عید الضحیٰ کے حوالے سے ڈاکٹر افتخار بخاری کی فکر انگیز
تحریر
میری رائے غلام نقش بند والی ہے لیکن اظہار ضیاء الحق والا ہے
غلام نقش بند کو اس فتوے کے بدلے میں اینٹیں کھانا پڑی تھیں، دنیاوی تذلیل
اُٹھانا پڑی اور نہایت تلخ نتائج بھگتنا پڑے لیکن ان کے درجہ ایمان کی
استقامت میں کوئی فرق نہ آیا اور یہی ایک عالم ِ دین کی بہت بڑی قربانی ہے-
مولانا عبدالقادر آزاد مرحوم، لاہور میں بادشاہی مسجد کے خطیب تھے، مولانا
نے قرآن کی جامع تفسیر پر پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی۔ مولانا عبدالقادر ایک
انتہائی بذلہ سنج، خوش گفتار اور ہر دلعزیز شخصیت کے مالک تھے۔ میرے اور
حزب اﷲ کے میجر رشید وڑائچ کے ساتھ ان کی ملاقاتیں ، گفتگو اور تبادلہ
خیالات لوگوں سے ہٹ کر تھا، علماء جن سے زندگی میں میری ملاقاتیں ہوئیں ان
میں سے مولانا عبدالقادر آزاد کو علم اور مطالعے کے حوالے سے میں نے بہت
مختلف ، بلند درجہ اور افضل پایا، ہاں البتہ ! وہ اپنے ایک پیش رو اور 38
سال قبل بادشاہی مسجد کے خطیب حضرت مولانا غلام نقش بند کے اس فتوے پہ بات
کرتے ہوئے انتہائی گہری سوچ میں چلے جاتے کہ جس میں انہوں نے فرمایا تھا!
’’اگر آپ کے پڑوس میں کوئی ایسا ضرورت مند ہے کہ جس کی شرعی ضرورت آپ کے حج
کے اسباب سے پوری ہو سکتی ہے تو آپ حج کی بجائے اس کی مدد کر دیں تو آپ کا
نہ صرف حج قبول ہو گا بلکہ اس کا کئی گنا زیادہ اجر بھی ملے گا‘‘
مولانا فرماتے ہیں کہ غلام نقش بند کو اس فتوے کے بدلے میں اینٹیں کھانا
پڑی تھیں، دنیاوی تذلیل اُٹھانا پڑی اور نہایت تلخ نتائج بھگتنا پڑے لیکن
ان کے درجہ ایمان کی استقامت میں کوئی فرق نہ آیا اور یہی ایک عالم ِ دین
کی بہت بڑی قربانی ہے۔ ہم اکثر پوچھتے کہ مولانا! آپ کی رائے کیا ہے؟ تو
ایک دم بذلہ سبخ ہو جاتے اور مسکراتے ہوئے کہتے کہ میری رائے غلام نقش بند
والی ہے لیکن اظہار ضیاء الحق والا ہے۔
تمام علمائے کرام کے فتاویٰ کے مطابق اگر انسان کے اندر معمولی سی بھی
خواہش ’’ گوشت کھانے‘‘ ،’’برادری یا اڑوس پڑوس کو دکھاوے‘‘ ’’بچوں کی ضد یا
نام و نمود‘‘ کی ہو تو اﷲ کی راہ میں گائے، بکرے کی قربانی حرام ہو جاتی ہے
کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے کلامِ پاک میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ میری پاس
تمہارا ذبح کیا ہوا گوشت اور کھالیں نہیں پہنچتیں بلکہ صرف ’’نیت‘‘ پہنچتی
ہے جس کا میں اجر دیتا ہوں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف پاکستان میں قربانی کے فریضے پر آنے والے
اخراجات نوے اربّ روپے کے قریب ہیں جبکہ ماہ رمضان المبارک میں ادا کیا
جانے والا فطرانہ اور زکوٰۃ اس سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ ہم اگر اپنی ان
رقوم کو علمائے کرام کی معاونت سے ایک آدھ سال مہم کے طور پر ایمرجنسی
امداد کے لئے جمع کر لیں تو زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے ہمیں یورپ اور
امریکہ کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔
بہت سے لوگ اس بات سے شاید اتفاق نہ کریں کہ سینکڑوں سال کی روایت سے
انحراف آسان نہیں ہے اور پھر فرقہ وارانہ مسائل، تعصّبات اور ادارے بھی
ایسے اعمال کے مانع ہیں لیکن اس بات سے تو کوئی انحراف نہیں کر سکتا کہ ہم
بحیثیت مسلمان اپنے اپنے محلے کی مساجد کو ’’ کمیونٹی سنٹر‘‘ کے ماڈل کے
طور پر منتخب کر کے اپنے صدقات ، خیرات ، زکوٰۃ اور قربانی کی رقوم یا
کھالیں جمع کر کے اپنے ہی محلے کے بے آسرا، لوگوں، بیواؤں یا غریب طلباء کی
مدد کر دیں جنہیں ہم جانتے ہیں تو کیا یہ احسن نہیں ہو گا!
فرائض اور واجبات کے متبادل ایشو پر اجتہاد کے دروازے کھلے ہیں، ہم اپنی
مدد آپ کے اصولوں کے مطابق اپنے بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہم مل کر اپنی
گلیوں کی صفائی کر سکتے ہیں، جو ہمارے ایمان کا نصف حصہ ہے ، بچوں کو پڑھا
سکتے ہیں، مساجد میں سائنسی تعلیم دے سکتے ہیں، وہ سب کچھ کر سکتے ہیں جس
کی ہمیں ضرورت ہے کیونکہ یہی اصل قربانی ہے ، جذبہ ہے اور نیت ہے جس کا ذکر
رب بزرگ و برتر نے فرمایا ہے۔ |