حقوق انسانی کی دہائی دینے والے، اور آزادی
صحافت کی آواز بلند کرنے والے معاشرے میں عدالتی کاروائی ایسی ہوتی ہیں۔
اور انصاف کا خون اس طرح کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں سوچ کر شرم آتی ہے۔ ایک
حافظ قرآن، اعلیٰ تعلیم یافتہ با پردہ خاتون کی ایسی بے حرمتی۔ یہ سب ایک
پاکستانی بیٹی کے، ایک ماں کے، ایک محب وطن خاتوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔
عقوبت خانے میں قرآن کی بے حرمتی کی جارہی ہے اور ہم خاموش ہیں۔ انوسٹیگیشن
کے نام پر اسے برہنہ کر کے اس کی وڈیوز بنائی جاتی ہیں۔ امریکہ میں قید
پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی یہ ستم ڈھائے جارہے ہیں اور ہم خاموش ہیں۔
ڈاکٹر عافیہ پر امریکوں نے جو مقدمہ بنایا ہے اس کو دیکھ کر ظہور الہی
مرحوم پر بھینس چوری اور ارباب غلام رحیم کی جانب سے آصف زرداری کے خلاف
بکری چوری کا مقدمہ بنانے کی دھمکی یاد آجاتی ہے۔ عافیہ پر الزام ہے کہ
انہوں نے افغانستان میں چھ امریکی فوجیوں کی موجودگی میں ایک امریکی فوجی
سے ایم فور رائفل چھین لی اور اس کا سیفٹی گیج کھینچ کر امریکی فوجی پر
قاتلانہ حملہ کیا تھا جس کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ گویا امریکی فوجی
چوڑیاں پہن کر بیٹھے تھے ۔ کس کے بعد ایک امریکی فوجی نے اس پر نزدیک سے
گولی چلائی ۔ جس میں سے ایک گولی نے اس کا گردہ ناکارہ کردیا اور دوسری
گولی اس کے دل سے ایک سینٹی میٹر نیچے سے گزر گئی ۔ عافیہ نے نیویارک میں
سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا کہ انہوں نے امریکی فوجیوں پر نہ تو گولی
نہیں چلائی اور نہ ہی وہ امریکہ کے خلاف ہیں بلکہ وہ امن کی حامی اور جنگ
کے خلاف ہیں۔ نیویارک کی وفاقی عدالت یو ایس کورٹ صدرن ڈسٹرکٹ میں جج رچرڈ
ایم بریمین کے سامنے جب خاتون پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جیل
سے مبینہ طور زبردستی پیش کیا گیا۔ سات گھنٹوں کی عدالتی کارروائی کے دوران
ڈاکٹر عافیہ مختلف مواقع پر اٹھ کر جج کو مخاطب کرتی رہی ۔ انہوں نے خود پر
جیل میں تشدد ہونے اور جیل کے محافظوں کی طرف سے مبینہ طور پر قرآن کو ان
کے پاؤں میں رکھنے کے بھی الزامات لگائے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تقریباً دس
ماہ کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
جج رچرڈ بریمن کے سامنے عدالت کی کارروائی جیسے ہی شروع ہوئی تو ڈاکٹر
عافیہ صدیقی اٹھ کر کھڑی ہوئی اور جج سے مخاطب ہو کر کہا: ’میں بے گناہ ہوں۔
میں نے کوئی گولی نہیں چلائی۔ نہ میرے پاس بندوق ہے۔ میں امریکہ کے خلاف
نہیں ہوں‘۔ جج نے اس موقع پر ڈاکٹر عافیہ کو عدالتی کارروائی میں مخل نہ
ہونے اور بیٹھ جانے کو کہا۔ استغاثہ کی جانب سے غیرجانبدار نفسیاتی ماہر
ڈاکٹر تھامس کو چارکی اور گریگوری بی سیتھاف نے وکلاء اور عدالت کی طرف سے
پوچھے جانے والے سوالات کے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نفسیاتی طور
پر مقدمہ چلائے جانے کی اہل ہیں۔ دوسری جانب وکیل استغاثہ کا موقف تھا کہ
ڈاکٹر صدیقی نفیسیاتی طور پر بالکل ٹھیک ہیں اور وہ مقدمے سے بچنے کے لیے
بہانے کر رہی ہیں۔ جبکہ ان کی وکیل صفائی ڈان کارڈی نے استغاثہ کی طرف سے
مقرر کردہ ماہر نفسیات کی رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی مؤکلہ ذہنی
اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ سماعت کے دوران ڈاکٹر عافیہ نے ایک موقع پر
اپنا رخ کمرا عدالت میں موجود عام لوگوں اور صحافیوں کی طرف کرتے ہوئے کہا
کہ وہ جاکر دنیا کو بتائیں کہ ’میں بے قصور ہوں اور مجھ پر ظلم ڈھائے گئے
ہیں اور سازش کی گئی ہے‘۔ جب جج نے انہیں خاموش رہنے اور بیٹھ جانے کو کہا
تو انہوں نے براہ راست جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں ان پر تشدد
کیا جارہا ہے اور جسم برہنہ کر کے تلاشی لی جاتی ہے اور اس کی وڈیو بنائی
جاتی ہے اور یہ سب کچھ ان کے حکم پر کیا جا رہا ہے۔ اس پر جج نے کہا کہ وہ
جیل حکام کو صرف قواعد کے مطابق تلاشی کی مزاحمت کرنے والوں پر سختی کرنے
کا حکم دیتے ہیں۔
اس پر ڈاکٹر عافیہ نے کہا کہ ’اگر کسی کی برہنہ کر کے تلاشی لی جائے تو کیا
وہ مزاحمت بھی نہ کرے!‘- انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں اپنے بچوں
سے ملوایا جائے اور ان کے ساتھ پانچ سال سے ہونے والے ظلم و تشدد کا حساب
بھی لیا جائے۔ عافیہ پر اب تک کوئی جرم ثاب نہیں ہوسکا۔ گزشتہ چھ سال سے
پورا مغربی میڈیا اس پر الزامات لگا رہا ہے۔ لیکن اب تک کوئی جرم چابت نہیں
ہوا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر بھی یہ کہتا ہے کہ غیر قانونی حراست میں رکھے
جانے والے کسی شخص پر کسی قسم کا الزام ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کنونشس یہ
بھی کہتا ہے کہ خاتون کا تقدس ہر حال میں مقدم رکھا جائے خواہ اس پر کوئی
الزام ہو ۔ لیکن آج قانوں بنانے والے ہی اسے پامال کر رہے ہیں۔ اور ہمارے
سفیر اور وزراء امریکہ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہیں، عافیہ
کی پکار ایک مظلوم مسلمان عورت کی پکار ہے۔ لیکن اب کوئی محمد بن قاسم نہیں
ہے۔ جو اس پکار پر لبیک کہے۔ |