شاہین کوثر
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار
دیا تھا یہی شہ رگ پاکستان کشمیریوں کی قاتل بھارتی فوج کے قبضے میں ہے۔
بھارت بدترین منافقت کا ثبوت دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں استصواب رائے کے
وعدے کے باوجود کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے سے باز نہیں آتا۔ حالانکہ انگ
کٹ بھی جائے تو مکمل سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا مگر شہ رگ کٹ جائے تو
سلامتی باقی نہیں رہتی۔ بھارتی آبی جنگ نے شہ رگ پاکستان کی اہمیت و افادیت
مزید اجاگر کردی ہے کیونکہ پاکستان میں بہنے والے دریاؤں کا کیچ منٹ ایریا
یامنبع مقبوضہ کشمیر میں ہے۔
اقوام متحدہ نے 2013ء کو عالمی سال برائے آبی تعاون قرار دیا ہے مگر آبی
تعاون کے عالمی سال کے دوران بھی بھارتی آبی جارحیت میں کمی کی بجائے اضافہ
دیکھنے میں آ رہا ہے۔ بھارت دریائے چناب اور جہلم کا 80 فیصد اور دریائے
سندھ کا 65 فیصد پانی غیرقانونی طور پر تعمیر کئے گئے بڑے بڑے ڈیموں اور
رابطہ نہروں کے ذریعے لداخ، بنگلور اور راجستھان تک بنجر زمینیں آباد کرنے
کیلئے اپنے استعمال میں لارہا ہے اور 2014 تک ان دریاں کا کم و بیش 85فیصد
پانی بھارت شمال سے جنوبی کی طرف موڑنے کے تمام منصوبے مکمل کرے گا یہی
بھارت اور یہودی لابی کا اصل ٹارگٹ ہے۔ دریائے سندھ پر نیموبازگو اور چوٹک
بیراج کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ بھارتی آبی جارحیت کے منصوبوں اور سندھ طاس منصوبے کی
کھلی خلاف ورزیوں کیخلاف عالمی ثالثی عدالت میں جانے میں تاخیر کی ہے۔ اب
کی بار بھی بھارتی نئی آبی جارحیت کا معاملہ آخر کب عالمی ثالثی عدالت میں
لے جائیں گی جبکہ اسی دریا پر کارگل سمیت مزید 5 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے۔
یہ اس قدر بڑے ڈیم ہیں کہ ان کی تکمیل کے بعد بھارت دریائے سندھ کا سارا
پانی اپنی حدود میں روک سکتا ہے اور ان سب کے گیٹ بند کر دینے سے پاکستان
کی طرف ایک گھونٹ پانی بھی نہیں آئے گا۔ پہلے ہی بھارت دریائے سندھ پر 14
چھوٹے ڈیم مکمل کر چکا ہے اسی طرح کارگل سے 20 کلومیٹر اوپر دریائے سندھ کا
رخ موڑ کر 16 دریاں کیساتھ لنک کیا جا رہا ہے، اس عظیم منصوبے پر ایک ہزار
ارب ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں، ہمالیائی اور انڈس دریاؤں کو باہم جوڑنے
کیلئے 17500 کلومیٹر رابطہ نہریں نکالنے کا منصوبہ بھی اس میں شامل ہے
حالانکہ سندھ طاس معاہدہ کے آرٹیکل (3) (4) اور (7) کی رو سے بھارت مغربی
دریاں چناب، جہلم اور سندھ پر کسی قسم کا کوئی سٹوریج ڈیم ہرگز تعمیر نہیں
کر سکتا اور نہ ہی دریاں کا رخ موڑ سکتا ہے۔
امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مارچ 2013ء کے شروع میں امریکی کانگریس
کو بریفنگ دی جس میں کہا گیا ہے کہ پانی کی قلت، آلودگی میں اضافہ، سیلاب
اور آب و ہوا میں تبدیلی سے دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان عدم استحکام بڑھ
سکتا ہے۔ عالمی سال برائے آبی تعاون کے موقع پر اقوام متحدہ کا بھی کہنا ہے
کہ پانی کی قلت سے پاکستان بھارت کے درمیان تعاون اور تصادم دونوں کے
امکانات ہوتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان دونوں کے پاس نیو کلیئر ہتھیار موجود
ہیں اور ان کے درمیان جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ دونوں ملکوں کی سرحد پر
لہلہاتے کھیتوں کے درمیان خار دار تاروں کی باڑ کھینچی ہوئی ہے لیکن ان
زمینوں کو سیراب کرنے والا پانی سرحدوں کی قید سے آزاد ہے۔ دریائے سندھ کا
طاس دونوں ملکوں میں پھیلا ہوا ہے۔ دونوں ملک آبپاشی ، پینے کے پانی اور پن
بجلی کے لئے اسی پانی پر انحصار کرتے ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان پانی
کے تنازعات تشدد سے نہیں بلکہ 1960ء کے سمجھوتے کے ذریعے پرامن طریقے سے حل
ہوئے۔ واشنگٹن کے ریسرچ گروپ سٹیمسن سینٹر میں ماحول کی سکیورٹی کے ماہر
ڈیوڈ مائیکل کہتے ہیں کہ ’’سندھ طاس معاہدہ اس لئے تیار کیا گیا اور اس پر
دستخط کیے گئے کہ فریقین کو احساس تھا کہ اس دریا کے پانی کی تقسیم پر اگر
کوئی سمجھوتہ نہ ہوا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں‘‘ لیکن آنے
والے برسوں میں اس دریا کے وسائل کی تقسیم کا معاملہ اور زیادہ مشکل ہوسکتا
ہے۔ دونوں ملک تیزی سے ترقی کررہے ہیں اور غذا، پانی اور توانائی کی مانگ
میں اضافہ ہو رہا ہے اور دریا کے طاس میں مزید پانی دستیاب نہیں ہے۔ |