ایمان ،شجاعت اور وفا کی بلندیوں پر جب نگاہ کرتے ہیں تو
وہاں ایک شخص نظر آتا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی جو فضل و کمال میں ،
قوت اور جلالت میں اپنی مثال آپ ہے۔جو اخلاص ،استحکام ،ثابت قدمی اور
استقلال میں نمونہ ہے اور ہر اچھی صفت جو انسان کی بزرگی کو عروج عطا کرتی
ہے اس شخص میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ ایک لشکر کا علمبر دار نہیں بلکہ مکتب
شہادت کا سپہ سالار ہے جس نے تمام دنیا کی نسل جوان کو درس اطاعت،وفاداری ،جانثاری
اور فداکاری دیا ہے۔ اور وہ حیدر کرار کا لخت جگر عباس ہے۔
اگرچہ اس کی فداکاری ، جانثاری اور وفاداری کو چودہ سو سال گذر چکے ہیں
لیکن تاریخ عباس بن علی (ع) کے خلعت کمالات کو میلا نہیں کر پائی۔ آج عباس
کا نام عباس نہیں وفا ہے، ایثار ہے اطاعت ہے تسلیم ہے۔
عاشوار وہ باعظمت دن ہے جس میں انسانیت کے گرویدہ انسانوں نے اپنے قوی اور
مستحکم ارادوں کو دنیا والوں کے سامنے پیش کیا۔ تاریخ، کربلا والوں کی
فداکاری پر ناز کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ زمانے والے ان کے کردار سےانقلابات
برپا کرتے ہیں۔ کربلا ایسی دانشگاہ ہے جس کے فارغ التحصیلان ایمان، اخلاص،
مجاہدت، فداکاری اور وفاداری جیسے مضامین میں عملی طور پر ڈاکٹریٹ کر کے
گئے ہیں اور عباس اس دانشگاہ کے جانے پہچانے استاد ہیں۔
آج بھی یہ یونیورسٹی کھلی ہوئی ہے اور طلاب قبول کر رہی ہے جس کا ایک سبجکٹ
وفا اور علمبرداری ہے جس کے استاد حضرت عباس ہیں۔ کہ جو اپنے بریدہ ہاتھوں
سے انسان کو وفا سے عشق و محبت کا درس دیتے ہیں۔
ہم ایمان اور یقین کے چشمہ زلال تک پہنچنے کے لیے راہنمائی کے محتاج ہیں۔
ہماری روح تشنہ ہدایت ہے ہمارے دل مشتاق کمال ہیں۔ اولیاء الٰہی منتظر ہیں
کہ ہم ان کی طرف رجوع کریں اور اس چشمہ ہدایت کے آب زلال سے اپنی روح کو
سیراب کریں۔
حضرت عباس بھی ان اولیاء الٰہی میں سے ایک ہیں جو ہر سالک الی اللہ کے لیے
مشعل فروزاں ہیں اور ہر تشنہ ہدایت کے لیے ہادی برحق ہیں وہ نہ صرف شجاعت
اور جنگ کے میدان میں نمونہ اور سرمشق ہیں۔ بلکہ ایمان اور اطاعت حق کی
منزل میں، عبادت اور شب زندہ داری کے میدان میں اور علم اور معرفت کے مقام
پر بھی انسان کامل ہیں۔
|