نام نہاد خدائی فوجداروں - اسلام کے ٹھیکیداروں کے نام حصہ ٢

ہمارے ایک بھائی نے میرے ایک کالم بعنوان “ خدائی فوجداروں - اسلام کے ٹھیکیداروں کے نام “ کے جواب میں چند جواب طلب ارشادات کیے جن کے جواب میں ایک حصہ تو تبصرے میں دے دیا مگر تبصرے میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے جوابات کو کالم کی صورت میں پیش کرنے پر مجبور پاتا ہوں اپنے آپ کو۔

بھائی سلیم صاحب بالکل ٹھیک سمجھا آپ نے کہ جہاد کے نام مسلمانوں کو دھوکہ دے کر مروا دینا شہادت نہیں کہلاتا بلکہ قتل ہی کہلاتا ہے اصل جہاد میں شرکت کرنے والے شہید ہوتے ہیں اور قرآنی آیت کے مطلب و مفہوم کے مطابق اللہ میری کمی بیشی معاف فرمائے اللہ عزوجل فرماتے ہیں “ اور جو اللہ کی راہ میں مارا جائے اسے مردہ مت کہو وہ زندہ ہے مگر تمہیں اس کا شعور نہیں“ (میری بھی اللہ ہدایت کرے اور آپ کی بھی (قرآن کہہ رہا ہے بھیا کہ جو مارے جائے انکے مرنے سے اللہ عزوجل بھی منع نہیں فرما رہے کہ وہ مر چکے ہوں وگرنہ ان کو دفن کیوں کررہے ہو بھائی اس کی نماز جنازہ کیوں پڑھا رہے ہو کچھ تو اپنے تعصب سے باہر نکل کر قرآن کو اپنی نظر سے دیکھنے کے بجائے حق کی نظر سے سمجھنے کی بھی کوشش مجھ اور آپ سمیت سب کو کرنی چاہیے) شہید کو مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے بھائی نا کہ اس بات سے کہ وہ انتقال فرما گیا ہے اور منع اس بات سے نہیں فرمایا کہ شہید مر گیا ہے بلکہ منع اس بات سے فرمایا گیا ہے کہ اس کو مردہ کہا جائے یعنی اس کی توقیر اور اس کی عظمت کے اظہار کے لیے اس کو مردہ کہنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ وگرنہ وہی بات کہ زندہ ہے تو دفناتے کیوں ہو بھیا زندہ کو اور اس آیت میں دوسرا نقطہ جو یہ عاجز و عاصی سمجھ پایا ہے کہ اللہ نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ تم وہ ( شہید زندہ ہے مگر تم کو اس کا ) شعور نہیں۔ یعنی بظاہر تو شہید مر چکا ہے مگر تمہیں اس کا شعور نہیں اسلیے اس کو دفنانا بھی چاہیے اور اس کی نماز جنازہ بھی ہونی چاہیے ہاں اس کو مردہ مت کہو۔ اللہ میری کمی بیشی معاف فرمائے ایک مقام پر اللہ عزوجل کا ارشاد ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ “مشرکین کے بتوں کو گالیاں مت دو ورنہ وہ ظالم (گمراہی) میں تمہارے رب کو گالی دے دیں گے“ کیا شان ہے ہمارے رب کی کس عمدہ طریقے سے ہماری اصلاح چاہتے ہیں کہ حق بات کو بھی اسلیے منع فرما دیا کہ اس میں بھی مصلحت ہے۔ اسلیے بھیا اپنے الفاظ پر دوبارہ نظر ڈالیے جس میں آپ نے کہا “کہ جو جہاد پر جاتا ہے وہ شہید نہیں ہوتا بلکہ مر جاتا ہے “ جبکہ حقیقت کچھ اس طرح ہے کہ جو جہاد پر جاتا ہے اگر وہ مارا جائے (اور وہ بھی خصوصاً اور حقیقت میں اللہ کی راہ میں) وہ شہید ہوتا ہے صرف جہاد پر جانے سے کوئی شہید نہیں ہو جاتا بھیا امید ہے نقطہ سمجھ گئے ہونگے کچھ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں (یعنی شہید ہوجاتے ہیں) اور کچھ غازی کا رتبہ پاتے ہوئے واپس آپاتے ہیں- یعنی زندہ واپس آجاتے ہیں

آپ کی دوسری بات کا جواب یہ ہے بھائی کہ سارے جہادی لیڈران پاکستان اور اردگرد ہیں ان شہداہ کے والدین کو جمع کرنا اور آپ کی نصیحت پر عمل کرنا مجھ پر کوئی واجب نہیں ہے اور نا میری طاقت ہے مگر بھائی میرے بس میں ظلم اور منافقت کی مخالفت کرنا ضرور ہے جو میں اپنے قلم کے ذریعے کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور اللہ نے چاہا تو کرتا رہوں گا۔

سلیم بھائی آپ کے مشورے یعنی جمع کرو اور یہ کرو اور وہ کرو اور وہ بھی ایسی کرپٹ عدلیہ اور انتظامیہ کے ہوتے ہوئے (اکثریت کی بات کر رہا ہوں ضرور کوئی تمام اتحادیوں کو بھی شامل کرکے بھڑاس نکالے گا)۔ اس مشورے پر آپ سمیت دوسرے بھائی بھی تو کبھی عمل کر دیکھیں یعنی ظلم و ستم کے واقعات کو جو بین و بیان کرتے ہیں کہ ١٢ مئی کو یہ ہوا اور فلاں تاریخ کو یہ ہوا تو بھائی سب کو جمع کرکے مقدمے کریں ان پر جو موجود ہیں جو ملک سے باہر ہے وہ تو آپ کے بس سے بھی باہر ہے اور معاف کیجیے گا جو باہر تشریف لے گئے ان کے جانے کے بعد جو رہ گئے عبداللہ بن ابی جیسا کردار اور حیثیت رکھنے والے جن کو لوگ جماعتیوں کے لیڈران کے نام سے جانتی اور اچھی طرح پہچانی ہے ان کی موجودگی اور دیدہ دلیریوں سے یہ واقعات ہوتے رہیں ہیں وگرنہ ہمارے قائد محترم تو یکم جنوری ١٩٩٢ کو عمرہ کی ادائیگی کے بعد لندن روانہ ہو گئے تھے اور اس کے بھی ٦ مہینے کے بعد آپریشن شروع ہوا اور جو بھی قتل و غارت گری کے کارنامے جماعتی منافقوں نے ایجنسیوں کے ساتھ ملکر کیا اس کا حساب تو انشاﺀ اللہ اللہ عزوجل لے کر رہے گا۔ اور اگر اس کا الزام ہماری جماعت پر لگاتے ہیں تو اپنا مشورہ یاد کریں تمام کے والدین کو جمع کریں اور اس عدلیہ کو جس کو اب تو آپ بھی آزاد مانتے ہیں اس کے سامنے پیش کریں اور ایم کیو ایم کو کالعدم تحریک قرار دلوا چھوڑے وگرنہ یاد رکھیں قرآن میں اللہ عزوجل کا ارشاد پاک ہے جس کے ایک حصے کا ترجمہ کچھ ایسا ہے کہ “ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں “ تو خدارا منافقت چھوڑو مگر اسکے لیے نام نہاد جماعت اسلامی بھی چھوڑنی پڑے گی کیونکہ جس طرح مسجد ضرار حالانکہ مسجد ہونے کے گرادی گئی اور نامنظور ہو گئی تھی اس طرح بظاہر اسلامی جماعت کا نام لینے سے کوئی جماعت مقبول و معروف نہیں ہوجائے گی چنانچہ میرا تو برادرانہ مشورہ آپ کو یہ ہے منافقت سے توبہ کیجیے کہ دوسروں کو مشورے اور اپنے لیے اس بات سے دوری۔ میں بھی اللہ سے توبہ کرتا رہتا ہوں اور اللہ کو غفور و رحیم پاتا ہوں۔

(ایسی ہی باتوں کی وجہ سے جماعتی اب اکیلے جماعت کی صورت میں عوام کے سامنے انتخابات میں نہیں جاتے اور نہیں جاسکتے اسلیے کبھی ملا ملٹری الائنس اور کبھی کوئی اور الائنس کر کے دھوکے سے جاتے ہیں اور چھپ کر جاتے ہیں یہی تو بات ہے منافقت کی کہ اپنے عوام کے سامنے بھی نہیں جاسکتے۔ کیونکہ عوام ان کی منافقت کو اچھی طرح جان گئے ہیں پہلے کراچی سے پاک صاف کیا عوامی اظہار رائے دہندگان نے اور اب صوبہ سرحد سے بھی الحمداللہ صفایا ہوا چاہتا ہے منافقوں کی جماعت کا۔)

اللہ جانتا ہے کہ حق بات کسی کو بری نہیں لگتی اور نا لگنی چاہیے مگر اگر کوئی ناحق بات کرے تو ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ چاہے وہ ہمارا سگا ہی کیوں نا ہو حق کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ناصرف ایمان کی علامت رکھتے ہوئے نا صرف برا مانا جائے بلکہ اسکی کھلم کھلا مخالفت بھی کی جائے ناکہ منافقت کا لبادہ اوڑھ کر جماعتی یعنی عبداللہ بن ابی جیسی منافقت کرنے والی سیاست نا اختیار کی جائے (باقی اللہ کی جماعت تو حق پر رہے گی مگر نام سے کسی جماعت کو جماعت اسلامی قرار دینے سے وہ جماعت کوئی اسلامی نہیں بن جائے گی جس طرح خنزیر کے گوشت پر اللہ کا نام پڑھ لینے کے بعد وہ حلال ہو جائے گا (بشرطیکہ آپ کی جان نا کھانے کے سبب جانے کا خدشہ ہو)۔

اور آپ کا شکریہ کہ آپ نے بالآخر یہ اعتراف کر ہی لیا کہ جب آپ نے دیکھھ لیا کہ اس فورم پر کوئی بھی نیوٹرل نہیں تو آپ نے کہا کہ “تو میں اپنے نظریات کو کیوں نہ آگے بڑھاؤں “ ۔ یعنی آپ نے اعتراف کر ہی لیا پہلے یہی کام آپ اعتراف کے بغیر ہی کر رہے تھے اور یہ کہنا کہ آپ پہلے نیوٹرل تھے تو بھیا ہمیں تو اس سے اختلاف تھا پہلے بھی۔

آپ نے کہا “اور جہاں تک بات رہی جماعت اسلامی کی تو جناب عالی ستر سالوں سے لوگ جماعت اسلامی پر تنقید کرتے آرہے ہیں لیکن الحمدللہ ستر لوگوں سے بنایا گیا قافلہ آج لاکھوں لوگوں پر مشتمل ہے“

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ لاکھوں لوگوں سے بنائے گئے اس قافلہ یا ٹولے یا گروہ (بقول آپ کے جس سے ہمارا متفق ہونا کوئی اتنا ضروری بھی نہیں ) میں شامل افراد اور اراکین کی منافقت ثابت کرنے کے لیے کیا یہ یہ نقطہ قابل زور نہیں کہ اس ٹولے کے اپنے ہی لاکھوں (جیسے کبھی جماعتیوں کے دعوے اپنے جلسوں کے بارے میں ملین لوگوں کی شرکت کے بھی ہوتے ہیں ) ان لوگوں میں سے چند ایک لاکھ لوگ بھی جماعتیوں کو ووٹ نہیں دیتے یعنی منافقت رچ بس گئی ہے اس نام نہاد جماعت اسلامی اور اس کے ہمدردوں اور اسکے وابستہ لوگوں میں وگرنہ جماعت اسلامی کا سیاسی میدان میں اتنا برا حشر نا ہوتا ملک بھر میں جو ہورہا ہے کافی عرصے سے اور اگر غور کریں تو منافقت کی انتہا کے ثبوت کے لیے کیا یہ کافی نہیں کہ اپنے گھر سے ہی جماعیتوں کو ووٹ نہیں مل پاتے امید ہے حق کو نظر سے اس نقطہ کو دیکھتے ہوئے اپنے ملین مارچ یعنی ملین منافقین کی اصلاح کے لیے جماعتی سطح پر کچھ اچھا کرنے پر اپنے لیڈران کو کچھ رائے وغیرہ دے سکیں۔ جس سے جماعتیوں کا ٹولہ شائد کچھ اچھا کر سکے ناصرف ملک و قوم کے لیے بلکہ دین و مذہب کے لیے بھی۔

اور شکر ہے کہ آپ نے اعتراف کر لیا وگرنہ کسی کا دوغلہ پنے سے لکھنا اور نیوٹرل نیوٹرل ہونے کی رٹ لگانا کچھ اچھا اور جچتا نہیں ۔ بہرحال کہتے ہیں صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔

امید ہے حق بات آپ کو بری نہیں لگے گی مگر ہاں اگر اپنے جماعتی تعصب سے کچھ پڑھیں گے تو ضرور بری لگے گی اور آپ اگر تھوڑی سی توجہ نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اپنی ہدایت پر دیں گے تو انشاللہ رب العزت آپ کو بھی حق کا راستہ دکھا دے گا۔

کہہ دو حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو ہے ہی مٹنے کے لیے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 533538 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.