’ضرب کلیم ‘ کی ایک نظم ’دام
تہذیب‘ میں علامہ اقبالؒ نے غم ملت کا بیان کچھ یوں کیا ہے :
جلتا ہے مگر شام و فلسطین پہ مرا دل
تدبیر سے کھلتا نہیں یہ عقدۂ دشوار
ترکانِ جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتار
ان کا یہ انداز حقیقت پسندانہ ہے ۔ وہ ماضی کی مدح سرائی ہی نہیں کرتے ، اس
کا رشتہ حال کی صداقتوں سے بھی جوڑتے ہیں ۔ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ صرف ایسے
ہی احساس کو پیکار اور پیکار کو انقلاب کی صورت دی جا سکتی ہے ۔ ان کی نظر
صرف شام و فلسطین پر نہیں ان کی چشم نگراں نے دنیائے اسلام کے چپے چپے کا
جائزہ لیا اور پردوں میں چھپی ہوئی حقیقت کو آشکارا کیا ہے ۔ وہ جب ملت کے
درد میں ڈوب جاتے ہیں تو اس کیفیت کو بحضور سرور کونین بیان کرنے کا انداز
بھی دل گداز ہوتا ہے ۔
شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا ، تیرا مسلمان کدھر جائے
وہ لذتِ آشوب نہیں بحرِ عرب میں
پوشیدہ جو ہے مجھ میں وہ طوفان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کرے اے روح محمدؐ
آیاتِ الہیٰ کا نگہبان کدھر جائے؟
اقبالؒ کا دور ملت اسلامیہ کے شیرازے کی ابتری کا دور تھا۔ فلسطین سے لے کر
کشمیر اور ہندوستان سے لے کر مصر و شام غلام تھے۔ احساس زیاں نہ تھا۔ کہیں
ذہنی غلامی تھی تو کہیں جسمانی ۔ اس لیے پکار اٹھتے ہیں۔
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
اقبالؒ نے اپنے مضمون ’جغرافیائی حدود اور مسلمان ‘ میں مسلم امہ کی ملی
ابتری اور انتشار کے اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یورپ اپنے نظریہ
وطنیت سے اسلام کی وحدت دینی کو پارہ پارہ کر رہا ہے ۔ مغربی سیاست نے جو
جال بچھایا ہے اس کا نام ’وطن ‘ ہے ۔ دین اور وطن کی آویزش میں ’وطن‘ کے دو
مفہوم ہیں ۔ ایک مفہوم وہ ہے جو سند ارشاد نبویؐ ہے اور دوسرا مفہوم وہ ہے
جو گفتار سیاست نے اس لفظ کو دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے
اور گفتارِ سیاست کے دیے ہوئے مفہوم نے وطن کے لفظ کو ایک ایسا ’صنم‘ بنا
دیا کہ اس کی پوجا کرنے والے اﷲ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
مغربی سیاست کا دوسرا روپ تہذیب نو ہے جو اپنے جلوے سے انتشار و افتراق پید
اکرتی ہے ۔
اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے
اقبالؒ اس کے بعد حل بھی بتا رہے ہیں کہ
بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحاد وطن نہیں ہے
اقبالؒ نے سر راس مسعود کے ساتھ۱۹۳۱ء میں گفتگو کرتے ہوئے امت مسلمہ کی
خصوصیات یہ بتائی ہیں کہ دنیائے اسلام رنگ ، نسل اور قوت کے امتیازات کو
بالکل فنا کر چکی ہے
پاک ہے گردِ وطن سے سرداماں تیرا
تو وہ یوسف ؑہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
لیکن یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ دنیا ئے اسلام مملکتوں میں بٹی ہوئی ہے اور ہر
مملکت کے اپنے سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی ، جغرافیائی تقاضے ہیں۔ پھر
مملکتوں کے اس وجود کی کثرت کو تسلیم کرتے ہوئے بھی ہم وحدت کے رشتوں کو کس
طرح استوار کریں۔ حرم کی دیواروں میں شگاف ہیں، چمن آندھیوں کی زد میں ہے۔
اس انتشار کے اسباب کو تلاش کرنا اہم کام ہے ۔ ان قوتوں کی شناخت ضروری ہے
جو سادہ دل مسلمانوں کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں۔ اقبالؒ اپنے قاری کو
تعمیر حرم کی طرف مائل اور متوجہ کرتے ہیں۔ ان کا انداز نا صحانہ ہے ۔
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خراسانی، یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندۂ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال ویر تیرے
تو اے مرغ حرم اڑنے سے پہلے پُر فشاں ہو جا
اقبالؒ اپنے ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ’ ایک سبق جو میں نے تاریخ اسلام
سے سیکھا ہے ، یہ ہے کہ صرف اسلام تھا جس نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی
زندگی کو قائم رکھا نہ کہ مسلمان۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر
جمادیں اور اس کے ’حیات بخش‘ تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ
قوتیں از سر نو جمع ہو جائیں گی ‘۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی بصیرت رکھتے
ہیں کہ’ مغربی اور وسطی ایشیا کی مسلمان قومیں اگر متحد ہو گئیں تو بچ
جائیں گی اور اگر اس اختلاف کا تصفیہ نہ ہو سکا تو اﷲ حافظ ہے ۔ مضامین
اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ میرا عقیدہ یہی ہے کہ اتحاد ہو گا اور دنیا ایک
دفعہ جلال اسلامی کا نظارہ دیکھے گی‘۔
تاہم آج کی مسلمان دنیا تہذیبی کشمکش میں بھی مبتلا ہے اور امریکہ اور مغرب
کا موثر ہتھیار اب برتر تہذیب ہے ۔ مسلمان اسلام یا اسلامی تہذیب کو متبادل
کے طور پر سامنے لا ہی نہیں سکتے۔ وہ اسلام کے حیات بخش پیغام سے جانے کیوں
کتراتے ہیں۔ ان کے درمیان کی فرقہ واریت ، قوم پرستی، برادری ازم اور
علاقیت کا علاج بھی یہی ہے کہ وہ ایک مرکز کے گرد اکھٹے ہو جائیں ۔ وہ مرکز
محمد ؐ کی ذات ہے ۔ اب بھی مسلمان عشق محمدؐ کی بنیاد پر اکھٹا ہو جاتا ہے
۔ اسے یہ سمجھنا ہو گا کہ ’غیرت ہے بڑی چیز جہاں تگ و دو میں‘۔ اسے یہ بھی
سوچنا ہو گا کہ ’ہر ملک ملک ماست کہ ملکِ خدا ماست‘ ۔ تاہم آج کے دور کی یہ
ایک تلخ حقیقت ہے کہ ’جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات ‘ ۔
معاشی خود کفالت ، اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ، اپنی روایات سے محبت اور ان
کی پاسداری، ایک نظریے، ایک عقیدے ، ایک مرکز کے گرد اکٹھا ہونا اور اکٹھا
کرنا ہی ہم مسلمانوں یا مسلم امہ کو باوقار مقام دلا سکتا ہے اور اقبالؒ کا
یہ شعر اس سب کی تفسیر ہے :۔
مکے نے دیا خاک جینوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیت آدم
اور یہ بھی یاد رکھیں کہ
وہ قوم نہیں لائق ہنگامہء فردا
جس قوم کی تقدیر میں امروز نہیں ہے |