آدمی ایسا ہے آدمی ویسا ہے آدمی
کیسا کیسا ہے آدمی کو جیسا دیکھو آدمی بس ویسا ہے تمام مخلوقات عالم جس میں
چرند پرند ملائکہ اور جن و انس شامل ہیں سب کی سب ایک ہی خالق کی پیدا کردہ
مخلوقات ہیں کہ جو سب کی سب خالق نے ایک 'کن' کے اشارے سے خلق کی ہیں
ان میں جاندار اور بے جان زمین و آسمان، چاند ستارے، صحرا و سمندر، پہاڑ
اور دریا حیوانات و نباتات زمینی و آبی اور خلائی مخلوقات ہوا، پانی، آگ،
بادل اور بارش غرضیکہ اس وسیع و عریض کائنات میں انسان کو جو کچھ نظر آتا
ہے وہ بھی اور جو کچھ آدمی دیکھ نہیں پاتا ہے وہ سب شامل ہے
ان تمام عناصر و اشیا میں سے بظاہر تو کچھ اشیا جاندار دکھائی دیتی ہیں اور
بعض بے جان جبکہ حقیقت میں ہر شے اپنے اندر تحریک رکھتی ہے کہ حرکت و تحریک
ہی زمین پر زندگی کے امکان کو قائم رکھے ہوئے ہے بہر حال عناصر و ترکیب کے
اعتبار سے دنیا میں دو اقسام کی مخلوقات پائی جاتی ہیں جاندار اور بے جان
جاندار اور بے جان دونوں اقسام ہی اپنی اپنی جگہ اپنے خصائص کی بنا پر خاص
اہلیت و اہمیت کی حامل ہوتی ہیں
بے جان اشیا بے کار میں خلق نہیں کردی گئیں بلکہ کائنات میں کوئی بھی چیز
بے مقصد نہیں بنائی گئی ہر شے کا کوئی نہ کوئی مصرف کوئی نہ کوئی مقصد ہے
قدرت کی طرف سے یہ تمام اشیا زمین پر آدمی کی زندگی ممکن بنانے کے لئے
تخلیق کی گئی ہیں جو اشیا خود تو بے جان ہیں لیکن جاندار وجود میں جان پیدا
کرنے کا سامان انہی بے جان اشیا میں موجود ہے کہ ان اشیا کے بغیر زمین پر
کسی بھی جاندار مخلوق کی زندگی ممکن نہیں ہو سکتی زمین پر زندگی کا امکان
قائم رکھنے والے تمام ذرائع اللہ تعالی نے ہی خلق کئے ہیں کہ اس زمین میں
اس کائنات میں بکھرے ہوئے زندگی کے یہ تمام امکان و ذرائع ایک ہی خالق کی
قدرت کے کرشمے ہیں
خالق کائنات کی پیدا کردہ اس زمین میں جاندار مخلوق میں آدمی اور حیوان یہ
دو مخلوقات نمایاں دکھائی دیتی ہیں حیوان اور انسان میں بہت سی خصوصیات میں
اشتراک و مماثلت ہونے کے باوجود ایک چیز جو اللہ تعالی نے انسان اور حیوان
میں فرق و امتیاز کے لئے رکھی ہے وہ ہے علم و عقل اور یہ علم و عقل انسان
کو ایسے ہی عنایت نہیں کر دیا گیا بلکہ یہ آدمی کے پاس اپنے رب کی خاص
عنایت اور امانت ہے
دیکھنا یہ ہے کہ کون اپنے رب کی طرف سے مرحمت فرمائی گئی امانت کا صحیح حق
ادا کرتے ہوئے عنایت ربی پر رب کا شکر گزار بندہ بن کر اپنے آدمی ہونے کا
حق ادا کر پاتا ہے اور اپنے اس مقام کو قائم رکھتا ہے پاتا ہے
آدمی محض دیگر مخلوقات کی طرح تخلیق کردہ محض ایک مخلوق نہیں بلکہ ایک شرف
ہے ایک مقام ہے بندے پر اس کے رب کا احسان ہے
خاک کے قالب میں لپٹا، پانی میں گندھا، آگ میں سینچا گیا، فضا سے ہوا کھینچ
کر جینے والا، امر ربی پر خلق ہونے والا انسان آدمی ہے جسے تخلیق کرنے کے
بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے سجدہ کروا کر انسان کو شرف آدمیت بخشا
انسان کو آدمیت کی خلعت ایسے ہی عطا نہیں کردی گئی بلکہ آدمیت کا یہ لبادہ
انسان پر بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اور ان ذمہ داریوں کو حق کے ساتھ
ادا کرنا ہی آدمیت کی معراج ہے
انسان آدمی ہے آدمی ہونا انسان کا فخر اور آدمیت انسان کا شرف ہے اور اس
شرف کو قائم رکھنا ہی انسان کا اپنی خلعت آدمیت کا حق ادا کرنا ہے
ایک ہی فطرت پر پیدا ہونے کے باوجود انسانوں میں اس قدر تضاد و تفریق پایا
جاتا ہے کہ آدمی کی پہچان مشکل ہو گئی ہے انسان نے خود کو نام نہاد طبقات
اور فرقوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے اپنے مقصد حیات کو بھلا کر انسان خود
غرضی، لالچ، کینہ پروری، ظلم و زیادتی ،حرص وہوس اور غرور و تکبر جیسی
شیطانی و سفلی اور حیوانی عادات میں بری طرح پھنس چکا ہے اور یہ سب اسی سبب
ہے کہ انسان نے اپنے مقام و مرتبہ کو اور اپنے رب کی عنایات و احسانات کو
یکسر فراموش کرتے ہوئے خود کو ہر چیز کا مالک و مختا ر سمجھنا شروع کر دیا
ہے
انسان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سفلی و شیطانی رجحانات کے زیر اثر اپنے
اندر سفلی و شیطانی صفات پیدا کر لینے والے انسان آدمی کہلانے کے حقدار
نہیں بلکہ وہ خود اپنے ہاتھوں قدرت کی طرف سے عطا کردہ شرف آدمیت آدمیت
گنوا کر ہمیشہ کی ہلاکت و ملامت کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں
آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو ایک ننھا منّا چھوٹا سا معصوم سا خوبصورت سا بچہ
ہوتا ہے محبت چاہنے محبت پانے والا اور محبت کی زبان سمجھنے والا لیکن وقت
و حالات کی دھول باشعور ہونے تک اس معصوم فرشتے کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے
امر ربی پر خلق ہونے والے ایک ہی فطرت پر پیدا ہونے والے ایک سی صفات و
خصوصیات کا حامل انسان نے خود کو کئی قسموں میں تقسیم کر دیا ہے کہ اس میں
اسقدر اختلاف و تضاد صاف دکھائی دیتا ہے
‘کہیں فرشتہ تو کہیں شیطان کہیں مہربان تو کہیں ظلم و جبر کا نشان‘، ‘جانور
آدمی فرشتہ خدا، آدمی کی ہیں سینکڑوں قسمیں‘
آدمی کی کئی اقسام ہیں اگرچہ اعضاء و ہیئت کے اعتبار اور علم حیوانیات کی
رو سے آدمی کا شمار دو ٹانگوں والے حیوانوں میں کیا جاتا ہے اس کے دو ہاتھ
اور دو ٹانگوں کے علاوہ دیگر اعضاء الجسم مثلاً آنکھیں ناک کان وغیرہ دیگر
چوپایوں سے مماثلت رکھتے ہیں
آدمی بھی اپنے کھانے پینے کے لئے تگ و دو کرتا اپنی نسل آگے بڑھاتا اور
اپنا ہنر اپنی اگلی نسل کو سیکھاتا ہے جیسے کہ دیگر چوپائے اپنے شکار پر
جھپٹنا چیر پھاڑ کرنا اور اپنے دشمن سے محفوظ رہنے کے طریقے اپنے نومولود
ننھے جانوروں کو سیکھاتا ہے اور اپنی تمام زندگی بس اسی مختصر دائرے کے گرد
گھومتے تمام کردیتا ہے
یہ ہے ایک حیوان کی زندگی لیکن جیوان ناطق جسے آدمی یا انسان کہتے ہیں اس
کی زندگی بہت سی خصوصیات کے حوالے سے اگرچہ دیگر حیوانات سے ملتی جلتی ہیں
لیکن آدمی یا انسان کا دائرہ کار اور دائرہ عمل دیگر حیوانات کی طرح مختصر
و محدود نہیں ہے انسان اپنی عقل اور اپنے علم سے اپنے شعور سے خود کو
حیوانات کے دائرے سے نکال کر آدمیت کے دائرے میں لاتا ہے اور اپنا ازلی
مقام اس دنیا میں تلاش کرتا ہوا خود کو اس منزل تک لے جاتا ہے جو کہ انسان
کا حق ہے اور یہی وہ مقام ہے جو ایک عام انسان کو آدمی بناتا ہے
آدمی زندگی بھی دائرہ در دائرہ سفر در سفر کے عمل سے گزرتا ہے جانوروں کی
طرح اپنی زندگی ایک ہی ڈگر پر نہیں گزار دیتا بلکہ اس میں تغیّر و تبدّل سے
حسن و خوبی اور رنگینیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے کہ یہی آدمیت کی پہچان اور
دیگر مخلوقات عالم سے آدمی کا امتیاز ہے
آخر میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر انسان جو بظاہر انسان نظر آتا ہے
آدمی نہیں بلکہ جو انسان انسان ہو کر بھی انسانوں والے کام نہیں کرتا بلکہ
اپنے اندر جانوروں کی سی نفرت انگیزی، چھینا جھپٹی اور چیر پھاڑ کا طرز عمل
اختیار کرتا ہے وہ کسی طور انسان یا ادمی کہلانے کا حقدار نہیں بلکہ انسان
کے قالب میں بھیڑیا نما جانور ہے کہ جس میں ‘رحمٰن‘ کی بجائے شیطانیت پلتی
ہے وہ آدمی کہلانے کا بھی حقدار نہیں ہے
جبکہ ‘رحمٰن‘ کے وہ بندے جن میں صفات ربی کا عکس جھلکتا ہے جو امن و محبت
صلح و آشتی عدل و انصاف ایثار و قربانی اخوت و مساوات ذکر و فکر تقوٰی و
پرہیز گاری اور خدا ترسی و خدمت خلق جیسی صفات سے معرا ہوتے ہیں اصل میں
وہی انسان ہیں وہی آدمی ہیں اور وہی انسانیت و شرف آدمیت کی خلعت کے پاسبان
نگہبان اور حقدار ہیں جو اپنا مقام اپنا شرف اور اپنا فخر ہمیشہ قائم رکھتے
ہیں
یہی وہ آدمی ہیں کہ جن کے وجود کی برکت سے یہ دنیا قائم و دائم ہے اور قائم
و دائم رہے گی کہ شیطانی قوتیں کتنا بھی زور لگا لیں برائی دنیا پر راج
نہیں کر سکتی شیطان کی رسی تا دیر دراز رہے بھی تو آخر کو اسے ایسی ٹھوکر
لگے گی کہ نہ تو وہ خود کو سنبھال پائے گا اور نہ ہی اپنے گروہ کو
آخری اور مستقل فتح ‘رحمٰن‘ کے بندوں کی ہوگی ‘آدمی‘ کو ہوگی جو برائی کے
خلاف دوران جہاد وقتی طور پر ملنے والی اذیتوں اور تکلیفوں کے باعث بھی
صبرو استقامت کا دامن نہیں چھوڑتے بلکہ قوت ایمانی سے لبریز دل کے ساتھ جہد
مسلسل کی روش پر مستقل عمل پیرا رہتے ہوئے نیکی کا پیغام عام کرتے چلے جاتے
ہیں اور ایسے ‘آدمی‘ کے لئے ہی ابدی آرام و سکون خوشیاں اور رحمتتیں ہیں
ایسے ہی آدمی کے لئے خود برکات و عنایات ربی منتظر رہتی ہیں |