شمسی کیلنڈر کی آپ بیتی

انسان نے اپنی زندگی کا سفر غاروں سے شروع کیا تو اس نے محسوس کیا کہ گزرے اوقات کا حساب رکھنے کے لیے کوئی نظام مرتب کیا جائے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے میرے آباؤاجداد وجود میں آئے۔ شروع میں دنوں کا حساب رکھنے کے لئے چاند کا سہارا لیا گیا۔ چاند کے بڑھنے اور گھٹنے سے دنوں کی جانچ آسان کام تھا۔ 753 ق م میں رومن نے 10مہینوں کا قمری کیلنڈر جاری کیا جس کا پہلا مہینہ مارچ اور آخری دسمبر تھا۔ بعد ازاں اس کے شروع میں جنوری اور فروری کو شامل کر کے مہینوں کی تعداد کو 12تک بڑھا دیا۔ زمین سورج کے گرد ایک چکر 365دن، 5گھنٹے، 48منٹ، 46سیکنڈ میں مکمل کرتی ہے۔ جسے راؤنڈ کرکے 365دن اور 6گھنٹے تصور کیا جاتا ہے۔ جبکہ قمری سال 354دنوں کا ہوتا ہے اس طرح یہ کیلنڈر گیارہ دن پیچھے رہ جاتا۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے ہر 3سال کے بعد ایک ماہ کا اضافہ کردیا جاتا تاکہ کیلنڈر اور موسموں میں مطابقت پیدا ہوسکے۔ اسطرح کچھ سال 12ماہ کے ہوتے اور کچھ 13ماہ کے جس سے کنفیوژن پیدا ہوجاتی۔ چنانچہ 46ق م میں جیولیس سیزر نے اس کیلنڈر کو منسوخ کرکے شمسی کیلنڈر کو رائج کیا۔ اور میں نے وقت کے افق پر جنم لیا۔ میرا ایک سال 12ماہ کا ہے جس میں365دن ہیں۔ اس طرح موسموں اور کیلنڈر میں تقریباً مطابقت پیدا ہوگئی۔ مگر ہر سال 6گھنٹے پیچھے رہ جاتا اور ہر 4سال کے بعد یہ کمی 24گھنٹے کی ہوجاتی۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے ہر چار سال کے بعد ایک دن کا اضافہ کردیا جاتا جسے لیپ (چھلانگ) کا سال کہا جاتا کیونکہ اس سال ایک دن کی جست لگائی جاتی۔ اس سال کی پہچان بہت سادہ ہے یہ 4پر تقسیم ہوجاتا ہے۔ اس طرح موسموں اور کیلنڈر میں خاصی حد تک موافقت پیدا ہوگئی۔ مگر 5گھنٹے، 48منٹ اور 46سیکنڈ کو 6گھنٹے تصور کرنے سے ہر سال 11منٹ اور 14سیکنڈ زائد ہوجاتا اور یہ فرق صدیوں کے بعد بڑھتے بڑھتے 10دنوں کا ہوگیا۔ 1582ء میں کیلنڈر کا سال موسموں سے 10دن پیچھے رہ گیا۔ اس فرق کو دور کرنے کے لئے پوپ گریگوری نے ماہر فلکیات کی مشاورت سے حکم نامہ جاری کیا کہ 4اکتوبر 1582ء کو 15اکتوبر 1582ء تصور کیا جائے اور اس طرح زائد 10دنوں کو نکال دیا گیا۔ اس کے ساتھ صدی کی ابتداء کے لیپ کے سال کو شمار کرنے کا اصول بھی تبدیل کردیا گیا۔ پہلے ہرصدی کے سال اول جیسے 1100،1200، 1300، وغیرہ کو لیپ کا سال مانا جاتا تھا کیونکہ یہ سب 4پر تقسیم ہوجاتے تھے۔ اب اس کو ایسے تبدیل کیا کہ صدی کے ابتدائی سال اگر 400پر تقسیم ہوجائیں تو لیپ کا سال ہیں وگرنہ نہیں اس طرح 1900,1800,1700,لیپ کے سال نہ تھے جبکہ 1600اور 2000لیپ کے سال شمار کیے گئے۔ اس تبدیلی سے موسموں اور کیلنڈر میں توازن پیدا ہوگیا۔ مگر گریگوری کی سب تبدیلیوں کے باوجود میرا سال حقیقی شمسی سال سے 26سیکنڈ بڑا ہے اور یہ معمولی سا فرق 3000ء میں بڑھ کر ایک دن کا ہوجائے گا۔ یہ فرق اتنا معمولی ہے اور عرصہ بہت لمبا ہے اس لئے کوئی اس طرف دھیان نہیں دے رہا۔

میرا کیلنڈر مکمل طور پر کائناتی اور موسمی نظام سے مربوط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں کیلنڈروں کی موجودگی میں میرا استعمال سب سے زیادہ ہے۔ میرے مہینوں میں دنوں کی تعداد میں فرق ہے کچھ مہینے 30دنوں کے اور کچھ 31دنوں کے۔ مگر بھلا ہو اس بشر کا جس نے بند مٹھی کی اُبھری ہوئی گانٹھوں کا فارمولا نکال کر ہر مہینہ کے دنوں کو یاد رکھنا آسان بنا دیا۔ اس سے میری یہ خامی خاصی حد تک دورہوگئی۔

میرا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ میں کائنات کی ایسی کتاب ہوں جس پر گزرا ہوا ہرلمحہ اور واقعہ محفوظ ہے اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک پیغام لئے کھڑا ہے۔ اس کتاب میں محبت پیار کے نغمے بھی ہیں انا و نفرت کے نوحے بھی۔ محبت دینے کانام ہے اور انا چھیننے کا، محبت بادشاہ گر ہے اور انا فقیر ساز، محبت راحت دے کر خوش ہوتی ہے۔ جبکہ انا اذیت دے کر، محبت بے غرض ہے جبکہ انا خود غرض، محبت آفاقی سچائی ہے جبکہ انا زمینی جھوٹ۔ ان کے تصادم میں ہمیشہ انا ابتداً فاتح نظر آتی ہے مگر ہر کہانی کے اختتام پر فتح کا تاج محبت کے سر پر سجتا ہے۔

میری کتاب میں سچ اور جھوٹ کے دنگلوں کا بھی ذکر ہے۔ سچ تکلیف کا باعث بنتا ہے اور جھوٹ راحت کا رستہ نکال لیتا ہے مگر وقت کے دھارے میں سچ کی تکلیف سے راحت کے پھول کھلتے ہیں جبکہ جھوٹ کی راحت سے اذیت کے خاردار کانٹے نکل آتے ہیں۔

میری کتاب میں ظالموں کی داستانیں بھی ہیں اور مظلوموں کے تذکرے بھی۔ ظالموں نے کس طرح معصوموں کی جان، مال، عزت کو روند ڈالا اور مظلوموں کو ذلت، غربت اور اذیت کے اندھے کنویں میں ڈال دیا۔ مگر ظالموں کا ہولناک انجام دیکھ کر میں ڈر جاتا ہوں۔ چند ہی دنوں میں ان کا جاہ جلال، طاقت و اقتدار خاک وخاکستر ہوگیا۔ نام و ناموس، عزت و وقار آرام و آسائش سب جاتے رہے اور ان کے ناموں پر ازلی بدنامی اور ذلت کی مہر ثبت ہوگئی۔

میری کتاب میں آفات و تباہی کے سانحے بھی موجود ہیں۔ زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں بیماریوں نے بستیوں کو اُجاڑ دیا۔ گھر گھر موت رقص کرنے لگی، مگر انسان کی زندہ رہنے کی جبلت، حالات کو بدلنے کا وصف، منصوبہ بندی کے جوہر اور محنت کی عادت نے ان بستیوں کو از سر نو تعمیر کیا اور اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دیا۔

میری کتاب میں قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ بھی ہے۔ کس طرح کسی قوم نے ترقی کی منازل طے کیں، دیگر اقوام میں عزت و مرتبہ حاصل کیا، امن و سلامتی کی بادنسیم خوشی اور خوشحالی کے پھولوں کو معطر کرنے لگی، عدل و انصاف کی روشنی نے پورے معاشرے کو منور کردیا۔ اور کوئی قوم تنزلی کی دلدل میں پھنس گئی، بھوک و افلاس، بیماری و تکالیف، بے انصافی ولاقانونیت اور قتل وغارت کا کینسر رگ رگ میں سرائیت کرگیا۔ جن اقوام نے لوگوں کے آرام و آرائش کے لئے فلاحی سماجی نظام کو مربوط کیا، تعلیم و سائنس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، صنعت اور ٹیکنالوجی کے جال نے نت نئی ایجادات سے روزمرہ زندگی کو سہل اور پر لطف بنادیا، عدل و انصاف کی ترازو نے بڑے اور چھوٹے کے فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا، قانون کی بالادستی کو اپنی اولین ترجیح بنالیا، ترقی کی منازل طے کرکے اقوام کے افق پر آفتاب کی طرح چمکنے لگیں۔

میری کتاب میں ان بے حس اقوام کا ذکر بھی ہے۔ جن کے ہاں روزانہ درجنوں افراد کو بے گناہ موت کے گھاٹ اتارد یا جاتا ہے اور اُسی شام لوگ میچ جیتنے کی خوشی میں سڑکوں پر بھنگڑے ڈالتے نہیں تھکتے، خوشی کے چراغ جلاتے وقت وہ بھول جاتے ہیں کہ آج کتنے گھروں کے چراغ گل ہوگئے ہیں۔ جہاں کڑوروں لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں اور حاکمین وقت غیر ملکی بنکوں میں اربوں روپے جمع کرانے میں مشغول ہیں۔ جہاں مریض سسک سسک کر موت کی دہلیز پر رواں دواں ہیں اور مسیحا اپنی تنخواہوں کے اضافہ اور سروس سٹرکچر کے لئے احتجاج میں مصروف ہیں۔ جہاں غریب کی کٹیا میں کھانستی، سسکتی اور بخار میں تڑپتی ذی روح کو دوا میسر نہیں جبکہ اشرافیہ کانٹا چبھنے پر چارٹر طیاروں پر ترقی یافتہ ممالک کے ہسپتالوں کی طرف محو پرواز ہیں۔ جہاں چوری، ڈاکا، قتل، اغواء آبرو لٹنے کے واقعات روز کا معمول ہیں جبکہ کوتوال حاکم شہر کی حفاظت اور پروٹوکول کی ڈیوٹی پر مامور ہے۔

جس نے بھی میری کتاب کے اوراق کو پلٹا اور سبق حاصل کیا، خوشحالی اور خوش بختی نے اس کے گھر کا راستہ لیا۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر دلی دکھ ہوتا ہے کہ میری کتاب کوخط استواء کے شمال میں بسنے والوں نے زبانی ازبر کر رکھا ہے جبکہ جنوب کے باسیوں نے مجھے یکسر مسترد کرکے جہالت، غربت، بیماری، لاقانونیت، نا انصافی اور طرح طرح کے مسائل کو اپنانے میں آسودگی محسوس کی۔ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کیوں یہ لوگ میری کتاب سے سبق نہیں سیکھتے۔
Prof Waqar Hussain
About the Author: Prof Waqar Hussain Read More Articles by Prof Waqar Hussain: 33 Articles with 48379 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.