نہ جانے پاکستان کے قبائلی عوام سے ایسی کونسی غلطی سرزد
ہوئی ہے کہ ان پر عرصہ دراز سے ہونے والے مظالم کو روکنے میں نہ صرف یہ کہ
حکومت پاکستان سنجیدہ نہیں .بلکہ اگر کوئی اور ان پر ہونے والی مظالم کے
خلاف آواز اٹھاتی ہے .تو حکومت پاکستان اس پر بھی پانی پھیرنے میں دیر نہیں
لگاتی.ایک عرصہ ہوگیا کہ قبائلی عوام ڈرون حملوں کی شکل میں امریکی چیرہ
دستیوں کا شکار ہے .لیکن بدقسمتی سے ریاست پاکستان اپنی بنیادی ذمہ داری
یعنی عوام کو تحفظ دینے میں ناکام نظر آتاہے.بلکہ ماضی میں ڈرون حملوں کے
خلاف پاکستان کے ڈاواں ڈول مؤقف کی وجہ سے یہ تاثر جڑ پکڑ گیا تھا کہ دال
میں کچھ کالا ہے لیکن آفسوس کہ بھاری ووٹوں سے منتخب ہونے والی نواز
حکومت کے ابتدائی دور ہی میں پورے کا پورا دال ہی کالا نظر آنے لگا ہے. ایک
ایسے وقت میں کہ جب امریکی ڈرون حملوں کے خلاف پوری دنیا میں ایک فضاء بغیر
پاکستانی حکومت کی کسی کوشش کے پاکستان کے حق میں بنی ہوئی ہے.جس سے امریکہ
پر کافی دباؤ پڑتا ہوا محسوس ہورہا ہے. حکومت پاکستان ایسے موقع غنیمت سے
فائدہ اٹھانے کی بجائے واشنگٹن کا دفاع کرتا نظر آراہاہے .بدھ تیس اکتوبر
کو وزارت دفاع کے حکام جب پاکستان کے ایوان بالا سینٹ میں بیان دے رہے تھے.
تو وہ پاکستان کے وفادار کم اور امریکی ترجمان زیادہ لگ رہے تھے .وزارت
دفاع کےحکام کی طرف سے سینٹ کو بتایا گیا ہے کہ 2008ءسے لیکر 2013ءتک 5 سال
کے عرصے میں 317 ڈرون حملے کئے گئے جن کے نتیجے میں 67 عام شہری شہیداور
2160 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں. جبکہ عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں
میں ہلاکتوں کی تعداد بہت کم بتائی گئی۔ بدھ کو وقفہ سوالات کے دوران
سینیٹر نثار محمد کے سوال کے جواب پر تحریری بیان میں وزارت دفاع نے بتایا
کہ 2008ءسے پاکستان میں 317 ڈرون حملوں کی اطلاعات مل چکی ہیں جن میں
2008ءمیں 34‘ 2009ءمیں 47‘ 2010ءمیں 115‘ 2011ءمیں 62‘ 2012ءمیں 45 اور
2013ءمیں 14 ڈرون حملے ہوئے۔ مذکورہ حملوں میں 2008ءمیں مارے گئے دہشت
گردوں کی تعداد 283 اورشہید ہونے والے افراد کی تعداد 21 ہے 2009ءمیں 451
دہشت گرد مارے گئے جبکہ 9 افراد شہید ہوئے‘ 2010ءمیں 751 شدت پسندوں مارے
گئے جبکہ 2 افراد جاںبحق ہوئے‘ 2011ءمیں 356 شدت پسند مارے گئے جبکہ 35
افراد جاںبحق ہوئے‘ 2012ءمیں 235 اور 2013ءمیں 84 شدت پسند مارے گئے۔
سرکاری حکام کے مطابق جنوری 2012ءسے اب تک ہونے والے ڈرون حملوں میں کوئی
بھی عام شہری جاںبحق نہیں ہوا، ان حملوں میں تین سو زائد شدت پسند ہی ہلاک
ہوئے ہیں.
مذکورہ بالا حکومتی رپورٹ کے من گھڑت ، بے بنیاداور جھوٹ کے پلندے کے سوا
کچھ بھی نہیں اور اسکا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں .کہ خود امریکہ کے ایک
سپیشل نمائندے بین ایمرسن نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی حکام نے اسے
بتایا ہے کہ ڈرون حملوں کے کچھ سالوں کے دوران شکار ہونے والے 2200 میں سے
400 عام شہری ہیں . اس کے علاوہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی
انٹرنیشنل بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں امریکہ کی جانب سے پاکستان پر کئے جانے
والے ڈرون حملوں کو جنگی جرائم قرار دے چکی ہے کہ ان حملوں میں معصوم شہری
نشانہ بن رہے ہیں جبکہ عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ وزارت دفاع کی طرف سے
ڈرون حملوں میں جاںبحق ہونے والوں کی تعداد بہت کم بتائی گئی ہے۔ جبکہ ڈرون
حملوں کی تحقیقات کرنے اور اس سے متاثرہ افراد کے لیئے آواز اٹھانے والی
تنظیم :فاؤنڈیشن فار فنڈامنٹل رائٹس ،، کے مطابق ڈروں حملوں میں اب تک 3500
سو سے زائدعام لوگوں کی شہادت ہوچکی ہے .تنظیم کے مطابق وہ اب تک 156
متاثرہ خاندانوں کے کیسز سامنے لاچکی ہے. واضح رہے کہ ڈرون حملوں سے متاثرہ
خاندان کے افراد.رفیق الرحمن ان کے بیٹے زبیر الرحمن اور بیٹی نبیلہ رحمان
کو امریکہ بھیجنے اور وہاں پر اپنی درد بھرے داستان سنانے کا انتظام مذکورہ
تنظیم نے ہی کیا تھا . حکومتی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے تو یہی لگ رہاتھا کہ
بریفنگ دینے والا موصوف شائد" کچھ پی کر،، ایوان میں آئے تھے .جبھی تو وہ
ڈرون حملوں سے صرف 67 کےجاں بحق ہونے کی تصدیق کررہے تھے.حالانکہ بیورو آف
انویسٹیگیٹو جرنلزم کے مطابق ڈرون حملوں سے جاں بحق بچوں کی تعداد صرف 168
ہے . گویا حکومتی مؤقف کے مطابق وہ معصوم بچے بھی "دہشت گردوں،، کی صٍف
شامل تھے.بہر حال مذکورہ بالا حکومتی مؤقف کے بعد اہل پاکستان کی آنکھیں
کھل جانی چاہیئں .کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ امریکہ لاجواب ہونے کوتھا.
حکومت پاکستان نےان کی زبان بول کر یہ ثابت کردیا کہ .جمہوریت کے نام
پرعوام کے ساتھ آنکھ مچولی کرکے عوام کوبے وقوف بناتا رہے گا .کیونکہ بقول
امریکی کانگریس میں ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک رکن
ایلن گریسن کہ. کہ اگر پاکستان چاہے تو ڈرون حملے کل بند ہو سکتے ہیں۔ایک
عالمی خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں کہا کہ’پاکستان چاہے تو یہ
حملے کل بند ہو سکتے ہیں اگر وہ امریکی ڈرونز کو سہولت دینا بند کر دے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’پاکستانی ایئر فورس کافی طاقتور ہے اور اس کے پاس قوت ہے
، اپنی فضائی سرحد پر وہ جب چاہے پابندی لگا سکتے ہیں۔ پاکستان کی منظوری
کے بغیر اس طرح کی کارروائی ممکن ہی نہیں ہے۔ |