قومی دھارا، کنفیوژن اورمستردکرنے کا حق

ہمارے ایک معروف دانشور دوست نے (بظاہر محمود مدنی صاحب کے حالیہ بھوپال تقریرکے پس منظر میں) مسلم رائے دہندگان کویہ معقول مشورہ دیا ہے کہ وہ کنفیوژ نہ ہوں۔ ہم نے ان کا مضمون کو، جو چندروز قبل اردو اخباروں میں بعنوان’مسلم رائے دہندگان کنفیوژ نہ ہوں‘ شائع ہوا ہے،توجہ پڑھا اور محسوس کیا کہ اس کے بعض مندرجات کی وضاحت ہونی چاہئے ۔ مثلاً موصوف کایہ مشاہدہ کہ فرقہ پرست جماعتوں نے خوف و ہراس پھیلاکر مسلمانوں کو ’مین اسٹریم‘ میں آنے سے روک دیا اور ان کے ڈر سے وہ ایک خول میں بند ہوگئے ہیں۔اس مشاہدہ پر بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ ’مین اسٹریم‘ یا’ قومی دھارا‘ ہے کیا؟ اور کیا اس میں شامل ہوجانا ملت کی فلاح کا ضامن ہے؟

مجھے یادآتا ہے کہ بحیثیت وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی نے کسی میٹنگ میں یہ شکوہ کیا تھا کہ مسلمان قومی دھارے سے الگ رہتے ہیں ۔ ان کی منشاء یہ سمجھی گئی کہ ملَّت اسلامیہ تمام تحفظات کوترک کرکے ’قومی دھارے‘ میں شامل ہوجائے۔ مگر جب ان سے برجستہ پوچھا گیا کہ یہ ’قومی دھارا ‘ہے کیا ؟ کہاں بہتا ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں، جن کو اختیار کرکے امت مسلمہ اس میں شامل ہوجائے اور اس کی حدود کیا ہونگیں؟ تو کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ البتہ کچھ روز بعدمسلم یونیورسٹی کو ’قومی دھارے‘ میں شامل کرنے کے لئے ایک قانون لایا گیا جو آج تک ناسور بنا ہوا ہے۔ پارلیمنٹ میں بل پر بحث کے دوران یہ مطالبہ بھی اٹھا تھا یونیورسٹی کے نام سے ’مسلم‘ ہٹادیا جائے تاکہ وہ پوری طرح ’مین اسٹریم‘ میں آجائے۔قومی دھارے کے حوالے سے یہ مطالبہ اکثر ہوتاہے کہ مسلمان عربی و فارسی کی جگہ مقامی نام رکھیں۔اخباروں میں ’اقلیت کی نفسیات‘ یا ’مائنورٹزم‘ پر بحثیں ہوتی رہتی ہیں اور کہا یہ جاتا ہے اقلیت کی تحفظ پسندی اور اپنے تشخص کے تحفظ پر اصرار ہی فرقہ پرستی کی جڑ ہے۔ چنانچہ شاہ بانو کیس کے بعد مسلم( مطلقہ )خواتین حقوق بل لایا گیا تو اس پر بڑا اعتراض یہی تھا کہ عدالت نے جو فیصلہ مسلم اقلیت کو ’مین اسٹریم‘ میں لانے والا کیا ہے اس کو الٹا جارہا ہے۔ آئین میں یکساں سول کوڈ کی شق کامقصدبھی یہی ہے کہ جدا شناخت ختم ہواور سب کوایک’قومی دھارے‘ میں لایا جائے۔ اصل نشانے پر خدا کاد یا ہوا نظام شریعت ہے۔سنگھی ہوں یا سیکولر ، اس معاملہ میں سب کا نظریہ اور وطیرہ ایک ہے۔اگر کوئی فرق ہے تو قول اور فعل میں تضاد کا ہے۔

اس ’مین اسٹریم ‘ کا جو مطلب ہم سمجھے ہیں وہ یہ ہے کہ نماز، روزہ بھلے ہی کرتے رہو مگر عائلی اور معاشرتی خصوصیات کو ترک کردو۔ رکھیل چاہو تو رکھ لو، عقدثانی کی بات نہ کرو۔ ہولی پر رنگ اور بھنگ، دیوالی پرتاش اورجوااور دشہرہ پر دہن،عید پر شیر و خورما اور بقرعید پر کباب و بریانی میں سب شریک ہوجایا کریں اور اسکولوں میں سرسوتی وندنا پر اورجلسوں میں وندے ماترم پراعتراض بند ہو۔ بغیر شادی ساتھ رہنے، بن بیاہی ماؤں اور بین مذہبی شادیوں پراعتراض نہ کیا جائے۔برضا و رغبت اور قبل شادی جنسی تعلقات پر اعتراض دقیانوسیت ہے ،اس کو ترک کیا جائے، وغیرہ۔

ہم سمجھتے ہیں کہ مسلم قیادت اور مسلم سواد اعظم نے نہ کبھی ایسے ’مین اسٹریم‘ میں شریک ہونے کی کوشش کی اور نہ خواہش کی۔ ان کواپنی اقدار عزیز ہیں، بھلے ہی ان کو ’گھیٹو‘ قرار دیاجائے۔ ان کو اس خول میں گھٹن نہیں، سکون محسوس ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں مسلم معاشرے میں اصلاح کی بڑی گنجائش ہے ،مگراپنی ہی اسٹریم میں رہتے ہوئے۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ بحیثیت ’مسلم ‘ہمارا مقام و منصب کس بات کا متقاضی ہے؟ خود دوسروں کے دھارے میں جذب ہوجائیں یا ان کوبھی نظام رحمت کے سائے میں داخل ہوجانے پر راغب کریں ؟رہا قومی اتحاد اور متحدہ قومیت، تو اس کا وہی فارمولا قابل قبول اورلائق عمل ہے جو سورۃ کافرون میں بیان کردیا گیا۔ یا جس کی سند ’میثاق مدینہ ‘میں ملتی ہے۔ اگرضرورت ہو تو اس پر الگ سے بحث کی جاسکتی ہے کہ’ قومی اتحاد‘ ایک رنگی کا طالب ہے یا مذہبی آزادی اور اس کے احترام کے تصور پر عمل کا۔

فاضل مضمون نگار کا ایک مشاہدہ یہ ہے کہ اقلیت الگ الگ جو رہتی ہے، اس کے لئے فرقہ پرست طاقتیں ذمہ دار ہیں ،جو ان میں مختلف حربوں سے خوف و ہراس پھیلاتی ہیں۔ یہ بات ایک حد تک درست ہے، لیکن اتنی سادہ اور سپاٹ بھی نہیں ہے۔ ہم زرا تاریخ میں پیچھے جائیں۔ تحریک آزادی کے دوران کیا ہوا تھاجس سے مسلمانوں کا ایک طبقہ اس قدر بدظن اور خوفزدہ ہوگیا تھاکہ ساتھ رہنا تک گوارہ نہ ہوا؟اس صورت حال کے لئے جو سیاست داں ذمہ دار تھے، وہ کس پارٹی کا چہرہ تھے اور انہوں نے آزادی کے بعدباقی ماندہ مسلمانوں کو اُس حال تک پہنچانے میں کیا کردار ادا کیا جس کی نشاندہی جسٹس سچر کمیٹی کی چھان بین میں ہوئی ہے؟ آج ان سب باتوں کاذکر اس لئے ضروری ہے اگر اب بھی نہ کیا گیا تو پھر کبھی نہیں ہوسکے گا۔ اس نشاندہی سے ملت کے بہی خواہوں کو حیران و پریشان نہیں ہوجانا چاہئے۔یہ کوئی نہیں چاہتا کہ مسلم رائے دہندگان کنفیوژ ہوں یا ملک پر فاسشٹوں کا قبضہ ہو۔ لیکن یہ ضروری ہے ہم یہ واضح کردیں کہ ملت کو مزید دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔چنانچہ ضرورت ہے کہ ہرایک کی تصویرآئینہ ہوجائے۔فاضل مضمون نگار نے راجستھان میں خاص طور سے متبادل (پارٹی) کی عدم موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس مسئلہ کا حل ووٹنگ مشین کانیا بٹن ہے۔مسلم رائے دہندگان کو موجودہ حالات میں ’سب کو مسترد‘ کرنے کے حق (رائٹ ٹو رجیکٹ ) کے استعمال پر غور کرنا چاہئے تاکہ فرقہ ورانہ لائنوں پر معاشرے کو لام بند کرنے کی سیاست ختم ہو۔ ’فریب دینے والوں کو ہراؤ‘ کے نعرے پر بھی غور ہونا چاہئے۔

مسلم مجلس مشاورت متحد
آخر کار ۱۳؍سال بعد ۲۷؍اکتوبر کو کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے دونوں دھڑے پھر متحد ہوگئے۔ اپنی غلطی کا احساس ہوجانا اور اس کے تدارک کے لئے اجتماعی اقدام یقینا نہایت لائق ستائش اورحوصلہ مندانہ اقدام ہے۔اس لئے ملی زندگی کے اس اہم واقعہ سے خوشی محسوس ہوئی۔ مبارکباد کے مستحق ہیں وہ سبھی افراد جواس اتحاد کے فریق بنے، خصوصاً عطائرحمٰن قاسمی صاحب جو عرصہ سے اس کے لئے کوشاں تھے۔ اﷲ جزائے خیر سے نوازے۔ مگر ایک خلش محسوس ہوتی ہے۔ یہ تقسیم کیوں ہوئی تھی؟ کیا کوئی اصولی اختلاف تھا؟ کیا ملت کے مسائل کے تجزیہ اور ان کے حل کے لئے تدابیر میں کوئی فکری تضاد پیدا ہوگیا تھا؟ یا خدا نخواستہ معاملہ مال وزر کا تھا؟ ہرگز نہیں۔ بات اس پر بگڑی تھی کہ چند رہنما ایک صاحب کو صدر بنائے رکھنا چاہتے تھے، جبکہ دوسرے تبدیلی چاہتے تھے۔تبدیلی اچھی چیز ہوتی ہے مگر’ انا‘ کی قربانی چاہتی ہے۔ انا کاٹکراؤ اتنا بڑھا کہ تنظیم تقسیم ہوگئی ۔ہم اپنی انا کو ’عزت نفس‘ کا خوبصورت نام دیکر پالتے رہتے ہیں۔ اس تقسیم سے نقصان کا احساس سبھی کو تھا، مگر تلافی میں ۱۳؍ سال لگ گئے۔اعلان اتحاد کے موقع پربڑی اچھی اچھی تقریریں ہوئیں۔ہرمقرر نے کندھے سے کندھا ملاکر خاکساری کے ساتھ خدمت کے والہانہ جذبہ کا اظہار کیا۔امید کی جانی چاہئے کہ اس پر عمل قول سے بڑھ کر ہوگا۔ اب اگلا قدم یہ ہونا چاہئے کہ دیگر اہم ملی تنظیموں کو، خصوصا ان کو جو قیام مشاورت کے وقت ساتھ تھیں،ساتھ آنے پر آمادہ کیا جائے اور مشاورت مسلک،مدرسہ، مکتبہ فکر وغیرہ عصبیتوں سے بلند ہوکر خالص ملت کی نمائندہ تنظیم بنے۔آمین۔

مودی کی ریلی
پٹنہ میں مودی کی ریلی سے قبل پٹاخے نما بم پھٹے، مگر اس کے باوجود ریلی ہوئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے بھاجپا قیادت کو پہلے سے اندازہ تھا کہ جو بم پھوڑے جارہے ہیں ان سے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا۔ اگر خطرے کا اندیشہ ہوتا تو وہ گاندھی میدان تو کیا پٹنہ بھی چھوڑ کر بھاگ گئے ہوتے۔سیاست دانوں کو اپنی عافیت سب سے زیادہ عزیر ہوتی ہے، یہ تو ہمارے حفاظتی دستے ہی ہیں جو مورچہ پر ڈت جاتے ہیں۔ خبر یہ ہے دھماکوں کے سلسلے میں ایک برگشتہ ’اہل حدیث‘ گروہ کے کچھ لڑکے پکڑے گئے ہیں، جو جھارکھنڈ کے کسی گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ممکن ہے سازشیوں نے کچھ برکشتہ مزاج لڑکوں کو بھانپ کر اپنے جال میں پھنسالیا ہو اور ان سے یہ حرکت کروائی گئی ہو۔ چانچ کے دوران اس پہلو کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہئے۔خصوصاً اس لئے کہ ان دھماکوں سے اگر سیاسی فائدہ کسی نے کمایا ہے تو وہ بھاجپا ہی ہے۔

فرانس اور خواتین
فرانس میں جنسی ہوس رانی نے وہ گل کھلائے ہیں کہ اب جبری زنا اور خواتین پر ظلم کی باڑھ سی آگئی ہے جس سے حجاب و نقاب پر پابندی لگانے والی سرکاربھی پریشان ہے۔ فرانس کی امور نسواں کی وزیر ایک وفد کے ساتھ دہلی آئی ہیں۔وفد نے فرانسیسی سفیر کے ساتھ دہلی پولیس کے اعلا افسران سے ملاقات کی اوران اقدامات و تدابیر سے آگاہی حاصل کی جو جنسی جرائم کو روکنے کے لئے دہلی پولیس نے ۱۶؍ دسمبر کے بعد اختیار کئے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ فرانس کی رہنما مرض کا علاج تلاش کرنے ان کے پاس پہنچی ہیں جو خود علاج کی جستجو میں ہیں۔ درایں اثنا فلوریڈا(امریکا) سے ایک خبر یہ آئی ہے کہ ایک 28سالہ خاتون کو اپنے ’بوائے فرینڈ ‘ پرقاتلانہ حملے کی پاداش میں گرفتارکرلیا گیا ۔ ملزمہ اپنی ایک سہیلی کے ساتھ بوائے فرینڈ کے گھر گئی تھی اور شراب نوشی کے بعد مباشرت پر بضد تھی۔ بوائے فرینڈ نے دیگرعورت کی موجودگی میں اس کی خواہش کو پورا کرنے میں انا کانی کی تو اس کوجلال آگیاچاقو نکال کر مرد پر قاتلانہ حملہ کردیا۔بے حیائی کی اس نفسیات پر غور کیجئے۔شہوانیت کا یہ جنون کوئی اچانک حادثہ نہیں ہے، مغربی معاشرے نے بے حیائی کا یہ سفر عر صہ ہو شروع کیا تھا۔ اب ہمارا معاشرہ بھی اسی ڈگر پرقدم بڑھا رہاہے۔ چنانچہ حال ہی میں دہلی کی ایک عدالت نے جب لڑکیوں کو یہ صائب مشورہ دیا کہ قبل از شادی سیکس سے بچیں تو جج پر سخت تنقید یں کی گئی ۔شہوانیت نے شرف انسانیت کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ عورت کا ساتر لباس عیب اور بے لباسی ہنر دکھائی دینے لگا ہے۔

ایک تیسری خبرفرانس کی ہی ہے ۔ ایک خاتون نے ، جو بغیر شادی ایک مرد کے ساتھ رہتی ہے، اپنی نومولود بیٹی کو ۱۵؍ ماہ تک کار کی ڈگی میں چھپائے رکھا۔ راز اس وقت فاش ہوا جب کار مرمت کے لئے گیراج لائی گئی اور بچی کی رونے کی آواز سن کر کاریگرنے ڈگی کو کھول لیا۔ نحیف ونزار بچی برہنہ اپنی اجابت میں لتھڑی پڑی تھی۔ یہ ہے مغرب کا وہ معاشرہ جس میں حقوق نسواں علمبرداروں کو بڑی کشش نظرآتی ہے۔ (ختم)

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.