محرم کے معنی عظمت و حرمت کے ہیں۔چونکہ یہ مہینہ سال کے
دیگرعام مہینوں سے زیادہ اہمیت و فضیلت رکھتا ہے اسی لیے اسے ’محرم‘ کہا
گیا۔اللہ کے کلام کا مفہوم ہے:’تخلیق عالم کے وقت سے ہی بارہ مہینے بنائے
گئے جن میں سے چار مہینے حرمت کے ہیں۔‘اس مہینے کی عظمت و حرمت کا رواج
اسلام سے قبل بھی تھا اور بعد اسلام بھی لوگ اس پر عمل پیرا رہے ، اسی لیے
اس مہینے میں قتل و قتال نہیں ہوتا تھا، ہر طرف امن و امان رہتا تھالیکن
بعد میں دشمنان اسلام کی شرارتوں کے پیش نظر اس مہینے میں جنگ کی ممانعت
ختم ہوگئی مگر اس کی عظمت و فضیلت اب بھی اسی طرح ہے۔اس کی اہمیت کی ایک
وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی کیلنڈر کا آغاز اسی مہینے سے ہوتاہے۔
محرم کے مہینے میں یوم عاشوراء(یعنی محرم کا دسواں دن)بھی اہمیت اور اللہ
کی رحمت کا حامل ہے۔رمضان کے روزے فرض ہونے سے قبل عاشوراءکاروزہ مسلمانوں
پر فرض تھا لیکن رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد اس کی فرضیت منسوخ
ہوگئی،البتہ اس دن روزہ رکھنا آج بھی مسنون ہے اور اس کی بڑی فضیلتیں بیان
کی گئی ہیں۔
بعض روایتوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جب حضرت آدمؑ دنیا میں آئے تووہ
عاشوراءکا دن تھا۔حضرت حوا کی پیدائش بھی عاشوراءکے دن ہی ہوئی تھی۔جب حضرت
نوح ؑ کی کشتی طوفان سے خشکی پر لگی تو وہ بھی عاشوراءکا دن تھا،حضرت یونس
کو مچھلی کے پیٹ سے اسی روز خلاصی ملی،حضرت صالح کی اونٹنی کو قتل کرنے
والے اسی روز اپنے انجام کو پہنچے تھے،حضرت سلیمان کو اسی روز سلطانی عطا
ہوئی تھی،حضرت ایوب کو اسی روز اپنے زخموں سے شفایابی نصیب ہوئی تھی،حضرت
ابراہیمؑ کوجب آگ میں ڈالا گیا اوراللہ نے اس نار کو گلزار بنایا تو وہ بھی
عاشورا کاہی دن تھااور قیامت بھی اسی روز قائم ہوگی۔ایک روایت کے مطابق
دنیا میں پہلی بار بارش عاشوراءکے دن ہی ہوئی تھی۔یہ سب روایتیں بہت ثقہ نہ
سہی پھر بھی اس مہینے اور اس دن کی فضیلت اپنی جگہ مسلم ہے۔حضور کا فرما ن
ہے کہ اس دن روزہ رکھنا گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، لیکن
پیغمبر اسلام نے غیرکی مشابہت سے اجتناب کرنے کے مقصد سے یوم عاشوراءسے ایک
روز قبل یا ایک روز بعد بھی روز رکھنے کا حکم دیایعنی مسلمانوں کو چاہیے کہ
وہ صرف ایک روز ہ نہ رکھیں بلکہ نویں اوردسویں یا پھر دسویں اور گیارہوں
محرم کو بھی روز رکھیں۔عاشوراءکے روز ہی اللہ نے فرعون کو نیل برد کرکے
حضرت موسیؑ اور ان کی قوم(بنی اسرائیل)کو آزاد کیا تھا، اسی لیے یہودی
حضرات اس دن شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب ’سفرنامہ روم و مصر و شام‘ میں ایام عاشورہ
میں قسطنطنیہ کے سفر کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں ’مجلسوں میں یہاں سوز
کا دستور نہیں، صرف حدیث خوانی ہوتی ہے اور درحقیقت مجلس عزا کا دستور بھی
یہی ہے۔ عام طریقہ یہاں کا یہ ہے کہ اول منبر کے قریب ایک شخص کھڑے ہوکر
زبانی جناب امیر اور حضرت امام حسین کے فضائل و مناقب کے متعلق اشعار
پڑھتاہے، پھر ایک مستند عالم منبر پر بیٹھ کر حالات کربلا کو وعظ کے طور پر
نہایت خوبی و صفائی سے بیان کرتا ہے۔‘اس دن اپنے اہل و عیال، اعزاءو اقربا
اور غربا و مساکین کا خاص خیال رکھنا اہمیت و فضیلت کا حامل ہے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ عاشوراءکا دن صرف اس لیے اہمیت
کا حامل نہیں کہ اس دن واقعہ کربلا رونما ہوا بلکہ اس دن سے کئی انبیا کی
تاریخیں اور واقعات وابستہ ہیںجیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا۔البتہ اتنی بات
ضرور ہے کہ قدرت نے ان اہم واقعات کی لڑی میں واقعہ کربلا کی موتی کوبھی
پرودیااور اسے اتنا زندہ جاوید بنادیا کہ جب بھی لوگ اس واقعہ کو یاد کریں
تو اپنی ماضی کے ان ناقابل فراموش واقعات کو جن میں سے ہرواقعہ ، کربلا کے
واقعہ سے کہیں زیادہ لمبی تاریخ لیے ہوئے ہے، اسے فراموش نہ کریں۔اس لیے اس
ماہ میں بالخصوص عاشوراءکے روز ہمیں روزہ اور زیادہ سے زیادہ وقت عبادت و
ریاضت اور انسانی قدروں کی پاسداری میں صرف کرنی چاہیے۔
جس طرح پیغمبر اسلام کوکسی خاص خطہ، قوم،مذہب یا مسلک سے نہیں جوڑا
جاسکتا،وہ سب کے لیے تھے، ان کا پیغام سب کے لیے عام تھا اور وہ سارے جہان
کے لیے رحمت تھے، اسی طرح ورثہ رسول کویا وارث رسول کے کسی واقعہ کو کسی
خاص مسلک و مذہب اور فرقہ سے متعلق کرکے ہم بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔یہ
واقعات بلاامتیاز خاص و عام اوراپنے و پرائے سب کے لیے باعث عبرت و نصیحت
ہیں۔
جہاں تک بات واقعہ کربلا کی ہے تویہ بلاشبہ انسانی رشتوں کی عظمت کا علمبر
دار ہے،یہ حق بات کے لیے اپنی جان و مال سب کچھ نثار کردینے اور پوری دنیا
کو اپنا قائل کرالینے کا نام ہے، یہ جبروقہر کے خلاف ڈٹ جانے اور ضرورت
پڑنے پر اپنی جان دے کر انسانیت کی حفاظت کرنے کا نام ہے، یہ ظلم کی تکالیف
کوبرداشت کرکے ظالم کو رسواکرنے کی علامت ہے،یہ ہمیں انسانیت کی حفاظت،
ہمدردی، اخوت اور بھائی چارگی کا درس دیتا ہے۔عزم و استقلال کی شاید اس سے
بڑھ کر کوئی اور مثال نہیں ہوسکتی کہ ایک طرف لشکرکاسمندرہے تو دوسری طرف
حسین و آل حسین کے مٹھی بھرلوگ ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کے
مختلف خطوں اور دنیا کے درجنوں ممالک میں حسینی کردار کومنظرعام پر لاکر حق
و صداقت کا درس دیا جاتا ہے۔
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہا یت اس کی حسین، ابتدا ہے اسماعیل
کربلادرحقیقت غلامی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے اور آزادی حاصل کرنے تک کے
پورے واقعے کا بیانیہ ہے۔یہ روشنی کا وہ مینارہ ہے جو انسانی زندگی کے
ہرموڑ پرراہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اوردبی زبان میں کہیں نہ کہیں یہ
جمہوریت کا حامی اور شخصی و موروثی حکومت اور شہنشاہیت کی مخالفت بھی
کرتاہے۔
سرلیوس پلے کے مطابق ’اگر کسی تاریخ کی کامیابی کا اندازہ اس کے ان اثرات
سے کیا جائے جن کے لیے وہ تاریخ رقم کی گئی ہے توتاریخ کربلا سے زیادہ
موثرکوئی اور تاریخ نہیں ہوسکتی۔‘
امام حسینؑ چاہتے تو اپنے نواسہ رسول ہونے اور اپنی مقبولیت کو اچھی طرح
بھنا سکتے تھے،وہ چاہتے تواپنے مقابل کے لشکرجرار کے سامنے فوجوں کا طوفان
کھڑا کردیتے،وہ تو اپنی ایک آہ سے مقابل کو نیست و نابود کرنے کی صلاحیت
رکھتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا،اور وہ ایسا کرتے بھی کیسے؟ انہوں
نے تو اپنے ناناسے زخموں سے لہولہان ہونے پر بھی اف نہ کرے کا سبق سیکھا
تھا۔وہ بھلا ان کی تباہی و بربادی کیسے سوچ سکتے تھے۔ لہذا انہوں نے فتنہ
کی اس سلگتی چنگاری کو حتی المقدوردبانے کی کوشش کی، وہ محض اپنی اور اپنے
اہل و عیال کی قربانی دے کر دیگر تمام نسل انسانی کی حفاظت کا کام کیا۔آج
ہم جھوٹی شہرت،عزت اور عہدہ کی خاطر نہ جانے کتنے حیلے اور حربے استعمال
کرجاتے ہیں،ہمیں حضرت حسینؑ کے اس عمل سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، تبھی
جاکر ہم ان کے سچے عاشق اور ان کے پیغامات کے سچے امین بن سکتے ہیں ۔ |