ایک دن وینا ملک کے ساتھ

ایک دن وینا ملک کے ساتھ

وینا ملک سے انٹرویولینے یا دن گزارنے کے لیے ٹائم لینا امریکہ کا گرین کارڈ لینے کے برابر ہے۔ بہرحال! کسی نہ کسی طرح ہم وینا ملک صاحبہ سے ٹائم لینے میں کامیاب ہو ہی گئے اور ممبئی کے پوش علاقے باندرا پہنچے تو پتہ چلا کہ موصوفہ یہاں سے جوہو شفٹ ہو چکی ہیں۔ پوچھتے پاچھتے جو ہو پہنچے تو میڈم وہاں بھی نہ ملیں۔پتہ چلاے کہ موصوفہ اندھیری کے علاقے میں اندھیر ہو گئی ہیں۔وہاں پہنچے تو ایک صاحب نے بتایا کہ محترمہ لوگوں کے ڈر سے چھپ کر ممبئی کے کنجسٹڈ ایریا بھنڈی بازار کے پچھلی طرف جھوپڑ پٹی کے آس پاس کے علاقے میں شفٹ ہو گئی ہیں۔ خیر جناب! ہم ان کا گھر ڈھونڈنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ (حیران نہ ہوں ، موصوفہ آجکل طالبان کے ڈر سے انڈیا میں ہی رہائش پذیر ہیں) ۔ انکے گھر پہنچے تو چار ہٹے کٹے، مشٹنڈے سیکورٹی گارڈوں نے ہمارا استقبال مکوں اور تھپڑوں سے کیا۔درگت بنوانے کے بعد جب ہم نے انہیں دوبارہ ریکوسٹ کی کہ ہم میڈیا والے ہیں اور ٹائم لیکر آئے ہیں تو تب جاکر بمشکل گھر کے اندر جا کر موصوفہ کے دیدار کی اجاز ت ملی۔ گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی دو خونخوار قسم کے جنگجو رشین اور امریکن کتوں نے ہمار استقبال کیا۔ تا ہم کسی کے ابرو کے اشارے پر وہ ہمیں بغیر کاٹے ہی واپس مڑ گئے۔

ہم جب گھر کے اندر پہنچے تو موصوفہ مختصر سے کپڑے پہنے آلتی پالتی مارے بیٹھی سانس اندر باہر کرنے کی مشق کر رہی تھیں ، ہمیں ایسا لگا کہ جیسے انہیں دمہ ہو گیا ہو! ہم نے بہت کوشش کی کہ انکے جسم پر کپڑے نام کی کوئی چیز تلاش کر سکیں، پر انکے سوا پانچ فٹ کے جسم پر بمشکل ایک فٹ جگہ ہی کپڑوں سے بھری نظر آئی، باقی شاید دھوپ یا ہوا لگوانے کو کھلی تھی کہ کہیں الی نہ لگ جائے ۔ ہمیں دیکھتے ہی انہوں نے سلام کی بجائے پر نام، نمسکار کیا اور پیار کی بجائے آشیر باد کے لیے سر جھکایا اور ہم نے ڈرتے ڈرتے بڑے ہونے کے ناطے ، منہ پرے کر کے انکے سر پر ہاتھ پھیر دیا ۔ ہمارے کیمرا مین نے جلدی جلدی کیمرا سیدھا کیا ہی تھا کہ موصوفہ نے منع کردیا کہ پہلے مجھے بال ٹھیک کرنے دیں اور دوسرے کپڑے وٹانے دیں، مووی بعد میں بنانا ۔ لیں جناب بال ٹھیک کرتے اور پورے کپڑے پہنتے انہوں نے گھنٹہ لگا دیا اور پھر کاروائی دوبارہ شروع ہوئی۔ ہم نے پوچھا کہ یہ آپ آلتی پالتی مارے کیا بھیک مانگنے کی پریکٹس کرر ہی تھیں یا کچھ اور؟۔ موصوفہ نے بتا یا کہ وہ روز صبح اٹھ کر پہلے یوگا کرتی ہیں جو کہ انہیں سلم اور اسمارٹ رکھتا ہے اور مزید فرمایا کہ دیدی ریکھا اور دیدی شلپا سیٹھی بھی ایسا ہی کرتی ہیں تو میں بھی ایسا ہی کر تی ہوں سمارٹ رہنے کے لیے! ۔

اسکے بعد ہم نے انسے سوال کیا کہ : آپکے مختصر کپڑے پہننے کی کیا وجہ ہے؟ کیا ایسے کپڑے پہنتے آپکو شرم نہیں آتی؟ کیا کپڑے آپکو کا ٹنے کو دوڑتے ہیں، یا آپ زیادہ لمبے کپڑے افورڈ نہیں کر سکتیں، یا آپکو گرمی زیادہ لگتی ہے، یا یہ سب ڈولے دکھانے کے لیے ہے، یا سب کچھ مردوں کو گھا ئل کرنے کا سامان ہے، یا پیسے کمانے کو سانگ رچاتی ہیں؟۔ ہمارے ان تمام کڑوے کسیلے سوالوں کا انہوں نے ایک ہی جواب دیا کہ : ا ٓپکو اچھا نہیں لگتا تو منہ پرے کر لیں۔ پھر ہم نے انسے پوچھا کہ : کیونکہ کپڑے آپکو کاٹتے ہیں اور آپکا جسم زیادہ اوپن رہتا ہے تو یہ میلا بھی زیادہ ہوتاہوگا تو آپ یہ تمام میل کپڑے دھونے والے گائے مارکہ سوپ سے اتارتی ہیں یا سرف ایکسل استعمال کر تی ہیں اور یہ کہ آپ کو نہانے میں کتنا ٹائم لگ جاتا ہوگا۔ وینا ملک نے جواب دیا کہ : ایسے پر سنل سوالات اس پروگرام میں شامل نہ کریں تو بہتر ہے۔ہم نے اگلا سوال میک اپ کے بارے میں کیا تو وہ بولیں کہ : میں تو بغیر میک اپ کے بھی اتنی حسین و جمیل نظر آتی ہوں تو مجھے بھلا میک اپ شیک اپ کی کیا ضرورت؟ویسے بھی میں کوئی گڑوی والی تو ہوں نہیں؟

ناشتے کی میز پر ہم نے سوال کیا کہ آپ انڈیا میں آکر کیا سبزی خور تو نہیں ہو گئیں؟ پر انہوں نے ناشتے کے لوازمات سے بھری ٹیبل کی طرف اشارہ کرتے ارشاد فرما یا کہ نہیں اور اورنج جوس کا گلاس منہ سے لگاتے بولیں کہ میں اسمارٹ رہنے کو زیادہ تر سبزیاں اور جوس ہی استعمال کرتی ہوں۔ ہم نے انہیں یاد کرایا کہ پھجے کے پائے، گوالمنڈی کی لسی، برنس روڑ کی حلوا پوری، نہاری وغیرہ کو مِس تو کرتی ہونگی ؟ تو موصوفہ بولیں کہ میرا دل تو چاہتا ہے کہ یہ سب کھاؤں پر مارکیٹ میں آجکل سمارٹنیس کا اتنا مقابلہ ہے کہ میں ان چیزوں کو چھو بھی نہیں سکتی! پھر ہم انے انسے ایک اہم سوال پوچھا کہ: وینا جی ! یہ بتائیں کہ آپ کا ستر (جسم) پا کستانی فلموں میں چھپا اور انڈین فلموں میں ستر (جسم) کھلا ہوتا ہے تو کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ تو وینا جی بولیں کہ بلکل ہے۔ اسلیے کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے وہاں کپڑے اتاروں گی توساتھ کھال بھی اتار دی دجائیگی، جب کہ انڈیا ایک سیکولر ملک ہے جو چاہے کرو، کوئی کچھ نہیں کہتا!۔

ہماراگلا سوال انسے یہ تھا کہ: آپ انڈیا آکر اتنی بولڈ کیوں ہو گئیں ہیں ؟۔ تو وہ بولیں کہ آجکل ہر فیلڈ میں کمپیٹیشن ہے، لہذا ہمیں تھوڑا بہت ایسا؟ کچھ کرنا پڑ تا ہے ۔ ویسے بھی کسی کو کیا اعتراض کہ ہم تو اپنے ملک کے لیے ذر ِ مبادلہ کما رہے ہیں۔ میں تو کچھ بھی نہیں اور لڑکیاں پاکستان سے باہر جاکرجو کچھ کرتی ہیں اگر میں انکے پول کھول دوں تو سب ناراض ہو جائیں گی۔ اسکے علاوہ طائفوں کے چکر میں طوائفیں وغیرہ، آجکل کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ ہم نے پھر پوچھا کہ آپ مولویوں کے اتنے خلاف کیوں ہیں ، کہیں ماضی کی کوئی غلط بات آپکو ٹیز تو نہیں کرتی؟ تو موصوفہ نے جھلا کر مولوی شٹ اپ کہا اور خاموش ہو گئیں اور مزید فرمایا کہ اصل میں انکے قول و فعل میں کھلا تضاد ہوتا ہے اس لیے مجھے یہ کاٹنے کو دوڑتے ہیں ۔جب ہم نے انہیں یاد دلایا کہ یہ مولو ی حضرات ہی تو ہیں جو پیدا ہوتے ہی کان میں اذان دیتے ہیں، اچھی باتیں بتاتے اور نماز قرآن سکھاتے ہیں، مردے نہلاتے ہیں، جنازے پڑھاتے ہیں، نکاح پڑھاتے ہیں، پھر انسے آپ اتنا طیش کیوں کھاتی ہیں، کہیں کسی مولوی نے آپکو بچپن میں چھیڑ تو نہیں دیا تھا؟۔ اسکا جواب موصوفہ گول کر گئیں اور شوٹنگ پر جانے کی تیاری کر نے لگیں۔

شوٹنگ پر جاتے ہم نے کچھ مزید سوالات کیے مثلا: جب انسے پوچھا کہ بگ باس رئیلٹی شو جیسے ٹی وی پروگرام میں ایک غیر مرد کے ساتھ ایک گھر میں اکیلے اتنا عرصہ گزارنا کیسا لگا؟ تو موصوفہ کچھ شرمائیں اور بولیں کہ اس وقت کے بارے میں یاد نہ کرائیں تو بہتر ہے۔ وہ بہت اچھا ٹائم تھا۔ ہم نے پھر پوچھا کہ اچھا یہ بتائیں کہ شادی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ تو وینا نے جواب دیا کہ ابھی میں ٹین ایج ہوں، جوان ہونگی تو اس بارے میں سوچوں گی۔ ہم نے پھر پوچھا کہ یہ لش پش حسین گاڑی آپکو کس نے دی ہے تو موصوفہ نے فٹ جواب دیا کہ سسرال سے ملی ہے۔(کھلا تضاد) ہم نے پھر پوچھا : کہ اتنی اچھی ماڈلنگ کیسے کر لیتی ہیں آپ؟ کیا آپ نے کو ئی کورس وغیرہ کیا ہوا ہے؟ تو وینا نے جواب دیا کہ ہر بندہ ماڈل بن سکتا ہے بس کولہے مٹکانے آتے ہوں۔

ہم وینا جی کے ساتھ فلم کی شوٹنگ سائٹ پر پہنچے تو وہاں پر کسی گانے کی ریہرسل جاری تھی۔ ڈائریکٹر نے وینا کو اسکے سین کے بارے میں سمجھایا اور وہ ہم سے اجازت لیکر وہاں مصروف ہو گئیں۔ سیٹ پر اچھی خاصی گہما گہمی تھی۔ کوریوگرافر وینا کو ڈانس کے سٹیپ سمجھانے میں مگن، سیٹ ڈیزائنر اپنے کام میں مصروف اور ہم اپنے کام میں مصروف تھے ۔سین اوکے کراتے ہی وینا جی ہماری طرف آئیں اور اپنی نئی فلم کے بارے میں بتانے لگیں۔ اتنے میں کھانے کا ٹائم ہوا تو کھانا آگیا اور کھانے کے بعدہم وینا جی سے ساتھ انکے دوسرے پراجیکٹ یعنی ماڈلنگ کے لیے ایک اسٹوڈیو پہنچے۔ وینا جی تیار ہوکر جب فوٹو گرافر کو پوز دینے آئیں تو ہمارے تو آنکھیں حیرت سے اخروٹ جتنی پھیل چکی تھیں۔۔۔۔۔ ہمارے کیمرا مین نے جلدی سے کیمر ا نکال کر وینا جی کی فوٹو لینا چاہی تو انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا کہ یہ ایک پوز ہی دس لاکھ کاہے آپ نہیں لے سکتے۔ یوں ہمارا کیمرا مین اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔ اسی دوران وینا جی

نے کوئی مختلف قسم کے دو درجن لباس بدل کر مختلف پوز بنوائے اور ہم حیرت سے آنکھیں مٹکائے کبھی انہیں دیکھتے اور کبھی انکی بولڈنیس پر فدا ہوتے رہے۔ ہم نے بہت کوشش کی کہ ان چیتھڑے نما کپڑوں میں ہمارا بھی ایک عدد فوٹو موصوفہ کے ساتھ ہوجاوے، پر یہ ہماری خام خیالی ہی رہی اور وہ اتنے پیار سے ہمیں منع کرتی رہیں کہ ہم منع نہ ہونے کے باوجود بھی منع ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ ہاں البتہ فوٹو سیشن سے فراغت کے بعد ہمیں تبرک کے طور پر شوٹ کے دوران پہنے گئے کپڑے تحفے کے طور پر لے جانے کی اجازت دے دی گئی تاکہ ہم اپنے ہم وطنوں کو انکی کفایت شعاری دکھا سکیں ۔ تا ہم وہ کپڑے اتنے مختصر تھے کہ انمیں چھوٹے منے کے جانگیے بھی بمشکل بن پاتے لہذا ہم نے یہ بار اٹھانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

اسکے بعد ہم وینا جی کے ساتھ ایک فیشن شو میں شرکت کرنے پہنچے تو وہاں پر پیاری پیاری کنیائیں دیکھ کر ایک بار تو ہمارا اپنا بھی دل اور ایمان ڈول سا گیا کہ کاش ان میں سے کوئی۔۔۔۔۔۔ پر ایسا ممکن نہ تھا۔ سب سے پہلے وینا جی میک اپ روم میں گئیں پھر ڈریسنگ روم میں اور پھر جب تیار ہو کر نکلیں تو ہم اپنی دونوں انگلیاں دانتوں کے درمیان کاٹ چکے تھے۔ خود پر قابو پاکر وینا جی سے کچھ پوچھنا اور انہیں چھونا چاہا تو انہوں نے ہمیں پیچھے کی طرف دھکا دے دیا۔ وینا جی ریمپ پر آئیں تو سیٹیوں کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ کچھ دیر بعد ہم نے وینا جی سے پھر کچھ سوال کرنا چاہا پر وہ پھر ناٹ گئیں۔ پھر آخر کار ہم نے اپنی توجہ دوسری چھوکریوں کی طرف مبذول کر لی تاکہ ٹائم پاس ہو سکے ۔ وہاں سب کے ا تنے بڑے بڑے چاہنے والے بنیے موجود تھے کہ بس سوچ تھی ہماری!پھر بھی ہم نے آخری سوال داغ ہی دیا کہ : وینا جی ! اخبار ی بیان بازی کے مطابق شیخ رشید صاحب آپ سے نفرت اور آپ انسے محبت کا اظہار کر رہی ہیں اور یہ کہ انہوں نے آپکو کافی کی بھی دعوت دی تھی اور یہ کہ وہ آپکو ملک دشمن سمجھتے ہیں۔ اسکے بارے میں کچھ کہیں گی آپ؟ وینا جی بولیں : دیکھیں جی بات یہ ہے کہ میرے اور شیخ صاحب کے درمیان۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑیں رہنے دیں۔۔۔۔ اگلا سوال کریں۔شیخ صاحب کی میرے دل میں بہت عزت ہے۔ دیکھنے میں تو وہ میرے والد کی طرح ہی ہیں نہ۔ہم نے پوچھا کہ وا لد پر یاد آیا کہ آپکے والد نے تو علی الاعلان ٹی وی پر آکر آپ کو عا ق کیا ہوا ہے تو آپ دونوں کی سوچ میں یہ کھلا تضاد نہیں؟ وینا بولیں کی جی : کچھ بھی ہو وہ میرے والد ہیں، پاکستان جاؤں گی تے میں انہاں نوں منا لاں گی۔ ہم نے پھر پوچھا کہ انڈیا میں توعدنان سمیع خان کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا ہے، پاکستانی ہونے کے ناطے اگر آپ کو ایسا ہی کچھ کرنا پڑا تو آپ پھر کہاں جانا پسند کریں گی؟ وینا جی بولیں کہ میرے بال ٹھاکرے اور نریندر مودی سے ا چھے تعلقات؟ ہیں ، لہذا مجھے اس طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ ہم نے پھر انہیں یاد دلایا کہ یہاں تو بڑے بڑے اداکار حوالات کے اندر ہیں اور سفارش بھی نہیں چلتی، تو۔۔ وینا نے جھلا کر جواب دیا کہ میرے ساتھ ایسے کچھ نہیں ہوگا، نہیں ہوگا، نہیں ہوگا۔اسکے بعد ہم نے سوال کا پیٹرن تبدیل کرکے انسے پوچھا کہ آپ چونکہ انڈیا میں رہتی ہیں تو کیا آپ کڑوا چود کا ورت رکھتی ہیں؟وینا نے خونخوار نظروں سے ہمں دیکھا اور گویا ہوئیں کو یہ سب کچھ شادی شدہ ہندہ عورتیں کرتی ہیں۔جیسا کہ ایشوریا نے ورت رکھا اور سکائپ کے ذریعے اپنے شوہر ابھیشیک بچن کو دیکھ کر ورت توڑا۔ میں تو ویسے بھی مسلمان ہوں۔ ہمیں اپنے غلط سوال کا احساس ہوچکاتھا لہذا ہم خاموش ہو گئے۔

یہاں سے فارغ ہو کر ہم وینا جی کے ساتھ انکے ایک دوست (میل) سے ملنے انکے گھر پہنچے تو وینا جی انسے ایسے گلے ملیں جیسے کہ برسوں کے بچھڑے ابھی ملے ہوں اور اسکے علاوہ کچھ سینسر زدہ سین۔ یہاں پر چائے وغیرہ اور کچھ لوازمات کے بعد ہم وینا جی کی گاڑی میں ایک بڑے ہوٹل پہنچے کہ رات کا کھانا وہیں تھا۔ وینا جی کے جگری دوست انکے ساتھ تھے۔ وہاں پر کئی قسم کے کھانوں کے آرڈر دیکر اور کھا پی کر وینا جی نے ہمیں بائے کہا اور اپنے دوست کے ساتھ بانہوں میں بانہیں ڈال کر جھومتی جھامتی یہ جا وہ جا! ہم بھی روانہ ہونے ہی والے تھے کہ ویٹر نے ہمیں بیس ہزار وپے کا بل تھما دیا جسے دیکھ کر ہمارے چھکے کی بجائے اٹھے چھوٹ گئے۔ بڑی مشکل سے وہاں سے جان چھڑا کر اپنے ہوٹل پہنچے تو پتہ چلا کہ انڈین پولیس ہماری انتظار میں ہے اور پھر ہمیں سرکاری مہمان بنالیا گیا۔ اسکے بعد کیا ہو؟ وہ سب لکھ دیا تو دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات خراب ہوجائیں گے۔۔۔۔ لہذا ۔۔ خاموشی عین عبادت ہے۔ اﷲ حافظ۔
 

Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 247506 views self motivated, self made persons.. View More