سوات کا نوحہ
(Ata Muhammed Tabussum, Karachi)
گھر جانے کی بیقراری کیسی ہے۔ یہ
کوئی ان سے پوچھے جن کو ان کی جنت سے تن کے کپڑوں میں گھروں سے نکال دیا
گیا ہو آج ان کی واپسی کا دن ہے ان کی آنکھوں میں گھروں پر جانے کے خواب
ہیں لیکن وہاں گھر ہی نہ ہوا تو کیا ہوگا۔ بے گھر ہونے والے افراد میں بعض
ایسے بھی ہیں جنہیں سوات میں حالات کی درست ہوجانے کا اعتبار اور کسی کے
دعوؤں پر اعتماد نہیں ہے۔ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں مئی کے پہلے ہفتے میں
طالبان کےخلاف شروع کی گئی فوجی کاروائی کے بعد حکومتی اعداد و شمار کے
مطابق تین ملین سے زیادہ افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے تھے۔ لیکن ان
بے گھر افراد کی صحیح تعداد کسی کو معلوم نہیں ہے۔ حکومت زیادہ سے زیادہ
عالمی امداد کی حصول کی خاطر بےگھر ہونے والے افراد کی تعداد زیادہ بتانے
کی کوشش کررہی ہے۔ ان کے بقول ایک محتاط اندازے کے مطابق ملاکنڈ ڈویژن سے
دو ملین کے قریب لوگ بے گھر ہوئے ہوں گے۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ملاکنڈ
ڈویژن کے بےگھر افراد کی باقاعدہ واپسی پیر سے شروع ہوگی مگر کیمپوں میں
کام کرنے والے غیر سرکاری امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند دنوں کے
دوران تیس ہزار سے زائد افراد پہلے ہی سوات پہنچ چکے ہیں۔
صوبہ سرحد کی حکومت کی جانب سے لوگوں کی واپسی کے حوالے سے جاری ہونے والے
نظام اوقات کے مطابق کیمپوں اور باہر رہنے والے تمام افراد کی واپسی کا عمل
تین مرحلوں میں پینتیس دنوں کے دوران مکمل ہوگا۔ اس سلسلے کا پہلا مرحلہ
پیر تیرہ جولائی سے شروع ہوگا تاہم کیمپوں میں کام کرنے والے سوات کے چار
غیر سرکاری امدادی اداروں کے اتحاد ’ڈیزاسٹر رسپانس ٹیم‘ کا کہنا ہے کہ
حکومتی شیڈول کے اعلان سے پہلے ہی لوگوں نے واپسی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
’ ایک اندازے کے مطابق تیس ہزار سے زائد افراد پیدل چلتے ہوئے مختلف پہاڑی
اور دیگر دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے سوات پہنچ چکے ہیں۔ مینگورہ اور
مضافات میں امن و امان کی صورتحال سکیورٹی فورسز کی گرفت میں ہے تاہم شہر
میں کرفیو بدستور برقرار ہے۔ کہا گیا تھا کہ ان بے خانماں لوگوں کو امداد
دی جائے گی۔ اس امداد کے چیکوں وہی حال ہے جو اکثر دیکھنے میں آتا ہے۔ یعنی
اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔ جنہیں نقد رقم کی ضرورت ہو وہ تو جو انہیں مل جائے
وہ لے لیتے ہیں۔ ایسے امدادی چیکوں کیش کرانے والے کمیشن ایجنٹوں کے وارے
نیارے ہو رہے ہیں۔
ان افراد کی بے گھری پر ہم نے ایک بار پھر کشکول اٹھایا تھا، ساری دنیا کے
سامنے دہائی دی، اقوام متحدہ کو کھڑا کیا۔ لیکن رقم ملی تو بھی کتنی صرف
230 ملین ڈالر۔ اقوام متحدہ نے بین الاقوامی امدادی اداروں اور ممالک سے
مالاکنڈ آپریشن کے متاثرین کے لیے پانچ سو چالیس ملین ڈالر کی امداد کا
مطالبہ کیا تھا جس میں اب تک صرف دو سو تیس ملین ڈالر وصول ہوئے ہیں جن میں
سے بیشتر آئی ڈی پیز پر خرچ ہو چکے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ زلزلہ زدگان کے
لیے جو امداد عالمی برادری نے دی تھی ۔ اس مرتبہ بین الاقوامی امدادی
اداروں اور ممالک نے پہلے کی طرح امداد نہیں دی ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام کے
مطابق اس وقت کوئی تین ہزار سکولوں کی عمارتوں میں آئی ڈی پیز رہائش پذیر
ہیں اور ستمبر میں سکول کھلنے سے قبل ان آئی ڈی پیز کے حوالے سے کچھ کرنا
ہوگا۔ کئی علاقوں میں موسم خوشگوار ہے جبکہ نچلے علاقوں میں گرمی بہت ہے۔
شدت پسندوں کی واپسی کا خوف بھی ہے لیکن گھروں سے دور مسائل اتنے زیادہ ہیں
کہ لوگ واپسی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ہمارے دوست احمد فواد نے سوات پر ایک نظم
لکھی ہے۔
دھواں بن کر اڑ رہا ہے سب وہ پھولوں کا دیار
گھاٹیاں فردوس صورت وادیاں جنت مثال
سوات زخموں سے نڈھال
ہنتی گاتی بستیاں، سب چپ ہیں مرگھٹ کی طرح،
ایک گھنا جنگل ہے جس میں رات دن مبحوس ہیں
آشنا مانوس چہرے سارے نامانوس ہیں
زندہ بچنے والے اک اک سانس سے مایوس ہیں
سرکٹی لاشوں نے ان چوکوں کا ماضی کھا لیا
گولیوں کی تڑتڑاہٹ آسمانوں تک گئی
کو چہ کوچہ گھوم کر موت کے قدموں نے
سارے شہر کو اپنا کیا
دوستوں کا دشمنوں کا جاننا ممکن نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد فواد کی یہ طویل نظم
رلا دینے والی ہے۔ یہ وادی سوات کا نوحہ ہے۔ اب اس نوحہ پر مزید کیا لکھا
جائے۔ |
|