آج لکھوں گا کچھ نااُمیدی کے بارے میں ، کہ کیوں نکر کسی
کے دل میں اُمید کا چراغ بجھ جاتا ہے اور پھر وہ ناکامیوں کے دہانے پر کھڑا
ہوکر اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتا ہے ۔ اگر کوئی انسان دوسرے انسان سے
نااُمید ہوتا ہے تو ظاہر بات ہے کہ انسان سے اُمیدیں عارضی ہوتی ہیں ، پوری
ہونے کے امکانات بہت کم یا بالکل نہیں ہوتیں ،،،کیونکہ انسان کے اس دنیا سے
جانے کا مقررشدہ وقت کسی کے علم میں نہیں ہے ، اس نسبت اکثر ایسا ہی ہوتا
ہے کہ کسی انسان سے کوئی امید رکھی جائے اور اس دوران وہ انسان کہیں ایسے
کام میں پھنس جائے، یا کسی دور جگہ منتقل ہوجائے جہاں وہ اپنی ذات سے اُمید
رکھنے والے دوست ، احباب کے وہ اُمیدیں پوری کرنے میں ناکام ہوجائے،بشرط یہ
کہ وہ ایک سچا ایماندار اور وفادار دوست ہو، تو وہ اُمیدرکھنے والوں میں سے
بہت کم ہونگے جو اس بات پر نظر ثانی کرے کہ وہ تو ایک انسان ہے جس سے میں
نے بڑی بڑی اُمیدیں وابستہ رکھی تھیں ، کوئی بات نہیں اسے وقت نہ ملا ہوگا
، یا وہ ایسے حالات میں پھنسا ہوا ہوگا کہ میری اُمیدیں ، باقی رہ گئیں ، ،
مگر اکثریت سے لوگ ایسے ہونگے جو نااُمیدی کا شکار ہوکر اپنی دوستی تھوڑ
دیتے ہیں ، یا گلے شکوے کرکے اسکے دل میں اپنے لئے بنائے ہوئے مقام کو بھی
کھو دیتا ہے ۔ میری ان باتوں کا مطلب یہ نہیں کہ کسی سے اُمید نہ رکھو اور
یا کسی کو دوست نہ بنائو،، دوست بنائومگر اُن سے اس قدر اُمید نہ رکھو کہ
وہ تمہاری تقدیر کو بدل دیں ۔ کیونکہ انسان کی تقدیر اللہ تعالیٰ نے جس قدر
لکھی ہوتی ہے ویسی ہی زندگی کی کشتی چلتی ہے ، ، بلکہ انسان سے عارضی
اُمیدیں رکھوکہ اگر ہوسکے تو یقینی بن جائے، نہ ہو سکے تو خیر،،،
محترم قارئین ! ہم آج جس زمانے کے گود میں پل رہے ہیں اس زمانے میں مجھے
کوئی ایسی مثبت پہلو نظر نہیں آرہی ہے بلکہ ہر اک فرد ایک منفی سوچ میں
مبتلا ہوچکا ہے اور سب کا عقیدہ اس حد تک کمزور ہوچکا ہے کہ معمولی نوعیت
کی بات پر بھی اختلافات بن جاتے ہیں اور یو نہی ہم ایک دوسرے کو حقیر سمجھ
کر زندگی گزار رہے ہیں ، اس سے بڑی نااُمیدی کیا ہوگی کہ ہم خود اپنے آپ پر
بھروسہ نہیں کرسکتے کہ ہمارے ارادے خود پست ہوتے ہیں اس لئے ہم کبھی کبھار
خود اپنی ذات سے بھی نااُمید ہوجاتے ہیں اور سر جھکار کر یوں منہ لٹکائے
ہوئے چلتے پھیرتے ہیں ،،، کیا مقصد اس طرح زندگی کا ؟ کیو ہم ایکدوسرے کے
عارضی اُمیدوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور جب پوری نہیں ہوتیں تو ہمارا حال
،، بدحال ہوجات ہے ۔
ذرا سوچئے کہ کیا ہم جس ذات سے اُمیدیں وابستہ رکھتے ہیں اس ذات کے باقی
رہنے کی کوئی گارنٹی ہے ؟، اگر وہ انسان ہے تو میں کہتا ہوں کہ انسان کی
ایک لمحہ بھی گارنٹی نہیں ہے ، اکثر لوگ ایسے موت مر جاتے ہیں کہ انکا نام
ونشان تک نہیں ملتا، میں اگر یہاں اپنے ایک فوت شدہ ماموں کا ذکر کروں تو
بے شک میرا دل روئے گا، ، مگر بتا تا چلوں کہ ہمارا ایک ماموں جو ڈرائیور
تھا اور زیادہ تر وہ گلگت کے سفر میں ہوتا تھا نہ جانے اُن سے اُنکے بیوی
بچوں کی کتنی اُمیدیں وابستہ تھیں ،، نہ جانے اُن کی اپنی ذات سے کتنی
اُمیدیں تھیں ، ، 13سال تک اس سفر میں چلتا رہا چلتا رہا،، آخر جاگرا میرے
بھائیوں دریائے آباسین کے زہریلے پانی کا شکار ہوگیا،،، 4سال گزر گئے اسکی
لاش نہ ملی اب تک ، سوائے اسکے موبائل، پرس اورپلاسٹک کی ایک تھیلی میں بند
جوتے کے ۔ جو بھی اُس نے نہ جانے کتنے اُمیدوں کے ساتھ پھینکے ہوئے تھے ،،
کہ یہ کسی کو مل جائینگے ، ، ارے اُسکو تو کفن اور قبر کی مٹی بھی نصیب
نہیں ہوئی ، شاید اُسکی یہ اُمیدنہ تھی کہ ،، لوگ جنازہ اُٹھائینگے، کفن
دینگے، قبر سجھائینگے، ،، کیونکہ اس نے ایک دن ہماری نانی اپنی ماں سے کہا
تھا کہ ایک دن اُس دریا کے مچھلیوں کا خوراک بنوں گا،، شاید اسکے دل میں
یہی اُمید تھی،، کیونکہ اپنے زندگی کی تلخ لمحات سے بے حد تنگ آگیا تھا دن
رات محنت مزدوری نے اسکی زندگی محدود کردی تھی ۔
ان باتوں سے صاف واضح ہے کہ اُمید صرف اللہ تعالیٰ سے جو رکھی جائے اُسی
طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی خیر وجزا دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے ، ،
ہم کیو ں نااُمید ہوجاتے ہیں ؟ کیونکہ ہم اپنے اُمیدوں کو ایک طرف انسان سے
وابستہ رکھی ہیں ، تو دوسری طرف اگر میں کہوں کہ ہم نے اپنی اُمیدوں کو
خواہشات میں بدل دیے ہیں ، اور کہتے ہیں ہماری یہ اُمیدیں ہیں ، وہ اُمیدیں
ہیں ، ، اس قدر وہ اُمیدیں اگر شرعی نہ ہوں یا وہ اُمید کے نام پر خواہشات
ہوں تو اکثر الوقت پوری نہیں ہوتیں اور ہم نااُمید ہوجاتے ہیں ،، مگر یہ
مایوسی ہے ، اور مایوس ہونا گناہ ہے ،، محترم قارئین ! نااُمیدی کیا ہے؟
نااُمیدی وہ ہے کہ جس بات کا ہمیں یقین ہو جس ذات نے ہم سے وعدہ کیا اور وہ
ذات ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والی ذات ہو ،، تو اگر وہ ہماری جائز اُمیدوں
کو پورا نہ کریں ،،تو تب انسان اگر نااُمید ہوجائے ، مایوس ہوجائے تو شاید
ٹھیک ہوگا ،،مگرایسا نہیں ہوتا کیونکہ( اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی
نہیں کرتا) اللہ تعالیٰ نے جو وعدے کئے ہیں اُن وعدوں کے مطابق اگر ہم اپنے
رب سے اُمیدیں رکھیں تو ہمیں زندگی کے کسی بھی موڑ پرنااُمیدی کی فضائ نہیں
ملے گی ، ، ہمیں جب پتہ چلے گا کہ اللہ تعالیٰ نے کن کن چیزوں کو جائز قرار
دیا ہے اور کن چیزوں سے منع کیا ہے ، اگر ہم اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے
احکامات کے اور حضور اقدس ؐ کے سنت مبارک پر گزاریں تو شاید وہ دن کبھی نہ
آئے جس دن ہمیں نااُمیدی کی بلا کھا جائے،، ، بلکہ ہر اک وہ اُمید جو جائز
اور شرعی ہو پوری ہوتی رہیگی اور یہ سلسلہ جاری رہیگا،، اس طرح ساری زندگی
خوشی اور پوری ہونے والی اُمیدوں کے ساتھ ساتھ گزرتی جائیگی ، نہ کبھی
مایوسی ہوگی اور نہ ہی ہم اللہ تعالیٰ سے رکھی ہوئی اُمیدوں کو کھو ئینگے ۔
لہٰذا ہمیں اپنے رب پر پورا پورا بھروسہ رکھنا چاہئے اور رب سے جو اُمید
رکھی جائے اسکے پورا ہونے میں بے صبری سے کام نہ لیں ، ،، پھر بھی اگر کوئی
اُمید پوری نہ ہو تو نااُمید مت بنو ،، زندگی اُمید سے ہی گزرتی ہے ، ، ،
زندگی ایک عارضی وقت ہے ، جب یہ عارضی ہے تو اس سے وابستہ ہر ایک چیز عارضی
ہوگی، اوردنیاوی اُمید بھی عارضی ،،،جب یہ سب عارضی ہیں ہے تو نااُمید ہونے
کی ضرورت نہیں ہے،،، اُمید رکھو اپنے رب سے آخری زندگی کی بہتری کیلئے، جو
اصل ، حقیقی اور نہ ختم ہونے والی زندگی ہوگی ،،، جس میں ہر اک خواہش ہر اک
اُمید آپکی پوری ہوگی ۔ دنیا میں ہم اس مقام تک نہیں پہنچے ہیں کہ جو چاہے
خدا سے منظور کروائیں ، ،ایسے لوگ اس دھرتی پر موجود ہیں کہ وہ خدا سے جو
چاہے مانگ کر پا سکتے ہیں ،مگر انہیں ان عارضی چیزوں کی کیا ضرورت جب انہیں
اللہ تعالیٰ کی اتنی رضا نصیب ہوئی ہے ۔ انہیں عارضی چیزوں کی ضرورت ہی
نہیں اس لئے وہ اس دنیاوی عارضی اُمیدوں اور عارضی خواہشوں کو مسترد کرتے
ہوئے اپنی زندگی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا پرگزار رہے ہیں ۔ اور وہ دن دور
نہیں کہ انکا مقام ایک اعلیٰ درجے کا مقام ہوگا ۔۔ میری بھی آپ سب سے یہ
اُمید ہے کہ میرا یہ مضمون پڑھ کر مجھے داد دینگے ۔ مگر نااُمید نہیں بنوں
گا،،،کیونکہ ممکن تو نہیں کہ ضرور اسکے پڑھنے کا وقت آپ کو ملے۔۔ |