وزیر اعظم بننے کے مودی کے ارادوں کو ناکام بنانے میں
مسلمان جو اہم ترین رول ادا کرسکتے ہیں اس بات کا علم مسلمانوں سے زیادہ بی
جے پی کو ہے اسی لئے بی جے پی مسلمانوں کو اپنی طرف رجھانے کے لئے اپنے
ترکش کے سارے تیر آزمارہی ہے۔ یوں تو امت مسلمہ مودی کو کسی بھی قیمت پر
وزیر اعظم دیکھنا پسند نہیں کرتی ہے لیکن بی جے پی یہ تاثر پیدا کرنا چاہتی
ہے کہ اب ملک کے مسلمان (اﷲ نہ کرے) اس کے ساتھ ہیں۔ اس دعوے کو موثر بنانے
کے لئے بی جے پی نت نئے تماشے کررہی ہے۔ پتہ نہیں کس کس کو ٹوپی اور داڑھی
کے ساتھ مودی کی تعریف کرتے ہوئے دکھایا جارہا ہے۔ بی جے پی کی ’’اقلیتی
مورچہ‘‘ میں اچانک زبردست توسیع ہوگئی ہے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ چند
ممتاز علماء بھی مودی کی راست یا بالراست حمایت کررہے ہیں ۔ بی جے پی کا یہ
حربہ انتہائی خطرناک ہے ۔ دوسرے یہ کہ ذرائع ابلاغ کھل کر مودی کی نہ صرف
حمایت کررہے ہیں بلکہ مسلمانوں کی نام نہاد تائید کو مبالغہ آرائی کے ساتھ
پیش کررہے ہیں اور رائی کا پہاڑ بنارہے ہیں۔
قارئین کرام کو ہم یاد دلادیں کہ 2004ء کے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر
واجپائی حمایت کمیٹی بنی تھی جس میں کچھ تاجر کچھ شعرأ اور غیر معروف مذہبی
شخصیات تھیں جن میں درگاہ اجمیر کے دیوان زین العابدین علی خان، بشیر بدر،
منظر بھوپالی اور ساغر اعظمی مرحوم کے نام ہم کو یاد ہیں یہ تمام حضرات
زبردست تنقیدوں کا نشانہ بنے تھے۔ بہت اچھے اور ہمار ے بھی پسندیدہ شاعر
بشیر بدر کی واجپائی حمایت ان کے مداحوں کو ناگوار گزری اس کے بعد (وجہ
خواہ کچھ ہو) بشیر بدر شاعروں سے تقریباً غائب ہیں۔ اسی طرح دیوان صاحب کی
بی جے پی اور واجپائی نوازی پر بھی خاصہ اعتراض ہوا۔ منظر بھوپالی قائب
ہوکر مشاعروں میں آنے لگے۔ مختصر یہ کہ واجپائی (جن کو’’ خراب پارٹی میں
اچھا آدمی ‘‘کہا جاتا تھا) کی حمایت کرنے والوں کو کسی نے اچھی نظر سے نہیں
دیکھا تو بھلا مودی کو تو اچھا کہنا دور کی بات ہے۔ ان کو معاف کردینے کی
بات بھی قابل قبول نہیں ہے۔ مودی کو معاف کرنے کی بات پر صرف اس وقت غور
کیا جاسکتا ہے جب وہ 2002ء کے متاثرین کے زخموں پر مرہم لگانے کے لئے تمام
ضروری اقدامات کریں مثلاً ان کی بازآبادکاری کاکام جنگی پیمانے پر کیا جائے
جو لوگ ان کے گھروں ، دیہاتوں ، کھیتوں، دکانوں وغیرہ کو واپس ہونے سے
ناقابل قبول شرائط کو قبول نہیں کرنے کی وجہ سے روک دئیے گئے ہیں۔ ان کی
فوراً بلاروک ٹوک، بے خوف و خطر ان کی چھوڑی ہوئی جگہوں پر مکمل حفاظت
وسلامتی کے تیقن کے ساتھ واپسی کا انتظام کیا جائے۔ جانی و مالی نقصانات کی
مکمل تلافی کی جائے اس کام کیلئے گجرات کی حکومت، سنگھ پریوار اور مودی کی
تائید کرنے والے سرمایہ داروں کے پاس پیسہ بہت ہے۔ اپنے تمام جرائم ،
گودھرا اسٹیشن پر سابھرمتی اکسپریس کی بوگی نمبر6 کی آتشزدگی کی سازش کا
اعتراف کیا جائے۔ جعلی پولیس مقابلوں میں ہلاک کئے جانے والوں کے وارثوں کو
معاوضہ کے ساتھ ان پر عائد کردہ تمام الزامات کی تردید کی جائے۔ سنگھ
پریوار اور حکومت کے تمام خاطی کارکنوں و عہدیداروں کو سخت سزا ئیں دی
جائیں۔ بے گناہوں کو رہا کرکے سالوں قید رکھنے کا بھر پور معاوضہ ادا کیا
جائے۔ عدالت عظمیٰ کی تمام ہدایات پر من و عن عمل کیا جائے۔
مندرجہ بالا اور دیگر اقدامات کی تکمیل کے بعد مودی اور بی جے پی باضابطہ
معذرت خواہی، اعتراف جرائم اور اظہار ندامت کا اعلان الکٹرانک اور پرنٹ
میڈیا ( ٹی وی چینلز اور اخبار) پر کیا جائے تو مودی اور بی جے پی کو معاف
کیا جاسکتا ہے اور ووٹ دینے کے لئے غور کیا جاسکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ووٹ دینے
کا ان کو یقین دلایا جائے۔ اس کے بعد ہمارے مولوی، مولانا، امام، دیوان،
سجادے، ذاکر علماء، دانشور ، ادیب و شاعر اور صحافی مودی کی حمایت کریں تو
ان کو اس کی اجازت ہوگی۔
یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ مودی، بی جے پی اور سنگھ پریوار بے غیرتی اور بے
شرمی اور ڈھٹائی سے اپنے موقف پر قائم رہ کر اپنے زرخریدوں سے اپنے حق میں
اپیل کروائیں۔
ملت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ ہر ایک کو واضح اور واشگاف الفاظ میں بتادیا
جائے کہ مودی کو یونہی معاف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی شخصیات کو مودی کے
حق میں اپیلیں کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ تمام مسلمان متحد ہوکر مودی کو
معافی دینے کی شرائط تیار کریں اور اگر مودی کو اپنی ناقابل قبول حیثیت کو
بدلوانا ہے تو ان کو بہت کچھ کرنا ہوگا اور اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو ان کی
حمایت کرنے والوں کا سماجی مقاطعہ کرنا چاہئے۔ تمام مسلمانوں کو بھی
میرجعفر، میر صادق کی قبیل کے لوگوں سے یہی سلوک کرنا ہوگا خواں ان کا تعلق
کسی فرقہ سے کیوں نہ ہو! یہ بات بھی طئے ہے کہ مودی اپنے جرائم کا نہ ہی
اعتراف کریں گے اور نہ ہی کسی صورت سے اظہار ندامت یا معذرت خواہی پر تیار
ہوں گے۔ اسی حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی مودی کی کا سہ لیسی کرنے والے
بعض علماء ، تاجر اور خود ساختہ دانشور’’جو ہوا سو ہوا‘‘ اور ’’بھول جاؤ‘‘
جیسی باتیں کررہے ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ایک بڑے عالم جن کو دارالعلوم
دیو بند میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا تھا مودی کے ترقیاتی کاموں کی
مدح سرائی کرتے ہوئے گجرات 2002ء کے المناک واقعات کو بھلا دینے کی اپیل کی
تھی یہ تھے مولانا غلام محمد وسطانوی جو دارالعلوم کا اعلیٰ عہدہ کھوکر
اپنے موقف سے دستبردار ہوگئے اور اپنا کھویا ہوا مقام وم مرتبہ اور احترام
بحال کرلیا۔ ایک عام خیال تھا کہ مولانا وسطانوی کے واقعہ کے بعد مذہبی
شخصیات میں مودی کی تائید کی مہم پسندی کا جو کھم کوئی مول نہ لے گا اور
خاصہ عرصہ تک مودی کی کسی نے حمایت نہیں کی لیکن جوں ہی مودی وزیر اعظم کے
عہدے کے لئے سامنے آئے انہون نے عام لوگوں، حج کے لئے روانہ ہونے والے
عازمین، داڑھی ٹوپی والے چند جملے کہنے کیلئے خرید لئے اور اس سے زیادہ
تعداد میں مسلمان نظر آنے والے مرد و خواتین بی جے نے اپنے جلسوں میں
دکھائے۔ دوسری طرف علماء کے بیانات کو نمک و مرچ لگاکر ٹی وی پر بتایا گیا
یا اخبارات میں چھاپے گئے۔
مولانا محمد مدنی نے کہا کچھ اور بتایا گیا کچھ ۔ مولانا مدنی نے کہا تھا
کہ کانگریس مودی اور بی جے پی سے ڈراکر ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مولانا
مدنی کا کہنا ہے کہ انہوں نے مودی کی کبھی تعریف نہیں کی۔ انہوں نے صرف
کانگریس پر تنقید کی تھی۔ کانگریس کے حامیوں نے اس مسئلہ پر پیالی میں
طوفان اٹھادیا۔ مولانا مدنی اپنے ایک دوسرے بیان میں کہا ہے کہ کانگریس کے
زیر اقتدار راجستھان اور یو پی میں سماج وادی پارٹی کے دور اقتدار میں
گجرات سے زیادہ فسادات ہوئے ہیں۔ مولانا اگر اپنی بات وضاحت سے کرتے اور
کانگریس پر جی بھر کے تنقید کرتے تاہم اپنی بات اس طرح نہ کہتے تو اچھا تھا
جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ مودی کی بالراست تعریف کررہے ہیں۔ دوسری طرف
سنگھ پریوار کے زیر اثر میڈیا نے بات کا بتنگڑ بنادیا۔
مودی کی زیادہ تعریف تو مولانا کلب صادق نے بھی بے شک نہیں کی جو کچھ ان کو
کہتے ہوئے مختلف ٹی وی چینلز پر ہم نے اور دوسروں نے سنا۔ اس کو سن کر یہ
یقین کیا جاسکتا ہے کہ مولانا مودی کو معاف کرچکے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ
’’جو ہوا سو ہوا‘‘ کا آخر کیا ملطب ہے؟ مولانا کلب صادق جانتے ہیں کہ معذرت
خواہی یااظہار ندامت اپنے جرائم کا اعتراف مودی کسی قیمت پر نہیں کریں گے
پھر آخر اس ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ مولانا نے فرمایا کہ اگر
مودی بدلتے ہیں تو میں ان کووٹ دوں گا نیز مودی سیاسی اچھوت نہیں ہے۔
مولانا کلب صادق کو اس بات کی وضاحت تفصیل سے کرنی چاہئے تھی ’’بدلنے‘‘ سے
کیا مراد ہے۔ جس مودی نے عدالت عظمیٰ کے احکام پر من و عن عمل نہ کرکے
مسلمانوں کو راحت پہنچانے کا انتظام نہیں کیا جس نے ساری دنیا کے دباؤ کے
باوجود مسلنانوں کے قتل عام اور اس کی انتظامیہ کی جانب سے کئے گئے مظالم
پر اظہار افسوس تک نہ کیا ۔ معذرت تو دور کی بات ہے۔ بھلا وہ مودی کیا بدلے
گا۔ ہم مانتے ہیں کہ مولانا نہ ضمیر فروش ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی
کوئی قیمت لگائی جاسکتی ہے۔ لیکن مولانا نے جو کچھ کہا اس کا فائدہ بی جے
پی اور مودی کو ہوگا۔ اگر مولانا کے ہم مسلک رائے دہندوں نے بھی مولانا کے
’’جو ہوا سو ہوا‘‘ کو مان کر مودی کو ووٹ دیا تو ان کے ہم مسلک فرقہ کی
مذمت تو ہوگی لیکن مولانا کلب صادق کا بھی وہی حشر ہوگا جو کہ بشیر بدر کا
ہوا تھا۔ بشیر بدر بڑے شاعر ہیں تو مولانا کلب صادق بڑے عالم اور ذاکر ہیں۔
بشیر بدر کی عمدہ شاعری ان کا قیمتی ہنرناپسندیدہ ہوگیا تو یہی مولانا کلب
صادق کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر مولانا کلب صادق مودی ہی کو ووٹ دینا
چاہیں تو دیدیں کوئی کیوں اعتراض کرے گا؟ لیکن اپنی مذہبی حیثیت کا فائدہ
اٹھاتے ہوئے اگر وہ اس قسم کے بیان دیں کہ ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ یا مودی اگر
خود کو بدل دیں تو ان کو ووٹ دیا جاسکتا ہے تو یہ اپنی مذہبی حیثیت کا
ناجائز فائدہ اٹھاکر مسلمانوں کو گمراہ کرنے بلکہ ان کے مفادات کو نقصان
پہنچانے کے متراف ہے۔
مولانا کلب صادق ہی نہیں بلکہ عوامی اداروں سے وابستہ اور عوامی خدمات
انجام دینے والے تمام اکابرین کو محتاط رہنا چاہئے۔ خاص طور پر متنازعہ
مسائل پر جب وہ اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کے مقام، مرتبہ اور
عہدے کی وجہ سے ان کی ذاتی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے بلکہ ان کی تقلید بڑے
پیمانے پر کی جاتی ہے مثلاً مولانا کلب صادق کو نہ صرف ان کے ہم مسلک افراد
میں بلکہ دیگر مسالک کے مسلمانوں میں بھی عزت و احترام کی نظر سے دیکھا
جاسکتا ہے ان کی رائے کو اہمیت دی جاتی ہے۔
بی جے پی کی یہ بھی کوشش ہے کہ بڑے سیاسی ، مذہبی رہنماؤں کے ساتھ چھوٹی
جماعتوں اور تنظیموں کے عہدیداروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں خرید لیا
جائے تاکہ پروپگنڈے کے لئے ان ذرخریدوں کو استعمال کیا جائے اور وہ ایسا کر
بھی رہی ہے۔ کسی علاقے، مسلک یا شعبہ زندگی کے مسلمانوں کو ان زرخریدوں کی
باتوں میں نہ آنا چاہئے۔ آج کل ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اس قسم کے
غداران ملت بہت نظر آرہے ہیں۔ ان سے دور رہنا چاہئے اور ان کی باتوں کو
کوئی اہمیت نہیں دینی چاہئے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مودی کی حمایت بڑھ رہی
ہے۔
مودی کی مخالفت تمام سیکولر افراد اور مسلمانوں کو اس وجہ سے نہیں کرنی ہے
کہ وہ آر ایس ایس کا چہیتا ہے یا سنگھ پریوار کی آنکھ کا تارا ہے بلکہ مودی
ایک ظالم، جابر، بے حس، عیار، فریبی اور بہت بڑا جھوٹا ہونے کے علاوہ ملک
کی دوسری بڑی اکثریت کا دشمن نمبر ایک ہے۔ مودی نے کہا تھا کہ وہ گجرات کا
قرض ادا کرچکا ہے اور اب دیش بھر کا فرض ادا کرنا ہے۔ یہاں (’’قرض‘‘ سے
مراد مسلمانوں کی تباہی ہے) کیا ملک کی دوسری بڑی اکثریت کی تباہی کے بعد
ملک ترقی کرسکے گا یعنی مودی مسلم دشمن ہی نہیں بلکہ ملک دشمن ہے۔ اس لئے
مودی کو ناکام بنانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور متحد ہوکر مسلمان مودی کو
شکست دے سکتے ہیں۔ چند اکابرین اور معمولی حیثیت کے افراد کی مودی کے لئے
سفارش مسلمانوں کے متحد ہ اور متفقہ موقف کو متاثر کرکے مودی کو کامیاب
انشاء اﷲ نہیں کرواسکتی ہے (آمین)۔ |