ان دنوں سزائے موت کے حوالے سے بحث ومباحثہ جاری ہے ۔ اس
سزا کے بارے میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں اور اس حوالے سے
آسمانی اور زمینی دونوں طرح کے حقائق کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے زیر نظر
تحریر میں اس کا جائزہ پیش کیاجا رہا ہے کہ سزائے موت کے حکم کے بارے میں
آسمانی حقائق کیا ہیں اور زمینی حقائق کیا ہیں ؟ ۔یاد رہے کہ شریعت کی طرف
سے چار جرائم ایسے ہیں جن کی سزا موت مقررکی گئی ہے ۔ان میں سب سے پہلے کسی
کا ناحق قتل ہے ۔قاتل کو قصاصاقتل کیا جاتا ہے ۔ قرآن کریم میں قصاص کے
بارے میں فرمایا’’ اے عقل (استعمال کرنے )والو! تمہارے لیے قصاص زندگی ہے‘‘
۔بظاہر تواگرچہ یہ سزا موت ہے اور وہ موت صرف ایک شخص کے لیے ہے لیکن اس
میں پوری انسانیت کے لیے زندگی ہے کیونکہ قصاص کی وجہ سے قتل ناحق کا
دروازہ بند ہو جاتا ہے اور آج کل جس طرح انسانوں کے خون کی ارزانی ہے ،ناحق
قتل کو معمولی چیز سمجھا جانے لگا ہے ،بات بے بات دوسروں کی جان سے کھیل
جانے کی کسی کو پرواہ ہی نہیں اگر قصاص کا حکم اپنی روح کے ساتھ زندہ کر
دیا جائے تو اس کیفیت اور اس صورتحال سے نجات پائی جا سکتی ہے اور اس صورت
حال سے نجات کا نام ہی ’’زندگی‘‘ہے ۔اس لیے ہونا تویہ چاہیے کہ ’’سزائے موت
برائے زندگی یا سزائے موت برائے امن وامان ‘‘ کا عنوان اختیار کیا جائے ۔
سزائے موت کا دوسرا سبب شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کا ارتکاب کرنا ہے
۔یہ ایسا جرم ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرتی اور سماجی ڈھانچہ تہس نہس ہو
جاتا ہے اور حسب ونسب اور خاندانی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اسی لیے
شادی شدہ مرد اور عورت کوسنگسار کرنے کا حکم ہے جبکہ غیر شادی شدہ کو سو
کوڑے مارنے کی ہدایت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تاکید فرما دی
گئی کہ ’’تمہیں اﷲ کے دین کے معاملے میں ان پر ذرا بھی رحم نہ آنا چاہیے
اگر تم اﷲ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو‘‘اور اس کے ساتھ ساتھ اس
بات کی بھی تاکید فرما دی کہ ’’ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو
حاضر رہنا چاہیے (سورہ نورآیت نمبر۲)
سزائے موت کا تیسرا سبب ارتداد اور چوتھا سبب نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
شان میں گستاخی ہے ۔یہ دونوں جرائم غداری کی قبیل میں سے ہیں اوردنیا بھر
میں غدار کی سزا موت کے سوا اور کچھ نہیں ہوتی ۔دین میں داخل ہونے کے
معاملے میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہر آدمی کو اختیار ہے کہ وہ خوب تسلی
وتشفی کرنے کے بعد دین اسلام میں داخل ہو لیکن ایک دفعہ جب داخل ہو گیا تو
اب غداری کرنے کی گنجائش نہیں اسی طرح ایک آدمی پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ
وسلم کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ پورے نظام کو تلپٹ کردینے
کی کوشش کرنے والا سمجھا جائے گا اور ملت اسلامیہ کی جڑوں اور مرکز عقید ت
ومحبت اور منبع ِاتحاد واتفاق پر وار کرنے والا سمجھا جائے گا اور اس کا
راستہ بند کرنا بھی ضروری ہے ۔اس لیے بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ
سزائے موت کا حکم انسانوں پر رحم کرنے کے لیے نازل فرمایا گیا ہے ۔
آئیے سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ
میں سزائے موت کے بارے میں کیا حکم ہے ۔یہ حکم اگرچہ متعدد قرآنی آیات اور
احادیث مبارکہ میں وارد ہے لیکن یہاں ان میں سے چند ایک کو محض اس لیے ذکر
کیا جارہا ہے تا کہ یہ معلوم ہو جائے کا یہ اﷲ اور اس کے نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم کا حکم ہے اور اس میں کسی کو رائے زنی یا ترمیم وتبدیلی کی اجازت نہیں
۔ہاں اگر کوئی ایمان سے ہی محروم ہے تو اس کا معاملہ الگ ہے۔لیکن کلمہ طیبہ
پڑھنے کا تقاضہ یہ ہے کہ اﷲ کے حکم کی حکمت سمجھ آئے تو بھی اور اگر سمجھ
نہ آئے تو بھی اس پر سر تسلیم خم کر لیا جائے اور خود آئین پاکستان میں بھی
یہی درج ہے کہ قرآن وسنت کے منافی کسی قسم کی قانون سازی نہیں ہو سکتی اس
لیے اگر ہمیں شریعت اور دین کا پاس نہیں تو کم از کم آئین پاکستان کا تو
لحاظ کر لینا چاہیے ۔
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں چار جرائم کی سزا موت مقرر کی گئی ہے ۔(۱)قتل
ناحق (۲)ارتداد (۳)بدکاری (۴)نبی اکرم صل اﷲ علیہ وسلم کی شان اقدس میں
گستاخی ……یہ چاروں جرائم ایسے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں فساد اور
انتشاربرپا ہو جاتا ہے اور اگر ان کی روک تھام کا کوئی انتظام نہ ہو تو
معاشرے میں ہر طرف خون کی ندیاں بہتی نظر آئیں ،کشتوں کے پشتے لگے
ہوں،رشتوں کا تقدس برقرار نہ رہے ،حسب نسب معلوم نہ رہیں اور غداری کو رواج
مل جائے ۔اس لیے شریعت اسلامیہ نے جرائم اور انتشار وفساد کی طرف جانے والے
سارے دروازے بند کرنے کا اہتما م فرمایا۔
آیات قرآنی اور احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں
(۱) حضرت ابو شریخ خزاعی نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں فرمایا ’’جس کا کوئی
عزیز قتل کیا گیا ہو ، اس کو تین اختیار ہیں ، چاہے وہ قاتل کو قتل کرے ،
چاہے معاف کرے ، چاہے دیت وصول کرے ۔‘‘ (سنن ابی داؤد ، ص ۱۲۹، ج ۴ مطبوعہ
بیروت ، حدیث ۴۴۹۶)
(۲) آنحضرت ْﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص کسی ایسی اندھی لڑائی میں مارا جائے (جس
میں قاتل معلوم نہ ہو ) یا ان کے درمیان سنگباری اور کوڑوں کا تبادلہ ہوا
ہو تو اس کی دیت قتل خطا ء جیسی دیت ہے اور جو شخص جان بوجھ کر قتل کرے ،
تو اپنے عمل کی وجہ سے وہ قصاص کا مستوجب ہوگا ۔ جو شخص اس کے اور قصاص کے
درمیان حائل ہو، اس پر اﷲ ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو‘‘ ( سنن
ابی داؤد ، ج ۴، حدیث نمبر ۴۵۹۱، مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر ۳۷۲۰۳)
(۳) متعدد صحابہ کرام سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ کے سامنے ایک مقدمہ
پیش ہوا ، جس میں ایک شخص نے دوسرے کو پکڑ لیا ، اورایک تیسرے شخص نے اسے
قتل کر ڈالا ، اس کے بارے میں آنحضرتﷺ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’ قاتل کو
قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا ۔‘‘
( کنزالعمال ج۱۵، ص ۸۲، حدیث نمبر ۴۰۱۹۴، بحوالہ دار قطنی ، و ص ۱۰ ، ج۱۵،
حدیث نمبر ۳۹۸۳۸تا۳۹۸۴۱بحوالہ بیہقی )
(۴) ’’ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ اگر منٰی کے باشندے جمع ہوکر کسی ایک
مسلمان کو عمداً قتل کریں تو میں اس کے بدلے ان سب کو قتل کروں گا ‘‘
(مسند الفردوس للدیلمی ج۳، ص ۳۷۳، حدیث نمبر۵۱۲۴، مطبوعہ مکۃ المکرمہ
۱۴۰۶ھ)
(۵) ’’حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پاس کچھ زندیق لائے گئے جنہیں آپؓ نے آگ میں
جلا دیا ۔ حضرت ابن عباس ؓ کو یہ بات پہنچی تو فرمایا ’’ اگر میں ہوتا تو
انہیں آگ میں نہ جلاتا اس لئے کہ رسول اﷲ ﷺ نے اﷲ تعالیٰ کی طرح عذاب دینے
سے منع فرمایا ہے ، ہاں ! میں انہیں قتل ضرور کرتا اس لئے کہ آ پ ﷺ کا
ارشاد ہے ’’جو مسلمان اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کر دو ‘‘(صحیح بخاری ،
ج۱، ص۴۲۳،ج۲،ص۱۰۲۳، سنن نسائی ، ج۲، ص۱۶۹، ترمذی ج۱،ص۲۳۰)
(۶) ’’حضرت ابوموسی اشعری ؓ سے روایت ہے کہ میں اور دو اشعری آدمی حضور
اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک آدمی میرے دائیں جانب تھا ،
دوسرا بائیں جانب ۔ حضور اکرم ﷺ اس وقت مسواک فرمارہے تھے۔ ان دونوں نے آپ
ﷺ سے سوال کیا کہ ہمیں حاکم مقرر کیجئے ، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ اے ابو
موسی ٰ!‘‘میں نے عرض کیا ’’ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کوحق کے ساتھ
مبعوث فرمایا مجھے ان دونوں نے اپنے دل کی بات سے مطلع نہ کیا اور نہ از
خود مجھے اس کا احساس ہوا کہ یہ منصب کا مطالبہ کریں گے ‘‘آپ ﷺ نے فرمایا’’
جو طالبِ حکومت ہو ہم اسے ہر گز منصب نہیں دیتے، لیکن اے ابو موسی !تمہیں
بلا طلب منصب دیتاہوں کہ یمن چلے جاؤ ، پھران کے پیچھے آپ ﷺ نے معاذ بن جبل
ؓ کو بھی بھیج دیا ۔ جب وہ پہنچے تو حضرت ابو موسی ؓ نے ان کی طرف تکیہ
بڑھایا اور فرمایا تشریف رکھئے ۔حضرت معاذ ؓ نے اچانک دیکھا کہ ایک آدمی
جکڑا ہوا ہے ، پوچھا ’’ یہ کیا ماجرا ہے ؟‘‘ ابو موسی ؓ نے فرمایا ’’ یہ
شخص یہودیت سے مسلمان ہوا پھر اسلام سے پھر کر یہودی بن گیا‘‘اس پرحضرت
معاذ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا’’میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا جب تک اﷲ اور اﷲ
کے رسول ﷺ کا فیصلہ نافذ کرتے ہوئے اس مرتد کو قتل نہ کردیا جائے ۔ یہ
ارشاد تین بار دہرایا ۔چنانچہ اسے قتل کیا گیا تب بیٹھے۔‘‘ (صحیح بخاری
،ج۲،ص ۱۰۲۳،سنن نسائی ج ۲ ،ص۱۶۹،سنن ابی داؤد ج۲،ص۲۵۰)
(۷) جب حضور اکر م ﷺ کا وصال ہوا اور حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ مقرر ہوئے اور
بعض قبائل عرب مرتد ہوگئے تو حضرت عمر ؓ نے کہا ’’ اے ابوبکر ! آپ صر ف
انکار زکوٰۃ پر مرتد قرارد یکر کیوں لوگوں سے قتال کررہے ہیں؟ حالانکہ حضور
اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :’’مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم ہے جب تک وہ
کلمہ نہ پڑھ لیں ، جس نے کلمہ پڑھ لیا اس نے اپنا مال اور اپنی جان مجھ سے
بچالی مگر اس کے حق کے ساتھ ، یعنی کلمہ پڑھ کر بھی موجب قتل کا م کیا تو
قتل کا سزا وار ٹھہرے گا اور اس کا حساب اﷲ تعالیٰ پر ہے‘‘ ۔ حضرت ابو بکر
ؓ نے جواب دیا ’’ واﷲ ! میں اس شخص سے ضرور قتال کر وں گا جو نماز وزکوٰۃ
کے درمیان فرق کرے ، ایک کو مانے دوسرے کا انکار کرے ۔‘‘ (صحیح بخاری ، ج ۲
،ص ۱۰۲۳)
(۸) ایک قبیلہ کے لوگوں نے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ لوٹ لے گئے اور
اسلام کے بعد کفر اختیار کیا ، منادی حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں پہنچا اور
ماجرا بیان کیا تو آپ ﷺ نے ان کے تعاقب میں کچھ لوگ بھیجے ، ابھی دن چڑھانہ
تھا کہ وہ مرتد لائے گئے ، آپ ﷺ نے ان کے ہاتھ پاؤں کٹوادیئے ، پھر انکی
آنکھوں میں گرم سلائی پھروائی اور انہیں گرم پتھریلی زمین پر ڈلوادیا ۔
انہوں نے پانی طلب کیا مگر انہیں پانی نہ دیا گیا حتی کہ اسی طرح جرم
ارتداد میں ذلت کی موت مرگئے ‘‘۔ (صحیح بخاری ،ج۱، ص۴۲۳،ج۲،ص۱۰۰۵،صحیح مسلم
،ج۲،ص۵۷،سنن نسائی، ج۲،۱۶۶)
(۹) ’’جو شخص مسلمان ہوکر گواہی دے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی لائق عبادت
نہیں اور میں اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوں ، اس کا خون حلال نہیں مگر ان تین وجوہ
میں سے کسی ایک کے ساتھ ، شادی شدہ زانی ، جان کے بدلے جان اور اپنے دین کو
چھوڑکر جماعت مسلمین سے الگ ہونے والا ‘‘۔
(صحیح مسلم ج۲،ص۵۹،سنن ابی داؤد ج۲،ص۲۵۰،سنن نسائی ،ج۲،ص۱۶۵،سنن ابن ماجہ ،
ص۱۸۲)
(۱۰) حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ کسی مسلمان کا خون حلا ل نہیں سوائے
اس کے شادی شدہ ہوکر زنا کرے یا اسلام کے بعد کفر اختیار کرے یا ناحق کسی
کی جان لے ۔‘‘ (صحیح مسلم ، ج۲، ص۵۹، جامع ترمذی ،ج۲، ص ۲۵۹،سنن نسائی ج۲،
ص۱۶۵،سنن ابی داؤد ج ۲ ،ص۲۵۰)
(۱۱)
ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ’’کسی
مسلمان کا خون تین باتوں کے سوا حلا ل نہیں ، شادی شدہ زنا کرے تو اس پر
رجم ہے ، عمداًقتل کرے تو اس پر قصاص ہے ، اسلا م کے بعد مرتد ہوجائے تو
واجب القتل ہے ۔‘‘ (سنن نسائی ج ۲، ص ۱۶۵، سنن ابن ماجہ ص۱۸۲)
(۱۲) ’’آخر زمانہ میں ایک قوم نکلے گی کمسن ، کم عقل ، تمام مخلوق کی بنسبت
عمدہ ترین گفتگو کریں گے مگر ان کا ایمان حلق سے نیچے نہ اترے گا ، دین سے
ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پا ر ہوجاتاہے جہاں کہیں انہیں پاؤ قتل
کردو ۔ ان کے قاتل کے لیے روز قیامت اجر ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری ، ج۲، ص۱۰۲۴)
(۱۳) حضور اکرم ﷺ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے ، آپ ﷺ کے
سرمبارک پر خودتھی ، جب آپ ﷺ نے خود اتاری تو ایک آدمی نے آکر بتایا کہ ابن
خطل (مرتداور گستاخ رسول) کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے آپ ﷺ نے
فرمایا : اسے قتل کرو ۔ ‘‘چنانچہ اسی حال میں قتل کردیا گیا ۔ ( صحیح بخاری
ج۲ ، ص ۲۴۹)
(۱۴) حضرت حارثہ بن مضر ب ؒ نے کوفہ کے گورنر حضرت عبدا ﷲ بن مسعود ؓ کی
خدمت میں عرض کیا کہ مجھے اہل عرب سے کوئی کینہ نہیں ،لہذا سچ کہتاہوں کہ
میں قبیلہ بنی حنیفہ کی مسجد کے پاس سے گزرا تو دیکھا کہ بنو حنیفہ مسیلمہ
گذاب پر ایمان لانے کی وجہ سے مرتد ہوگئے ہیں۔ حضرت عبداﷲ ؓنے لوگو ں کو
بلوا بھیجا ، جب وہ لائے گئے تو آپ نے ابن النواحہ کے سوا باقی مرتدین کو
توبہ کی مہلت دی اور ابن النواحہ سے فرمایا ’’میں نے رسول اﷲ ﷺ کا تیرے
متعلق ارشا د سنا تھا کہ ’’اگر تو قاصد نہ ہوتا تو میں تیر ی گردن ماردیتا
‘‘ لیکن آج تو قاصد نہیں ، پھر آپ نے حضرت قرظۃ بن کعب ؓ کو حکم فرمایا کہ
سرعام اس کی گردن اڑاکر اسے لوگوں کے لیے نمونہ ء عبرت بنائیں ، انہوں نے
بھر ے بازار میں اس کی گردن اڑادی ، پھر آپ ؓنے فرمایا : جو شخص ابن
النواحہ مرتد کو دیکھنا چاہے تو وہ بازار میں مقتول پڑا ہے ۔‘‘ (سنن نسائی
ج۱،ص۲۷۴)
(۱۵) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جوشخص اپنے دین اسلام کو بدلے اس کو قتل کر
ڈالو!‘‘ (صحیح بخاری ، سنن ابی داؤد ، دار قطنی )
(۱۶) حضرت علی کرم اﷲ وجہہ روایت فرماتے ہیں کہ’’ آنحضرت ﷺ نے ایسی ہی ایک
جماعت کے متعلق حکم فرمایا : ان کو جہاں پاؤ قتل کر ڈالو اس لئے کہ ان کے
قتل کرنے میں ثواب ہے ۔‘‘ (بخاری ، مسلم )
(۱۷) ’’ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ روایت فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ
مسلمان کا قتل ہر گز حلال نہیں مگر تین شخصوں کو قتل کیا جائے گا : جان کے
بدلے جان لی جائے اور شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرنے والا اور اپنے دین
اسلام اور جماعت مسلمین کو چھوڑنے والا ۔ (بخاری ، مسلم )
(۲۱) ‘‘ جب حضرت عثمان غنی ؓ گھر کے اندر محصور تھے ، تو ایک روز گھر کی
دیوار پر چڑھے اور لوگوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہیں خدا کی قسم
دیتاہوں کہ کیا تم جانتے ہوکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ کسی مسلم کا قتل اس
وقت جائز نہیں جب تک اس سے تین کاموں میں سے کوئی کام سرزد نہ ہو اور وہ
تینوں یہ ہیں : شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرنا ، اسلام کے بعد کافر ہونا
اور کسی شخص کو بغیر حق کے قتل کرنا ۔‘‘ ( نسائی ، ترمذی ، ابن ماجۃ )
(۲۳) ’’ جو کوئی اسلام چھوڑ کر کفر کی طرف بھاگے ، تو اس کا خون حلال ہے ۔
(ابوداؤد )
(۲۴) ’’ جو شخص قرآن کی کسی آیت کا انکار کرے اس کی گردن ماردینا حلال ہو
گیا ۔ (ابن ماجۃ )
ان تمام آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ سزائے موت دین اور
شریعت کا حکم ہے اور اسے بلاوجہ بازیچہ اطفال بنا دینا قطعا جائز نہیں
۔ہمارے ہاں سابقہ حکومت نے بھی عملی طور اس سز ا کو معطل کیے رکھا اور
موجودہ حکومت کی طرف سے بھی ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ وہ محض مغربی اور
یورپی اقوام سے کچھ وقتی اور مالی مفادات کے حصول کے لیے اس سزاکو کالعدم
قرار دلوانے کے بہانے اور جواز ڈھونڈ رہی ہے اور عملی طور پر اپنے پیش رؤوں
کی طر ح اس حکومت نے بھی سزا ئے موت کو کالعدم ہی قرار دے رکھا ہے ۔قابل
غور بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں ایسے درندہ صفت لوگ بھی
موجود ہیں جن کے دامن پر سینکڑوں بے گناہ انسانوں کے لہو کے چھینٹے ہیں
،ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو برس ہا برس سے ٹارگٹ کلنگ میں مصروف رہے ،ایسے
لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے غیروں کے اشاروں پر مساجد ومدارس اور بازاروں
میں دھماکے کروا کر معصوم لوگوں کے لہو کی ندیاں بہائیں اس وقت ان سب کو
سزا ء موت کو کالعدم قرار دے کر چھوٹ دینے کی کوش کی جارہی ہے ۔سزائے موت
کو کالعدم قرار دینے کی منطق اس لیے بھی ناقابل فہم لگتی ہے کہ دنیا کے کئی
ممالک میں اب بھی کئی جرائم کی سزا موت ہے ۔خود امریکا کی کئی ریاستوں میں
آج تک یہ قانون رائج ہے ۔اس لیے محض وقتی فوائد کے لیے ،تجارتی مقاصد کے
لیے اور طاغوتی قوتوں کے دباؤ تلے آکر اس سزا کو ختم کرنے کا تصور دینی اور
ملی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ قیام امن اور گڈ گورننس کے حوالے سے بھی ناقابل
فہم دکھائی دیتا ہے ۔اتنی بات بجا ہے کہ ادھورے اور ناقابل قبول دلائل
وشواہد کی بنیاد پر ،ناکمل تحقیقات کی روشنی میں کسی بے گناہ کو سزا ئے موت
دینا اتنا ہی بڑا جرم ہے جیسے کسی بے گناہ کی جان لے لی جائے اس حوالے سے
عملی ،قانونی اور آئینی طور پرجو سقم ہیں انہیں بجا طور پر دور کرنے کی
ضرورت ہے لیکن سرے سے ہی اس قانون کو ختم کرنے کی بات کرنا یہ ظالموں کی
حمایت ،قاتلوں کی پشت پناہی ،معصوم بچیوں کے ساتھ درندگی کر کے انہیں قتل
کر ڈالنے والوں سے ہمدردی اور جرائم پیشہ عناصر کی خیر خواہی کے زمرے میں
آتا ہے ۔ایسے عناصر کی تعداد معاشرے میں ایک فیصد بھی نہیں ہوتی لیکن نام
نہاد دانشوروں کو گاہے داد دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ ان ایک فیصد کے تحفظ
کے لیے ان کے سامنے ڈال بننے کے لیے تو ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں لیکن
دوسری طرف کے جو ننانوے فیصد لوگ ہیں ،جو مظلوم ہیں ،جو مقتولین کے ورثاء
ہیں ،جو بے سہارا اور بے آسرا لوگ ہیں جو اس وقت بدترین عدم تحفظ کا شکار
ہیں ان کی اشک شوئی اور ان کے جان ومال کے تحفظ کے لیے لب ہلانے کی زحمت
بھی گوارہ نہیں کرتے ۔ |