شادی ایک نئی زندگی ایک نئے دور کا آغاز ہے

یہ کہانی میں اپنی بہو بیٹی ہُما کے نام کرتا ہوں
ھُما وقاص huma / wakas
Name of an imaginary bird
جس کے نام کا مطلب ہے خوشی لانا


خیال رکھیے!. میاں بیوی کے تعلق کو لفظ لباس سے تعبیر کیا گیا ہے،
.............................................................................................
شوہر کے لیے بیوی اور بیوی کے لیے شوہر دنیا کی چند بڑی نعمتوں میں سے ہیں۔

قرآن نے تو میاں بیوی کو ایک دوسرے کے لیے لباس بھی فرمایا ہے۔ خالق کائنات نے مردوزن کے اندر ایک دوسرے کے لیے کشش کا سامان رکھا ہے اور اس فطری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مذہب نے نکاح جیسا خوب صورت تعلق انسان کو دیا، تاکہ صنفِ مخالف کی کشش، جو فطری طور پر انسان میں موجود ہے، اُسے حیوانیت سے الگ کیا جاسکے۔ شادی نہ صرف تہذیب یافتہ معاشرے کی ضرورت بلکہ یہ زندگی کی حقیقت بھی ہے۔

شادی ایک نئی زندگی ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ہاں، یہ ضرور ہوتا ہے کہ اپنے ڈھنگ سے ایک عمر گزارنے کے بعد کسی کا زندگی میں آنا ہر لمحے اُسے اپنے فیصلوں میں شامل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن یہی تو اس رشتے کا خوب صورت تقاضا ہے۔ رفیقِ حیات ایک ایسی ہستی ہے جسے محبت، دوستی، وفا، جیسے خوب صورت لفظوں کا پیکر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ چھوٹی چھوٹی خواہشوں سے یہ رشتہ پروان چڑھتا ہے۔ اگر اِس خوب صورت رشتے کی روز اوّل سے دیکھ بھال کی جائے تو کوئی شک نہیں کہ آخری سانس تک ابتدائی دنوں کی تازگی کے احساس کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔

دونوں میاں بیوی ایک سے ماحول میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایک ہی گھر میں بلکہ ایک ہی کمرے میں خاصا وقت گزارتے ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھتے بڑھتے یہ ایک کمرے میں ساتھ رہنے والے دو انسان رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ہی ان جان ہوتے چلے جاتے ہیں۔ بظاہر اختلاف کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، لیکن ایک سرد مہری کی سی کیفیت طاری ہوتی چلی جاتی ہے۔ دونوں فریق اپنی ذات کے علاوہ ہر موضوع کو زیرِ بحث لاتے ہیں، مگر خود اپنی محبت ہی کو فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ اور یوں بظاہر مضبوط نظر آنے والا یہ رشتہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ نازک ہوتا چلا جاتا ہے۔ بعض حالات میں تو ایسا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے کہ جس کا ازالہ ممکن نہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کے محبت ختم ہو گئی۔ اکثر لوگوں سے یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’اب پہلے کی سی محبت کہاں‘‘ حالاں کہ ایسا سوچنا درست نہیں۔ ذرا سی سوجھ بوجھ سے اِس رشتے کی رنگینی کو برقرار رکھنا نہایت آسان ہے۔

سب سے پہلے تو یہ کہ ہر جذبے کا اظہار ضروری ہے اب چاہے وہ محبت ہو، غصّہ ہو یا ناراضگی۔ شادی کو کام یاب بنانے کے لیے محبت اور اپنے رفیق ِ حیات سے اِس کا اظہار ایک بنیادی شرط ہے۔ محبت اور وارفتگی کا اظہار ایک ایسا ہتھیار ہے، جو شریکِ زندگی کو تمام تر ناراضگی کے باوجود مسکراہٹ کے بندھن میں باندھ دیتا ہے۔

محبت کے اظہار کا کوئی ایک طریقہ نہیں اِس کا انحصار ہم آہنگی اور تعلقات کی نوعیت پر ہے۔ کوئی لفظوں کی خواہش رکھتا ہے تو کسی کو معمولی سا تحفہ بھی خوش کر جاتا ہے۔ کوئی اپنے کیے گئے فیصلے کی تائید کو محبت کا اظہار تصوّر کرتا ہے۔ دراصل محبت کا اظہار اِس ایک نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ اپنے شریک زندگی سے تعاون کے لیے نہ صرف تیار ہیں بلکہ اِس میں آپ کی خوشی اور راحت بھی پوشیدہ ہے۔ یہ احساس دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آتا ہے۔

ہمارے ہاں ویسے عام طور پر یہ توقع کی جاتی ہے کہ محبت کا اظہار شوہر کی طرف سے ہو۔ جہاں تک عورت کا تعلق ہے، تو اظہار وہ بھی کرتی ہے تاہم اِس کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ وہ اپنی چال ڈھال، نارو انداز، لباس، آنکھوں اور طرزِ گفتگو سے اِس کا اظہار کرتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات عورت اپنے اظہار کو اشاروں تک محدود کر دیتی ہے۔ دونوں ہی فریق محبت کے اظہار اور اپنی اہمیت کو تسلیم کرانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ صرف زبان سے اظہار کافی نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے عملی طور پر ثابت کرنا پڑتا ہے۔ زبان سے لاکھ کہا جائے کہ آپ کو اپنے شریک حیات کے ہر دکھ اور پریشانی کا پوری طرح احساس ہے، لیکن وہ کبھی بیمار ہوگیا اور آپ نے اس کا حال نہیں پوچھا تو آپ کے الفاظ بے جان ہوجائیں گے۔ عملی طور پر جنسِ مخالف پر یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ اُن کی خواہش اور دکھ سب اہم ہیں۔

جہاں محبت کا اظہار ضروری ہے، وہیں غصّے اور ناراضگی کا اظہار بھی بے حد اہم ہے۔ اپنے جذبات کو اندر ہی اندر گھونٹتے رہنا اور حرفِ شکایت زبان پر نہ لانا غلط ہے۔ اگر وہ فریق جسے تکلیف پہنچی ہے، خاموشی اختیار کے رہے گا، تو معاملہ بگڑ جائے گا۔ جھگڑے کے بعد مصالحت نہ کرنے کی صورت میں غصّہ دبا دیا جاتا ہے اور یوں لاوا پکنا شروع ہوجاتا ہے۔ بلاجواز طرزِعمل یا غلط رویے کے سامنے چُپ رہنے کی بجائے گفتگو کے ذریعے باہمی اختلافات دور کرنے کی کوشش تعلق میں ایک نئی جان ڈالتی ہے۔

ہماری نئی نسل میں شادی کے بعد اولاد پیدا کرنے میں وقفے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ یہ بھی اختلاف کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اولاد ایک ایسا بیج ہے جو مرد و زن کے درمیان محبت کا ایک تناور درخت بن کر اِس رشتے کی حفاظت کرتا ہے۔ ایک کام یاب شادی ایک کام یاب اولاد کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ چناںچہ شادی کے بعد میاں بیوی کو اولاد پیدا کرنے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ شادی کے ابتدائی برسوں میں پیدا ہونے والی اولاد والدین کو جلد بوڑھا نہیں ہونے دیتی ۔ وہ نہ صرف جلد اُن کا ہاتھ بٹانے لگتی ہے، بلکہ ماں باپ میں زیادہ مضبوط تعلق کا سبب بھی بنتی ہے۔ وہ لوگ جو جان بوجھ کر اولاد پیدا نہیں کرتے اِن کی زندگیوں کو اکثر بے سکون دیکھا گیا ہے۔ کم از کم ہمارے ہاں تو ایسا ہی ہے۔

محبت کا اظہار، ناراضگی، اولاد، جہاں یہ سب پہلو اِس رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جاتے ہیں، وہیں ازدواجی تعلقات کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ازدواجی تعلقات انسانی ضرورت کا ایک مخفی گوشہ ہے۔ زن و شوہر کے تعلقات کو صرف حیوانی جذبات کی تسکین کا آلہ کار نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ یہ زندگی کا متبرک وظیفہ ہے۔ یہ صرف جسمانی اور سماجی ضرورت ہی نہیں بلکہ روحانی صحت کے قیام کی خاطر بھی از خود ضروری ہے۔

ذرا غور کیجیے۔ مرد و زن نکاح کر کے جب شادی جیسے بندھن میں بندھتے ہیں تو یہ صرف دو افراد کے درمیان رشتہ ہی نہیں بلکہ ایک خاندان کی بنیاد بھی بنتا ہے۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ روز اوّل سے حقوق و فرائض کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔

میاں بیوی کے تعلق کو لفظ لباس سے تعبیر کیا گیا ہے، تو کیوں نہ اپنے لباس کو اپنے لیے پُر وقار بنایا جائے۔ یہ وہ خوب صورت رشتہ ہے جو ذہنی سکون ، محبت، صحت، ایک دوسرے کی سچی ہم دردی اور رازداری جیسی نعمتیں عطا کرتا ہے۔ لہٰذا اپنے رفیقِ حیات کا خیال رکھیے۔
ھمُا میری پیاری بیٹی یہ کہانی اپنے خاوند وقاص مسعود کو ضرور پڑھ کر سُننا شکریہ

Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 61 Articles with 167448 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More