسرفوا‘‘کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو۔اسلام دولت کے ارتکاز کو پسند
نہیں کرتا اوراِس بات کاا نصرام کرتاہے کہ مختلف معاشرتی،ادارتی،قانونی اور
اخلاقی تدابیر سے دولت کی تقسیم زیادہ سے زیادہ منصفانہ ہو اور پورے معاشرہ
میں گردش کرے،حضور صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں’’ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کے
مطابق اپنا مال اْن لوگوں میں تقسیم کرو جن کا حق مقرر کیا گیا ہے۔
درحقیقت اسلام جہاں معاشی ترقی کا خواہاں ہے،وہاں دینی،روحانی اور اخلاقی
ہدایات کا معلم بھی ہے،اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی کر کے فلاحی نظامِ
معیشت کا قیام ممکن نہیں ہے،اسی لیے اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ
انسان حصولِ مال کی خاطر شتر بے مہار بن جائے اورحلال و حرا م کا امتیاز ہی
ختم کرڈالے،آج اسلامی تعلیمات سے نا آشنا بعض حلقے یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں
کہ معیشت و تجارت کے بارے میں اسلامی احکام پر عمل کر نے سے ہمارا سار
اکاروبار ٹھپ ہو جائے گا اور ہم معاشی اعتبارسے بہت پیچھے رہ جائیں گے،مگر
وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حقیقی اور دیرپا ترقی کیلئے تجارتی سرگرمیوں کو
مناسب ا_صول و ضوابط کے دائرہ میں رکھنا انتہائی ضروری ہے، اقتصادی ماہرین
کے نزدیک ہمارے موجودہ معاشی واقتصادی بحران کا بنیادی سبب معاشی سرگرمیوں
کا اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے اگر یہ ناقدین اسلام کے
تجارتی احکام کاحقیقت پسندی سے جائزہ لیں توخودگواہی دیں گے کہ اسلامی
طریقہ تجارت میں شتر بے مہار آزادی،ہوس،مفاد پرستی اور خود غرضی کو کنٹرول
کرنے کاشاندار نظام اور طریقہ کار موجود ہے جو معاشرے کے اجتماعی مفادات کا
تحفظ کرتا ہے اور معاشی بے اعتدالیوں اور نا ہمواریوں کو روکتا ہے،آج بھی
ہم اپنی تجارت و معیشت کو اسلام کے ان جامع اصولوں کی روشنی میں صحت مند
بنیادوں پر استوار کرایک مضبوط و مستحکم معیشت کی بنیاد رکھ سکتے ہیں،یاد
رکھیں جب تک کسی معاشرہ کے معاشی اور مالی معاملات مناسب اصول و ضوابط کے
پابند نہ ہو ں،اْس وقت تک اس معاشرہ کی منصفانہ تشکیل ممکن نہیں ہوسکتی۔ |