مندرجہ کالم حقیقت میں ایک خط ہے جو حامد میر صاحب کو
ارسال کیا گیا ہے تھا اور جس کا کوئی جواب نہیں دیاگیا!
امید ہے مزاج عالی قرین عافیت ہونگے۔ آپ کے نام میرا یہ خط اس بات کی علامت
ہے کہ مجھے آپ سے محبت بھی ہے اور میں آپ کا مستقل قاری بھی ہوں "ہمارے
اصلی دشمن ؟" کے عنوان سے جناب عالی کے کالم کا مطالعہ کیا تو ایک جہت
سےخوشی ہوئی کہ چلو ہمارے یہاں ابھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو تاریخ سے شغف
رکھتے ہیں لیکن دکھ بھی ہوا کہ وہ شخصیت جو کیپیٹل ٹاک جیسے پروگرام میں
بال کی کھال اتارنےکی ماہر سمجھی جاتی ہے وہ اتنی سادہ لوح ہوگی اور تاریخی
مسائل کی پرپیچ وادیوں سے ایسے گزرجائے گی جہاں ممکن ہے اس کے اپنے پاؤں
زخمی نہ ہوں لیکن بہت سوں کے دل یقینا زخمی ہوجائیں گے!
آمریت اور وقت کے حکمرانوں کے سامنے ڈٹ جانیوالا حامد میر سوشل میڈیا اور
بعض ٹی وی چینلز پر جاری تحریک سے اتنا بوکھلا گیا کہ اپنی مقبولیت کو
دوبارہ حاصل کرنے کے اس قسم کی حرکتوں پر اتر آیا!وہ جو آزادی رائے کا حامی
تھا اس نے مذاکرات کی مخالفت کرنے والوں کو عبداللہ بن سباء جیسی فرضی
شخصیت کا پیروکار بنا ڈالا!
کیا آپ کو معلوم ہے آپ نے اپنے کالم میں صحابہ کرام ؓ کی توہین کی ہے؟ حضرت
علیؓ و حضرت عائشہ کے لشکر میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد اصحاب و تابعین رضوان
اللہ تعالی علیہم موجود تھے کیا وہ سب اتنے سادہ لوح تھے کہ چند افراد کے
رات کی تاریکی میں تیر پھینکنے کی وجہ سے بھڑک اٹھے اور انہوں نے اپنے
ہزاروں بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا!
آپ نے کتنی آسانی سے صحابہ کرام ؓ کو ایک ایسی نافرمان جماعت سے تعبیر
کرڈالا جنہیں حضرت علیؓ اورام المومنین حضرت عائشہ سمیت اکابر صحابہ منع
کرتے رہے لیکن انہوں نے کسی ایک کی نہیں سنی اور منافقین کے فرمانبردار بنے
رہے!
آپ نے یہ کیا کہہ دیا کہ جنگ سے قبل ام المومنین حضرت عائشہ کے گرد منافقین
کا جال اتنا مضبوط تھا کہ انہوں نے ام المومنینؓ کو اونٹ نہ صرف بٹھادیا
بلکہ میدان جنگ میں بھی پہنچادیا!
حامد میر صاحب ! آپ کو کس نے حق دیا ہے کہ طہ حسین کو بنیاد بناکر حضرت
عبداللہ بن زبیر کو منافق قرار دیں! جنگ جمل میں ام المومنین ؓکے محرم وہی
تھے اور انہیں اونٹ پر سوارکروانے کا فریضہ انہی کا تھا اور انہی نے سوار
کروایا تھا!
کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ جیسے سنجیدہ صحافی نے جو عصر حاضر کا مورخ بھی
ہے تاریخ اسلام کے واقعات کو ایکس بکس یا پلے اسٹیشن گیم کی صورت میں پیش
کردیا ہے جہاں سب واقعات کی باگ ڈور گیم سے باہر موجود بچے کے ہاتھ میں
ہوتی ہے۔ اس میں شاید آپ کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ ہم اپنی کوتاہیوں کو
خفیہ ہاتھ پر ڈال دیتے ہیں اور خفیہ ہاتھ کا تصور ہمارے یہاں اتنا مضبوط
ہوچکا ہے کہ اب آپ جیسے بعض دانشور اسے تاریخ میں لیجانے کی کوشش کررہے
ہیں!(البتہ بعض افراد ماضی میں بھی یہ حرکتیں انجام دے چکے ہیں)
کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ تاریخ دامن میں بغیر کسی مطالعے کے گھسنے کوشش نہ
کرتے، آپ نے کہیں اپنے خلاف جاری تحریک کا رخ موڑنے کے لیے تو اس قسم کی
غیرذمہ دارانہ حرکت تو نہیں کی ہے؟
ایسی شخصیت جو آئین اور عدالت کے خوف سے کوئی ایسا آرگومنٹ دینے سے کنی
کتراتی ہے جس کی وجہ سے عدالت کے چکر کاٹنے پڑیں وہ کتنی آسانی سے تاریخی
کتب کی نوعیت سے ناآشنائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے "الفتنۃ الکبری" نامی کتاب
کو غیرجانبدار قرار دیدے گی؟! کیا ہی بہتر ہوتا کہ کم از کم کتاب کا نام تو
دیکھ لیا ہوتا! اگر ریسرچ میتھاڈولوجی سے کوئی تعلق رہا ہو جو یقینا رہا
ہوگا تو آپ کو یاد ہوگا کہ کتاب کا عنوان ہی بہت کچھ کہہ دیتا ہے! دعووں
اور حقائق میں فرق کرنا آپ تو خوب جانتے ہیں پھر آپ کو کیا ہوا کہ دعووں کو
اتنے اطمینان سے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے پیش کرڈالا؟ |