پاکستانی نژاد جاپانی شہری ناصر
ناکا گاوا کا سفر نامہ ’’دیس بنا پردیس ‘‘ان دنوں علمی و ادبی حلقوں کی
توجہ اور دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے ۔اس سفر نامے کی مقبولیت اور پذیرائی
کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا پہلا ایڈیشن سال2012میں
شائع ہوا ۔قارئین ادب نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اورصرف ایک سال کے بعد یعنی
سال 2013کے اوائل میں اس کا دوسرا ایڈیشن ما ورا پبلشرز ،لاہور کے زیر
اہتمام نئی آب و تاب کے ساتھ ز یور طباعت سے آ راستہ ہو کر منصہ ء شہود پر
آیا۔اس کتاب کو محض سفر نامہ نہیں بل کہ اس کے ساتھ ساتھ مسافر نامہ ہونے
کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔مصنف نے اس کتاب میں اپنے تجربات ،مشاہدات ،تاثرات
اورقلبی واردات کو اس خلوص کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالا ہے کہ قاری
اسلوب کی قلب اور روح کی اتھا ہ گہرائیوں میں اتر کر مسحور کر دینے والی
اثر آفرینی کا گرویدہ ہو جاتاہے ۔ مصنف نے قلم تھام کر ید بیضا کا معجزہ
دکھایا ہے ۔ منفرد اسلوب کے ذریعے اشہب قلم کی جو لانیاں اس انداز میں
دکھائی گئی ہیں کہ یہ کتاب ایک جام جہاں نما کی صور ت اختیا کر گئی ہے۔قاری
کتاب ہاتھ میں لے کر مطالعہ کے دوران پاکستان ،جاپان ،پیکنگ ،متحدہ عرب
امارات ،ملائیشیااور دنیا کے متعددد اہم مقامات کی چہل پہل کا احوال چشم
تصور سے دیکھ لیتا ہے ۔ وطن سے دوری کا احساس اس حساس تخلیق کار کے رگ و پے
میں سرایت کر گیا ہے ۔وطن اور اہل وطن سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کا
جو معیار اس کتاب کے اسلوب میں جلوہ گر ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔زندگی کی
اقدار عالیہ کو جس درد مندی کے ساتھ اس کتاب میں سامنے لانے کی سعی کی گئی
ہے وہ قاری کے فکر و خیال کو مہمیز کرنے کا وسیلہ ہے۔اسلوب کی ہمہ گیر اثر
آفرینی کے اعجاز سے ان درخشاں اقدار و رایات کو اجتماعی زندگی کے جملہ امور
پر منطبق کرنے کی کوشش نے اس سفر نامے کو ایک نئی جہت عطا کی ہے ۔وطن سے
دور رہتے ہوئے بھی مادر وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنا ااور پرورش لوح و قلم کے
دوران قومی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے قومی مفادات ،ملی وقار
،ارضی و ثقافتی اقدار پر اپنی توجہ مرکوز رکھناایک تخلیق کارکا اہم فرض ہے
۔ ناصر ناکاگاوا 3۔ستمبر 1964کو کراچی میں پیدا ہوئے ۔جامعہ کراچی سے
معاشیات میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی اس کے ساتھ ہی بی۔ کام بھی کیا ۔کچھ
عرصہ پاکستان میں ہٹاچی ٹیلی ویژن اور لیور برادرز میں ملازمت کی اس کے بعد
1988میں بیرون ملک قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور قرعہء فال جاپان کا
نکلا۔تب سے مستقل طور پر جاپان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔جاپان ہی میں ایک
جاپانی خاندان میں شادی کی اور وہیں گھر بسا لیا ۔اس عرصے میں پاکستان کی
قومی زبان ،تہذیب و ثقافت ،سماجی ،معاشرتی اور ملی مسائل کے بارے میں وہ
ہمیشہ کھل کر لکھتے رہے ہیں ۔اردو نیٹ جاپان کا اجرا ان کی کاوشوں کا ثمر
ہے جہاں دنیا کے نامور ادیب ،محقق ،نقاد اور ممتاز دانش وراپنی تخلیقات اور
تجزیاتی مطالعات کے ذریعے قارئین میں مثبت شعورو آ گہی پیدا کرنے میں اہم
کردار ادا کر رہے ہیں۔جاپان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کچھ اورویب
سائٹس بھی مصروف عمل ہیں جو کہ ایک مستحسن کام ہے ۔وطن سے دوری کا احساس
مصنف کے اسلوب میں نمایا ں ہے اس کا اندازہ ان دو اشعار سے لگایا جا سکتاہے
جو اس سفر نامے کے بیک کور پر شائع ہوئے ہیں ۔
کون چھوڑے ہے میرے دوست وطن کی مٹی کو
بعد مرنے کے یہیں خاک نہ ہو جاؤں کہیں
کم پڑ گئی ہے جاپان میں دفن کی جگہ
سزائے جلا وطنی میں یہیں راکھ نہ ہو جاؤں کہیں
سچی بات تو یہ ہے کہ حب وطن تو ملک سلیمان سے بھی کہیں زیادہ دلکش و حسین
ہوتی ہے اور وطن کا تو کانٹا بھی سنبل و ریحان اور گلاب و یاسمین سے بڑھ کر
عطر بیزی کا احساس دلاتا ہے ۔ماد ر وطن سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے اس تخلیق
کار کے خیالات زندگی کے حقائق کے آئینہ دار ہیں۔وطن سے دوری کا احساس ایک
ایسا کرب ہے جسے وہی محسوس کر سکتے ہیں جو اس تلخ تجربے سے گزرتے ہیں ۔اسی
احساس کو حفیظ جون پوری نے ایک شعر میں نہایت پر تاثیر انداز میں بیان کیا
ہے :
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیزغریب الوطنی ہوتی ہے
بیرون ملک روزگار کی تلاش میں جانے والے اپنے وطن کو ہر لمحہ یاد رکھتے ہیں
۔انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ یہیں سے آب خنک کا وہ شیریں چشمہ پھوٹاتھا جس
سے سیراب ہو کر وہ پروان چڑھے ۔ان کے والدین نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر
انھیں بیرون ملک روانہ کیا ۔ناصر ناکا گاوا کے اسلوب میں ارض وطن کی محبت
کا ایک دلکش روپ موجود ہے ۔مصنف کے منفرد اسلوب کے اعجاز سے تحریر میں
سادگی ،سلاست ،خلوص و درد مندی اور بے تکلفی کی جو فضا ہے وہ قاری کو ایک
جہان تازہ میں لے جاتی ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جب کہ ہوس نے
نوع انساں کو فکری انتشار کی بھینٹ چڑھا دیاہے تہذیبی اور ثقافتی اقدارکو
نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔ان مسموم حالات میں فکر وخیال اور جذبات
واحساسات میں برق رفتار تغیر و تبدل کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلاہے
۔تخلیق فن کے لمحوں میں ایک زیرک تخلیق کار ان تمام امور کے بارے میں
قارئین کواپنی فکر پروراربصیرت افروز تحریروں سے رہنمائی فراہم کرتا ہے ۔اس
کا وجود ستارہ ء سحر کے مانند ہے جسے دیکھ کر رہروان منزل اپنے راستے کا
تعین کرتے ہیں۔یہ سفر نامہ دور جدید میں بدلتے ہوئے معاشرتی نظام کے پورے
منظر نامے کی تصویر کشی کرتا ہے ۔لطافت اظہار اور جدت تخیل کا جو بلند
معیار اس سفر نامے میں جلوہ گر ہے وہ اسے اردو ادب کے نمائندہ سفر ناموں
میں شامل کرتاہے ۔ اس سفر نامے میں وطن سے محبت کا جو ارفع ترین معیار نظر
آتا ہے وہ قارئین ادب کے دلوں کو ایک ولولہء تازہ سے آ شنا کرنے کا موثر
وسیلہ ہے۔راہ طلب میں گھر سے دور جانے والے تو وطن سے دور چلے جاتے ہیں
لیکن ان کے ضعیف والدین کی شکستہ پائی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔دام غم
حیات میں الجھے یہ ناتواں لوگ جو چراغ سحری کے مانند ہیں گرد ش تقدیر کا
مشاہدہ کرتے کرتے مجبوریوں کے چیتھڑے اوڑھے لرزاں ہاتھوں میں عصا تھامے
نشیب زینہ ء ایام سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھ
لیتے ہیں ۔ بے تیشہء نظر ان رفتگاں کی راہ دیکھنا بعید از قیاس ہے
۔اندھیروں کی دسترس سے دور یہ لو گ سدا روشنی کے مانند سفر میں رہتے ہیں
اور ان کے دم سے دنیا کی زینت ہے ۔ امریکہ میں مقیم پاکستانی شاعر ا فتخار
نسیم نے وطن سے دوری کے احساس کے بارے میں اپنے خیالات کو نہایت دردمندی
اورخلوص کے ساتھ ان اشعار کے قالب میں ڈھالاہے۔نوجوان اولاد کی گھر سے
روانگی کے وقت ماؤں کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کا اندازہ اہل درد ہی لگا
سکتے ہیں ۔دعائے نیم شب میں اپنے پیارے بیٹوں کو یا رکھنے والی مائیں بیٹوں
کے بیرون ملک جانے کے بعد اپنی تنہائیوں سے سمجھوتہ کر کے خالی گھر کوحسرت
بھری نگاہ سے دیکھتی ہیں اوران کی سلامتی کے لیے مسلسل دعائیں مانگتی رہتی
ہیں :
طاق پر جز دان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دئیے بیٹے سفر پہ گھر میں مائیں رہ گئیں
ناصر ناکا گاوا نے یہ سفر نامہ اپنے خون جگر سے تحریر کیا ہے ۔مطالعہ کے
دوران ہر سطر پر اس تخلیق کار کی حب الوطنی،خلوص ،دردمندی اور انسانی
ہمدردی کا کرشمہ دامن دل کھینچتاہے۔ بیرون ملک سیاحت کے دوران وہ جس مقام
پر بھی پہنچے ،وہاں وطن کی یاد ضرور آتی ہے۔اس کے ریشے ریشے میں ارض وطن کی
محبت سما چکی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وطن کے گوٹھ گراں ،شہر اور گلی
کوچے اسے اپنی طرف بلا رہے ہیں ۔افتخار نسیم نے سچ کہا تھا :
اداس بام کھلادر پکارتا ہے مجھے
جلاوطن ہوں میرا گھر پکارتا ہے مجھے
گزشتہ نصف صدی کے دوران اردو کے ممتاز تخلیق کاروں نے شعر و ادب کو متعدد
نئی جہتوں اور اسالیب سے آ شنا کیا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے عروج کے
موجودہ زمانے میں دنیا نے ایک گلوبل ویلج (Global Village)کی صورت اختیار
کر لی ہے ۔اردو سفر نامہ نے جو ارتقائی سفر طے کیا ہے اس پر ایک نگاہ ڈالنے
سے اس صنف کی مقبولیت کا احساس ہوتا ہے کہ اس میں کیسے کیسے جو ہر قابل
معجزہء فن سے فکر و نظر کو مہمیز کر تے رہے ہیں۔ تاریخ ادب کے حقائق کا
مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخری عشرے تک بر
عظیم کے بہت کم لوگ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوئے ۔اس سے قبل اگر کوئی
مقامی با شندہ بیرونی ممالک کے سفر پر روانہ ہوا تو اس نے اپنے سفر کی
یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا ۔ ان یادداشتوں کو بر عظیم میں سفر
نامہ نگاری کے ابتدائی رجحانات سے تعبیرکیا جا سکتا ہے ۔اردو کے پہلے سفر
نامہ نگار یوسف خان کمبل پوش کا آبائی وطن حیدر آباد دکن تھا ۔بچپن ہی سے
وہ ایک سیلانی مزاج کا مالک تھا ۔وہ بچپن ہی سے سیر وسیاحت کادلدادہ تھا اس
نے ملک کے اندر پہلا سفر 1828میں کیا ۔اس کے بعد اس نے بیرون ملک دنیا
دیکھنے کا فیصلہ کیا اور پھر اس پر عمل بھی کیا۔انیسویں صدی عیسوی کے اوائل
میں ’’عجائبات فرنگ ‘‘کے نام سے جو سفر نامہ لکھا اسے اردو کا پہلا سفر
نامہ سمجھا جاتا ہے ۔30مارچ 1870کو بحری جہاز کے ذریعے اپنے بیرون ملک سفر
پر روانگی کے وقت یوسف خان کمبل پوش اردو ادب میں صنف سفر نامہ کے ارتقا کی
جانب ایک اہم پیش رفت کا آغاز کررہا تھا۔ اس کا یہ سفر اردو سفر نامے کے
ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ا س نے پیرس ،لزبن ،جبرالٹر ،مالٹا
،مصر اور سیلون کا سفر کیا۔اس سیاحت کے اعجاز سے اس کے خیالات میں جو وسعت
پیدا ہوئی اس نے اس تخلیق کار کے فکر و نظر کیا کایا پلٹ دی ۔اپنے اس سفر
سے واپسی کے بعد جب وہ بمبئی پہنچا تواس کی دلی خواہش تھی کہ وہ بر عظیم کے
محکوم اور مظلوم با شندوں کو آزاد دنیا کے بارے میں اپنے تجربات
،مشاہدات،تاثرات اورمطالعات سے آ گاہ کرے ،چنانچہ اس نے اپنے سفر کی
یادداشتوں کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔یوسف خان کمبل پوش نے سب سے پہلے اپنے
سفر کی یادداشتوں کو فارسی زبان میں تحریر کیا لیکن فارسی زبان میں لکھے
گئے اس سفر نامے کی اشاعت کی نوبت نہ آ سکی ۔ اس زمانے میں ارد وزبان پڑھنے
اور لکھنے والوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا تھا ،اس لیے یوسف خان
کمبل پوش نے قارئین کے ذوق سلیم کا احساس کرتے ہوئے اپنے سفرکی تمام
یادداشتوں کو اردو زبان میں از سر نو تحریر کیا۔یوسف خان کمبل پوش کا لکھا
ہوا اردو کا یہ پہلاسفر نامہ پہلی بار ’’تار یخ یوسفی ‘‘ کے نام سے 1847میں
مکتبہ العلوم دہلی کے زیر اہتمام شائع ہوا۔ قارئین ادب نے اس سفر نامے کی
بہت پذیرائی کی ۔قارئین ادب کے لیے اپنی نو عیت کے اعتبار سے یہ پہلی اور
انوکھی کتاب تھی جس میں مصنف نے اپنی لفظی مرقع نگاری اور اسلوب بیاں سے
سماں باندھ دیا تھا۔ اردو کے اس پہلے سفر نامہ نگار کا یہی سفر نامہ دوسری
بار مکتبہ نول کشور کے زیر اہتمام ’’عجائبات فرنگ ‘‘ کے نام سے 1873میں
شائع ہوا ۔ اسے بھی توقع کے عین مطابق قارئین نے بہ نظر تحسین دیکھا۔ اردو
ادب میں صنف سفر نامہ کو بہت مقبولیت نصیب ہوئی ۔اردو میں پہلی خاتون سفر
نامہ نگار عطیہ فیضی ہیں ۔انھوں نے 1906میں حصول علم کے سلسلے میں بر طانیہ
کا سفر کیا ۔ ایک سال بعد جب وہ اپنی تعلیم مکمل کر نے کے بعد واپس آئیں تو
اپنی یادداشتوں کو ’’روزنامچہ ‘‘کے عنوان سے مرتب کیا جو مجلہ ’’تہذیب
النسواں ‘‘لاہور سے اگلے سال شائع ہوا۔اس کے بعدعطیہ فیضی کا یہ سفر نامہ
1921میں ’’زمانہء تحصیل ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ۔آج سفر نامہ اردو
ادب کی ایک مقبول صنف ہے لیکن اس صنف ادب کے بنیاد گزاروں کے نام یاد رکھنا
بھی ضروری ہے ۔ارد وکے ممتاز شاعر رام ریاض (یاض احمد شگفتہ )نے کہا تھا :
کس نے پہلا پتھر کا ٹا پتھر کی بنیاد رکھی
عظمت کے سارے افسانے میناروں کے ساتھ رہے
یوسف خان کمبل پوش سے لے لے کر لمحہ ء موجود تک اردو میں سفر
نامے(Travelogue) نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت اختیار کر لی ہے
۔ناصر ناکاگاوا کا سفر نامہ ’’دیس بناپردیس‘‘ اسی روایت کا تسلسل ہے ۔نثر
میں دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرنے والی یہصنف ادب قارئین میں بہت مقبول ہے
۔اس میں زبان کی لطافت اور مشاہدے کی قوت سے بیرون ملک اقوام کے رہن سہن
اورتہذیب و معا شرت کے بارے میں مصنفین ذہنی پختگی کے ساتھ وہاں کی منظر
کشی کرتے ہیں تا کہ قارئین کو معقولیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صورت
دکھائی جا سکے ۔ زندگی کا سفر بھی ایک ایسا سفر ہے جس کی تفہیم پر کوئی بھی
قادر نہیں۔زندگی کی مثال سیل رواں کی تیز موجوں کی سی ہے ۔کوئی بھی شخص
اپنی شدید تمنا اور انتہائی کوشش کے با وجود سیل زماں کی گزر جانے والی
لہروں کے لمد سے دوبارہ فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔انسان دنیا میں اپنی مسافت
تو کسی نہ کسی طرح کاٹ لیتا ہے لیکن صبر آزما مسافت کے دوران اس کی روح زخم
زخم ہو جاتی ہے اور پورا وجود کر چیوں میں بٹ جاتا ہے ۔ اسے کیا خبر کہ
زندگی کے اس سفر کے اختتام پر سفر کی دھول ہی اس کا پیرہن بنے گی ۔سفر نامے
کے مطالعہ سے قاری پر یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ دنیا کس سمت جارہی ہے اس
لیے ہو ا کا رخ پہچان کر اپنی زندگی کی مسافت کومفید بنایا جائے ۔اس طرح
ذہن و ذکاوت اور فہم و ادراک کی کسوٹی پر ان حقائق کو پر کھا جائے جو ان
سفر ناموں میں پیش کیے گئے ہیں ۔یہ سفر نامے قاری کی ذہنی اور نفسیاتی
کیفیات پر دوررس اثرات مرتب کرتے ہیں ۔بیرونی دنیا کے حالات کے بارے میں
جیسے جیسے قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اسی رفتار سے وہ
زندگی کے حقائق کی گرہ کشائی پر قدرت حاصل کرتا چلا جاتا ہے’’دیس بنا پردیس
‘‘میں مصنف نے اس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے کہ تیسری
دنیا کے ممالک کا زندگی کے حقائق کے بارے میں رویہ عصری تقاضوں سے مطابقت
نہیں رکھتا ۔اردو میں لکھے جانے والے کئی سفر ناموں میں اس جانب متوجہ کیا
گیاہے ۔اردو میں جن ممتا زادیبوں نے سفر نامے لکھ کر اردو ادب کی ثروت میں
اضافہ کیا ہے ان میں سے کچھ اہم نام درج ذیل ہیں :
آصف محمود ،اعجاز مہاروی ،اے ۔بی اشرف ڈاکٹر ،احمد شجاع پاشا ، امجد ثاقب
،ابن انشا ،امجد اسلام امجد ،بشریٰ رحمٰن ، تقی عثمانی ،جمیل الدین عالی ،
حکیم محمد سعید ،حسن رضوی ،حسین احمد پراچہ ڈاکٹر ،حنا یعقوب ،خواجہ ممتاز
احمد تاج ،ڈاکٹر عباس ،ذوالفقار احمد تابش ،رفیق ڈوگر ،رضا علی عابدی ،ریاض
الرحمٰن ساگر ،سلیم اختر ڈاکٹر ،سعیدآسی ،سعید شیخ ،شاہد حسین بخاری ڈاکٹر
،ضمیر جعفری سید ،ظہیر احمد بابر ، عطیہ فیضی ،عطا الحق قاسمی ،عنایت اﷲ
فیضی ،عزیز علی شیخ ،علی سفیان آفاقی ،عبدالرؤف ڈاکٹر ، عبدالرحمٰن خواجہ
ڈاکٹر ،عبدالحمید ،عبدالر حمٰن عبالہ ،غازی صلاح الدین ،فرخندہ لو دھی
،فرید احمد ،فوزیہ صدیقی ،قمر علی عباسی ،کوثر نیازی ،کرنل محمد خان ،کشور
ناہید ،کوکب خواجہ ،محمد حمزہ فاروقی ،محمد اعجاز ،مسکین علی حجازی ،محمد
اختر ممونکا ،محمد توفیق ،محمد حسن صدیقی ،محمد لطف اﷲ خان،مستنصر حسین
تارڑ ،مسعود قریشی ،مسرت پراچہ ،مہر عبدالحق ڈاکٹر ،ناصر ناکاگاوا ،نصیر
احمد ناصر ڈاکٹر اور نیلم احمد بشیر ۔
ناصر ناکا گاوا نے نے اپنے سفر نامہ ’’دیس بنا پردیس ‘‘میں اپنے منفرد
اسلوب کے ا عجاز سے اردو سفرنامے کی اقدار و روایات کونئے آفاق سے آ شنا
کیا ہے ۔اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت قاری کو مصنف کے شانہ بہ شانہ دنیا کے
متعدد ممالک کے اہم مقامات کی سیرکا مو قع ملتا ہے اور وہ چشم تصور سے ان
مقامات کی ایک جھلک دیکھ لیتا ہے جہاں مصنف پہنچتا ہے ۔مصنف نے اپنے قاری
کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی جو روش اپنائی ہے وہ اس سفر نامے کا ایک
امتیازی وصف ہے ۔مصنف کی خوشیاں ،تجربات ،مشاہدات ،رنج ،دکھ اور کرب سب میں
وہ شامل ہو جاتا ہے اور اسے یو ں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سفر میں مصنف
کے سا تھ شریک سفر ہے ۔مصنف نے اپنی تحریروں میں تحقیقی و تنقیدی پہلوؤں کو
پیش نظر رکھ کر اسے سائنسی انداز فکر کا حامل بنا دیا ہے ۔اس سفر نامے میں
کہیں بھی ما فوق الفطرت عناصر کا گزر نہیں اور نہ ہی کہیں مبا لغے سے زمین
آ سمان کے قلابے ملانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بعض اوقات سفر نامہ نگار اپنی
تحریروں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے فرضی واقعات ،من گھڑت رومان اور لطائف
کا سہارا لیتے ہیں لیکن یہ کتاب ان تمام عیوب سے مبرا ہے ۔سادگی اورسلاست
کے اعجاز سے اس سفر نامے نے قاری کو حیرت زدہ کر دیاہے۔ یہ سفر نامہ دنیا
کے اہم ممالک کے مشہور مقامات کی تاریخ ،تہذیب ،ثقافت ،معاشرت ،علم وادب
اور تمدن کے بارے میں جملہ حقائق کا ایک جام جہاں نما بن کر سامنے آیا
ہے۔سمعی بصری معاونات کو جدیددور میں اہم ترین حیثیت حاصل ہے ۔ایک فعال
،زیرک اور مستعد مصنف کی حیثیت سے ناصر ناکاگاوا نے اپنے قارئین کو اہم
مقامات اور نامورشخصیات کے بارے میں تمام حقائق کو سمجھانے اور نامور
شخصیات سے متعارف کرانے کی غرض سے اس کتاب میں ایک سو چھپن (156) رنگین
تصاو یر شامل کی ہیں ۔بیش قیمت آرٹ پیپر پر طبع ہونے والی ان رنگین تصاویر
کی اشاعت سے اس کتاب کے صور ی اور معنوی کو چا ر چاند لگ گئے ہیں ۔ دنیا کے
مختلف ممالک کی سیاحت کے دوران مصنف نے جن تاریخی مقامات پر قیام کیا ان کا
تفصیلی احوال اس سفر نامے میں مو جود ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں ان اہم
مقامات کی محفوظ جگہوں کا بھی ذکر ہے جہاں سیاح سکون کے ساتھ رہ سکتے ہیں
اور مفاد پرست استحصالی عناصر کی ریشہ دوانیوں سے بھی بچ سکتے ہیں ۔معاشرتی
زندگی میں سماج دشمن عناصر نے ہر جگہ رتیں بے ثمر کر دی ہیں ،اس موذی و
مکار مافیا سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ انسان ان کے شر سے دور رہے ۔مصنف
نے اس سفر نامے میں ان تما م مقامات ،واقعات ،عجائبات اور سماجی زندگی کے
معمولات کو شامل کیا ہے جن سے عام قاری کو دلچسپی ہو سکتی ہے ۔مصنف سیاحت
کے لیے جہاں بھی پہنچتا ہے اس مقام تک پہنچنے کے تمام اہم ذرائع نقل و حمل
کے بارے میں تفصیل سے قاری کو آگاہ کرتا ہے ،یہ اس سفر نامے کا نہایت اہم
پہلو ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کی دلی تمنا ہے کہ قارئین بھی ان کے
تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے عازم سفر ہوجائیں۔سفر کی صعوبتوں کو خاطر میں
نہ لائیں بل کہ اﷲ کے بھروسے پر گھر سے باہر نکل کر دنیاکو دیکھیں اور حالت
وواقعات کا تجزیہ کر کے اپنے مستقبل کا لائحہ ء عمل مرتب کریں ۔اس طرح تیزی
سے بدلتی ہوئی دنیا کے بارے میں وہ بہت کچھ جان سکیں گے ۔اس کے لیے سفر کی
شرط لازم ہے ۔بہ قول آ تش :
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دارراہ میں ہے
ایک حساس اور دردمند مصنف کی حیثیت سے نا صر ناکا گا وا نے اپنے سفر نامہ
’’دیس بنا پردیس ‘‘میں حریت فکر کا علم بلند رکھا ہے ۔الفاظ کو فرغلوں میں
لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف ہے اورحرف صداقت لکھنا ان کا
شیوہ ہے ۔بیرون ملک سیاحت کے لیے روانہ ہونے والوں کے لیے یہ سفر نامہ
ہمیشہ مشعل راہ ثابت ہو گا ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں نئی تہذیب کی چکا
چوند کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کی ایک صورت سمجھنا چاہیے۔بیرون ملک سیاحت
کے لیے جانے والے اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ بے نا م دیاروں سے جب اکثر لو
گ بے نیل مرام لو ٹتے ہیں توانھیں اس جگہ کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے جہاں
ان کی آنول نال گڑی ہوتی ہے ۔جدید دور میں معاشرتی زندگی کے تقاضے بدل چکے
ہیں نمود و نمائش کے رجحان اور ہوس زر نے نوع انساں کو انتشار کی بھینٹ
چڑھا دیا ہے ۔اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ کوڑے کے ڈھیر سے جا و منصب کے
استخواں نو چنے والے خارش زدہ سگان راہ نے با وقار راہ گیروں کو شاہراہ
زیست پر چلنا دشوار بنا دیا ہے ۔اس سفر نامے میں زندگی کے نشیب و فراز کے
بارے جس خلوص ،دردمندی اور بے تکلفی سے حقائق کی جانب توجہ مبذول کرائی گئی
ہے وہ اپنی اصلیت کے اعتبارسے زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کرنے کی ایک
قابل قدر کوشش ہے ۔دنیا میں تیزی سے بدلتی ہوئی معاشرتی اقدارنے جہاں زندگی
کے تمام پہلوؤں کو نئے انداز عطا کیے ہیں وہاں فکر و خیال کی دنیا میں بھی
ایک انقلاب آ گیا ہے ۔ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کی کیٖفیت نت نئے
موضوعات سامنے لا رہی ہے اور تخلیقی عمل اس تمام صورت حال سے بے تعلق نہیں
رہ سکتا ۔ یہ صدی تقدیر جہاں کے کئی عقدے کھول کرسامنے لا رہی ہے ۔آنے والے
دور کے بارے میں لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کے جواب میں ہمارے ہو نٹوں پر
آنے والے الفاظ پتھرا جاتے ہیں۔ معاشرتی زندگی میں عدم براشت اور تشدد کی
جو روح فرسا ،جان لیوا اور اعصاب شکن کیفیت پائی جاتی ہے اس کے باعث افراد
عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں۔اس لیے اپنی مٹی ہی پر چلنے کا قرینہ سیکھنا
ضروری ہے کیونکہ بیرونی اور مستعار تہذیب و ثقافت کی چکا چوند کے یہ سراب
ایک عذاب بھی بن سکتے ہیں۔صدائے جرس کی جستجو میں نکلنے والے جب اس چکاچوند
سے متاثر ہو کر اس کی تقلیداور بھونڈ ی نقالی کرنے لگتے ہیں تو وہ سکوت کے
صحرا میں پھنس جاتے ہیں جہاں کوئی مونس ہجراں موجود نہیں ہوتا ۔اس سفر نامے
میں ناصر ناکا گاوا نے پنے تمام تجربات و مشاہدات کو شامل کیا ہے اور انھیں
پڑھ کر بے اختیار ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے :
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
’’ دیس بنا پردیس ‘‘میں انتیس (29)ممتاز اہل قلم کے اس کتاب کے بارے میں
تاثرات کو شامل کیا گیا ہے ۔یہ تاثرات اس سفر نامے کے پہلی اشاعت کے بعد
مختلف اخبارات اور مجلات میں شائع ہو چکے ہیں ۔ان کی تنقیدی اہمیت کے پیش
نظر انھیں اس سفر نامے کے دوسرے ایڈیشن میں شامل اشاعت کیا گیا ہے ۔ان کے
مطالعہ سے اردو سفر نامے پر تحقیقی کام کرنے والے اردو ادب کے طلبا کو اس
کتاب کی اہمیت و افادیت کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ان مشاہیر ادب میں
شوکت علی ناز ،طار ق حسین بٹ ،ڈاکٹر خواجہ اکرام ،طاہر نقوی ،حسین خان
،محمد ظہیر بدر ،ڈاکٹر محمد کامران ،ڈاکٹر رشید احمد ملک ،پروفیسر عامر علی
خان ،محمد مشتاق قریشی ،سمیع اﷲ ملک ،عزیز بلگامی ،حافظ مولانا ڈاکٹر سلیم
الرحمٰن خان ندوی ،عرفان صدیقی ،محمود شام ،خان ظفر افغانی ،خالد شریف
،پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل ،عبد الرحمٰن صدیقی ،پروفیسر ڈاکٹر سید
مقصود حسنی ،سید خالد شاہ ،طیب خان ،کامران غنی صبا ،سلطان وحید ،رئیس
صدیقی ،سید کمال حسین رضوی ،جاوید اختر بھٹی ،ملک خالد منور اور ٹوکیو کا
ہم خیال گروپ شامل ہیں ۔ اس لحاظ سے مصنف کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے قدر
شناس قارئین اور اہل علم نے خراج تحسین پیش کیا ہے ۔اس معاشرے میں بے کمال
لوگوں نے اہل کمال اور تخلیقی فن کاروں کے ساتھ ضد کا جو رویہ اپنا رکھا ہے
وہ حد درجہ مایوس کن ہے ۔ اس سفر نامے کی غیر معمولی پذیرائی اور اس کے
متعلق ان وقیع عالمانہ تبصروں کی اشاعت کے بعد مصنف کی طر ف سے یہ بات کہی
جا سکتی ہے ۔بہ قول شہر یار:
یہ کم نہیں کہ طرف دارہیں مرے کچھ لوگ
ہنر کی ورنہ یہاں کس نے داد پائی ہے
اس سفر نامے میں’’حرف تشکر ‘‘ کے عنوان سے ناصر ناکا گاوا کی تحریر شامل ہے
جس میں انھوں نے اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کے بعد دنیا بھر کے ممتاز
اہل قلم کی جانب سے کی جانے والی کتاب کی پذیرائی پرا ن کا شکریہ ادا کیا
ہے ۔سیدہ زہرہ عمران کی دو الگ الگ تحریریں بھی شامل اشاعت ہیں جن کے عنوان
ہیں ’’چھوٹے بھائی کی خدمت میں چند گزارشات ‘‘اور ’’خصوصی اظہار تشکر ‘‘۔یہ
دونوں تحریریں اس کتاب کے مسودے کی تیاری ،طباعت اور اشاعت کے مختلف مراحل
اور اس کے مصنف کے اسلوب کے بارے میں اہم معلومات پر مبنی ہیں۔اس کے بعد
کتاب کے مشمولات کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے
:
حصہ اول :پاکستان زندہ باد ،حصہ دوئم :جاپان زندہ باد ،حصہ سوئم :سفر نامچے
اس سفر نامے کا پہلا حصہ ’’پاکستان زندہ باد ‘‘کے عنوان سے شامل اشاعت ہے ۔
مصنف کی تخلیقی فعالیت وطن سے محبت کے جذبات کو اپنے خیالات و افکار کی
اساس بنا کر پرورش لوح و قلم کے دوران خون بن کر رگ سنگ میں اتر نے کی
کیفیت پیدا کر دیتی ہے ۔ مصنف کے اسلوب میں دو عناصر کی موجودگی قاری کو
متوجہ کرتی ہے ۔سب سے پہلے تو تخلیق فن کے لمحوں میں مصنف کے ذہن وذکاوت
اور بصیرت کی قوت اور دوسرے احساس و ادراک کی وہ صلاحیت جس کا تعلق عصری
آگہی کے ساتھ ہے ۔ان دونوں عناصر کے باہمی امتزاج سے تخلیقی فن پارہ اپنی
تاثیر کالوہامنواتا ہے ۔ناصر ناکا گاوا کی تحریروں میں یہ دونوں عناصر وطن
کے ساتھ والہانہ محبت اور قلبی وابستگی سے مل کر ایک نئی شان ک سا تھ جلوہ
گر ہوتے ہیں ۔ بہ قول محسن نقوی :
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے
پاکستان میں عالمی سیاست کے تناظر میں حالات نے جو رخ اختیار کر لیا ہے وہ
حد درجہ پریشان کن ہے۔اس حصے میں پاکستان کے موجودہ حالات پر اپنے خیالات
کا اظہار کرتے ہوئے مصنف نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا ہے ۔اسی حصے میں
شامل سیال کوٹ میں دو کم سن بھائیوں کے ساتھ ہونے والی شرم ناک زیادتی پر
مصنف نے دلی رنج اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’تف ہے ان لوگوں پر جنھوں نے اپنی آ نکھوں سے یہ منظر دیکھا،اس کی فلم
بنائی اور مع پولیس کے دیگر تماش بین بھی یہ منظر دیکھتے رہے ۔ایسا آج کی
دنیا میں کہاں ہوتا ہے ؟یہ پاکستان ہے ؟یہ مسلمان ملک ہے ؟یہ اﷲ اور اس کے
رسولﷺ کو ماننے والے مسلمان لوگ ہیں ؟نہیں نہیں یہ لوگ مسلمان یا انسان
نہیں ہو سکتے ۔‘‘(1)
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہوا ہے کہ معاشرتی زندگی میں شقاوت آمیز نا انصافیوں
میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ، آہیں بے اثر ،زندگیاں پر خطر ،رتیں بے ثمر اور
کلیاں شرر کر دی گئی ہیں۔جہاں کثرت سے سر و صنوبر اگا کرتے تھے اب وہاں
حنظل،پوہلی ،زقوم اور خا ر مغیلاں کی فراوانی ہے ۔ جن آشیانوں میں عقابوں
اور شاہینوں کا بسیرا تھا اب ان میں بوم ،شپر ،کرگس اور زاغ و زغن گھس گئے
ہیں وہ آبادیاں اور بستیاں جن میں جھٹپٹے کے وقت سر راہ چراغ فروزاں ہو
جاتے تھے اب وہاں چراغ غول کے سوا کچھ نہیں۔ مسلسل شکست دل کے باعث وہ بے
حسی ہے کہ کسی کے دکھ درد پر کوئی آنکھ نم نہیں ہوتی ۔جاہل کواس کی جہالت
کا انعام مل رہا ہے وقت کے ایسے حادثات کو کس نام سے تعبیر کیا جائے ۔ بہ
قول الحاج سید غلام بھیک نیرنگ :
ایک آفت ایک شامت ہو تو اس کو روئیے
ہے مصیبت نت نئی ہر روز فتنہ ہے نیا
شامت اعمال تیری آنکھ کھلتی ہی نہیں
جب تلک سر سے گزر جائے نہ سیلاب بلا
مصنف نے پاکستان اور جاپان کی سماجی زندگی کا احوال بیان کرتے ہوئے ایک
دلچسپ تقابلی اور تجزیاتی انداز اپنایا ہے ۔مصنف کی وسعت نظر اسلوب میں ہر
جگہ قاری کو متوجہ کرتی ہے ۔پاکستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ روا رکھے
جانے والے نا روا امتیازی سلوک پر گرفت کرتے ہوئے مصنف نے فریب مشیت کھا کر
،دام و قفس سے مطمئن اور دنیا کے ظلم سہہ کر لب اظہار پر مہر سکوت لگا لینے
والی مظلوم اور بے بس و لاچار پاکستانی خواتین کی زندگی اور جاپانی خواتین
کی زندگی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’جاپانی بیویاں پاکستانی بیویوں کی طرح اﷲ میاں کی گائے نہیں ہوتیں کہ
انھیں پاؤں کی جوتی سمجھ کر تبدیل کر لیا جائے یا جب چاہے منہ سے تین الفاظ
نکال کر اسے زندگی سے خارج کر دیا جائے اور بچے چھین کر اسے گھر سے نکال
دیا جائے ،یہاں کے بچے بھی اتنے فرماں بردار اور بدھو نہیں کہ آپ خود جس
کام کو اچھا سمجھیں اسے بچوں کو کرنے سے روکیں۔‘‘(2)
اس سفر نامے میں دنیا کے مختلف ممالک کی تہذیب وثقافت کا احوال پوری دیانت
،خلوص اور بے تکلفی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔معاشرتی زندگی میں تو بعض
اوقات خلوص کی کمی بھی گوار کرنا پڑتی ہے لیکن اپنے تجربات ،مشاہدات ،جذبات
،احساساے اور تجزیات کوزیب قرطاس کرتے وقت اسلوب کے ساتھ مخلص اور بے تکلف
ہونا از بس ضروری ہے ۔یہ امر خوش آئند ہے کہ اس سفر نامے میں اسلوب بیان کی
جو دل آویزی ہے اس کے سوتے مصنف کے خلوص سے پھوٹتے ہیں۔
’’ جاپان زندہ باد ‘‘اس سفر نامے کا دوسر ا حصہ ہے ۔اس حصے میں مصنف نے
جاپان کی سماجی زندگی کا احوال تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔جزئیات نگاری کا
کمال یہ ہے کہ کوہ سے لے کر کاہ تک جاپانی زندگی کا کوئی بھی پہلو قاری کی
نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔جاپان کی تاریخ ،جغرافیہ ،محل وقوع ،آبادی ،تہذیب
و ثقافت ،رسوم و رواج ،نظام حکومت ،صنعت ،تجارت ،مواصلات ،تعلیم رہن سہن
اور زندگی اور موت تک کے تمام مراحل اس سفر نامے میں شامل ہیں ۔اس سفر نامے
میں جاپان کی معاشرتی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے
۔جاپان کی تہذیب و معاشرت کا بہ نظر غائر جائزہ لینے کے بعد مصنف نے اپنے
خیات و تاثرات کی جس انداز میں لفظی مرقع نگاری کی ہے وہ قاری کو مسحور کر
دیتی ہے ۔قاری کے فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت پر اس کے ہمہ گیر اثرات مرتب
ہوتے ہیں ۔مصنف کے اسلوب میں پائی جانے والی قوی مشاہداتی کیفیت ،تجرباتی
تجسس اور وجدانی نوعیت کا پیرایہ ء اظہار قاری کے ساتھ براہ راست ایک معتبر
ربط قائم کر لیتا ہے ۔اس کے اعجاز سے قاری کے شعور میں دنیا کی وسعتوں اور
حیرتوں کا ایک نقش ابھرتا ہے ،جو اسے افکار تازہ کی جستجو پر آمادہ کرتا ہے
تا کہ وہ بھی جہان تازہ تک رسائی کی استعدا د پیدا کر سکے ۔مصنف نے اس سفر
نامے میں مواد اور ہئیت کے دل کش اور حسین امتزاج سے وہ سماں باندھا ہے کہ
سفر نامے کے مطالعہ سے قاری پر کئی حقائق کے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔
دیس بنا پردیس کا حصہ سوئم ’’سفر نامچے ‘‘ پر مشتمل ہے ۔’’سفر نامچے ‘‘کے
عنوان سے اس سفر نامے میں مصنف نے مختصر مگر جامع انداز میں دنیاکے مختلف
ممالک کی سیاحت کا احوال بیان کیا ہے ۔یہ سفر نامچے نو (9)دلچسپ مضامین پر
مشتمل ہیں ،جن میں سے ہر مضمون ایک عالم نو اور جہاں دیگر کا نقیب ہے اور
قاری کو دھنک رنگ منظر نامہ دیکھنے کی دعوت دیتا ہے ۔انسانی نفسیات پر گہری
نظر رکھنے والے تخلیق کار کی حیثیت سے ناصر ناکاگاوا نے اس سفر نامے میں
کئی نفسیاتی مسائل کی جانب توجہ دلائی ہے ۔آج کے دور میں خو د نمائی ،خود
ستائی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے والے مسخرے ہر طرف منڈلاتے پھرتے ہیں
،مصنف نے اس قماش کے خود بیں و خود آرا لوگوں کو خوب آئینہ دکھایا ہے :
’’ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنے آ پ کو دنیاکا نہیں تو کم از کم
اپنے ارد گرد کے لوگوں میں خود کو حسین سمجھتا ہے یا سمجھتی ہے ۔‘‘ (3)
بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہے کہ قحط الر جال کے موجودہ دور نے ہمیں یہ
دن دکھائے ہیں جسے دیکھو اپنی نمود و نمائش کے لیے بے تاب ہے ۔چربہ ساز
،سارق ،کفن دزد ،فاتر العقل ،مخبوط الحواس اور جنسی جنونی بھی رواقیت کے
داعی بن بیٹھے ہیں ۔وہ خفاش ،سفہااور ننگ انسانیت ساتا روہن جنھیں اپنی بد
اعمالیوں کے باعث سر اور منہ چھپا کر پھرنا چاہیے تھا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ
ہنہناتے پھرتے ہیں۔اس کتاب میں مصنف نے اس قسم کی بو العجبیوں کو منظر عام
پر لا کر اصلاح احوال کی کوشش کی ہے ۔اصلاحی اور دلچسپی سے لبریز مواد اور
سفر نامے کی ہئیت کے یہ منفرد تجربے اس صنف ادب کی درخشاں اقدار کو استحکام
بخشنے کا اہم وسیلہ ثابت ہو ں گے ۔اس سفر نامے میں مصنف نے اپنی یادوں کے
شجر سایہ دار کی خنک چھاؤں میں بیٹھ کر تازہ خیا لات کے جو گل ہائے رنگ رنگ
کھلائے ہیں ان کی دل آویزاور مسحور کن عطر بیزی سے قریہء جاں معطر ہو
جاتاہے ۔ زندگی کی جمالیاتی اقدار کا پر کشش احوال ،اسلوب کی تازگی ،ندرت
اور شگفتگی اس سفر نامے کو قابل مطالعہ اور پسندید ہ نو عیت عطا کرتی ہے
۔بیرون ملک سفر کی یہ پر کیف یادیں جہاں مصنف کے لیے زندگی کی کٹھن راہوں
کے سفر میں خضر راہ ثابت ہوتی ہیں وہاں قاری کے لیے بھی یہ ایک ایسی قندیل
کے مانند ہیں جو حبس ،مایوسی ۔اضمحلال ،نا امیدی اورہجوم غم میں دل کو
سنبھالنے اور نئے عزم کے ساتھ سر گرم سفر رہنے کی راہ دکھاتی ہے ۔مصنف نے
اس سفر نامے میں دنیاکی مختلف اقوام کی جبلتوں کے بارے میں اس مہارت سے مر
قع نگاری کی ہے کہ اس کے وسیلے سے پاکستان میں اردو ادب کے قارئین کی
جبلتوں کو عصری تقاضوں کے مطابق منظم و مربوط انداز میں نئی آب و تاب کے
ساتھ جلوہ گر ہونے کے مواقع نصیب ہو سکتے ہیں ۔مصنف نے پوری کوشش کی ہے کہ
اس سفر نامے کے مطا لعہ سے قاری کو دلی مسرت ہو اور دور افق کے اس پار طلوع
ہوتے ہوئے خورشید کی ضیا پاشیوں کا نظارہ کر سکے ۔روشنی کو مصنف نے ہمیشہ
روشنیء چشم کے ایک حسین عکس سے تعبیر کیا ہے ۔یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ بند
آ نکھوں پر نمود سحر کے امکان کے بارے میں سوچناخود فریبی کے سوا کچھ بھی
نہیں ۔زندگی کی تمام حرکت و حرارت کا دارو مدار دنیا اور اس کی رنگینیوں کو
کھلی آنکھوں سے دیکھنے پر ہے ۔حریت فکر کا علم بلند رکھنا اور حریت ضمیر سے
زندگی بسر کرنا ایک جر ی تخلیق کار کا نصب العین ہوتا ہے ۔اس سفر نامے میں
مصنف نے ان اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کی ہے ۔مصنف کی مستحکم
شخصیت کسی بھی جبلت سے کوئی خوف محسوس نہیں کرتی ۔افراد کی جبلتوں میں تغیر
و تبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن انھیں دبانے کی سعیء ناکام کرنا کسی طور
بھی موزوں نہیں ہوتا ۔اس کتاب میں مصنف نے اس قسم کے رجحان سے اپنا دامن
بچائے رکھا ہے ۔اس دنیا میں تیزی سے بدلتے ہوئے حالات نے افراد کی جبلتوں
کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے ۔ساری دنیا بدلتی جاتی ہے مگر غم زدوں کا حال
تو جوں کا توں ہے ،سوچ ،جبلتوں اور احساس و ادراک پر اس کے ہمہ گیر اثرات
مسلمہ ہیں ۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے مصنف نے اس تمام صورت حال کو
دیکھتے ہوئے خوب سوچ سمجھ کر اس کے بارے میں ایک قابل عمل انداز فکر اپنایا
اور د ل کی گہرائیوں سے اسے حرز جاں بنایا ۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغ زندگی
پانے کا یہ اسلوب اس سفر نامے کو منفرد روپ عطا کرتا ہے ۔مجھے یقین ہے کہ
یہ سفر نامہ یکسانیت اورجمود کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں اہم کردار
ادا کرے گا ۔اس کے مطالعہ سے اوہام ،مافوق الفطرت عناصر اور بے عملی کے تا
ر عنکبوت ہٹانے میں مدد ملے گی ۔انسانی ،اخلاقی ،تہذیبی اور ثقافتی اقدار
کی ترویج و اشاعت میں اس سے مدد ملے گی۔
مآخذ
(1)ناصر ناکاگاوا :دیس بنا پردیس ، ماورا پبلشرز ،لاہور ،اشاعت دوم
2013صفحہ 114۔
(2) ایضاً صفحہ 110۔
(3) ایضاً صفحہ 291۔ |