چمنستان دہر

دنیا میں جہاں بھی نظر اٹھا کر دیکھیں تو جا بجا قدرت کے حسین نظارے جلوہ نما دکھائی دیتے ہیں جو بنانے والے کے ذوق جمال اور کرشمہ سازی کی بہار دکھانے اور انسان کا دل لبھاتے ہیں دنیا کا یہ گلشن جو قدرت کے ذوق جمال اور کرشمہ سازی کا بہترین نمونہ ہے بے شمار خوش رنگ و خوش بو گلوں سے آراستہ و پیراستہ اور مزین ہے

گلستان دہر کے ان پھولوں پر نگاہ پڑتے ہی انسان کا دل ان پھولوں کے لئے اپنے دل میں کشش محسوس کرتا ہے اور بے اختیار رک کر پھولوں کو چند لمحہ سہی دیکھتا اور مسرور ہوتا ہے جو کہ انسان کے فطری ذوق جمال کا اظہار ہے

یہ ذوق جمال انسان کو ہر اس چیز کی طرف مائل کرتا ہے جس میں انسان اپنے لئے کشش پاتا ہے اور کشش اسی صورت محسوس کی جاتی ہے جب انسان کو کسی چیز میں حسن نظر آتا ہے حسن سے دیکھنے کی حد تک محظوظ ہونا الگ بات ہے لیکن بعض انسان اس حسن و خوبصورتی کو صرف اپنے تک محدود رکھنا چاہتے ہیں اسی حسن کو سمیٹ کر صرف اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں کہ ہر آن ہر لمحہ اپنے ذوق جمال کی تسکین کے لئے اپنی نگاہوں کو حسن کی تاثیر سے خیرہ کرتے رہیں

خوبصورتی کو پسند کرنا دیکھنا اس سے لطف اٹھانا انسان کا فطری مشغلہ بھی ہے کہ وہ ہر اس چیز کو جو اس کے دل اور اس کی نگاہ کو بھا جائے وہ ہمیشہ کے لئے اس کا ساتھ چاہتا ہے اور یہ خواہش کچھ بے جا بھی نہیں لیکن یاد رہے کہ ہر چیز پر ہر انسان کا مساوی حق ہے کسی بھی چیز کو صرف اپنے تک محدود کر لینا مناسب نہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ جب ہم کسی پھول کے رنگ و خوشبو سے متاثر ہو کر اس کے قریب جاتے ہیں تو ایک ایک پھول کے ساتھ لگے بے شمار کانٹوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں انسان کی یہی نظر اندازی و بےپروائی انسان کو زخمی بھی کردیا کرتی ہے

اور انسان کی بےصبری فطرت اسی خوبصورت اور نرم و نازک پھول سے زخم کھانے کے بعد یکلخت پھول کو اٹھا کر پٹخ دیتا ہے یہ جانے بغیر کہ اس کے اس عمل سے نازک اندام پھول کے نازک و حساس دل پر کیا گزرتی ہے جبکہ اگر انسان چاہے تو احتیاط و ہوشیاری سے خود کو زخموں کی اذیت سے بچا سکتا ہے

اس دنیا میں موجود ہر شے دو متضاد کیفیات و صفات یعنی خوبیوں اور خامیوں کی حامل ہے اور یہ ہیں دنیا میں جہاں حسن و خوبصورتی ہے وہیں بدصورتی بھی ہے بلکہ بدصورتی کی بدولت ہی حسن و خوبصورتی کی صفت نمایاں ہوتی ہے جیسے رات نہ ہو تو دن کو دن کون کہے شام نہ ہو تو سحر کیا ہے

یہی معاملہ اس چمنستان دہر یعنی دنیا اور چمن میں رہتے بستے اور چلتے پھرتے باشندگان دہر یعنی انسانوں کے ان معاملات و کیفیات کا بھی ہے کہ جسے عرف عام میں دکھ سکھ، غم خوشی، ہنسنا رونا، جینا مرنا اور پانا کھونا کے ناموں سے موسوم کیا جاتا ہے

زندگی کا کوئی بھی پہلو دیکھ لیں ہر ایک پہلو دوسرے کی ضد ہے اور یہی ضد ایک دوسرے کی پہچان اور تکمیل بھی ہے کسی ایک کے نہ ہونے سے دوسرے کا بھی مفہوم بے معنی رہ جاتا ہے جب یہی زندگی کی حقیقت ہے تو پھر انسان کیوں حقائق کو تسلیم کرنے سے گریزاں دکھائی دیتا ہے یہ دنیا فانی ہے ہر شے آنی جانی ہے تو پھر آکر جانے پر دکھ کیوں خوشی کے بعد غم پانے پر ملال کیوں

جب یہ دونوں معاملات ہی زندگی کے متضاد پہلوؤں سے مرکب ہیں تو ہم ایک کو اپناتے اور دوسرے کو ٹھکراتے کیوں ہیں کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ غم خوشی کی اہمیت، قدر اور قیمت جتانے کے لئے آتے ہیں اگر زندگی میں دکھ نہ ہوں تو سکھ بھی سکھ نہ دے سکے کسی کو بنا دکھ اٹھائے سکھ میسر آجائے تو وہ اس خوشی کی اس سکھ کی قدر نہیں کرتا اور نہ ہی اسے رب کی اس عنایت کا احساس ہوتا ہے کہ جو انسان رب کی طرف سے حاصل کر چکا ہے اور یہ بے قدری انسان کو کبھی خدا کا شکر گزار بندہ نہیں بننے دیتی اور اسے راہ راست سے بھٹکا دیتی ہے

انسان اپنے رب کو صرف اسی وقت یاد آتا ہے جب انسان نقصان اٹھاتا ہے اور نقصان کی اذیت سے نجات کی کوئی راہ نہیں پاتا ہے یہ انسان کی خودغرضی نہیں تو اور کیا ہے کہ خوشی میں اپنے اس خالق کو بھولا دیا جائے کہ جس نے انسان کو زندگی سے خوشیوں کی بہاریں سمیٹنے کے قابل بنایا ہے

رب اپنے تمام بندوں سے محبت رکھتا ہے لیکن اللہ انہیں ہمیشہ اپنا دوست رکھتا ہے جو غم اور خوشی ہر دو کیفیات کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں حالتوں میں اپنے خالق و مالک کو یاد رکھتے اور اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں تو رب بھی انہیں کسی حالت میں تنہا نہیں چھوڑتا اور ایسے ہی لوگ ہر مقصد میں ہر مقام پر ہر کیفیت میں اپنے رب کو اپنا مددگار پاتے ہیں

رب اپنے بندوں کی بہتری چاہتا ہے اور انہیں آزماتا ہے جو آزمائش میں ثابت قدم رہتا ہے پھر وہی ابدی و لازوال خوشیاں پاتا ہے یہ دکھ سکھ، نیکی بدی یا دیگر متضاد حالات و کیفیات جن سے انسان کا قدم بقدم سامنا رہتا ہے انسان کی آزمائش ہی کی مختلف صورتیں ہیں

لیکن جس طرح پھولوں کے بن میں بےشمار کانٹے ہوتے ہیں اور انسان کو خود کو احتیاط و تدبیر سے تقوٰی و پرہیزگاری سے ان خارزار راستوں اور بےشمار کانٹوں سے بچاتے ہوئے اپنے ہر سفر کو محفوظ رکھنا پڑتا ہے اور جو یہ سب کر گزرتا ہے وہی اس چمنستان دہر کی خوبصورتیوں اور حسن و جمال سے بھرپور لطف و فیض وصول کرنے کا حقدار ٹھہرتا ہے

اس چمنستان دہر پر غور کریں اسے دیکھیں کہ قدرت نے آپ کی آسائش و آرام سکون و اطمینان اور خوشیوں کی خاطر کیا کیا سامان حیات مہیا کئے ہیں قدرت کے فیوض و برکات سے فیض اٹھانا سیکھیں اور اپنے خالق و پروردگار کے شکر گزار بندے بن کر رہیں کہ یہ شکر گزاری آپ کو اپنے رب کی حمایت دوستی اور محبت و قربت کی نعمت عطا کر سکتی ہے 
uzma ahmad
About the Author: uzma ahmad Read More Articles by uzma ahmad: 265 Articles with 456338 views Pakistani Muslim
.. View More