وزیر اعظم آزاد کشمیر کا غیر مناسب روئیہ

میرے لئے یہ اطلاع افسوسناک ہی نہیں تعجب انگیز بھی تھی کہ میر پور پریس کلب میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید صحافیوں کے معمول کے سوالات پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے بھڑک اٹھے اور انہوں نے میر پور کے معزز صحافیوں کے خلاف بد کلامی پر مبنی بد اخلاقی کا مظاہرہ کیا۔اس طرح کا نامناسب روئیہ وزیر اعظم کے قابل احترام عہدے کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔میڈیا میں شائع اطلاعات کے مطابق ایک سینئر صحافی جنید انصاری کے آزاد کشمیر کے میگا پراجیکٹس اور مالیاتی بحران کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر وزیر اعظم چودھری عبدالمجید نہایت غصے میں آ گئے اور انہوں نے براہ راست ذاتیات پر اترتے ہوئے جنید انصاری کے خلاف اخلاق و تہذیب کے منافی قابل اعتراض جملوں کا استعمال کیا۔

چودھری عبدالمجید 26جولائی2011ءکو آزاد کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔وہ اس سے پہلے آزاد کشمیر حکومت میں وزیر اور اسمبلی کے سپیکر بھی رہ چکے ہیں ۔وزیر اعظم بننے سے پہلے وہ 2011ءمیں تقریبا پانچ ماہ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔میر پور سے میٹرک اور کراچی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ چھ مرتبہ آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن اور آزاد کشمیر حکومت کے وزیر ،سپیکر اسمبلی اور اسمبلی میں اپوزیشن لیڈ ر کے عہدے پر فائز شخصیت سے اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ایک ایسے معمول کے سوال پر یوں بھڑک اٹھیں کہ جس سوال کا جواب وزیر اعظم چودھری عبدالمجید اپنی حکومت کی تمام تر خرابیوں ،خامیوں کے باوجود نہایت مناسب الفاظ و انداز میں دے سکتے تھے۔جس سیاست دان میں تحمل و برداشت نہ ہو،بات سننے کی استطاعت نہ ہو،خلاف مرضی بات، اختلاف رائے سننے کا حوصلہ نہ ہو،ایسے سیاست دان کے لئے اچھے وقت اور اچھے دوستوں ،ساتھیوں کی توقع نہیں کی جا سکتی۔حیرت اس بات پہ بھی ہوتی ہے کہ وزیر اعظم چودھری عبدالمجید ایل ایل بی کی ڈگری کے باوجود یہ سیکھنے سے محروم رہے کہ کس طرح غیر مہذب ،غیر اخلاقی زبان کے بجائے ایسے مناسب الفاظ میں بھی ایسی سخت سے سخت بات کی جا سکتی ہے جس سے مخاطب کا جسم جل اٹھے ۔یوں وزیر اعظم چودھری عبدالمجید اپنے تمام تر سیاسی تجربات اور قانون کی تعلیم کے حصول کے باوجود سیاست، قانون،اصول اور قواعد و ضوابط کے تقاضوں سے عاری نظر آتے ہیں۔

سمجھ نہیں آتا کہ وزیر اعظم چودھری عبدالمجید کیوں اچانک بھڑک اٹھے ہیں،کیوں کسی سوال کرنے والے کی تسلی کرانے کے بجائے سخت اور مایوس کن روئیے کا مظاہرہ کرتے ہیں؟اس بارے میں مجھے زیادہ علم نہیں ،اگر کوئی دوست اس کی وجوہات پر روشنی ڈال سکے تو ہماری ”سیاسی“معلومات میں اضافہ ہو گا۔مجھے اس حوالے سے ایک ذاتی تجربہ بھی ہوا۔گزشتہ سال ریاستی اخبارات و جرائد کی تنظیم ’آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی‘کے وفد کے ہمراہ کشمیر ہاﺅس میں وزیر اعظم چودھری عبدالمجید سے ملاقات کا موقع ملا۔آزاد کشمیر کے مسائل پر بات ہوئی تو میں نے ان کی توجہ میرپور کے سیکٹر ڈی تھری ویسٹ ٹو کے معاملے کی جانب مبذول کرائی جس کے متاثرین واپڈا اور ایم ڈی اے کی وجہ سے چوبیس سال سے اپنے پلاٹ حاصل کرنے سے محروم ہیں۔اس پر وزیر اعظم صاحب نے بے مروتی سے مجاورانہ جواب دیا کہ ” کس نے کہا تھا کہ متنازعہ جگہ پر پلاٹ لو اور ایم ڈی اے نے کیوں متنازعہ جگہ پر پلاٹ الاٹ کئے“۔یوں وزیر اعظم صاحب واپڈا کی حمایت میں متاثرین اور ایم ڈی اے کو ذمہ دار ٹھراتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو گئے۔وزیر اعظم صاحب یہ کہتے ہوئے یہ بات بھول گئے کہ میر پور میں کتنی ہی آبادیاں واپڈا اور ایم ڈی اے کے درمیان متنازعہ کہلائی جانے والی ان زمینوں پہ قائم ہیں ،جو زمینیں واپڈا کے مصرف میں نہ ہونے کی وجہ سے ایم ڈی اے کو منتقل ہونا ضروری ہیں۔وزیر اعظم صاحب یہ بھی بھول گئے کہ میرپور میں وفاقی حکومت کا پاسپورٹ آفس بھی ایسی ہی ایک متنازعہ آراضی میں قائم ہے۔

ماضی قریب میں ہی وزیر اعظم چودھری عبدالمجید تحریک عدم اعتماد سے یوں بال بال بچے کہ وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف نے آزاد کشمیر میں مسلم لیگ (ن) کو تحریک عدم اعتماد کی حمایت سے روک دیا۔اب معلوم نہیں کہ آزاد کشمیر میں عدم اعتماد کی وہ تحریک وزیر اعظم پاکستان کی ہدایت کی وجہ سے رکی یا ایوان وزیر اعظم مظفر آباد کے سبزہ زار میں دو بکروں کی قربانی کی برکات سے تحریک عدم اعتماد ” تحلیل“ ہو گئی۔ وجہ جو بھی ہو لیکن وزیر اعظم چودھری عبدالمجید کے خلاف ان کی اپنی پارٹی،ان کی اپنی کابینہ کے ساتھیوں کی بغاوت اور تحریک عدم اعتماد کی وجوہات میں وزیر اعظم چودھری عبدالمجید کے ایسے نامناسب روئیے کا عنصر بھی شامل تھا۔ اب وزیر اعظم آزاد کشمیر چودھری عبدالمجید کی جانب سے اس طرح کے غیر مناسب ،وزیر اعظم کے عہدے کے تقدس کے منافی روئیے کے اظہار سے ان سیاسی اطلاعات کو تقویت ملتی ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں آزاد کشمیر حکومت کے وزیر اعظم کی تبدیلی کے لئے ” لام بندی“ جاری ہے ۔پیپلز پارٹی کے اہم ارکان بھی اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں۔وزیر اعظم چودھری عبدالمجید کی طرف سے میر پور میں صحافیوں کے خلا ف غیر مناسب ،قابل مذمت الفاظ کے استعمال کے اس واقعے سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وزیر اعظم چودھری عبدالمجید سیاسی امور کی طرح حواس کی گرفت بھی کھوتے جا رہے ہیں۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698970 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More